ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کی دینی خدمت مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہ کی نگاہ میں

مولانا سعید احمد اکبر آبادی دامت فیوضہم برصغیر پاک و ہند کی نہایت مشہور و معروف دینی اور علمی شخصیت ہیں. موصوف کا تعارف محترم ڈاکٹر اسراراحمد مدظلہ کے خطاب جمعہ میں بھی موجود ہے جو اسی شمارے میں شامل ہے.

۱۹ ؍مارچ۱۹۸۵ء کو راقم الحروف مولانا موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا تھا. مولانا کا محاضرات میں شرکت کا پختہ ارادہ تھا لیکن علالت مانع رہی. راقم کی درخواست پر موصوف نے اپنے ارشادات ریکارڈ کرادیے نیز از راہِ کرم سوالات کے جوابات بھی عنایت فرمائے. یہ دونوں چیزیں قریباً لفظ بلفظ کیسٹ سے منتقل کرکے پیش خدمت ہیں. جمیل الرحمٰن 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 

ڈاکٹر صاحب کا کتابچہ یعنی میرے تصور فرائض دینی کا خلاصہ مجھے دیا گیا اسے میں نے بڑی توجہ سے پڑھا ہے اور یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تمام تحریریں جو میثاق میں نکلتی رہی ہیں یا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں وہ بھی میری نظر سے گزری ہیں. ان سب کو پڑھنے کے بعد میرا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی کوئی شخص ایک تحریک شروع کرتا ہے تو اس کا نقطہ آغازیہ ہوتا ہے کہ جو کام کرنے میں جارہا ہوں اس وقت تک کسی نے نہیں کیا اور اس رویے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے اس بات کے کہ وہ اپنے پیش رو اور اپنے اسلاف کے کارناموں کی تعریف و تحسین کرے اور ان کی ستائش کرے اور ان کی روشنی میں وہ یہ بتلائے کہ اس نے اپنے لیے یہ راہ عمل متعین کی ہے‘ اس کی بجائے وہ تنقید کرتا ہے اور اپنے لیے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ جو کام اب تک امت میں نہیں ہوا تھا وہ کرنے جارہا ہے. یہ ایک عام روش ہے‘ ان حضرات کی جو کہ تحریک ِاسلامی کے بانی ہیں اور اس کی ایک نہیں کئی ایک مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں. لیکن ڈاکٹر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے جب کہ وہ ایک ڈاکٹر تھے اور ان کا 
career میڈیکل پریکٹیشنز کا تھا اور اس میں وہ بہت کامیاب تھے لیکن جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں اپنے آپ کو دین اور اسلام کی خدمت کے لیے اپنے خاص نظریے کے ماتحت جو انہوں نے مطالعۂ قرآن سے اخذ کیا ہے‘ وقف کردینا ہے تو انہوں نے باقاعدہ علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی اور بڑے غور وفکر اور دقت نظر سے اپنا لائحہ عمل طے کیا. پھر تاریخ اسلام میں جو تحریکیں پیدا ہوئی ہیں ان کا انہوں نے بنظر غور مطالعہ کیا اور اس کے بعد پھر جب انہوں نے کام شروع کیا تو نہایت ہی عاجزی اور انکساری کے ساتھ کیا. اس میں کوئی تعلّی نہیں ہے‘ اس میں کوئی انانیت نہیں ہے ‘اس میں اپنی بالاخانی نہیں ہے تو یہ ایک خاص چیز ہے جس نے مجھے ڈاکٹر صاحب کے متعلق بہت ہی متاثر کیا. ڈاکٹر صاحب جو کچھ بھی فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں وہ کھلے دل سے لکھتے ہیں اور لوگوں کو پھر دعوت دیتے ہیں کہ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں. جو لوگ ان کے معترضین ہوتے ہیں ان کا وہ بڑی خوش دلی کے ساتھ بغیر کسی بیزاری کے اور ناگواری کے جواب دیتے ہیں اور ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اس سلسلے میں میں یہ عرض کروں کہ مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب اور ڈاکٹر صاحب کی جو خط و کتابت ہوئی ہے اس میں ڈاکٹر صاحب کی زبان سے ایک تقریر میں یہ لفظ نکل گیا تھا کہ میں نیم مقلّد ہوں‘ مولانا اخلاق حسین صاحب کو ناگوار گزرا اور انہوں نے اس پر اعتراض کیا. لیکن میرا اپناخیال یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب نیم مقلد نہ کہتے بلکہ یہ کہتے کہ میرا تقلید کے معاملے میں وہی رویہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کا تھا اور جو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ کا تھا تو بات نہ بگڑتی ‘وہ محض نیم مقلّد کے معنی کچھ سے کچھ سمجھے. چونکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ اپنے آپ کوحنفی لکھتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے لکھا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ میرا مسلک جو ہے وہ تلفیق بین المذاہب ہے. یعنی میں ہوں حنفی لیکن اگر میں کہیں دیکھتا ہوں کہ امام شافعیؒ کا مذہب قابل ترجیح ہے تو میں اس کو اختیار کرلیتا ہوں. چنانچہ حضرت شاہ صاحب کی کتابوں میں اس کی ایک نہیں دسیوں مثالیں ملیں گی. تو صرف ایک تعبیر کی وجہ سے بات کچھ سے کچھ ہوگئی ورنہ ڈاکٹر صاحب اگر یہ کہہ دیتے تو میرے نزدیک بالکل درست تھا. بہر حال یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر صاحب میں بڑی عاجزی اور انکساری ہے‘ خلوص اور للّٰہیت ہے ‘اپنے بزرگوں کا احترام ہے.

