مولانا آزاد کے نقادوں نے مولانا کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے. اس ضمن میں اصولی بات میں عرض کروںگا. وہ یہ کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ ’’نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں‘‘ مجھے بتایا جائے کیا کوئی آدمی ایسا ہے جو سراپا نیکی ہو‘ سراپا تقویٰ و طہارت ہو‘ جس کے اندر اس کے منافی کوئی چیز نہ ہو. اگر یہ ہے تو قرآن نے جو کہا ہے کہ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰٹھَا (الشمس) تو اس کا کیا حل ہوگا!اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اس میں صرف تقویٰ پیدا کیا گیا ہے‘ فجور کا داعیہ پیدا نہیں کیا گیا. انسان کا کمال تو یہ ہے کہ فجور کا میلان ہو لیکن انسان شعوری طور پر اس سے بچنے کی کوشش کرے. اس لیے نبی اکرم نے وسوسۂ نفس پر کوئی قدغن نہیں لگائی. صحابہ کرامؓ نے کہا کہ حضورؐ ہمارے نفس میں گناہوں کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو حضور نے فرمایا کہ ایسا ہونے پر کوئی مضائقہ نہیں. اس کے صدور سے بچنے کی کوشش کرو میں عرض کرتا ہوں کہ اگر گناہ کی طرف آپ کے دل میں رغبت بھی پیدا نہ ہو تو آپ انسان نہیں فرشتے ہیں. انسان کو فرشتوں پر جو فضیلت حاصل ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ فرشتے تو اختیار و ارادہ رکھتے ہی نہیں. وہ تومشین ہیں یا اس کے پرزے ہیں‘ لہٰذا ان کو جس کام پر لگا دیا گیا ہے وہ اس کام کو انجام دے رہے ہیں. اس کے برعکس انسان کے اندر ارادہ ہے. اس کو اختیار بخشا گیا ہے. اس کے نفس میں تقویٰ اور فجور الہام کیا گیا ہے. اس کے باوجود وہ صحیح راستہ پر چل رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے جہاد کیا. وہ کشمکش سے دوچار ہوا ہے .اس نے فجور کو چھوڑکر تقویٰ کی روش اختیار کی ہے تو یقینا اس کا مقام بہت بلند و ارفع ہوگا.

ایک شخص لکھ پتی اور کروڑ پتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے کبھی شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا تو یقینا وہ بہت زیادہ قابل تعریف ہے. لیکن ایک شخص جو نانِ شبینہ کا محتاج ہے وہ مونچھوں پر تاؤ دے کر کہتا ہے کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی تو ٹھیک ہے کام بہت اچھا ہے لیکن وہ اتنا قابل تعریف نہیں ہے جتنا ایک مالدارشراب سے مجتنب سمجھا جائے گا. ایک شخص جو جوان ہے‘ تندرست اور بڑا خوبصورت ہے وہ یہ کہتا ہے کہ الحمد للہ میں نے آج تک کسی عورت کی طرف بری نگاہ سے نہیں دیکھا یقینا یہ نوجوان نہایت قابل تعریف ہے ‘لیکن ایک نابینا یہ کہتا ہے کہ میں نے آج تک کسی عورت کو بری نگاہ سے نہیں دیکھا تو اس نے کون سا تیر مارا. تو زندگی کا یہ فلسفہ ہے.

پس اس بنا پر ہمیں ہر بڑے شخص کو اس طرح نہیں دیکھنا چاہیے کہ گویا وہ فرشتہ ہے. یہ تو صرف رسولوں کا خاصّہ ہے کہ وہ بالکل معصوم ہوتے ہیں. پھر ہمارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خصوصیت ہے کہ رسول اللہ  کے فیض صحبت نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ انہوں نے نفس کے بے قابوگھوڑے کے منہ پر لگام ڈال رکھی تھی‘ لہٰذا ہمیں ہر بڑے شخص کو سنجیدگی کے ساتھ اس نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ کسی بڑے شخص میں اچھی چیزوں کاتناسب کیا ہے! اگر ان کا غلبہ ہے تو ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو نظر انداز کردینا چاہیے. 

حاشاوکلّا 
اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مولانا آزاد میں کسی نوع کا فجور تھا. معاملہ صرف اتنا ہے کہ ہمارے صا حب دل اور صاحب حال علمائے کرام کے نزدیک تقویٰ کا جو معیار ہے‘ مولانا آزاد اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے‘ اور ان علمائے کرام کے نزدیک امام الہند کے منصب پر فائزشخصیات میں معیاری تقویٰ ضروری ہے. دوسرے یہ کہ ان کی رائے میں ’’امام‘‘ ایک ایسی دینی اصطلاح ہے کہ جس کے ہاتھ میں قوت تنفیذ ہونی ضروری ہے. اسی لیے جمعیت العلماء کے اجلاس میں مولانا آزاد کو باقاعدہ امام الہند قرار دینے کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکی تھی.