میرے لیے اس معاملے میں بہت بڑی تشویش والی بات ہو گئی تھی کہ ایک ایسے بزرگ نے بھی یہی روش اختیار کی جو خود مفسر قرآن ہیں. ان سے میرا طویل عرصے تک قریبی تعلق و رابطہ رہاہے‘ میں نے ان کی خدمت بھی کی ہے اور اُن کے فکر کی بھی. میں نے ان کی کتابوں کو شائع بھی کیا ہے.ساری عمر قرآن کے پڑھنے پڑھانے میں بِتا کر آخر کار یہ ہوا کہ رجم کے متعلق انہوں نے یہ رائے دے دی کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کے لیے اسلام میں حد علیحدہ علیحدہ نہیں ہے‘ بلکہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی وہی سو کوڑے ہیں جو قرآن میں آئے ہیں. رجم کا معاملہ تو تعزیر سے متعلق ہے‘ کوئی شخص غنڈہ ہو‘ اوّل درجے کا بدمعاش ہو‘ جو معاشرے میں سانڈ بنا پھرتا ہو لیکن پکڑ میں نہ آ رہا ہو‘ ایسا شخص جب پکڑ میں آ جائے گا تو وہ رجم کر دیا جائے گا‘ ورنہ رجم باقاعدہ حد نہیں ہے‘ عام شادی شدہ زانی کی سزا وہی سو کوڑے ہیں جو قرآن میں ہے. اللہ تعالیٰ ان بزرگ کو معاف کرے اور انہیں توفیق دے کہ وہ اس موقف سے رجوع کریں اور توبہ کریں. (۱

آدمی کے سر پر جب ایک فلسفہ سوار ہو جاتا ہے تو وہ تمام احتیاطوں کو نظرانداز کر کے اپنی رائے کے حق میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جس کی اس سے توقع نہیں ہوتی. چنانچہ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ جن کی توبہ کے متعلق نبی اکرم کی صحیح روایت موجود ہے کہ اس نے وہ توبہ کی ہے 
(۱) یہ بزرگ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم تھے. افسوس کہ وہ آخر دم تک اسی موقف پر جازم رہے اور اس سے رجوع نہیں کیا. کہ اگر ایک بڑے گروہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہوجائے‘ (۱ان صحابی کے لیے ان بزرگ نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں اپنی تفسیر میں ’’نہایت بدخصلت غنڈا‘‘ کا لفظ استعمال کیا (نقل کفر‘ کفر نباشد)‘ یہاں تک لکھ دیا کہ ’’روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اور آپؐ کے صحابہؓ ‘کسی غزوے کے لیے نکلتے تو یہ چپکے سے دبک کر بیٹھ رہتا اور مردوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر شریف بہو بیٹیوں کا تعاقب کرتا. بعض روایات سے اس تعاقب کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے کہ اس طرح تعاقب کرتا جس طرح بکرا بکریوں کا کرتا ہے‘‘. آگے اس سے بھی بڑھ کر ایک نہایت غیر شائستہ بات لکھی ہے. آگے اپنی تحقیق ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’آنحضرت کو اُس کی شرارتوں کی رپورٹ ملتی رہی ‘لیکن چونکہ کسی صریح قانون کی گرفت میں یہ نہیں آتا تھا اس وجہ سے آپؐ نے کوئی اقدام نہیں کیا . بالآخر یہ قانون کی گرفت میں آگیا.آپؐ نے اس کو بلوا کر تیکھے انداز میں پوچھ گچھ کی. وہ تاڑ گیا کہ اب بات چھپانے سے نہیں چھپ سکتی اس وجہ سے اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا. جب اقرار کر لیا تو آپؐ نے اس کے لیے رجم کا حکم دے دیا‘‘. (۲(۱) اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے نزدیک جن چھ کتب احادیث کو صحاحِ ستہ کہا جاتا ہے ان میں مسلم شریف کا شمار دوسرے نمبر پر ہوتا ہے. حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق رجم کے بعد نبی اکرم کایہ ارشاد مروی ہے: لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ اُمَّۃٍ لَوَسِعَتْھُمْ مصنف عبدالرزاق میں حضرت ماعز اسلمیؓ کے بارے میں حضور کے یہ الفاظ بھی آئے ہیں: اِنَّـہُ الْآنَ لَفِیْ اَنْھَارِ الْجَنَّۃِ یَنْغَمِسُ . 