وہ یہ بتلاتے ہیں کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں وہ ہمارے بزرگ برابر کرتے رہے‘ لیکن زمانے کے حالات کے زیر اثر بعض ایسی چیزیں پیش آئیں کہ وہ اپنے راستے سے ہٹ کر ایک دوسری طرف لگ گئے تو یہ ایک الگ چیز تھی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ چیزیں جاری نہیں رہ سکیں. اب ڈاکٹر صاحب نے ؏ ’’من از سرِ نو جلوہ دہم وارد رسن را!‘‘کے مصداق اسی کام کو آگے بڑھانا شروع کیا ہے اور اس کے لیے مستقل ایک تنظیم انہوں نے قائم کی ہے. تنظیم کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ یہ ایک بڑی اہم بات ہے کہ اس میں انہوں نے تنظیم کے مقاصد میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بہت اہم درجہ دیا ہے. میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ تبلیغ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکران دونوں کے درمیان عام و خاص کی نسبت ہے. یعنی جہاں کہیں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پایا جائے گا وہاں تبلیغ ضرور ہوگی‘ لیکن جہاں تبلیغ ہو وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا ہونا ضروری نہیں ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہمارے مبلغین ہیں ‘کتنے عمائدین تبلیغ ہیں جو تبلیغ کرتے ہیں‘ لیکن ان کے سامنے منکرات منہیات ہوتے رہتے ہیں اس کے لیے وہ کچھ بھی نہیں کرتے اور کچھ نہیں کہتے. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کا بھی قرآن نے حکم دیا ہے اور حدیث شریف میں تو سب سے زیادہ زور نہی عن المنکر پر ملتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے قرآن نے اس امّت کو خیر اُمم کہا ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اور اسی طرح فرمایا: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جو نسبت ہمارے رسول کو ہمارے ساتھ ہے وہی نسبت ہم کو دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ ہے یعنی جو حضورؐ کا فریضہ تھا جس طرح سے کہ آپؐ نے دین ِ حق ہم تک پہنچایا اور ہم کو ایک قوم بنایا اب ہمارا فرض ہے کہ اُسی کو لے کر ہم آگے چلیں اور اُسے دوسروں تک پہنچا دیں. تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ بہت ہی اہم چیز ہے جسے قرآن کریم میں بہت اہم کام قرار دیا گیا ہے.

محض تبلیغ اس کے لیے کافی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے مستقل ایک تنظیم ہونی چاہیے اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پوری تاریخ اسلام میں قرون اولیٰ کے اندر تو اس کا کچھ نشان ملتا ہے کہ وہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے کچھ ادارے تھے لیکن اس کے بعد کہیں نظر نہیں آتے. اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تبلیغ بھی ہوتی رہی‘ درسِ قرآن بھی ہوتا رہا‘ درس حدیث بھی ہوتا رہا‘ علماء بھی پیدا ہوتے رہے لیکن سماج برابر بگڑتا رہا. اسلامی سماج میں جو خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں وہ برابر پھیلتی رہیں اور یہاں تک کہ اس بگاڑ کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں.اس کی بڑی وجہ اصل میں یہی ہے کہ ہم نے امر بالمعروف بالخصوص نہی عن المنکر جیسی چیز کو چھوڑ دیا ہے. لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک اساسی اور بنیادی حیثیت سے اپنے پروگرام میں شامل کرنے کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ چیز ہے جو اصل میں خود قرآن کا مطلوب اور مقصود ہے اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ یہ کام تمام مسلمان تو نہیں کرسکتے حالانکہ ہے تو سبھی کا فریضہ. اس بنا پر اس کو فرضِ کفایہ بنایا ہے .فرض کفایہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلْتَکُْنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ یعنی تم سب تو نہیں کر سکتے اپنی اپنی جگہ پر تو ہر ایک کو کرنا ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعَیَّتِہٖ یعنی تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اپنی رعیت کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا. باپ اپنی اولاد کے اوپر ہے ‘استاد اپنے شاگردوں کے اوپر ہے.یوں تو اپنی انفرادی زندگی میں ہر مسلمان راعی ہے ہی لیکن قرآن مجید وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ بھی کہتا ہے ‘اُس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ایسی Organization ہونی چاہیے‘ مستقل طور پر ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو اپنے آپ کو وقف کردے اس کے لیے. اور اس کا کام کیا ہوگا! امر بالمعروف و نہی عن المنکر. تو گویا یہ جو خود قرآن کے نزدیک بڑی اہم اور بنیادی چیز ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کو اپنی تنظیم میں شامل کرکے ایک اتنا بڑا ہم اقدام کیا ہے جو کہ میرے خیال میں اب تک بہت کم لوگوں کے لیے قابل توجہ رہا ہے اور اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی اس میں اعانت کرے قدمے‘ دامے درمے جس طرح سے بھی ہو اور مجھے توقع ہے کہ یقینا ان شاء اللہ تعالیٰ یہ ادارہ بہت ہی اہم اور مفید اور اسلام اور دین کے لیے بہت ہی زیادہ نفع بخش ثابت ہوگا. 

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَoo