مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ کی ڈاکٹر اسرار احمد سے گفتگو

۲۲ اپریل ۱۹۸۵ء کو محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کراچی میں جناب مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم و مغفور کی عیادت کو تشریف لے گئے تھے. بھائی عبد الواحد عاصم صاحب اور راقم الحروف بھی ہمراہ تھے. مولانا مرحوم نے بڑی خوش دلی کے ساتھ ہم سب کا خیر مقدم کیا. وہ کافی نحیف‘ لاغر اور کمزور نظر آرہے تھے‘ لیکن چہرے پر طمانیت اور لہجہ صاف تھا. البتہ اندازِ گفتگو سے کسی قدر نقاہت کا اظہار ہوتا تھا‘ مولانا نے محاضراتِ قرآنی کی روداد سننے کی خواہش ظاہر فرمائی. محترم ڈاکٹر صاحب نے اختصار کے ساتھ محاضرات کی کارروائی سنائی جس پر مولانا مرحوم نے نہایت مسرت کا اظہار فرمایا اور ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد دی کہ آپ نے واقعی نہایت جرأت مندانہ اور قابلِ تحسین قدم اٹھایا تھا کہ خود اپنے پلیٹ فارم پراپنے ’’تصورِ فرائض دینی‘‘ پر ملک کے نامور علمائے کرام کو تنقید اور اختلاف کرنے یا توثیق و تصویب کی دعوت دی. مولانا نے فرمایا کہ اس دور میں جب کہ تحزب کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی جماعت اپنے پلیٹ فارم پر اپنے مؤیدین اور متفقین کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کو چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور مشہور عالم دین ہی کیوں نہ ہو‘ تقریر کی اجازت نہیں دیتی. جبکہ اس کا کسی اختلافی بات کہنے کا ارادہ بھی نہ ہو اور وہ صرف دین مبین کی مثبت دعوت ہی پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہو اس ضمن میں مولانا مرحوم نے چند واقعات بھی سنائے.

دوسرے دن ۲۳ اپریل کو ہم مرحوم کی خدمت میں ٹیپ ریکارڈر لے کر دوبارہ حاضر ہوئے. مزاج پرسی کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مولانا سے عرض کیا:

مولانا! آپ نے مختلف دینی تحریکوں کو قریب سے دیکھا ہے اور بڑی بڑی شخصیتوں سے آپ کا جو بھی تعلق رہا ہے تو آج کی گفتگو میں اگر کوئی ایسی بات آئے جو ہمارے لیے مفید ہو اور 
وہ ریکارڈ ہو کر محفوظ بھی ہو جائے تو بہت سوں کے لیے بھی مفید ہوگی. ان شاء اللہ! مولانا مرحوم و مغفور نے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا. اسے ریکارڈ کرلیا گیاتھا. اس گفتگو نے ایک نوع کے انٹرویو کی شکل اختیار کرلی تھی. اس کو قریباً لفظ بہ لفظ کیسٹ سے منتقل کرکے پیش کیا جارہا ہے. البتہ ربط و تعلق کے لیے بعض باتیں قوسین میں بھی لکھی گئی ہیں.

مولانا مرحوم و مغفور کی گفتگو میں بعض اکابر اور بعض دینی تنظیموں کے متعلق تنقیدی و اختلافی باتیں بھی آئی ہیں. یہ مولانا مرحوم کی ذاتی آراء ہیں جو بے کم و کاست پیش کی جارہی ہیں ضروری نہیں کہ ڈاکٹر صاحب ان سے بالکلیہ متفق ہوں. مولانا کی اس گفتگو کا کیسٹ محفوظ کر لیا گیا ہے مولانا مرحوم نے ارشاد فرمایا:

’’میری رائے یہ ہے کہ آپ (اپنے کام میں) اللہ کے فضل و کرم سے مخلص ہیں اور آپ نے اپنے اخلاص کا ثبوت دے بھی دیا ہے کہ کسی سے آپ کو کوئی عداوت نہیں ہے‘ کسی سے آپ کو کوئی رقابت نہیں ہے. آپ سب کا احترام کرتے ہیں. دین کے کام میں اہل علم و فضل کا تعاون چاہتے ہیں. لیکن آپ نے جب (کتاب و سنت سے ماخوذ) ایک مرتبہ اپنے لیے ایک راستہ طے کر لیا ہے تو میرے خیال میں اب آپ بالکل ادھر اُدھر مت دیکھئے کہ کون کیا کہتا ہے‘ کون اختلاف اور مخالفت کرتا ہے. آپ کا راستہ صحیح ہے. آپ اس پر (یک سوئی سے) چلئے. اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اِسے آپ کے لیے باعث اجر بنائے.‘‘

ڈاکٹر اسرار احمد: جی ہاں! اس کے لیے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہوگی. باقی یہ کہ جو مختلف (دینی) تحریکیں چلی ہیں اس دور میں. ان کے بارے میں اگر آپ کا مختصر اظہارِ رائے ہو جائے تو وہ ہمارے لیے رہنمائی کا باعث ہوگا.

مولانا سعید اکبر آبادی: اس کے متعلق میں پہلے جو کچھ کہہ چکا ہوں‘ وہ بہت کافی ہے (مراد ہے وہ انٹرویو جو ۱۹؍ مارچ۱۹۸۵ء کو لیا گیا تھا اور جو ’’میثاق‘‘ بابت مئی ۱۹۸۵ء میں صفحہ۴۹ پر شائع ہوچکا ہے) آپ نے (مختلف تحریکوں کے متعلق) جو کچھ لکھا ہے‘ میں اس سے بالکل متفق ہوں. مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی تحریک کے متعلق آپ نے صحیح لکھا ہے کہ وہ اس لیے نہ چل سکی کہ (وقت کے چند جیّد) علماء اس سے متفق نہیں ہوسکے. اور مولانا آزاد بددل ہوگئے اور مولانا مودودی مرحوم کی تحریک کے متعلق میرا شروع میں خیال تھا جب تک کہ وہ سیاست کے میدان میں عملاً نہیں آئے تھے تو ان کی دعوت کا نہج ٹھیک ہی تھا اگرچہ اس میں تشتت تھا. لیکن جب وہ سیاست کے میدان میں آئے تو اُسی وقت سے میرا خیال تھا کہ انہوں نے اصل معاملہ بالکل الٹا کردیا. سیاست بعد میں آتی ہے. دین جو آتا ہے وہ پہلے آتا ہے. انہوں نے سیاست کو دین پر مقدم کردیا اور دین کا جو جائزہ لیا‘ اس کی تمام اچھائیوں کا اور اس کے محاسن کا وہ محض سیاسی نقطہ ٔ نظرسے لیا.تو (تقسیم ملک سے قبل) جب تک سیاسی کشمکش رہی تو اس وقت تک تو دین کو سمجھانے اور اس کو واضح کرنے کے لیے (انہوں نے) اچھا کام کیا. لیکن جب وہ سیاست ختم ہوگئی آزادی کے بعد تو انہوں نے (پاکستان میں) عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا جس میں ناکامی رہی. دین کا (اس کی حقانیت کو ثابت کرنے کا) کام پس منظر میں چلا گیا‘ اسلام بطور نعرہ رہ گیا اس میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک تضاد پیدا ہوگیا.