(۲) ان بزرگ کی تحقیق کا تجزیہ کیجیے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاذ اللہ نبی اکرم نے موجودہ دور کے تھانہ داروں کی طرح 
third degree method استعمال کر کے ان صحابی کو اقرارِ جرم پر مجبورکر دیا تھا. حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اس طور پر حاصل شدہ اقرار جرم کی قانوناً کوئی حیثیت نہیں ہوتی. اس طرح واضح ثبوت کے بغیر محض ’’تیکھے انداز سے پوچھ گچھ ‘‘کے نتیجہ میں مجبور کرکے اقرارِ جرم کرانے کا الزام معاذ اللہ اس ہستی  پر عائد ہوتا ہے جو نظامِ عدل و قسط قائم کرنے کے لیے مبعوث ہوئی تھی : وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ . مزید برآں ایک نہایت قابل غور بات یہ ہے کہ ان محقق و مفسر قرآن نے متعدد مرتبہ لکھا ہے کہ ’’روایات سے معلوم ہوتا ہے ‘‘ لیکن کسی ایک روایت کا بھی حوالہ نہیں دیا‘ جبکہ تحقیق کا حق اور انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ ایک صحابی پر جب زبانِ طعن کھولی ہے تو اُن روایات کا حوالہ بھی دیا جاتاتاکہ تحقیق کی جا سکتی کہ ان روایات کا کیا مقام ہے! اکثر معتبر کتب احادیث میں جو روایات ملتی ہیں ان سب کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ماعز رضی اللہ عنہنے بغیر کسی جبر و اکراہ کے از خود اعتراف و اقرارِ جرم کیا تھا. نبی اکرم نے ان کو ٹالنا چاہا لیکن وہ مصر رہے کہ ان کو پاک کر دیا جائے. حضور نے تحقیق فرمائی کہ یہ نشہ تو نہیں کرتے؟ ان پر دیوانگی کا تو دَورہ نہیں پڑتا؟ جب ایسی کوئی بات نہیں نکلی کہ ’’شک‘‘ کا فائدہ ان صحابی کو پہنچ سکتا تو آپؐ نے ان کے اصرار پر رجم کی حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا. ان بزرگ کا ایک مستقل حلقہ ہے. ان کے معتقدین موجود ہیں جو انہی کی آنکھوں سے دیکھتے اوران ہی کے کانوں سے سنتے ہیں ‘ ان کی رائے پر اندھا اعتماد رکھتے ہیں. چنانچہ اسی حلقے سے ایک نوجوان ایسے نکلے کہ انہوں نے آگے بڑھ کر جو جسارت کی ہے وہ بھی مسلمانوں کے کلیجے کو چھلنی کر دینے والی ہے.

وہ اُس غامدیہ خاتون کے بارے میں کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) ’’وہ چکلا چلاتی تھی‘‘ جن کے بارے میں احادیث صحیحہ میں تفصیلات ملتی ہیں کہ وہ خود چل کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ’’حضورؐ !مجھ سے وہ خطا سرزد ہو گئی ہے جس کی سزا رجم ہے‘ مجھے پاک کر دیجیے‘ میں نہیں چاہتی کہ مجھے اس کی سزا آخرت میں ملے‘ مجھے اس گناہ سے یہیں پاک کر دیجیے!‘‘ رسول اللہ نے ہر طرح انہیں ٹالا کہ کیا کہہ رہی ہو! کہیں پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟ انہوں نے کہا حضورؐ مجھے تو اس گناہ سے حمل ہے. حضور نے فرمایا کہ ’’حمل ہے تو قصور تمہارا ہے‘ اس ننھی جان کا کیا قصور ہے جو تمہارے پیٹ میں ہے. جاؤ وضع حمل کے بعد آنا‘‘. وضع حمل کے بعد وہ اللہ کی بندی پھر آ گئی. آپ سوچئے کہ رجم کی سزا سے زیادہ سخت سزا واقعتا اور کوئی نہیں. پتھر مار مار کر ہلاک کرنا‘ سنگسار کرنا. لیکن وہ اللہ کی بندی چل کر پھر آ رہی ہے کہ ’’حضور بچے کی ولادت ہو گئی ہے‘ مجھے پاک کر دیجیے‘‘. حضور فرماتے ہیں کہ ’’ابھی اس کا وجود تیرے وجود کا محتاج ہے‘ یہ زندہ کیسے رہے گا؟ جاؤ اس کو دودھ پلاؤ‘‘. وہ اللہ کی بندی چلی گئی اور تیسری مرتبہ حاضر ہوئی تو بچہ اس کی گود میں تھااور روٹی کا ٹکڑا بچے کے ہاتھ میں تھا. وہ عرض کرتی ہے کہ ’’حضور دیکھئے یہ بچہ اب اس قابل ہو گیا ہے کہ اپنی غذا حاصل کر سکتا ہے‘ یہ میرے دودھ کا محتاج نہیں رہا‘ مجھے پاک کر دیجیے‘‘. میں اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس خاتون کے رجم کا حکم دیتے وقت کتنا بڑا پتھر اپنے دل پر رکھا ہوگا محمد رسول اللہ نے ‘ جن کی شان خود اللہ تعالیٰ نے رؤف و رحیم بیان فرمائی ہے! لیکن حضور نے شریعت کا تقاضا پورا فرمایا اور اس خاتون کو رجم کرنے کا حکم صادر فرمایا. یہ خاتون جس کی توبہ مثالی توبہ ہے‘ (۱جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوفِ آخرت اس کے دل پر کس طرح نقش تھا ‘ ان بزرگ کے حلقے کے ایک صاحب اپنے ممدوح کی وکالت میں اس حد تک پہنچ گئے کہ انہوں نے اس صحابیہ خاتون کے بارے میں انتہائی شرمناک الفاظ استعمال کیے.انہوں نے اس واقعہ سے متعلق صحیح احادیث کو یکسر مسترد کر دیا.