۲۳؍اپریل۸۵ ۱۹ء کی جناب مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم و مغفور اور محترم ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ کے مابین گفتگو ریکارڈ کرلی گئی تھی. جو کیسٹ سے قریباً لفظ بلفظ منتقل کرکے شامل اشاعت کی گئی ہے. قارئین ِ کرام نے اس کامطالعہ فرمالیا ہوگا ۲۲ ؍اپریل ۱۹۸۵ ء کی ملاقات کے موقع پر مولانا مرحوم نے تفصیل سے چند اہم باتیں بتائیں تھیں اور چند اہم واقعات سنائے تھے. چونکہ اس موقع پر مولانا مرحوم نے تفصیل سے چند اہم باتیں بتائی تھیں اور چند اہم واقعات سنائے تھے. چونکہ اس موقع پر ٹیپ ریکارڈ رساتھ نہیں تھا. لہٰذا اس روز کی گفتگو ریکارڈ نہیں ہوسکی. اس گفتگو کے بعض نکات۲۳؍ اپریل والے انٹر ویو میں مجمل اشارات کے طور پر آئے ہیں. راقم الحروف اپنی یادداشت سے ۲۲؍ اپریل کی گفتگو کے چند اہم نکات قلم بندکررہا ہے. مولانا مرحوم کے ارشادات بالمعنی تحریر کیے جارہے ہیں. الفاظ مولانا مرحوم کے نہیں ہیں‘ البتہ راقم کو بفضلہ تعالیٰ اطمینان ہے کہ مفہوم و مدعا مولانا مرحوم ہی کاہے. مولانا کے ارشادات و خیالات ترتیب وار لکھے جارہے ہیں: 

مولانا مرحوم نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا: ’’میں آپ کی کچھ کتابیں پہلے بھی پڑھ چکا تھا اور کچھ کراچی کے موجودہ قیام کے دوران پڑھی ہیں. ماشاء اللہ آپ کا فکر صحیح ہے. قرآن و سنت سے ماخوذ ہے. آپ اخلاص کے ساتھ اپنا کام کیے جائیے. اِدھر اُدھر نہ دیکھئے. ہمارے معاشرہ کے بگاڑ کے بہت سے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے اکثر علماء کرام میں رواداری نہیں رہی. ان میں تخرب ہے. کوئی شخص الا ماشاء اللہ اپنے حلقہ کے سوا دوسرے کی بات پر غور کرنا تو کجا کان دھرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا بلکہ بعض حضرات نہایت فروعی معاملات کا تعاقب کرتے ہیں اور ان کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ دین کی اصل حقیقت ان فروعات کے پردے میں چھپ جاتی ہے. جس حلقہ کے علماء کی عظیم اکثریت نے مولانا ابوالکلام آزادمرحوم اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کو عالم دین نہیں مانا ان کی نظر میں بھلا آپ کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے! جو شخص بھی دین کا بنیادی اور ٹھوس کام لے کر اُٹھتا ہے‘ دعوت دیتا ہے اور اس کی دعوت کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں تو اسے ایسے حالات سے سابقہ پیش آتا ہی ہے جیسے آپ کو پیش آرہے ہیں آپ اس سے کوئی اثر نہ لیں. اپنا کام کرتے رہیں. آپ اپنے اخلاص اور محنت کا اجر اللہ کے یہاں محفوظ پائیں گے. 


تبلیغی جماعت کے متعلق مولانا مرحوم نے فرمایا: تبلیغی جماعت ابتدائی چند سالوں تک تحزب سے پاک رہی ہے. اس کام کے محرک حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ علیہ بڑے اللہ والے شخص تھے. بڑے وسیع القلب تھے. بڑے منکسر المزاج اور متواضع شخصیت تھے. نہایت متقی و متدین تھے. مسلمانوں کی دینی و اخلاقی پستی پر نہایت کرب اور تکلیف محسوس کرتے تھے. نہایت مضطرب رہتے تھے. نہایت بے نفس اور مخلص انسان تھے. اغلباً سن ۴۴ کا واقعہ ہے جبکہ ان کے کام کو تین چار سال گزرے تھے. وہ دہلی کے محلہ کشن گنج کی ایک مسجد میں اپنے چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے. مقصد لوگوں کو دین کی دعوت دینا ور اپنے کام سے متعارف کرانا تھا. مجھے معلوم ہوا تو میں بھی بغرض استفادہ پہنچ گیا. مغرب کی نماز وہیں مولانا رحمۃ اللہ کی اقتداء میں پڑھی. مولاناؒ نے جب مجھے دیکھا تو خود ہی پیش قدمی کرکے میرے پاس تشریف لائے .بڑی محبت و شفقت اور تپاک سے ملے اور گلے لگایا. اور فرمایا کہ ’’تم نے آکر میرا کام آسان کردیا. اب میرے بجائے تم تقریر کروگے‘‘. میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں تو آپ کے ارشادات سے مستفید ہونے آیا تھا. آپ کی موجودگی میں میں تقریر کروں! یہ کیسے ہوسکتا ہے. دوسرے لوگ بھی آپ کا وعظ و نصیحت سننے آئے ہیں وہ بھی مایوس ہوں گے. فرمانے لگے: ’’بھائی مجھے تقریر کرنی کب آتی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ نے ایک جذبہ اور ایک تڑپ ایک لگن دل میں پیدا کردی ہے جو مجھے کشاں کشاں مختلف جگہوں پر لے جاتی ہے. تقریر تم ہی کرو گے‘‘.میں نے بہت معذرت چاہی‘ لیکن مولاناؒ نے میری ایک نہیں سنی. امتثالِ امر میں مجھے تقریر کرنی پڑی. مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ’’دین کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی. تقریر کے بعد مولانا رحمہ اللہ علیہ نے مجھے گلے لگایا او رمیرے رخسار کا بوسہ لیا. بعد میں صرف چند منٹ میں مولاناؒ نے میری تقریرکی تصویب فرمائی اور مختصر طور پر اپنے تبلیغی کام سے متعارف کرایا. 

مولانامرحوم نے بعدہ فرمایا: ’’آپ نے یہ واقعہ سن لیا. اب دوسرا ایک اہم واقعہ سنیے یہ غالباً ۱۹۷۳ء کی بات ہے کہ مجھے جنوبی افریقہ سے ڈربن یونیورسٹی سے چند لیکچرز دینے کے لیے دعوت نامہ آیا اور میں وہاں چلا گیا. وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ڈربن سے تقریباً دس میل دور ایک مضافاتی بستی میں تبلیغی جماعت کا ایک بہت بڑا اجتماع ہورہا ہے. میں استفادہ کے خیال سے وہاں چلا گیا پاکستان سے مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ علیہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے. انہوں نے مجھے دیکھ کر بڑی مسرت کا اظہار فرمایا اور کہنے لگے کہ اب جبکہ تم آگئے ہو تو تم کو آج کے اجتماع میں تقریر کرنی ہوگی. میں نے معذرت کی لیکن مولاناؒ اصرار فرماتے رہے. مجھے بالآخر ہتھیار ڈالنے پڑے. مولانا مرحوم مجھے لے کر منتظمین کے پاس پہنچے. میرا تعارف کرایا اور منتظمین سے کہا کہ آج کے پروگرام میں میری تقریر بھی شامل کرلیں. منتظمین نے پہلے تو مختلف عذرات پیش کیے‘ لیکن جب مولانا بنوریؒ نے زیادہ اصرار کیا تو صاف طور پر جواب ملا کہ ’’مولانا! ہم نے یہ پالیسی طے کر رکھی ہے کہ ہم اپنے پلیٹ فارم سے کسی ایسے صاحب کو تقریر کی اجازت نہیں دیں گے جو ہمارے کام سے مکمل اتفاق نہ رکھتا ہو اور عملاً ہمارے کام میں شریک نہ ہو‘‘. مولانا بنوریؒ نے پھر اصرار کیا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جو اختلافی ہو. یہ تو دین کی دعوت ہی پیش کریں گے‘‘. لیکن منتظمین کسی طرح تیار نہیں ہوئے مولانا بنوریؒ کی بات بھی نہیں مانی یہ ۱۹۷۳ء کا واقعہ ہے جو میرے ساتھ پیش آیا اب تو تحزب اور بھی پختہ ہوگیا ہے. ایسے دسیوں واقعات میرے علم میں ہیں کہ یہ حضرات دوسرے علماء کو کس نظر سے دیکھتے ہیں. میرے علم میں یہ بات بھی ہے کہ یہ لوگ اپنے متوسلین کو باقاعدہ منع کرتے ہیں کہ دوسرے علماء کے مواعظ اور قرآن کے دروس میں شرکت نہ کیا کریں. 

مولانا مرحوم نے فرمایا: ’’میرا اندازہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے اس اجتماع میں دس ہزار سے بھی متجاوز حضرات شریک تھے. پاکستان‘ بھارت اور افریقہ کے مختلف ممالک سے اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آئے ہوئے تھے. چار پانچ روز کا اجتماع تھا. بڑے معقول انتظامات تھے میں نے منتظمین میں سے ایک صاحب سے جو میرے کچھ زیادہ قریب ہوگئے تھے دریافت کیا کہ ان انتظامات پر اندازاً کیا خرچ آتا ہوگا تو انہوں نے بتایا کہ تقریباً پندرہ ہزار ڈالر روزانہ میں نے پوچھا کہ فنڈز کا انتظام کیسے ہوتا ہے تو جواب ملا کہ جنوبی افریقہ کے کوئی بڑے سیٹھ ہیں. انہوں نے تمام اخراجات اپنے ذمہ لیے ہوئے ہیں. میں نے دل میں سوچا کہ شاذ اور انتہائی ضعیف احادیث اور بزرگوں کے اقوال سے فضائل کا جو فلسفہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے سیٹھ صاحب کا یہ مالی تعاون ان کے لیے تو آخرت میں بڑے اعلیٰ مقامات کے حصول کا ذریعہ بنے گا. 

مولانا مرحوم نے فرمایا: ’’مجھے جس بات کا سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے وہ یہ کہ ان حضرات نے نہی عن المنکر کو اپنے پروگرام سے بالکل خارج کررکھا ہے. دین کے اعتبار سے یہ بہت خطرناک ہے. پھر یہ کہ قرآن کا تو ان کی تقریروں اور گفتگوؤں میں حوالہ شاید ہی ملے. حدیثوں کا بھی صرف مطلب بیان ہوتا ہے. وہ زیادہ تر فضائل سے متعلق ہوتی ہیں یا پھر عذابِ جہنم سے. یہ آخری بات تو بہت پسندیدہ ہے لیکن ان کا زیادہ زور بزرگوں کے فرمودات پر ہوتا ہے. اور بزرگوں سے منسوب کرکے یہ بڑی عجیب عجیب باتیں کہا کرتے ہیں. بہرحال اگر جماعت کو دین کا صحیح فکر اور فہم مل جائے تو یہ ایک بڑی مؤثر طاقت بن سکتی ہے. ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ یہ جو افرادی قوت پیدا ہو رہی ہے یہ صحیح طور پر اسلام کے لیے لگ جائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم کی ہدایت عطا فرمائے. (جمیل الرحمن)