تو یہ معاملہ بالکل وہی ہے کہ اس طرح انہوں نے دین کو سیاست کے تابع کردیا. (میرے خیال میں) یہ بڑے افسوس کی بات ہے. اسی طرح ہمارے یہاں( بھارت میں) مولانا وحید الدین خان کا معاملہ ہے جو ’’الرسالہ‘‘ نکالتے ہیں. انہوں نے اس کے بالکل برعکس معاملہ کر رکھا ہے اور وہ ہر چیز کو اسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں. یعنی اسلام کو محض ایک تبلیغی مذہب سمجھتے ہیں اور سیاست کو دین کا جزو ہی خیال نہیں کرتے رہی پاکستان میں جماعت اسلامی کی حصولِ اقتدار کی کوششیں حالانکہ اسلامی فتوحات یا تمکن فی الارضجس کا اللہ نے وعدہ کیا ہے وہ تو بطورِ نتیجہ آتا ہے. اس کے لیے کوشش نہیں کی جاتی. تم نیک بن جاؤ‘ اللہ (کے دین) کا کام کرو‘ صحابہ ؓ کی طرح سے ہو جاؤ‘ خود بخود تم کو تمکن فی الارض بطور انعام حاصل ہوجائے گا. چونکہ بقائے اصلح جو ہے یہ عام قانون ہے. تم اگر بااصلاح ہوگئے (مراد ہے صالح ہوگئے) تو اللہ نے خود یہ کہا ہے کہ یہ زمین جو ہے تو صالحون اس کے وارث ہوں گے. تو گویا مقصود بالذات نہیں ہوتی وہ چیز بلکہ مقصود بالذات ہوتا ہے انسان کو انسان بنانا ‘اس کو مؤمن بنانا ‘اس کو اللہ اور رسول کا مطیع و فرمانبردار بنانا. لہٰذا تمکن فی الارض (مؤمنین صالحین) کو بطور انعام اور بطور نتیجہ ملتا ہے. نہ کہ یہ اُسے آپ اپنا اور اس کو اپنا مقصد بنا کر چلیں. تو یہ تحریکیں جو ہیں اسی وجہ سے ختم ہوگئیں بالکل اور بہت ساری تحریکیں جو کہ وقتی اور جزوی حالات کو سامنے رکھ کر چلی ہیں. جیسے کہ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کی تحریک بڑے زور و شور سے چلی‘ لیکن اس میں صرف مقامی حالات کی اتنی زیادہ رعایت کی ہے اور ان حالات کو رفع کرنے کے لیے اس قدر انتہائی لیا کہ اس کا جو مقصد تھا وہ آگے چل کر ختم ہوگیا. تو یہ تمام تاریخ آپ کے سامنے ہے اور ماشاء اللہ آپ کا ذہن کھلا ہوا ہے‘ دل میں حوصلہ ہے‘ قلب میں وسعت ہے‘ ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر اگر آپ چلیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت اور آپ کی مدد فرمائے گا.

ڈاکٹر اسرار احمد: مولانا! کانگریس اور مسلم لیگ کی جو کشمکش تھی اس میں آپ نے بھی کوئی عملی حصہ لیا تھایا نہیں!

مولانا سعید احمد اکبر آبادی: میں نے اس میں کوئی عملی حصہ نہیں لیا. میں کبھی کسی کا ممبر نہیں رہا. کبھی نہیں. میں ان سب سے بالکل الگ تھلگ رہا.

ڈاکٹر اسرار احمد: اس زمانے میں آپ کہاں
 تھے یعنی ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۶ء تک جب یہ کشمکش زیادہ زوروں پر تھی.

مولانا سعید احمد اکبر آبادی: میں دہلی میں تھا.

ڈاکٹر اسرار احمد: کیا ندوۃ المصنفین میں یا کسی مدرسہ میں بھی؟

مولانا سعید احمد اکبر آبادی: فتح پوری مسجد میں دینی مدرسہ تھا‘ مدرسہ عالیہ کے نام سے. وہاں میں بہت پہلے سے مدرس تھا. وہاں مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات کی بھی تیاری کرائی جاتی تھی. وہیں رہتے ہوئے میں نے مختلف امتحانات دیے انگریزی کے. پھر سینٹ اسٹیفن کالج سے میں نے ایم. اے کیا .ایم. اے کرنے کے بعدکالج نے مُجھے وہیں بلالیا.
ڈاکٹر اسرار احمد: ایم . اے آپ نے کس سن اور کس مضمون میں کیا تھا؟

