پچھلے دو جمعوں سے میری گفتگو جس موضوع پر چل رہی ہے اس کا جامع عنوان ہے: ’’جہاد بالقرآن‘‘ (۱اس ضمن میں پہلے جمعہ میں تمہیدی طور پراُن نکات کو ایک نئی ترتیب سے پیش کیا گیا تھا جو بارہا میں آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں. قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا آلۂ انقلاب قرآن حکیم ہے. رسول اللہ کی جدوجہد کو اگر دو مرحلوں میں تقسیم کریں تو ایک مکی دَور ہے اور دوسرا مدنی دَور ہے.ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدنی دَور میں نمایاں ترین چیز تلوار ہے جبکہ مکی دَور کی نمایاں ترین چیز قرآن مجید ہے. قرآن وہ معنوی تلوار ہے جس نے نظریاتی اور اعتقادی سطح پر شرک‘ کفر‘ الحاد اور زندقہ کا قلع قمع کیا. مدنی دَور کی تلوار حقیقی تلوار ہے ‘ جس نے مشرکین و کفار کے ساتھ نبردآزمائی کی. اصل میں یہ دو تلواریں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کے سپرد فرمائی تھیں‘ بفحوائے آیت سورۃ الحدید : 

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ… (آیت ۲۵
’’ہم نے بھیجا ہے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ اور ہم نے اتاری ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ‘اور اتارا ہم نے لوہا جس میں سخت لڑائی (کی صلاحیت) ہے‘‘. یہی وجہ ہے کہ ہمارے تحت الشعور میں ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت کا جو ہیولیٰ ہے اس کے ایک ہاتھ میں قرآن اوردوسرے ہاتھ میں تلوار نظر آتی ہے. یہ تصور ہمیشہ سے ہمارے اجتماعی شعور میںموجود ہے.

اسی طرح جب میں نے نبی اکرم کی سیرتِ مطہرہ‘ آپؐ کی بائیس تیئیس سالہ جدوجہد اور آپؐ کے انقلابی عمل پر غور کیا تو یہی دو اہم مراحل میرے سامنے آئے. آنحضور نے آغازِ وحی کے بعد تن تنہا توحید کے انقلابی نظریہ کی تبلیغ و دعوت کا آغاز فرمایا. اس کا اصلی آلہ قرآن مجید تھا. آپؐ کی تمام مساعی کا محور و مدار قرآن مجید ہی تھا. جو سعید روحیں آپؐ پر ایمان لائیں آپؐ نے ان کی تربیت و تزکیہ فرمایا‘ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی‘ انہیں منظم فرمایا اور اس طرح متقی افراد کی ایک جماعت تیار فرمائی . ان اصحاب کے قلوب میں ایمان و یقین اس طور سے پیوست اور نقش ہو گیا تھا کہ جس کی بدولت ان کے اندر دین توحید (۱) محترم ڈاکٹر صاحب کے یہ دونوں خطابات ’’جہاد بالقرآن اور اُس کے پانچ محاذ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں موجود ہیں. کے لیے تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ‘ اس راہ میں پیش آنے والے مصائب و شدائد کو برداشت کرنے کا عزم و حوصلہ ‘ راہِ حق میں جامِ شہادت نوش کرنے کا ذوق و شوق‘ یہاں تک کہ اگر اللہ کے دین کے لیے گھر بار‘ بیوی بچے‘ اعزہ و اقارب کو چھوڑنا پڑے تو اس کے لیے بھی ہمہ تن آمادگی پیدا ہو گئی تھی. الغرض ایثار و قربانی کے وہ عزائم جو کسی بھی انقلابی تحریک کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں‘ ان میں اپنے نقطہ ٔعروج و کمال کو پہنچے ہوئے تھے اس جماعت کے ہر فرد کے لیے اپنے ہادی و رہنما کا اشارہ بھی حکم کے درجہ میں تھا کہ جو بات آپؐ نے فرما دی اس پر سرِ تسلیم خم ہے. نورٌ علیٰ نور یہ کہ ایسا رویہ اور طرزِ عمل صرف رضائے الٰہی کی خاطر پیشِ نظر تھا.

جدید اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسے فدائین اور جاں نثاروں کی جماعت تھی جو مکمل طور پر committed افراد پر مشتمل تھی. اس میں سمع و طاعت کا نظام بکمال و تمام موجود تھا. اس جماعت کے ہر فرد کا تزکیۂ نفس اس کمال تک ہو گیا تھا کہ نفسِ انسانی کے رذیل تقاضوں‘ شہوات و لذات کے ناشائستہ داعیات‘ دل کے امراض اور اخلاقی ذمائم پر قابو پا کر انہوں نے اپنے قلوب و نفوس کو پاک کر لیا تھا. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے اوصاف کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ان کی مدح فرمائی ہے.

اس سے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ اس جماعت نے جدوجہد کی‘ قربانیاں دیں‘ کفر کی طاقت سے پنجہ آزمائی کی‘ مقاتلہ کیا ‘ فَـیَـقْتُلُوْنَ وَیُـقْتَلُوْنَ کے مصداق انہوں نے کفار کو قتل بھی کیا اور خود بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا. اس اجتماعی جدوجہد کے ذریعے نبی اکرم کی قیادت میں جزیرہ نمائے عرب میں انقلاب برپا ہو گیا. لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ایسی جماعت کیسے وجود میں آئی! درحقیقت یہ سب جہاد بالقرآن کے باعث ممکن ہوا. قرآن کے ذریعہ دعوت‘ قرآن کے ذریعہ تذکیر ‘ قرآن کے ذریعہ انذار و تبشیر‘ قرآن کے ذریعہ تزکیۂ نفس‘ قرآن کے ساتھ راتوں کا قیام‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: وَمِنَ الَّــیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ (الاسرائ:۷۹’’رات کا ایک حصہ جاگ کر گزارو اس قرآن کے ساتھ‘‘. شِفَائٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ یہ قرآن ہے‘ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وعظ و نصیحت بھی یہ قرآن ہے اور اہل ایمان کے لیے شفاء اور رحمت بھی یہی ہے. چنانچہ اس جماعت کی تیاری میں مرکز و محور قرآن رہا ہے. قرآن کو اس کا ذریعہ کہہ لیں‘ اس کا ہتھیار کہہ لیں‘ اس کا آلہ کہہ لیں‘ اس کا نسخہ کہہ لیں‘ یہ سب باتیں قرآن پر راست آئیں گی. مولانا حالی نے کیا خوب کہا ہے : ؎
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ‘ٔ کیمیا ساتھ لایا

یا بقول علامہ اقبال : ؎
در شبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید