(۲) مکتوب گرامی مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ (لکھنؤ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
از محمد منظور نعمانی
لکھنؤ

مکرم و محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب! 
احسن اللہ الیکم و الینا 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ . خدا کرے مزاج بعافیت ہو.

یاد آتا ہے کسی عریضہ میں اپنا یہ حال آپ کو لکھ چکا ہوں کہ ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں. اس کی وجہ سے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کرلی ہے کہ شدید ضرورت ہی سے کسی چیز کا مطالعہ کرتا ہوں. دفتر الفرقان میں کہہ دیا ہے کہ جو رسائل و جرائد آتے ہیں میرے پاس نہ بھیجے جائیں. قریباً دو ڈھائی سال سے اس پر عمل ہو رہا ہے اور ان کے مطالعہ سے محرومی پر اپنے کو قانع کرلیا ہے. اب یاد نہیں کہ کتنی مدت سے میثاق کی اور اسی طرح دوسرے رسائل کی صورت بھی نہیں دیکھی دو تین دن ہوئے مولوی خلیل الرحمن سجاد سلمہٗ نے ذکر کیا کہ تازہ میثاق میں آپ کا ذکر آیا ہے اس کو دیکھ لینا چاہیے. میں نے کہہ دیا کہ وہ مجھے پہنچا دیجو. انہوں نے پہنچا دیا اور یہ بھی بتلا دیا کہ صفحہ ۱۲ اور ۱۸ پر آپ کا ذکر ہے. میں نے اس کو دیکھا. اس کے بعد مولانا اکبر آبادی مرحوم کے اور آپ کے اس پورے سلسلۂ کلام کو بھی پڑھا.

اس وقت صرف اپنے بارے میں ضروری سمجھ کر ممکن حد تک اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں. بل الانسان علی نفسہٖ بصیرۃ. 

میں یقین دلاتا ہوں کہ مجھے اس کا وہم اور وسوسہ بھی نہیں ہے کہ آپ نے یا اس مکالمہ کے مرتب کرنے والے صاحب نے کوئی بات غلط طور پر مولانا مرحوم کی طرف نسبت کرکے نقل فرمائی ہوگی. یا مولانا مرحوم نے میرے بارے میں کوئی بات دانستہ طور پر غلط طور پر بیان فرمائی ہوگی اورپورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ جو دو باتیں میرے بارے میں کہی گئی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں. کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوں گی. میرا خیال ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی شکل و صورت الگ بنائی ہے غالباً اسی طرح ہر ایک کی ذہنی ساخت بھی الگ ہے.

بعض حضرات کے متعلق میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک بات ان کے ذہن اور خیال میں ہوتی ہے پھر وہ ایک واقعہ کی طرح ان کے ذہن میں مرتسم ہو جاتی ہے پھر وہ اس کو واقعہ کے طور پر بیان فرمادیتے ہیں بلکہ لکھ بھی دیتے ہیں.

میرا خیال وقیاس ہے 
(والعلم عند اللّٰہ) کہ میثاق کی روایت کے مطابق مولانا مرحوم نے حضرت مولانا شاہ وصی اللہؒ اِلٰہ آبادی (وصی احمد خاں نہیں) کے کسی ’’مرید خاص‘‘ کے کسی رسالہ کے بارے میں مجھ سے متعلق جو بیان فرمایا میں اپنے حافظہ پر پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کی کوئی بات مولانا مرحوم کے اور میرے درمیان کبھی نہیں ہوئی. میں نے یہ بات میثاق میں پہلی دفعہ پڑھی ہے میرا خیال یہ ہے کہ انہو ں نے کبھی ایسا خیال فرمایا ہوگا اور پھر وہ واقعہ کے طورپر ان کے ذہن میں قائم ہوگیا. یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کی بات مولانا مرحوم کی کسی اور صاحب سے ہوئی ہو. واللہ اعلم!