مولانا سعید احمد اکبر آبادی: میں نے ۱۹۳۶ء میں عربی میں ایم. اے کیا تھا اور پوری یونیورسٹی میں کیا تھا. اس کے بعد غالباً ۴۰ء یا ۴۱ء میں انگریزی میں ایم. اے کیا جس کے بعد اس سینٹ اسٹیفن کالج نے مجھے مدعو کیا. جنرل محمد ضیاء الحق صاحب اسی زمانے میں وہاں طالب علم تھے. ۱۹۴۹ء تک میں وہیں رہا. اس کے بعد مجھے مولاناابوالکلام آزاد نے مدرسہ عالیہ کلکتہ کا پرنسپل بنا کر بھیج دیا. وہاں تقریباً صفایا ہوگیا تھا. جس کے ہاتھ جو لگا وہ لے گیا. دس برس میں وہاں رہا. اس کے بعد مجھے علی گڑھ یونیورسٹی نے بلالیا. وہاں ڈین آف اسلامیات کی جگہ خالی ہوئی تھی. آخر تک میں وہاں رہا. آپ کویہ سن کر تعجب ہوگا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پوری زندگی میں ایک جگہ کے علاوہ ہر جگہ مجھے خود ہی پیش کش ہوئی. ایک جگہ میں نے خود کوشش کی تو ناکام رہا. وہ تھی الٰہ آباد یونیورسٹی. وہاں شعبہ عربی کے پروفیسر کی جگہ خالی تھی. میں نے درخواست دی‘ دو مرتبہ انٹرویو ہوا. میں تھا (عربی میں) فرسٹ کلاس فرسٹ . اور میرے بالمقابل تھے ڈاکٹر سعید حسن. وہ تھے سیکنڈ کلاس‘ 
مگر یونیورسٹی نے ان کو لے لیا مجھے نہیں لیا. ڈاکٹر شفاعت خاں میرے والد کے بہت گہرے دوست تھے. میں نے ان سے ذکرکیا تو انہوں نے جاکر ڈاکٹر عبد الستار صدیقی سے جو شعبہ عربی کے سربراہ اور ڈاکٹر (شفاعت خاں) صاحب کے گہرے دوست تھے‘ کہا کہ آپ نے یہ کیا ستم کیا ؟تو صدیقی صاحب نے کہا کہ سعید اکبر آبادی بہت قابل ہے‘ لیکن ڈاکٹر سعید حسن میرا شاگرد ہے. میں تو انہی کو لوں گا صاف بات ہے. تو ڈاکٹر صاحب جب میں نے یہ دیکھا تو آپ یقین جانیے کہ میں نے قسم کھالی کہ میں اب کبھی کہیں درخواست نہیں دوں گا‘ جب کہ اتنے بڑے لوگ بھی جانب داری برتتے ہیں. چنانچہ پوری زندگی گزر گئی کہ میں نے کبھی کسی جگہ کے لیے درخواست نہیں دی. اللہ نے جو جگہ بھی دی جو مقام بھی دیا سب پیش کشیں تھیں. 

ڈاکٹر اسرار احمد: الٰہ آباد یونیورسٹی والی یہ بات کب کی ہے؟ 
مولانا سعید احمد اکبر آبادی: (کچھ دیر سوچنے کے بعد) ۱۹۳۶ء میں‘ میں نے ایم اے کیا تھا عربی میں. یہ اغلباً سن ۳۸ یا ۳۹ء کی بات ہے. 

ڈاکٹر اسرار احمد: ہمارے ایک عزیز بھی وہاں رہے. ڈاکٹر زبید احمد صاحب. 
مولانا سعید احمد اکبر آبادی: ارے وہ تو میرے گہرے دوست رہے ہیں. بڑے صاحب علم اور بزرگ شخص تھے. 

ڈاکٹر اسرار احمد: وہ میری والدہ کے حقیقی ماموں تھے. ایک اعتبار سے میرے نانا. 
مولانا سعید احمد اکبر آبادی: ماشاء اللہ بہت عمدہ. میں ان کو بہت قریب سے جانتا ہوں بڑے اچھے آدمی تھے. 

ڈاکٹر اسرار احمد: ان کے اصغر گونڈوی سے بڑے قریبی تعلقات تھے! 
مولانا سعید احمد اکبر آبادی: جی ہاں‘ جی ہاں. اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی اور میرے والدیہ تینوں پیر بھائی تھے. حاجی عبد الغنی مرحوم و مغفور منگلوری سے بیعت تھے. 

ڈاکٹر اسرار احمد: کل آپ نے فرمایا تھا کہ مولانا علی میاں (مدظلہ) کا بھی مشورہ تھا کہ آپ علی گڑھ جائیں. 

مولانا سعید احمد اکبر آبادی: جی ہاں. جب علی میاں کو علی گڑھ کی پیش کش کا علم ہوا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ میں علی گڑھ یونیورسٹی join کرلوں میں (مدرسہ عالیہ سے) استعفیٰ دے کر گیا تھا کلکتہ سے‘ وہاں اس وقت جو گورنر اور چیف منسٹر تھے ان دونوں نے مجھے بہت روکا کہ آپ مت جائیے. ہمارا یہ مدرسہ بالکل تباہ ہوجائے گا .تو میں نے کہا کہ میں نے جناب 

کرنل بشیر حسین زیدی صاحب سے جو وائس چانسلر تھے علی گڑھ یونیورسٹی کے‘ ان سے میں نے وعدہ کر لیا ہے اور میرے بعض بزرگوں کا بھی مشورہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں میری زیادہ ضرورت ہے. پھر مدرسہ عالیہ کا تقریباً پٹڑا ہوگیا. وہاں کے لیے کوئی مناسب پرنسپل ملا ہی نہیں.

ڈاکٹر اسرار احمد: کس سن میں آپ کی علی گڑھ تشریف آوری ہوئی تھی؟
مولانا سعید احمد اکبر آبادی: میں منتقل ہوا ہوں سن ۱۹۵۹ء میں. ۱۹۴۹ء میں کلکتہ گیا تھا. تقریباً دس سال سے زیادہ وہاں رہا.

ڈاکٹر صاحب: مولانا ابوالکلام آزاد کا انتقال ہوچکا تھا جنہوں نے آپ کو وہاں بھیجا تھا! 
مولانا : جی ہاں! مولانا آزاد کا ۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء کو انتقال ہوا تھا. مولانا آزاد نے مجھے جب مدرسہ عالیہ کلکتہ کا پرنسپل بنا کر بھیجا تھا تو فرمایا تھا کہ یہ آپ کی ٹریننگ کے لیے ہے. اس کے بعد میں آپ کو علی گڑھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا کر بھیجوں گا. وہ مجھ سے اس قدر خوش تھے. وہ تو اللہ کو منظور نہ تھا. لیکن مجھے شعبۂ اسلامیات کی سربراہی کی پیش کش ہوئی تو میں نے اُسے منظور کرلیا… میں خود بھی دیکھ رہا تھا کہ مسلمان کی نئی نسل بہت سے نئے (باطل) نظریات سے مرعوب ہوتی جارہی ہے. اگر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے دین (کی حقانیت) پر اعتماد پیدا ہوجائے اور انہیں دعوت و تبلیغ کا صحیح نہج معلوم ہوجائے (صحیح استدلال کا سِرا) ہاتھ آجائے تو یہ دین کی بہت مفید خدمات انجام دے سکتے ہیں. مجھے اپنے اُستاد حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کا ایک واقعہ یاد آگیا. یاد نہیں کہ آپ کو پہلے سنایا یانہیں سنایا شاہ صاحبؒ امر تسر تشریف لے گئے. تو وہاں کشمیری خاندان کے ایک بہت بڑے بیرسٹر تھے محمد صادق وہ ایسے دیندار آدمی تھے. وہ حضرت شاہ صاحبؒ سے ملنے آئے‘ لیکن وہ کلین شیو تھے اور سوٹ میں ملبوس وہ شاہ صاحبؒ کے سامنے بڑے شرمائے شرمائے سے تھے. شاہ صاحب تاڑ گئے اور ان سے کہا کہ بھئی بیرسٹر صاحب! آپ میرے سامنے بیٹھے ہوئے کیوں شرما رہے ہیں! وہ چپ. شاہ صاحب نے کہا. اچھااس لیے شرما رہے ہیں کہ آپ کی ڈاڑھی مونچھ صاف اور میری اتنی بڑی ڈاڑھی. یہ تو شرمانے کی کوئی بات نہیں ہے.

اس واسطے کہ میری ڈاڑھی بھی دُنیا کے لیے ہے. اگر آپ بیرسٹر ہوکر ڈاڑھی رکھیں تو کون آپ کو بیرسٹر سمجھ کر وکیل کرے گا. لوگ سمجھیں گے کہ یہ تو ملا جی ہیں. یہ بیرسٹر کہاں سے ہوگئے. اور اگر میں مولانا صاحب ہوکر ڈاڑھی منڈوا دوں تو لوگ کہیں گے کہ یہ کہاں کے مولانا ہیں. یہ تو مسٹر ہیں. تو بھائی فعل اگرچہ مختلف ہے لیکن غرض ایک ہی ہے کہ دنیا میں پہچان ہو. کام ہو صرف اللہ (کی خوشنودی) کے لیے تو اس کا اجر ہے. تو یہ انداز تھا شاہ صاحب کی حکمت ِ تبلیغ کا حضرت والا ڈاکٹر صاحب بات اصل میں یہی ہے اور اصل قصہ یہی ہے کہ اگر آپ نے مولانا ہوکر دین کا کام کیا تو کیوں کیا؟ (اس لیے) کہ آپ کو تو روٹیاں اسی کی مل رہی ہیں. لیکن جو انگریزی تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ اگر یہ کام کررہے ہیں تو قدرو قیمت میں ان کی خدمات بہت آگے ہیں اور عملی طور پر یہی مفید ثابت ہوں گی. اگر آپ جیسے تعلیم یافتہ حضرات کا دین کی خدمات کے لیے جو contribution ہے وہ اگر نہ ہوتاتو آج کیا ہوتا‘ اندھیرا ہوتا. ہمارے علی میاں نے یہی بات کہی جو میرے دل میں بھی تھی کہ دین کی خدمت کسی کا کوئی اجارہ تو ہے نہیں. اللہ کبھی (اپنے دین کا) بادشاہوں سے کام لیتا ہے‘ کبھی مجاہدوں سے کام لیتا ہے‘ کبھی صوفیاء سے کام لیتا ہے‘ کبھی علماء سے کام لیتا ہے‘ کبھی آپ جیسے انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں سے کام لیتا ہے. بالکل. جیسی ضرورت ہے اسی کے مطابق کام لیتا ہے. آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو مسائل پیدا کردیے ہیں ‘جو سوالات اُٹھا دیے ہیں. ان کو یہ بیچارے (عام) عالم لوگ کیا سمجھیں گے. (الا ماشاء اللہ) یہ تو یہی (جدید تعلیم یافتہ) لوگ ہی سمجھتے ہیں. اگر وہ دین بھی جانتے ہیں اور جدید (باطل) نظریات سے بھی واقف ہیں اور اللہ نے ان کو اتنی دیانت داری اور بصیرت بھی دی ہے کہ وہ دین کی تعلیمات کی روشنی میں ان کا توڑ کرسکتے ہیں. پھر خود دین پر عمل کرتے ہیں تو یہ ہے وقت کی اہم ترین ضرورت. آپ تو علی گڑھ ہو آئے ہیں تو آپ نے (ان کیفیات کو) دیکھا ہوگا ؟ 

ڈاکٹر صاحب: جی ہاں دو مرتبہ علی گڑھ میں تبلیغی جماعت کو جس قدر مقبولیت حاصل ہوئی اُسے دیکھ کر مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی. 

مولانا: جی ہاں. تبلیغی جماعت بھی ہے آپ کی جماعت ِ اسلامی بھی ہے‘ لیکن اس کا اثر اب بہت کم ہوگیا ہے. تبلیغی جماعت کا اثر بہت زیادہ ہے. بہر حال وہاں تبدیلی آئی ہے خوشگوار تبدیلی. جو تعلیم یافتہ حضرات ذہین ہیں اور آزادانہ سوچ رکھتے ہیں ان میں سے بعض آپ کے فکر سے زیادہ قریب ہیں. 

