علمی طور پر مولانا کے بہت عظیم الشان کارنامے ہیں‘ لیکن ان کا سب سے بڑا اور عظیم ترین کارنامہ ہے: ’’ترجمان القرآن‘‘ جو مولانا کی تفسیر ہے. اس کو تفسیر کے بجائے ترجمہ اور اس پر مفصل حواشی کہنا زیادہ موزوں ہوگا. اس کی سب سے بڑی خصوصیت وہ ہے جس کے متعلق مولانا آزاد نے خود اس کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اب تک جتنے بھی تراجم کیے جاچکے اور تفاسیر لکھی جاچکی ہیں‘ یہ کام اب تک کسی نہ کسی خاص نقطہ ٔ نظر کے تحت کیاجاتا رہا ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تفسیر کے جتنے بھی ادوار ہیں‘ اُن میں پہلا دور ہے تفسیر ماثور کا. تفسیر ماثور کے معنی ہیں‘ تفسیر قرآن احادیث کے ذریعے سے‘ جیسا کہ ابن جریر طبری کی تفسیر ہے. یہ ایک اہم چیز ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے‘ لیکن اس میں سب سے بڑا نقص یہ ہے جس کی طرف امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے بھی اشارہ کیا ہے‘ کہ اس کے اندر درج شدہ روایتوں کی جانچ پرکھ میں وہ احتیاط اور سختی نہیں برتی جو برتنی چاہیے تھی. امام احمد ابن حنبل نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے پیش نظر احادیث کو نہایت احتیاط سے قبول کرنا چاہیے‘ ایک ملاحم‘ دوسری مغازی اور تیسری تفسیری روایات. امام موصوف نے فر مایا کہ ایسی احادیث جرح و تعدیل اور جانچ پرکھ کے بغیر تفسیر میں داخل کردی جاتی ہیں جن کی وجہ سے قرآن مجید کے مطالب اور مقصود میں انتشار و اختلال پیدا ہوجاتا ہے‘ دوسری بات میںعرض کروں‘ وہ یہ کہ ضعیف روایات کے علاوہ تفسیر ماثور میں اسرائیلیات نے بہت راہ پالی ہے.

اسرائیلیات وہ روایتیں ہیں جو قدیم محرف کتب سماویہ کے مطابق ایک طبقے نے عام طور پر مسلمانوں میں پھیلا دی ہیں.ان پر ہمارے قدیم و جدید علماء نے بڑی تفصیل سے بحثیں کی ہیں. ان اسرائیلیات کا نہایت ہی قلیل حصہ ایسا ہے جس کے متعلق علماء یہ کہتے ہیں کہ ان کو درج کیا جاسکتا ہے چونکہ وہ ہماری کسی منصوص اور صحیح روایت سے معارض نہیں. لیکن ان اسرائیلیات کا بہت بڑا حصہ وہ ہے جو قابل رد ہے اور جو درحقیقت قرآن مجید کے اوپر ایک نوع کی تعدی اور زیادتی کا حامل ہے. مثلاً ہاروت و ماروت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے. ان کے بارے میں اسرائیلیات کی ایک عام روایت ہے جس کے متعلق نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہوں‘ کہ ہمارے شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ علیہ جوکہ بہت بڑے محدث ہیں‘ یقینا ان کا مقام بہت بلند ہے‘ ان کی جو تفسیر عزیزی ہے اس میں انہوں نے اس کو نقل کردیا ہے.

وہ روایت یہ ہے کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے تھے جو زمین پر دو عورتوں پر عاشق ہوگئے جن کا نام تھا زہرہ اور مشتری. وہ جانتی تھیں کہ ان دونوں فرشتوں کے پاس اسمِ اعظم ہے. تو انہوں نے ان سے کہا کہ ہم تم کو اس وقت اپنے قرب اور وصل سے شاد کام کریں گی جب تم اسمِ اعظم ہمیں سکھلادو. پس انہوں نے اسمِ اعظم ان کو سکھلا دیا. نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عورتیں آسمان پر چلی گئیں‘ ایک زہرہ ستارہ اور دوسری مشتری ستارہ بن گئی. اور رہے ہاروت و ماروت تو ان کو ایک اندھیرے کنوئیں میں الٹا لٹکادیا گیا. حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کوئی شخص ان کو سن سکتااور برداشت کر سکتا ہے. ایک نہیں بے شمار اسرائیلیات ہیں جن کو عقلِ عام بھی سننا گوارا نہیں کرتی چہ جائیکہ ان کو تفسیری روایات کے طور پر جگہ دی جائے. حضرت دائود علیہ السلام کے متعلق ‘حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق‘ جنت و دوزخ سے متعلق‘ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کے متعلق وغیرہ وغیرہ.

