اب میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس دہری مشکل (dilemma) کا حل کیا ہے! ایک طرف قرآن مجید اور سیرتِ مطہرہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین کا جو بھی نتیجہ خیز‘ پائیدار اور مستقل کام ہو گاوہ قرآن کے ذریعے ہو گا. نبی اکرم کا اساسی منہجِ انقلاب قرآن مجید تھا ‘ ازروئے الفاظِ قرآنی : کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ… (البقرۃ:۱۵۱’’جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول بھیجا تم ہی میں سے جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے…‘‘آنحضور نے دعوت و تبلیغ اور تزکیہ و تربیت کا کام کیا تو قرآن کے ذریعے کیا‘ حکمت کی تعلیم دی تو قرآن کے ذریعے دی‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بنیانِ مرصوص بنایاتو قرآن کے ذریعے بنایا. اب اگر کوئی اس طرح کا کام کرنا چاہے گاتو قرآن مجید کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں. میں عرض کر چکا ہوں کہ پانچوں محاذوں کے لیے کارگر اور مؤثر تلوار ایک ہی ہے اور وہ قرآن ہے. ماضی قریب کے ہمارے دو اکابر یعنی شیخ الہند رحمہ اللہ علیہاور علامہ اقبال مرحوم اسی کے مؤید ہیں کہ اُمت کی اصلاح اور تجدید کا کام اگر ہو گا تو قرآن کے ذریعے ہو گا. جبکہ دوسری طرف قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں کا یہ حشر ہے. اسی وجہ سے علمائے کرام کے اندر ان کے بارے میں سوءِ ظن ہے اور وہ قرآن کے نام پر اٹھنے والی ہر دعوت اور تحریک سے خطرہ محسوس کرتے ہیں‘ اندیشوں اور خدشات میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص بھی کوئی نیا فتنہ کھڑا کر دے. میں جب اس نتیجے پر پہنچا تو اُس وقت سے مجھے علماء کرام کے اس موقف سے ایک ہمدری پیدا ہو گئی. لیکن اس عقدے کا حل کیا ہے؟ اس حل کے ضمن میں میرے سامنے ایک پانچ نکاتی پروگرام ہے. میں اس کو اِس اعتبار سے پیش کر رہا ہوں کہ لامحالہ کام تو قرآن مجید ہی کے ذریعے کرنا ہو گا‘ البتہ فتنے سے بچنے کے لیے پانچ اصول ملحوظ رکھنے ہوں گے اور پانچ اقدامات کرنے ہوں گے.