ڈاکٹر صاحب: آپ کی علامہ اقبال سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں یا نہیں! 
مولانا مرحوم: جی ہاں!۱۹۲۷ء میں ان کے یہاں آنا جانا تھا. اس کو ملاقات تو نہیں کہہ سکتے. عبد اللہ چغتائی کا ان کے یہاں بہت آنا جانا تھا. (دونوں میں) بہت بے تکلفی تھی. اور عبداللہ چغتائی سے میرا بہت دوستانہ تھا. میں انہی کے ساتھ کبھی کبھار علامہ کے یہاں جاتا تھا تو علامہ اقبال نے ان کو امام رازیؒ کی ایک کتاب دی جو چھپ کر آئی تھی المباحث المشرقیہ. علامہ کو زمان و مکان کی بحث سے بہت دلچسپی تھی. اس کتاب میں دو chapters تھے ایک زمان پر اور ایک مکان پر. تو علامہ نے چغتائی (صاحب) سے کہا کہ اس کا اُردو میں ترجمہ کرادو. چغتائی میرے پاس لے کر آئے اور مجھ سے کہا کہ ان کا ترجمہ کردو تو میں تو دیوبند کا فارغ التحصیل تھا ہی. میں نے کہا لائیے. میں نے ترجمہ کردیا. وہ ترجمہ (چغتائی صاحب نے) لے جاکر علامہ اقبال کو دکھلایا. تو وہ بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ یہ کون ہے جس سے تم نے یہ (ترجمہ) کرایا ہے. انہوں نے کہا کہ ایک سعید صاحب ہیں یہاں اورنٹیئل کالج میں پڑھتے ہیں. دیوبند کے فارغ التحصیل ہیں. تو انہوں نے مجھے بلا بھیجا. ان کو چونکہ حضرت انور شاہ کاشمیریؒ سے بڑی عقیدت تھی اور میں تلمیذ خاص تھا حضرت شاہ صاحبؒ کا. تو جب علامہ کو اس نسبت کا علم ہوا تو وہ مجھ سے ہر ملاقات میں بڑی محبت سے پیش آتے رہے. 

ڈاکٹر صاحب: علامہ اس کو عربی میں خود نہیں پڑھ سکتے تھے‘ جبکہ علامہ نے خود ایم.اے عربی میں کیا تھا ؟ 
مولانا مرحوم : بات یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں کی عربی کا معیار کوئی بہت اعلیٰ نہیں تھا. 

ڈاکٹر صاحب: چٹائی توڑ عربی نہیں تھی. 

مولانا مرحوم: جی ہاں. بات یہ ہے کہ عربی کی فلسفیانہ اصطلاحات تو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر بحث نہیں آتیں اور امام رازیؒ کی تمام فلسفیانہ اصطلاحات خالص دقیق عربی میں تھیں. 

ڈاکٹر صاحب: زمان کے مسئلہ پر تو (علامہ) نے سمجھنا بہت چاہا ہے. ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے بھی اس (مسئلہ) پر ایک کتاب لکھی تھی. ویسے علامہ کی ایک بات بہت نمایاں ہے کہ ان کا آخری وقت تک طالب علمانہ انداز رہا ہے. آخری وقت تک انہوں نے حضرت شاہ صاحبؒ کشمیری کو بالکل طالب علمانہ انداز میں خطوط لکھے. اسی طرح مولانا سلیمان ندویؒ کوبھی نہایت طالب علمانہ انداز میں خطوط لکھا کرتے تھے جب کہ علامہ مولانا سلیمان ندویؒ سے عمر میں خاصے بڑے تھے. 

مولانا مرحوم: ان میں بڑی نیاز مندی تھی. شروع میں جب شاہ صاحب کاشمیریؒ لاہور آئے تو اس وقت تک ان کا علامہ سے میل جول نہیں تھا علامہ اقبالؒ نے شاہ صاحبؒ کی اپنے یہاں دعوت کی. تو شاہ صاحب نے لکھ دیا کہ میں تمہارے یہاں کھانے پر نہیں آؤں گا. چونکہ قادیانیت کے متعلق تمہارے خیالات بہت زیادہ خراب ہیں. علامہ نے لکھا کہ مجھے کچھ اشکالات ہیں. شاہ صاحبؒ نے جواب بھجوایا کہ مجھے لکھ کر بھیجو. (علامہ نے لکھ کر بھیجے) تو شاہ صاحبؒ نے ان کا (مدلل) جواب لکھا. علامہ نے جواب میں لکھا کہ میر ی تسلی ہوگئی. میں اپنے سابقہ خیالات سے رجوع کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوںاور میں اس پر ایک مضمون انگریزی میں برائے اشاعت لکھ رہا ہوں. تو علامہ شاہ صاحب کو اتنا لوہا مانتے تھے. 

ڈاکٹر صاحب: یہ تو بہت اہم واقعہ ہے شاید لوگوں کے علم میں نہ ہو. 
مولانا مرحوم: جی ہاں. میرا خیال ہے کہ وہ مضمون کہیں شائع بھی ہوا ہے. 

ڈاکٹر صاحب: علامہ نے شاہ صاحب سے بڑی مؤدبانہ درخواست کی کہ آپ لاہور تشریف لے آئیں جب شاہ صاحب ڈابھیل جارہے تھے کہ فقہ اسلامی کی نئی تدوین میں اور آپ مل کر کرلیں لیکن اللہ کو منظور نہیں ہوا ورنہ وہ کام بہت اعلیٰ ہوجاتا. 

مولانا مرحوم: اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بعد علامہ بیمار بھی تو ہوگئے اور وہ اس قابل نہیں رہے کہ کام کرسکیں اور اس کی کوئی تنظیم (بھی) نہیں ہوسکی. اُدھر ڈابھیل سے آفر آئی ہوئی تھی لہٰذا (شاہ صاحب) وہاں چلے گئے. اگر وہ کام ہوجاتا تو بڑی شاندار چیز ہوتی. 
ڈاکٹر صاحب: مولانا اگر مناسب سمجھیں تو ذرا یہ بتا دیجئے کہ یہ کیا مسئلہ تھا! کیوں ڈابھیل جانا پڑا حضرت شاہ صاحبؒ کو؟ 

مولانا مرحوم: ڈابھیل اس لیے جانا پڑا کہ اصل میں بات یہ تھی کہ دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے دارالعلوم کو اپنی ذاتی جائیداد سمجھ کر اُسے استعمال کرنا شروع کردیا تھا اور اس میں اقربا پروری کا بہت دخل ہوگیا تھا. منتظم اعلیٰ حافظ محمد احمد صاحب مرحوم نے جو قاری محمد طیب مرحوم کے والد تھے اپنے ایک قریب ترین عزیز کو ناظم مطبخ بنانے کے بعد آپ نے ان کو سپلائی کا ٹھیکہ بھی دے دیا. شاہ صاحبؒ نے کہا کہ بھئی یہ کیا تک ہے! وہ ناظم مطبخ بھی ہیں‘ ملازم بھی ہیں اور ٹھیکیدار بھی ہیں. یہ تو بڑی بے تکی بات ہوئی. یہ نہیں ہوناچاہیے. اس (بات) کا بہت بُرا منایا گیا. اس پر شاہ صاحب نے اس روز عصر کی نماز دارالعلوم کی مسجد میں پڑھی اور نماز کے بعد کہا کہ لوگو! ذرا ٹھہر جائو. لوگ رُک گئے تو شاہ صاحبؒ نے اس وقت یہ حدیث پڑھی: اَلْوَقْفُ لَا یُمْلَکُ. یہ دارالعلوم جو ہے وقف ہے. کسی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے کہ آپ جس طرح چاہیں‘ اُسے استعمال کریں. آپ نے شوریٰ کو بیکار کر رکھا ہے اور مطبخ کا جو نیا انتظام کیا گیا ہے وہ میں برداشت نہیں کروں گا. بس بات بڑھی اور اسی (بات) پر استعفا دینے کی نوبت آگئی. 

ڈاکٹر صاحب: آپ نے مولانا آزاد کے دارالعلوم دیوبند کے داخلے پر پابندی کے سلسلہ میں جوواقعہ سنایا تھا کہ جب (کانپور کی مسجد کے شہید کرنے کے بعد علماء کو مطمئن کرنے کے لیے ) گورنر یوپی دارالعلوم دیوبند آیا تھا تو انتظامیہ نے مولانا آزاد کا داخلہ دارالعلوم میں روک دیا تھا اس پر حضرت شیخ الہندؒ نے بھی بطور احتجاج اس جلسہ میں شرکت نہیں کی تھی تو اس کا ذکر جب مولانا عزیز گل صاحب کے سامنے ہوا تو انہوں نے سختی سے اس کی تردید اور نفی کی ان کے علم میں نہیں ہوگا. 

مولانا مرحوم: یہ تو مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب کے سامنے کا واقعہ ہے. انہوں نے مجھے بتایا اور بہت سے لوگوں نے اس کی توثیق کی. 

ڈاکٹر صاحب: میں مزید حیران ہوا کہ مولانا عزیر گل صاحب شیخ الہندؒ کے خدام میں سے ہیں اور ان کے علم میں یہ واقعہ بھی نہیں ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے (حضرت شیخ الہندؒ ) کی طرف سے امام الہندؒ بنانے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی کوئی تجویز تھی؟ 
مولانا: حیرانی کی بات تو ہے. ورنہ یہ تو بہت مشہور بات ہے. شاید مولانا (عزیز گل) بھول گئے ہوں ان کی عمر بھی تو اب کافی ہوگی. 

ڈاکٹر صاحب: لیکن میری توجیہہ یہ ہے کہ اغلباًوہ (مولانا عزیز گل صاحب) نوجوان خدام میں سے تھے. اس لیے ان معاملات میں وہ شریک نہیں ہوتے ہوں گے اس لیے یہ واقعہ ان کے علم میں نہ آیا ہو. 
مولانا مرحوم: جی ہاں. یہ توجیہہ صحیح ہے. وہ خدام ہی میں سے تھے. 
ڈاکٹر صاحب: لیکن اب وہ خدام میں سے شاید آخری شخص ہیں جو بفضلہ تعالیٰ بقید حیات ہیں اس لیے ان کو ایک تبرک کا درجہ حاصل ہوگیا ہے. 
مولانا مرحوم: جی ہاں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے. ورنہ یہ بات تو تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہے. 
ڈاکٹر صاحب: مجھے تو اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ نے جو سوانح حضرت شیخ الہندؒ کی لکھی ہے اس میں مرض وفات کا ذکر بھی ہے اس کی ساری تفاصیل کا ذکر بھی ہے. لیکن اس واقعہ کا انہوں نے بھی ذکر نہیں کیا. (یعنی ) مولانا آزاد کو امام الہندؒ بنانے کے مسئلہ کا اس کا افسوس ہوا. 
راقم الحروف: البتہ مولانا محمد میاں رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے. ڈاکٹر صاحب: لیکن مولانا مدنی رحمہ اللہ علیہ کا اس اہم واقعہ کا بالکل ہی ذکر نہ کرنا. اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا. 
مولانا مرحوم: وہ غالباً مولانا ابوالکلام آزاد کی رعایت کرگئے کہ ان کو نا گوار نہ ہو ورنہ یہ تو بالکل کھلی بات ہے. مشہور و معروف بات ہے. 

ڈاکٹر صاحب: مولانا آپ نے ا پنی پچھلی گفتگو میں (مراد ہے مولانا کا انٹرویو شائع شدہ میثاق بابت مئی ۱۹۸۵ء) تلفیق بین المذاہب کے بارے میںفرمایا تھا کہ یہ تو اب کرنا ہی ہوگا. اس کے بغیر تو کام نہیں چلے گا تو یہ لفظ کہاں سے بنا ہے. ل.ف.ق کا اصل مفہوم کیا ہے؟ 
مولانا مرحوم : تلفیق . لفق (سے بنا ہے) لفق کے معنی ہیں ملا دینا. 

ڈاکٹر صاحب: اس مادہ سے قرآن و حدیث میں تو کوئی لفظ آتا نہیں میں نے تحقیق کرلی ہے. 
مولانا مرحوم: شاید ایسا ہی ہو لیکن تمام مستند لغات عربی میں یہ لفظ مل جائے گا. اور ہمارے بعض متقدمین علماء نے تلفیق بین المذاہب کو استعمال کیا ہے اور اس کی ضرورت پر زور دیا ہے. 

ڈاکٹر صاحب: ہمارے بعض علماء تو اس تلفیق کو بہت بڑی گالی خیال کرتے ہیں. گویا ان کے نزدیک (تو) یہ درجہ کفر تک پہنچی ہوئی بات ہے ! 
مولانا مرحوم: ہمارے نزدیک تمام ائمہ فقہاء سب برابر ہیں. حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ نے (تلفیق بین المذاہب) کی ہے. مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ نے کی ہے. اور مولانا تھانوی رحمہ اللہ علیہ تک نے کی ہے. مولانا تھانویؒ نے بہت سے علماء کو بلا کر لکھا تھا: ’ اَلْحِیلۃُ النّاجِزَۃ لِلْحَلِیْلَۃِ الْعَاجِزَۃَ‘ بتائیے یہ سب کیا ہے! دیکھا کہ کسی مسئلے میں … فقہ حنفی پر عمل کرنے سے نقصان ہوگا. تو اسے چھوڑ کر امام مالکؒ کے مذہب کو اختیار کرنے کا فتویٰ دیا. اور بہت سے علماء کو بلا کر دکھادیا. بولیے یہ کیا ہے!یامفقود الخبر کے بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ چھوڑ کر امام احمد بن حنبل کے فتوے پر فیصلہ طے کیا. تو برابر یہ ہوتا ہے. 

ڈاکٹر صاحب: وہ یہ کہتے ہیں کہ مولانا تھانویؒ یہ کرسکتے تھے. تم کون ہوتے ہو یہ کرنے والے! میں نے عرض کیا کہ ٹھیک ہے میرا تو یہ مقام نہیں ہے لیکن اُصولاً تو بہر حال ایک بات سامنے آگئی. 

مولانا مرحوم: آپ یہ کہتے کہ مولانا تھانویؒ بھی تو مشتبہ ہیں علماء کے ایک کثیر حلقہ کے نزدیک اس کے بغیر تو جناب والا چارا ہے ہی نہیں. اس کے بغیر (یعنی تلفیق بین المذاہب کے بغیر) ایک صحیح اسلامی ریاست چل ہی نہیں سکتی. 

ڈاکٹر صاحب: میں نے آپ کی سب سے پہلے کتاب حقیقت ِ وحی طالب علمی کے زمانے میں پڑھی تھی. 
مولانا مرحوم: کتاب کا اصل نام ہے ’’وحی الٰہی ‘‘ پھر ہے ’’فہم قرآن‘‘ 

ڈاکٹرصاحب: میں نے یہ دونوں ایک ساتھ لی تھیں. دونوں کا بہت شوق سے مطالعہ کیا تھا. مجھے چونکہ قرآنِ حکیم سے اللہ کے فضل و کرم سے زمانہ طالب علمی ہی میں گہرا شغف ہوگیا تھا تو قرآن سے متعلق جو بھی کسی مستند عالمِ دین کی کوئی چیز مل جاتی تھی‘ اس کا میں بڑے ذوق و شوق سے مطالعہ کیا کرتا تھا آپ کی تاریخ اسلام سے متعلق کتابیں میں نے کم ہی پڑھی ہیں یہاں (پاکستان میں) آپ کی تصانیف کون شائع کررہا ہے؟ 
مولانا مرحوم: صاحب! کیاعرض کروں! میں نے کئی جگہ مختلف ناشروں کی طرف سے شائع کردہ یہاں اپنی کتابیں دیکھی ہیں. 

ڈاکٹر صاحب: کیا یہ سب بلا اجازت ہورہا ہے؟ 
مولانا مرحوم: سب بلا اجازت. کسی نے ایک پیسہ آج تک نہیں دیا. نہ اجازت لی. میں پہلے جب پاکستان آیا تھا تو جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کو بطور ہدیہ دینے کے لیے میں چند کتابیں خریدنے کے لیے ایک صاحب کے ساتھ بازار گیا تو کئی جگہ دیکھا کہ میری کتابیں بھی رکھی ہوئی ہیں تو ایک جگہ ان صاحب نے میرے متعلق بتا بھی دیا کہ فلاں فلاں کتاب کے مصنف سعید احمد اکبر آبادی یہ ہیں. اس کے باوجود کوئی اثر نہیں ہوا اور میری کتابوں کے مجھ سے پورے دام لیے گئے. بولیے یہ حالت ہے. اپنی کتابیں خریدنی پڑیں. 

ڈاکٹر صاحب: اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم آپ کی کتابیں چھاپیں. 
مولانا مرحوم: بڑے شوق سے . بڑے شوق سے. میری کتاب ہے ’صدیق اکبر‘ اور ابھی آرہی ہے ’’عثمان غنی ذوالنورین‘‘. 

ڈاکٹر صاحب: میں یہ دونوں کتابیں دہلی سے خرید کر لے آیا تھا. اسی موقع پر مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب کو بھی دیکھ آیا تھا. وہ بے ہوشی یا گہری نیند کی حالت میں تھے. بہرحال مجھے ان کو دیکھنے کی اجازت مل گئی تھی. میں ان کو دیکھ آیا تھا. مولانا مرحوم: میری کتاب ’صدیق اکبر‘ کسی نے یہاں ’الفیصل اکیڈمی‘ کی طرف سے چھاپ دی ہے. 

ڈاکٹر صاحب: مولانا! تبلیغی جماعت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ 
مولانا مرحوم: تبلیغی جماعت! میں نے کہا نا کہ اچھا کام کررہی ہے. لیکن اس پر ہم پورا Depend نہیں کرسکتے. اور چونکہ مجھے اس سے دلچسپی رہی نہیں. اس لیے میں نے زیادہ سوچا نہیں. اس سے اگر فائدہ ہورہا ہے تو اچھا ہے. 

