دوسرے جمعہ کی تقریر میں وہ پانچ محاذ گنوائے گئے تھے جن پر اِس وقت دینی اعتبار سے جدوجہد اور کشمکش کی ضرورت ہے. ان پانچوں محاذوں کے لیے اصل ہتھیار‘ اصل تلوار قرآن ہے. ان محاذوں پر جہاد بالقرآن ہو گا. 

پہلا محاذ جاہلیت قدیمہ کا ہے‘ جس میں مشرکانہ اوہام ‘ بدعات اور شفاعتِ باطلہ جیسے تصورات ہیں. ان کا توڑ صرف قرآن سے ہو گا. اور اس کے لیے محض دورۂ ترجمۂ قرآن بہت کافی ہے. 

دوسرا محاذ جاہلیتِ جدیدہ کا محاذ ہے. یعنی الحاد اور مادہ پرستی ہے‘ ہر اُس چیز کا انکار ہے جو انسان کے حواس کی گرفت میں نہ آ سکے اورجو قابل تصدیق 
(verifiable) نہ ہو. اس کے لیے بھی تلوار قرآن ہے‘ لیکن یہ ذرا محنت طلب معاملہ ہے اور اس کے لیے قرآن کی حکمت اور اس کے فلسفے کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کر کے علم و حکمت کے موتی نکالنے ہوں گے. معرفت الٰہی کے جو حقائق فطرتِ انسانی میں جبلی طور پر مضمر ہیں ان کو قرآنی استدلال کے ذریعے شعور کی سطح پر لانے کی کوشش کرنی ہو گی اور دورِ جدید کی اصطلاحات کے ذریعے قرآنی طرزِ استدلال کا ابلاغ کرنا ہو گا. یہ کام اگر نہیں کریں گے تو جاہلیت جدیدہ کا مقابلہ نہایت مشکل ہو گا. 

تیسرا محاذ بے یقینی اور تذبذب کی کیفیت ہے اور اس کا علاج ہے صحبت ِاصحاب یقین ؏ ََََ’’صحبت صالح تُرا صالح کند!‘‘یہ سب سے زیادہ آسان اور سہل ذریعے ہے‘ لیکن یہ اصحابِ یقین بھی قرآن ہی کے ذریعے پیدا ہوں گے. ایسے لوگ جب قرآن میں غوطہ زنی کرتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے ‘ جو تعلیمات پیش کر رہا ہے‘ جو استدلال کر رہا ہے وہ ان کی بدیہیاتِ فطرت کے مطابق ہے. یہ حقائق ان کے باطن میں مضمر ہیں‘ قرآن ان کو واشگاف اور منکشف کر کے تحت الشعور سے شعور کی سطح پر لا رہا ہے. اس طرح قرآن ان کا باطنی تجربہ بن جاتا ہے. جیسے آپ کو معلوم ہے کہ چینی میٹھی ہوتی ہے‘ یہ علم الیقین ہے. لیکن 
جب آپ نے اسے چکھا تو آپ کے اس تجربے نے بھی بتا دیا کہ چینی واقعی میٹھی ہے. تجربہ سے جو یقین حاصل ہوتا ہے وہ حق الیقین ہے. قرآن حکیم پر حق الیقین انسان کو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ قرآن حکیم پر غور و فکر اور تدبر میں منہمک ہوتا ہے. وہ جب اس کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کرتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ میرے دل کی آواز ہے‘ میری فطرت اس سے مطابقت رکھتی ہے‘ اور میرا قلب و ذہن اسے قبول کر رہا ہے. اس احساس سے درحقیقت وہ یقین پیدا ہوتا ہے جسے حق الیقین کہا جائے گا. اسی کو علامہ اقبال نے اپنے لیکچرز میں internal experience کہا ہے.

چوتھا محاذ ہماری نفس پرستیاں اور شیطان کی وسوسہ اندازیاں ہیں. ہمارے نفس کے متعلق قرآن مجید ہمیں متنبہ کرتا ہے: 
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ (یوسف:۵۳اور: بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗE(القیامۃ) ہمارا نفس لذت کوشیوں اور حرام خوریوں کا عادی ہو چکا ہوتا ہے. ہمیں غلط کاموں کی عادتیں پڑ گئی ہیں. تو ان تمام برائیوں کے لیے تلوار قرآن مجید ہی ہے. بقول اقبال : ؎

کشتنِ ابلیس کارے مشکل است زانکہ او گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی!

ہمارے سامنے پانچواں محاذ فرقہ واریت کا ہے. اس فرقہ واریت کی شدت کو کم کرنے اور غیریت کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کوئی ایسی جڑ بنیاد اور کوئی ایسا مرکز و محور درکار ہے جوذہنی ہم آہنگی پیدا کرے اور پھر یہی ذہنی ہم آہنگی لوگوں کے اندر آپس میں قرب اور وابستگی کا ذریعہ بنے. فرقہ واریت کے عفریت کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمارے پاس واحد تلوار قرآن مجید ہے اور یہی ہماری ذہنی ہم آہنگی اور باہمی قرب اور وابستگی کا واحد ذریعہ ہے. یہی سبق ہمیں سورئہ آل عمران کی آیت ۱۰۳ کے ابتدائی الفاظ میں ملتا ہے: 
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا … ’’اور اللہ کی رسّی کو سب مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو‘‘. متعدد احادیث ِنبویؐ میں اس امر کی وضاحت موجود ہے کہ حبل اللہ سے مراد قرآن مجید ہے.معلوم ہوا کہ ان پانچوں محاذوں پر ہمیں قرآن کے ساتھ جہاد کرنا ہے.