اس قسم کی روایتیں ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی سمجھ دار آدمی کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ اس قسم کی روایات تفسیر میں لائے مگر یہ ہوا. اور اکثر تفسیر ماثور کا یہی حال ہے اس کے بعدجب علم کلام کے مختلف مذاہب بنے یا فقہ کے مذاہب وجود میں آئے تو ان کے بعد جو تفاسیر لکھی گئی ہیں. اگر کوئی ماتریدی ہے تو اس نے اپنے عقیدے کے مطابق لکھی ہے‘ اگر کوئی اشعری ہے تو اس نے اپنے عقائد کے مطابق لکھی ہے. اگر کسی حنفی نے لکھی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سارا قرآن شریف امام ابو حنیفہ کے مذہب پر نازل ہوا تھا. یہی حال دوسرے فقہی مسالک کے مفسرین کا نظر آتا ہے الا ماشاء اللہ. اور یہ سلسلہ سلف سے لے کر اب تک جاری ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید ان سب چیزوں سے بلند ہے.
قرآن کی تفسیر تو اس طرح لکھی جانی چاہیے اور اس طرح سامنے آنی چاہیے کہ یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کسی خاص علم کلام یا کسی خاص فقہی مکتب فکر کا پابند ہے. امام رازی کی تفسیر میں منطق اور فلسفہ کا اتنا غلبہ ہے کہ ان کی تفسیر کے متعلق یہ قول مشہور ہوگیا ہے کہ تفسیر کبیر میں سب کچھ ہے سوائے قرآن کے.

مولانا آزاد نے اس صورت حال کا اپنے مقدمہ میں ذکر کیا ہے. اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر علماء منطق اور فلسفہ سے بڑی دلچسپی رکھتے ہیں‘ فقہ سے بڑا شغف رکھتے 
ہیں‘ حدیث سے بھی دلچسپی موجود ہے‘ لیکن اگر دلچسپی نہیں ہے تو قرآن کے معارف‘ اس کے عرفان‘ اس کی جاوداں انقلابی دعوت سے‘ اس کے حقیقی پیغام کی طرف التفات کم سے کم ہے‘ ا لّاماشاء اللہ.

مولانا آزاد نے ترجمان القرآن میں اسی بات کی رعایت ملحوظ رکھی کہ قرآن جو بات جس طرح جس مقام پر کہتا ہے‘ اسے اسی طرح مسلمانوں کے سامنے پیش کردیا جائے. اس سے بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں. مثلاً سورۃ البقرۃ میں جہاں وہ آیت ہے: 
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۶۲﴾ اس پر بڑا ہنگامہ ہوا‘ اور غلام احمد پرویز صاحب نے طلوعِ اسلام کے ذریعے اس کو خوب اچھالا. چونکہ مولانا نے اس آیت کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کردیا تھا. بات صرف اتنی تھی کہ اگر مولانا آزاد اس کے حاشیہ میں یہ لکھ دیتے کہ نبی اکرم کی بعثت کے بعد ایمان کا مفہوم بالکل متعین ہوگیا ہے اور اب اس کا مفہوم یہ ہے کہ نجاتِ اُخروی کے لیے اب آنحضور پر ایمان لانا لازم‘ لابد اور ناگریز ہے. قرآن میں اکثر جہاں بھی ایمان لانے کی دعوت ملے گی وہاں عموماً ایمان کی تفاصیل نہیں ملیں گی. اٰمِنُوْا‘ میں ان تمام امور پر ایمان لانا ضروری ہوگا جن پر جگہ جگہ قرآن ایمان لانے کی مختلف اسالیب سے دعوت دیتا ہے‘ لہٰذا ایمان کی تعریف ہی یہ قرار پاگئی ہے کہ اللہ پر ایمان‘ اس کی توحید کے ساتھ‘ اس کی صفاتِ کمال پر ایمان‘ یومِ آخرت پر ایمان ‘ جزا و سزا پر ایمان‘ جنت و دوزخ پر ایمان‘ فرشتوں پر ایمان‘ وحی پر ایمان‘ کتابوں پر ایمان‘ نبوت و رسالت پر ایمان اور اس پر ایمان کہ محمد رسول اللہ آخری نبی اور آخری رسول ہیں‘ اور قیامت تک آپ ہی کی دعوتِ رسالت کا دَور جاری وساری رہے گا میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ مولانا آزاد ان تمام باتوں کو مانتے تھے. لوگوں نے مولانا سے پوچھا تو مولانا نے جواب دیا کہ میرا عقیدہ وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ حضور کی بعثت اور قرآن کے نزول کے بعد اب نجاتِ اخروی کا دارومدار صرف حضورؐ کا اتباع اور آپؐ کی اطاعت اور قرآن کی پیروی پر ہے. آپ سے پہلے کے رسولوں پر ایمان اور سابقہ کتب سماوی پر ایمان اور ان کے مطابق عمل سے اب نجاتِ اخروی نہیں ہوگی. پھر مولانا سے سوال کیا گیا کہ آپ نے یہاں یہ بات لکھی کیوں نہیں! تو مولانا نے جواب دیا کہ اس مقام پر آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے میں نے اتنی بات پر ہی وہاں اکتفا کیا ہے‘ لیکن میں اس کو اس کے مناسب مقام پر مفصل طور پر بیان کروں گا‘ اور اس کی وضاحت کروں گا. آپ کے اسی شہر لاہور سے مولانا غلام رسول مہر اور ان کے ساتھ چند دوسرے حضرات مولانا آزاد سے جاکر ملے تھے‘ اور اسی مسئلہ پر ان سے سولات کیے تھے. مولانا آزاد نے وہی جوابات دیے تھے جن کو میں بیان کرچکا ہوں. یہ سوالات و جوابات ’’میرا عقیدہ‘‘ کے نام سے اسی زمانے سے مطبوعہ موجود ہیں جس میں مولانا آزاد نے صاف لفظوں میں کہا ہے‘ میرا عقیدہ وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے.