گرامی قدر محترم ڈاکٹر صاحب‘ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘ مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی مرحوم کا انٹر ویو میثاق میں نظر سے گزرا‘ آپ کے اور میثاق کے تعلق سے اس انٹرویو کی بعض باتیں بعض دینی حلقوں میں باعث شکایت بن سکتی ہیں اس لیے یہ چند سطریں میثاق میں شائع کرکے ممنون فرمائیں‘

مولانا انور شاہ صاحب کشمیری کے استعفا کا واقعہ اور اس کا پس منظر اس سے بالکل مختلف ہے جو بیماری کے آخری ایام میں مولانا اکبر آبادی کی زبان سے نکلا. اس وقت کی مجلس شوریٰ اس دور کے نہایت معتمد اور متدین حضرات پر مشتمل تھی‘ اس شوریٰ نے اس وقت کے اہتمام پر خویش پروری کا الزام لگایا اور نہ مالی کمزوری کا .شاہ صاحب کا استعفا ان کے جوشیلے شاگردوں کی ایک پارٹی کی سیاست کا نتیجہ تھا جس پارٹی سے مولانا اکبر آبادی بھی وابستہ رہے‘ مولانا محمد سالم صاحب خلف مولانا محمد طیب صاحب اس الزام کی وضاحت میں خود ہی ایک بیان ارسال کریں گے.

تبلیغی جماعت کے عام کارکنوں سے خواص سے نہیں کچھ شکایات ضرور رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود علماء حق اس تحریک کو مستحسن نظروں سے دیکھتے ہیں‘ بعض جزوی کمزوریوں کے سبب ایک بنیادی تبلیغی جدوجہد کو اس قدر مطعون کرنا قطعی طور پر نامناسب ہے‘ مولانا علی میاں صاحب ہوں یا منظور نعمانی صاحب یا دوسرے علمائِ مدارس سب اس تحریک سے وابستہ ہیں‘ اصلاح حال کی کوشش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے.

ایسی صورت میں جبکہ یہ تحریک اپنے سربراہ شیخ الحدیث کی بھاری بھر کم شخصیت سے محروم ہوگئی ہے اور مولانا انعام الحسن صاحب علالت طبع کے سبب وقت کم دیتے ہیں ‘اس جدوجہد کو سہارا دینا ضروری ہے نہی عن المنکر تبلیغ کا ایک اہم رکن ہے مگر اس کی ادائیگی کے لیے صرف تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا باہر کے علماء اس کام میں کتنا وقت دیتے ہیں وہ غور کریں‘ ہم غور کریں‘

اکبر آبادی صاحب نے مولانا تھانوی کے بارے میں فرمادیا کہ وہ علماء کی نظروں میں مشتبہ تھے خدا جانے اس کا کیا مطلب ہے مولانا اکبر آبادی تاریخ و ادب کے آدمی تھے‘ حدیث و فقہ کے آدمی نہیں تھے‘ اس لیے حدیث و فقہ کے مسائل میں مولانا کا اجتہاد اور تلفیق بین المذاہب اہل علم کو شبہ میں ڈالتی تھی.

فقہی مسائل میں ضرورت کے لحاظ سے ترجیح اور تلفیق اصحاب فن کی ایک جماعت بحث و تذکرہ کے بعد کرسکتی ہے یہ کام انفرادی طور پر کرنے کا نہیں ہے. علامہ اقبال نے صحیح طور پر ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ علمی اور سماجی زوال کے دور میں اجتہاد سے تقلید بہتر ہے.

آمین‘ رفع یدین ‘فاتحہ خلف الامام وغیرہ بعض مشہور مسائل عبادت میں ترجیح اور تلفیق کی کوئی اہمیت نہیں ہے. نہ یہ مسائل آج مسلم معاشرہ کو پریشان کررہے ہیں.

جو مسائل پریشان کررہے ہیں وہ تمدنی‘ معاشی اور اجتماعی مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی اہلیت بھی ہر مذہبی عالم میں نہیں ہے انہیں حل کرنے کی منزل توبعد میں آتی ہے .یہ مسائل جدید و قدیم اہل ِ علم کے اجتماعی اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں.

دراصل آپ دارالعلوم دیو بند کے حالیہ قضیہ میں مولانا اکبر آبادی صاحب کا جو رویہ تھا اس سے اچھی طرح باخبر نہیں ہیں ورنہ آپ مرحوم کو نہ چھیڑتے‘ مرحوم کی شخصیت اس قضیہ میں متنازع بن گئی تھی اور اس وجہ سے ان کا ذہن اسی گروہ بندی سے متأثر رہا.

مولانا مرحوم کی جدائی ایک عظیم دینی اور ملی سانحہ ہے‘ جو ان العمر صاحبزادے کی اندوہناک وفات کے بعد سے وہ بجھتے چلے جا رہے تھے‘ خداتعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے. 
تمام اکابر و احباب کی خدمت میں سلام مسنون.

اخلاق حسین قاسمی
۲۴اگست ۸۵ء