اب اس ضمن میں ایک اہم بات جان لیجیے کہ ان تمام گمراہ فرقوں اور تحریکوں کا اصل طریقۂ واردات (methodology) کیا ہے. اور یہ سب میں مشترک وصف ہے. اس مسئلہ پر میں اپنے غو ر و فکر کے نتائج اور اپنے خیالات وضاحت سے آپ حضرات کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں. ان کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک آدھ مسئلہ کو پکڑ کر‘ جو اُمت میں متفق علیہ اور مجمع علیہ رہا ہے ‘اس پر شکوک و شبہات پیدا کر دیتے ہیں. اُمت کے تمام فقہائے کرام‘ محدثین عظام‘ علمائے حقانی اور مفسرین کرام سب کے سب اس مسئلہ کو مانتے چلے آ رہے ہیں‘ لیکن اس ایک مسئلہ کو اٹھا کر وہ لوگوںکو اس مغالطہ میں مبتلاکر دیتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے. اس ایک تیر سے کتنے شکار ہو گئے؟ اگر آپ نے ایک متفق علیہ مسئلہ کے بارے میں لوگوں کو بدظن کر دیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اپنے عقیدت مندوں کے ذہن و قلب میں یہ بات بٹھا دی کہ سارے فقہاء بے وقوف تھے‘ سارے محدثین ناسمجھ تھے‘ سارے مفسرین بے علم تھے‘ سارے علماءِ اُمت بے عقل تھے کہ اتنی سیدھی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی جو ہمارے ممدوح کی سمجھ میں آئی ہے.یہ وہ چیز ہے جو عموماً ایسے لوگوں کو تمام اکابر اسلاف سے سوءِ ظن میں مبتلا کر دیتی ہے. اس کے بعد یہ لوگ اُس بے لنگر جہاز کے مانند ہیں جو لہروں کے رحم و کرم پر ہے‘ لہریں اس جہاز کو جدھر چاہیں لے جائیں. یا کٹی ہوئی پتنگ کے موافق ہیں جو ہوا کے رحم و کرم پر ہے‘ وہ اسے جدھر چاہے لے جائے. 

اب جیسے ہی اسلاف سے بدظنی پیدا ہوئی شیطان کو موقع مل گیا کہ وہ گمراہی پر گمراہی کا دروازہ کھولتا چلا جائے اور 
’’ظُلُمَاتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ‘‘ کا نقشہ جمادے.اس لیے کہ ان کے دلوں میں تو عظمت کا سکہ اپنے ممدوح کا بیٹھ جاتا ہے کہ جو بات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سمجھ میں نہیں آئی‘امام ابوحنیفہؒ کے پلے نہیں پڑی‘ امام مالکؒ کے ذہن کی جہاں تک رسائی نہیں ہوئی‘ امام شافعیؒ جس کو سمجھنے سے قاصر رہے‘ امام احمد بن حنبلؒ جس کی تہہ تک نہ پہنچ پائے‘مزید یہ کہ اُمت کے تمام قابل اعتماد مفسرین ‘ چاہے وہ متقدمین میں سے ہوں یا متأخرین میں سے‘ جس بات کے فہم سے عاری رہے ‘ تمام علمائے حقانی کی عقل جس بات کے سمجھنے سے عاجز رہی وہ آج ان کی سمجھ میں آئی ہے. وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ قرنِ اوّل سے آج تک جس مسئلہ میں پوری اُمت کا تواتر کے ساتھ اجماع رہا ہے وہ غلط رہا ہے‘ اس مسئلہ کا صحیح عقدہ تو ہمارے ممدوح عالم دین اور مفسر قرآن پر منکشف ہوا ہے. عقیدت مند لوگ جب اجماعِ اُمت کے خلاف ایک مسئلہ میں اپنے ممدوح کی رائے کو مان لیں تو بہت آسان ہو گیا کہ وہ جو چاہے زہر گھول دے‘ جو کڑوی گولی چاہے اپنے عقیدت مندوں کے حلق سے اتروا دے. یہ ہے ان کا مشترک طریق کار (methodology) .
ان لوگوں کو معتقدین کس طرح اور کہاں سے ملتے ہیں جو اس فتنہ کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں‘ یہ بات بھی تجزیہ طلب ہے. عموماً وہ جدید تعلیم یافتہ لوگ جو دین کے نہ طالب علم ہوتے ہیں نہ انہوں نے خود دین کا بنیادی طو رپر مطالعہ کیا ہوتا ہے‘ اس طرح کے فتنہ پردازوں کے حلقہ بگوش بن جاتے ہیں. دُنیوی تعلیم کے اعتبار سے وہ چاہے گریجویٹ ہوں یا ماسٹرز ڈگری رکھتے ہوں‘ علوم جدیدہ میں سے کسی علم میں پی ایچ ڈی ہوں‘ کوئی قانون میں بارایٹ لاء ہو‘ کوئی ملکی آئین میں درجۂ تخصص رکھتا ہو‘ کسی نے سائنس اور انجینئرنگ کی اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کی ہوں‘ لیکن دین کے بنیادی علم سے انہیں کوئی شغف نہیں ہوتا‘ اس کا کوئی فہم نہیں ہوتا‘ اس معاملہ میں بالکل کورے ہوتے ہیں ‘اِلاّ ماشاء اللہ. زیادہ سے زیادہ تقلید آباء کے طور پر نماز 
روزے سے کچھ تعلق ہو تو ہو. اس طبقے کے متعلق ایک بزرگ بجا طور پر ’’پڑھے لکھے جاہل‘‘ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیں . اس لیے کہ دین کے اعتبار سے تو یہ اَن پڑھ ہیں. اس طبقے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ انہیں ناظرہ قرآن تک پڑھنا نہیں آتا. یہ طبقہ ہے جس میں سے اکثرلوگ فتنہ اٹھانے والوں کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں. انہیں نظر آتا ہے کہ یہ لوگ دین اور قرآن کے بڑے خادم ہیں ‘بڑے عالم ہیں‘بڑے معقول لوگ ہیں‘ بڑے ذہین و فطین ہیں‘ ان کی ذہانت و فطانت کا دنیا میں لوہا مانا جا رہا ہے‘ لیکن چونکہ ان کا براہِ راست دین کا اپنا مطالعہ نہیں ہوتا لہٰذا جس شخص کو بھی انہوں نے اس طور سے مان لیا کہ دین کی فلاں اہم بات اس کی سمجھ میں آئی ہے جو آج تک کسی اور کی سمجھ میں نہیں آئی تھی تو پھر وہ شخص ایسے لوگوں کو جدھر چاہے لے جائے. پھر ایسے لوگ اندھے اور بہرے ہو کر اس کی پیروی کرتے ہیں. بغرضِ تفہیم میں چند مثالیں قدرے تفصیل سے پیش کرتا ہوں.

سرسید احمد خان کا اس موقع پر میں تذکرہ نہیں کروں گا.وہ جن گمراہیوں کے بانی و مبانی تھے ان کو میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ ان کی ذات سے کوئی فرقہ‘ کوئی جماعت‘ کوئی تنظیم وجود میں نہیں آئی. انہوں نے سماجی طور پر مسلمانوں کی خدمت کو اپنا میدانِ عمل بنایا اور ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اس میدان میں انہوں نے مسلمانانِ پاک و ہند کی بڑی خدمات انجام دی ہیں. لہٰذا سرسید کی بات یہیں چھوڑ دیجیے. 

اب آپ دیکھئے مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا کیا؟ اس نے جب ابتداء ً قرآن کا نام لے کر اور آریہ سماجیوں اور عیسائیوں سے مناظرے کر کے اپنا ایک مقام بنا لیا اور معتدبہ افراد اُس کے حلقۂ ارادت و عقیدت سے وابستہ ہو گئے تو اس نے ایک مسئلہ اٹھایا. آپ کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا اپنے جسد خاکی کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھالیا جانا اور پھر قیامت سے قبل ان کا بعینہٖ بنفس نفیس دوبارہ آسمان سے نازل ہونا‘ یہ وہ مسئلہ ہے جو اُمت کا متفق علیہ عقیدہ ہے اور سلف سے لے کر خلف تک اس پر پوری اُمت کا اجماع چلا آ رہا ہے.اس کا قرآن حکیم میں بھی ذکر ہے اور متعدد احادیثِ صحیحہ صراحت کے ساتھ اس مسئلہ پر موجود ہیں. تمام فقہاء ِ اُمتؒ ‘‘تمام محدثین کرامؒ اور اُمت کے تمام قابل اعتماد مفکرین و مفسرین اس کو مانتے ہیں‘ لیکن غلام احمد قادیانی نے ’’رفع ونزولِ مسیح‘‘ کے انکار کا مسئلہ کھڑا کر دیا. چونکہ وہ دَور سائنسی عقلیت پرستی 
(Scientific Rationalism) کا دَور تھا اور سائنس بھی ابھی نیوٹن کے دور میں تھی‘ آئن سٹائن کا دَور شروع نہیں ہوا تھا‘ لہٰذا اُس زمانے میں یہ بات ایک انگریزی دان اور عقلیت زدہ شخص کے لیے بڑی عجیب سی تھی کہ ایک زندہ انسان آسمان پر اٹھایا جا سکتا ہے اور پھر وہ صدیوں بعد آسمان سے نازل ہو گا. 

