۱. ذوالقرنین کی شخصیت

علاوہ ازیں مولانا آزاد نے اپنے ترجمہ میں یہ خاص بات پیش نظر رکھی ہے کہ جو تاریخی اہم مباحث قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں‘ ان پر مولانا نے کافی تحقیق کے بعد بڑی تفصیل سے لکھا ہے. مثلاً ذوالقرنین کون تھے؟ ذوالقرنین کے متعلق ہمارے متقدمین نے یہ لکھا ہے کہ اس سے سکندر مقدونی مراد ہے حالانکہ قرآن کا معمولی طالب علم بھی یہ ادنیٰ تامل یہ جانتا ہے کہ ذوالقرنین کے نام سے قرآن میں جس شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک خداآشنا اور خدا ترس شخصیت تھی جب کہ سکندر مقدونی ان اوصاف سے صرف محروم ہی نہیں بلکہ ان کے بالکل برعکس اوصاف کا حامل تھا. مولانا آزاد نے اس مسئلہ پر بڑی دقیق تحقیق کی ہے اور بڑی تفصیلی بحث کے بعد ثابت کیا ہے کہ ذوالقرنین سکندر مقدونی ہو ہی نہیں سکتا بلکہ وہ ایران کا ایک نیک خصلت بادشاہ کیخسرو تھا. مولاناآزاد کی اس تحقیق پر مولانا کے ہم عصر ایک صاحب علم نے ایک مضمون لکھا اور اس پر کچھ شکوک وارد کردیے. محض شکوک وارد کرنے سے تو کام نہیں بنتا. سوال یہ ہے کہ اگر ذوالقرنین کیخسرو نہیں ہے تو آپ کے خیال میں وہ کون سی شخصیت تھی. اس کے لیے آپ کی تحقیق اور دلائل کیا ہے؟ وہ یہ کام تو کر نہ سکے البتہ شکوک وارد کردیے غرضیکہ ذوالقرنین کے متعلق تحقیق مولانا آزاد کا بہت بڑا کارنامہ ہے

۲ . سورۃ الکہف کا ایک مقام اور اس کی تحقیق

اسی طرح قرآن مجید میں اصحابِ کہف کا ذکر آتا ہے تو وہاں دو چیزیں بہت اہم ہیں ایک تو یہ کہ جس کہف کا قرآن میں ذکر ہے وہ کہاں پرواقع ہے!قرآن نے محض کہف کو کہف کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ اس کی ایک خصوصیت بھی بتائی ہے کہ یہ کہف اس طرح واقع تھا کہ وہاں دھوپ نہیں آتی تھی. اس کی پوزیشن اس طور پر تھی. دوسری یہ کہ وہاں رقیم کا لفظ آیا ہے. اب یہاں رقیم سے کیا مراد ہے‘ اس میں اختلاف ہے بعض اصحاب نے یہاں تک لکھ دیا کہ اصحابِ کہف کے ساتھ جو کتا تھا اس کا نام رقیم تھا. یہ کتنی لغو اور بے سرو پابات ہے. اب یہ تحقیق کرنا ہے کہ کہف کہاں تھا اور رقیم سے مراد کیا ہے! چونکہ مستشرقین قرآن مجید میں بیان کردہ ایسے واقعات کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ سنی سنائی باتیں اور داستانیں پیغمبر اسلام نے قرآن مجید میں درج کردیں‘ ان کی تاریخی حقیقت کوئی نہیں ہے. تو مولانا آزاد نے اس کا بڑا اہتمام کیاکہ قرآن مجید میں تاریخی واقعات کے متعلق جو کچھ بھی آیا ہے‘ اسے اپنی تحقیق کے ذریعے مکمل طور پر ثابت کریں تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ہو کہ یہ محض ہوائی باتیں ہیں. اس بنا پر مولانا آزاد نے کہف کے متعلق بڑی تحقیق کی.انہوں نے آثارِ قدیمہ کی بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا. اور اپنایہ نظریہ قائم کیا کہ اردن میں عمان کے پاس جو پہاڑیاں ہیں‘ ان میں بے شمار کہف یعنی غار پائے جاتے ہیں. ان ہی میں ایک کہف (غار) ایسا ہے جو بالکل اسی کہف کا مصداق ہے جس کا قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے. پھر جہاں تک رقیم کا تعلق ہے تو مولانا نے اپنی تحقیق کے نتیجہ میں لکھا ہے کہ فلاں زمانہ میں ایک پادری کو ایک ذریعہ سے ایک غار میں مٹکہ میں رکھے ہوئے کچھ کاغذات ملے تھے. مولانا نے ان کاغذات کی دستیابی کی پوری داستان لکھی ہے‘ آپ اس کو پڑھیں. مولانا آزاد کا کمال اصل میں یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیقات اس وقت لکھی تھیں جب کہ کہف اور رقیم کے متعلق تحقیق کا کام مکمل نہیں ہوا تھا.

اللہ کا شکر ہے کہ اب یہ تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں جو مولانا آزاد کے نظریات کے مطابق ہیں جو مولانا نے اپنی دقیق اور تحقیقی مطالعہ سے قائم کیے تھے. چنانچہ اردن کے ایک بہت بڑے فاضل ہیں جو ندوۃ العلماء کے جشن میں لکھنؤ تشریف لائے تھے. پھر دہلی بھی آئے‘ مجھ سے ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ یہ تحقیق مکمل ہوگئی ہے کہ اردن میں عمان کی پہاڑیوں میں وہ کہف موجود ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے اور رقیم کا بھی پتا چل گیا ہے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس موضوع پر تمام تحقیقاتی کام پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جو شائع ہوچکی ہے. افسوس کہ وہ کتاب تاحال میرے مطالعہ میں نہیں آئی گو انہوں نے مجھ سے کتاب بھیجنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن شاید وہ بھول گئے‘ بہر حال مجھے اپنے چند احباب سے تصدیق حاصل ہوگئی کہ کتاب شائع ہوچکی ہے 

مولانا آزاد کا یہ تحقیقی کام وہ چیز ہے کہ جو انتہائی قابلِ ستایش ہے. پھر صرف اس پہلو ہی سے نہیں بلکہ اور بھی بے شمار پہلوئوں سے مولانا آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن انتہائی قابلِ قدر خصوصیات کی حامل ہے.