ڈاکٹر صاحب: لیکن یہ کہ انہوں نے نہی عن المنکر کا راستہ بالکل بند کررکھا ہے… اس کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے. یہ تو دین کے لیے بہت مضر ہے. 
مولانا مرحوم: یہی تو میں نے پہلے کہا تھا اور کل بھی (۱. بہر حال اب وہ اسی پر قانع ہوبیٹھے ہیں. پھر اب ان میں تحزب بھی بہت زیادہ ہوگیا ہے. بہت ہی زیادہ. 
ڈاکٹر صاحب: آپ نے کل مولانا بنوری صاحبؒ کا واقعہ سنایا تھا. (۲

مولانا مرحوم: جی ہاں‘ جی ہاں ایک نہیں دسیوںواقعات ہیں. یہ لوگ اپنے سوا کسی کو حق پر سمجھتے ہی نہیں ہیں.ان میں تحزب و تخالف بہت بڑھ چکا ہے… (مزید برآں) حضرت مولانا شاہ وصی احمد خاں اِلٰہ آبادی کے ایک مرید خاص ہیں. بہت بڑے مولانا. بہت بڑے عالم. اور بڑے گوشہ نشین اور بہت خاموش طبیعت. انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے تبلیغی جماعت کے اُوپر. اور بڑی سخت تنقید کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ تم بریلویوں کو کہتے ہو کہ بدعتی ہیں. اور اس لیے کہتے ہو کہ جو چیز مباح ہے اُس کو انہوں نے سنت‘ واجب اور فرض قرار دے دیا. لیکن تم جو کچھ کر رہے ہو یہ سب بدعات ہیں. تم نے اہم دینی اصطلاحات کے معنی اور مفہوم ہی بدل کر رکھ دیے ہیں. انہوں نے بڑی سخت تنقید کی ہے. میں نے مولانا محمد منظور نعمانی صاحب سے پوچھا تھا کہ حضرت ہے (اس کا آپ کے پاس) کوئی جواب! بولے کوئی جواب نہیں. (۱) مولانا مرحوم نے اپنی جس پہلی رائے کا حوالہ دیا ہے وہ میثاق بابت مئی کے انٹر ویو میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے:’’میرا ذاتی خیال ہے کہ تبلیغ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے درمیان عام و خاص کی نسبت ہے. یعنی جہاں کہیں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پایا جائے گا وہاں تبلیغ ضرور ہوگی لیکن جہاں (محض) تبلیغ ہو وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہونا ضروری نہیں ہے.‘‘

(۲) اس واقعہ کا ذکر آگے آئے گا. (مرتب) 
ڈاکٹر صاحب: مولانا نعمانی نے یہ فرمایا کہ کوئی جواب نہیں؟ 

مولانا مرحوم: جی ہاں! یہی کہا مولانا نے . صاحب ِ کتاب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ ان کا جو طریقہ ٔ عمل ہے وہ قطعاًغیر شرعی ہے. حدیث نے جس چیز کو لازم نہیں کیا اس چیز کو انہوں نے لازم کردیا ہے. اور جناب والا. نہی عن المنکر بالکل نہیں کرتے جبکہ حدیث میں اس کی اتنی تاکید ہے .پھر انہوں نے گشت کو چلہ کا واجب کا درجہ دے رکھا ہے. انہوں نے سینکڑوں مثالیں بیان کی ہیں. آج ایک لڑکے کی شادی ہوئی ہے. کل اس سے کہا کہ تبلیغ کے لیے چلو لندن اور وہ چلا گیا. تو بولیے یہ شریعت کا کہاں حکم ہے. دین اعتدال اور توازن کی تعلیم کا نام ہے. 

ڈاکٹر صاحب: تبلیغی جماعت کو اصل میں مولانا علی میاں اور مولانا محمد منظور نعمانی کی شرکت کی وجہ سے کافی شہرت…. 
مولانا مرحوم: مولانا علی میاں بھی تو ہٹ گئے ہیں. 

ڈاکٹر صاحب: مولا نا علی میاں کے متعلق تو معلوم ہوا تھا کہ وہ تبلیغی جماعت سے کچھ مایوس ہیں‘ لیکن مولانا محمد منظور نعمانی کے متعلق… 

مولانا مرحوم: جی وہ بھی ہٹ گئے. علی میاں نے تو صاف لکھ دیااپنی سوانح عمری ’’کاروانِ زندگی‘‘ میں کہ میں نے راستہ بدل دیا ہے. میں نے بہت چاہاکہ یہ لوگ اصلاح کرلیں مگر ان لوگوں نے میری بات کو نہیں مانا تو میں نے اپنا راستہ الگ کردیا. میں نے کہا تھا ان سے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں آپ اپنی دعوت کا نہج اور طریق ِ کار تبدیل کرلیں. لیکن ان حضرات نے میرے دلائل تسلیم نہیں کیے. وہ مطمئن نہیں ہوسکے جب کہ میرا اطمینان بھی ختم ہوچکا تھا. لہٰذا میں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں ہٹ جاؤں. 

ڈاکٹر صاحب: مجھے اتنی تفصیل سے یہ بات معلوم نہیں تھی. ان شاء اللہ جلد ہی وقت نکال کر میں ان کی کتاب ’کاروانِ زندگی‘ کا مطالعہ کروں گا. 

راقم الحروف: مولانا. آپ کی یہ محبت و شفقت ہے کہ بیماری وضعف کے باوجود کل بھی آپ نے کافی اہم اور قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں اور اپنے تجربات سے مستفید فرمایا اور آج بھی نہایت بیش بہا خیالات اور اہم واقعات ریکارڈ کرائے. اب آپ سے درخواست ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے کچھ نصیحت فرمائیں. مولانا مرحوم: ارے میں کیا اور میری نصیحت کیا. ہم تو ان سے نصیحت حاصل کرنے کے لیے آئے تھے. 

ڈاکٹر صاحب: مولانا. میرے لیے آپ کی نصیحت بہت قیمتی چیز ہوگی… 
مولانا مرحوم: بس یہی ہے کہ آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنا کام کیے جائیے. اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے. آپ نے جس کام کا بیڑا اُٹھایا ہے‘ اخلاص کے ساتھ اسی کو کرتے رہیے. صرف رضائے الٰہی آپ کا نصب العین رہنا چاہیے. اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت عطا فرمائے. اس کو آخرت میں شرف قبولیت عطا فرمائے. اس کو آخرت میں آپ کے لیے توشہ بنائے. میں دعا ہی کرسکتا ہوں. جبکہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ صحت اجازت دے تو جتنا بھی تعاون ممکن ہو وہ پیش کروں. 

ڈاکٹر صاحب: میرے لیے آپ کا یہ فرمانا ہی سرمایہ ٔ زیست رہے گا. ان شاء اللہ! 

اس طرح قریباً ایک گھنٹہ تک یہ مبارک مجلس جاری رہی اور ہم مولانا سے ملاقات کرکے رخصت ہوئے کسے خبر تھی کہ راقم کی یہ آخری ملاقات ثابت ہوگی. 

کُلَّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ والْاِکْرَامِ o