کتابوں میں کوئی ایسی چیز نظر آ بھی جائے جو ہمارے لیے بظاہر قابل اعتراض ہو تو اوّلاًہم اس کی بہتر سے بہتر تأویل کرنے کی کوشش کریں گے‘ اگر تأویل کی گنجائش موجود ہو. لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہم یہ رائے قائم کریں گے کہ یہ قابل اعتراض بات ان کی کتاب میں کسی اور نے شامل کر دی ہو گی. اس لیے کہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ اعداء نے بڑے پیمانے پر یہ کام کیے ہیں. اس مسئلہ پر پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب نے بڑی تحقیق و تفتیش اور محنت و کاوش سے ’’تاریخ تصوف‘‘ نامی کتاب لکھی تھی. اس کتاب کا ایک باب ایسا تھا جسے کوئی سرکاری ادارہ شائع کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا. اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت دی اور میں نے اسے شائع کر دیا. اس باب کا عنوان ہے : ’’اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش‘‘. میں آپ کو دعوت دوں گاکہ اس کا مطالعہ ضرور کریں. اس میں چشتی صاحب مرحوم نے سینکڑوں مثالیں جمع کر دی ہیں کہ باطل پرست فرقوں خاص طور پر باطنیہ فرقے کے لوگوں اور غالی قسم کے اہل تشیّع نے اہل سنت کے صحیح العقیدہ صوفیاء کرام کی کتابوں میں ایسی باتیں شامل کر دی ہیں جو اُن کے مسلّمہ صحیح عقیدے اور منشاء کے خلاف ہیں.معلوم ہوا کہ ایک سازش کے تحت ہمارے بہت سے بزرگوں کی کتابوں میں تدسیس و تحریف ہوئی ہے. لہٰذا اسلاف میں سے کسی معتبر و معتمدعالم اور بزرگ کی کسی کتاب میں قرآن و سنت کے اعتبار سے کوئی قابل اعتراض بات نظر آئے گی تو اسے تدسیس و تحریف سمجھا جائے گا.کسی معتمد علیہ بزرگ کی توہین کرنا‘ ان کی تنقیص کرنا‘ ان کے احترام کو مجروح کرنا یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے. 

میں عرض کر چکا ہوں کہ اسلاف سے منقطع ہو کر انسان بے لنگر کا جہاز یا کٹی ہوئی پتنگ بن کر رہ جاتا ہے. چنانچہ جن لوگوں کا اسلاف کے ساتھ ادب‘ احترام‘ تعظیم ‘ اعتماد اور محبت کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے یا منقطع ہو جاتا ہے وہ بڑی آسانی سے فتنوں کاشکار ہو جاتے ہیں. اس بات کو ہمیشہ ایک کسوٹی (criterion) کی حیثیت سے پیش نظر رکھیے اور جو شخص بھی دین کی کسی خدمت کا مدعی ہو اُس کو پرکھنے‘ اس کے خلوص کو جانچنے کا ایک معیار اور اصول یہ بھی بنا لیجیے کہ اس کی صحبت میں بیٹھنے سے ‘ اس کی باتیں سننے سے‘ اس کی کتابیں پڑھنے سے آیا اَسلاف کے ساتھ دل میں احترام ‘ محبت اور حسنِ ظن پیدا ہوتا ہے یا اس کے برعکس سوءِ ظن کا معاملہ پیدا ہوتا ہے. یہ گویا اس بات کے لیے ایک اہم پہچان ہو گی کہ جو کام بھی خدمتِ دین یا قرآن کے نام پر اٹھایا گیا ہے آیا وہ صحیح رُخ پر جا رہا ہے یا غلط رُخ پر.