اسی طرح صفحہ ۱۸ کی پہلی ہی سطر میں مجھ سے متعلق مولانا مرحوم کا جو بیان نقل ہوا ہے کہ (تبلیغی جماعت کے کام سے مایوس ہوکر) ’’وہ بھی ہٹ گئے‘‘ حیرت ہے کہ یہاں میری کسی گفتگو یا تحریر کا حوالہ نہیں دیا گیاہے میرا قیاس اور اندازہ ہے کہ مولانا مرحوم نے یہ بات میرے اس حال اور طرز عمل سے سمجھی ہوگی کہ جس سرگرمی سے میں کسی زمانہ میں اس دعوت و تبلیغ کے کام میں حصہ لیتا تھا. ملک کی تقسیم سے پہلے کراچی‘ کوئٹہ‘ قلات ‘ پشاور اور کوہاٹ تک کے سفر کرتا تھا اور تقسیم کے بعد بھی بنگال‘ حیدر آباد اور مدراس جیسے دور دراز علاقوں تک پھرتا تھا. کچھ مدت کے بعد میرا وہ حال نہیں رہا. اور ہندوستان کے مخصوص حالات کے پیدا کیے ہوئے بعض دوسرے دینی وملی مسائل کی طرف میری توجہ کچھ زیادہ رہی. اور اب تو قریباً۱۰.۱۲ سال سے معذوری کی وجہ سے خانہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہوں. غالب گمان اور قرین قیاس یہی ہے کہ مولانا مرحوم نے میرے اس حال سے وہ سمجھا جو انہوں نے آپ سے فرمایا لیکن حقیقت اور واقعہ یہ ہے کہ دینی دعوت کی اس جدوجہد کے بارے میں میری فکر اور رائے میں کوئی ایسی تبدیلی کبھی نہیں آئی جس کو ’’ہٹ جانے‘‘ سے تعبیر کیا جاسکے.

اس کام کے ساتھ میرے تعلق کی سرگزشت مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی وفات سے قریباً ایک سال پہلے اس دینی دعوت کے سلسلہ ہی کے ایک سفر میں ایک ہفتہ ان کے ساتھ رہ کر میں نے اس کام کو کچھ سمجھا تھا اور عملی حصہ لینا شروع کر دیا تھا. پھر ان 
کے مرض وفات کے آخری چار مہینوں میں میرا زیادہ تر قیام نظام الدین دہلی حضرتؒ کی خدمت میں رہا. اس قیام کے زمانے میں حضرت کی ذات اور ان کی دعوت سے میرا قلبی تعلق بہت بڑھ گیا اور میں نے اپنے وقت کے بڑے حصے کو اس کے لیے گویا وقف کردیا. پھر حضرت کی وفات کے بعد قریباً۳.۴ سال تک یہی حال رہا. اس کے بعد(جہاں تک یاد ہے) غیر ارادی طور پر اس میں کچھ کمی شروع ہوئی یہ کمی صرف عمل اور جدوجہد میں تھی. 

اس کے بعد ایک وقت آیا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات سے پیدا ہونے والے دینی و ملی کاموں کی ضرورت کے احساس نے اپنی طرف متوجہ کرلیا اور پھر ایک مدت تک زیادہ مشغولیت ان ہی کاموں میں رہی لیکن دینی دعوت والے کام سے بے تعلقی کبھی نہیں ہوئی. پھر اب دس سال سے تو اس معذوری کے حال میں ہوں جو آپ کے علم میں ہے.

اپنی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں میرا احساس یہ ہے کہ اس کا نسبتاً اچھا اور آخرت میں زیادہ کام آنے والا حصہ وہی تھا جب میں نے اپنے وقت کا بڑا حصہ اس دینی دعوت کے کام کے لیے وقف کر رکھا تھا اور اس راستے میں مالی اور جانی قربانی کی توفیق مل رہی تھی. اپنی زندگی کے بارے میں یہ میری رائے ہے اور ہر صاحب رائے کو اس سے اختلاف کرنے کا حق ہے. 
آخری گزارش یہ ہے کہ اس عریضہ کو میثاق کی کسی قریبی اشاعت میں شائع فرما کر ممنون کرم فرمایاجا ئے. تاکہ اس کے قارئین کو میرا حال اور موقف معلوم ہوجائے. 
ولکم جزیل الشکر 
دعا کا محتاج و طالب اور دعاگو ہوں. 

والسلام 
محمد منظور نعمانی