مسلمانوں کے دینی‘ ثقافتی مسائل اور فرقہ وارانہ سیاست

جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے‘ تو ان کے متعلق مولانا برملا کہا کرتے تھے کہ:
’’ہماری زندگی کے دو حصے ہیں ایک دینی اور ثقافتی زندگی اور ایک ہے ہماری قومی اور 
سیاسی زندگی . تو جہاں تک ہماری دینی اور ثقافتی زندگی کا تعلق ہے‘ میں صاف لفظوں میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس میں کوئی (compromise) نہیں ہوسکتا. اس موقعے پر مولانا بے ساختہ ہاتھوں کوجھٹک دیا کرتے تھے. اور تکرار کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے دین پر قائم رہیں گے‘ اپنی ثقافت پر قائم رہیں گے‘ اس معاملے میں ہم کسی کے ساتھ کسی نوع کا بھی سمجھوتا نہیں کریں گے.‘‘

لیکن جہاں تک سیاست کا تعلق ہے‘ مولانا نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا اور اب بھی کہتا ہوں کہ:

’’جس ملک میں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں الگ سیاست کا میدان بنانا ان کے حق میں مفید نہیں ہوگا. لہٰذا فرقہ وارانہ سیاست کو چھوڑ کر آپ لوگ اب ملکی سیاست میں بھرپور حصہ لیں.‘‘

مولانا کو جب بھی موقع ملتا وہ مسلمان لیڈروں کو اسی کی تاکید ی نصیحت کیا کرتے تھے. پاکستان بننے کے بعد کبھی بھی مولانا کی زبان سے نہ جلوت میں نہ خلوت میں‘ کوئی بدخواہی کی بات نہیں نکلی بلکہ وہ برملا کہا کرتے تھے‘کہ:

’’اب پاکستان کو لازماً باقی رہنا چاہیے. اسے مضبوط اور خوشحال ہونا چاہیے‘ یہی بات اس کے لیے اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مفید اور بہتر ہے.‘‘