تعلیم یافتہ لوگوں کو تو مرزا قادیانی نے یہ عقلی مغالطہ دیا اور عوام کو اس دلیل سے فریب دیا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ سید المرسلین اور افضل الرسل ہیں‘ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضور تو انتقال فرما جائیں اور آپؐ کا جسد ِاطہر لحد میں زیر زمین دفن ہو اور حضرت مسیحؑ اس خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ ہوں! اس طرح تو حضرت مسیحؑ ہمارے رسولؐ سے افضل قرار پاتے ہیں. حضرت مسیحؑ کو اُن کے حواریوں نے صلیب سے اتار لیا تھا‘ وہ زندہ تھے. خفیہ طور پر ان کا علاج معالجہ ہوا. پھر وہ چھپتے چھپاتے بیت المقدس سے نکل گئے اور کشمیر میں آ کر آباد ہوئے‘ وہیں طبعی طور پر ان کی وفات ہوئی اور دفن ہوئے. ہمارے مولویوں نے اس بات کو نہیں سمجھا اور غلط تأویلات کرتے رہے. چنانچہ اس مسئلہ کو اُس نے خوب ہوا دی اور اس کے ذریعے سے اس نے اپنے معتقدین کو اسلاف سے کاٹ دیا. جب وہ لنگر کٹ گیا تو بے لنگر کا جہاز لہروں کے رحم و کرم پر ہے‘ وہ جس طرف چاہیں اسے لے جائیں. اس کے معتقدین نے سمجھ لیا کہ سب سے بڑھ کر عالم تو یہ ہے. اب اس نے بتدریج دعاوی شروع کیے. اس نے کہا کہ احادیث میں جس مسیح کے آنے کی خبر ہے وہ بذاتہٖ مسیح نہیں بلکہ مثیلِ مسیح ہے اور وہ مسیح موعود اور مثیلِ مسیح میں ہوں. نوبت بایں جا رسید کہ پھر وہ صاحبِ وحی نبی بن بیٹھا‘ ہزاروں ماننے والے اپنے گرد جمع کر لیے اور بہت سی خلقِ خدا کی گمراہی کا سبب بن گیا.

غلام احمد پرویز نے بھی یہی طریق کار استعمال کیا. اس نے لونڈی غلاموں کا مسئلہ‘ یتیم پوتے کی وراثت‘ قتل مرتد اور تعددِ ازدواج جیسے مسائل کھڑے کر دیے. یہ وہ مسائل ہیں جو قرنِ اوّل سے تاامروز متفق علیہ رہے ہیں اور اہل سنت کے تمام فقہی مکاتب کاان پر اجماع ہے. یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ بڑا حساس 
(touchy) ہے‘ اس نے بڑے جذباتی اور جگرسوز (pathetic) انداز میں اپنے زورِ قلم سے یتیم پوتے کے لیے ہمدردیاں حاصل کیں. اس طرح قرآن کے نام پر ان تمام مجمع علیہ مسائل کے خلاف ایک محاذبنا کر اس نے بہت سے لوگوں کو انکارِ حدیث و سنت کی ضلالت میں مبتلا کر دیا. حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ بھی شریعت ِاسلامی کی الف‘ با‘ تا بھی جانتے ہیں ‘ وہ اس کی بنیادوں کو جانتے ہیں‘ اس کے دلائل سے واقف ہیں. لیکن ہمارے معاشرے کے ’’پڑھے لکھے جاہل‘‘ تو ایک کھلی چراگاہ کی مانند ہیں کہ کوئی بھی ذہین انسان اپنی انشاء پردازی اور اپنے خاص اسلوبِ نگارش کو کام میں لا کر دھواں دار کتابیں لکھے اور اس طبقے میں سے کثیر تعداد میں لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا کر ایک جمعیت فراہم کر لے. اب خود سوچیے کہ جو لوگ قائل ہو گئے ان کے اذہان پر کیا اثرات مرتب ہوئے! ہلکے سے ہلکے انداز میں یہ تأثرات بیان کیے جائیں تووہ یہ ہوں گے کہ ہمارے ائمہ کرام‘ فقہائے عظام‘ لائق احترام محدثین اور مفسرین بڑے بھولے بھالے تھے کہ ان کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آئیں. ان کی حقیقت منکشف ہوئی ہے تو اس شخص پر ہوئی ہے! یہ ہے وہ طریق کار جس سے قرآن کے نام پر اٹھنے والی دعوتوں اور تحریکوں نے منفی انداز اختیار کیا‘ لوگوں کواسلاف سے بدظن کر دیا اور ان کا حال کٹی ہوئی پتنگ کا سا ہو گیا کہ ہوا جدھر چاہے اس کو لے جائے.