تقلیدِجامد اور اجتہادِ مطلق کے درمیان ہمیں ایک معتدل راستہ اختیار کرنا ہو گا. تقلید جامد سے میری مراد یہ ہے کہ بس ایک فقہ کو اس طرح پکڑ کر بیٹھے رہیں کہ اس سے ذرا بھی اِدھر یا اُدھر نہ خود ہوں گے نہ کسی کا ہونا برداشت کریں گے .گویا انسان اس معاملہ میں اتنا زُود حس اور الرجک ہو جائے کہ کسی دوسرے فقہ کی کوئی بات سامنے آئے تو ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ والا معاملہ ہو جائے. یہ درحقیقت وحدتِ اُمت کے لیے سخت نقصان دہ ہے. رہا عوام کا معاملہ تو ان کے بارے میں مَیں کہوں گا کہ اتباعِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نیت سے کسی ایک فقہ کو مستقلاً اختیار کر لیں تو مطلقاً کوئی حرج نہیں ‘ بلکہ یہ ان کے لیے بہتر ہے. وہ تو اپنے مسلک کے معتمد علماء سے جا کر فتویٰ لیں گے‘ انہیں کیا معلوم کہ اس معاملہ میں امام ابوحنیفہ‘ اما م مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے دلائل کیا ہیں! اگر معلوم ہو بھی جائے تو ان میں اتنا فہم نہیں ہوتا کہ وہ موازنہ کر سکیں کہ کس کی دلیل قوی اور اقرب الی السنہ ہے. لہٰذا ان کے لیے عافیت اسی میں ہے کہ وہ ایک فقہ کی پیروی کریں . اس لیے کہ اہل سنت کے تمام فقہی مسالک و مکاتب کا مأخذ کتاب و سنت ہی ہے. جیسے میں نے ایمان کے ضمن میں عوام کے بارے میں عرض کیا تھا کہ کسی صاحب یقین و ایمان کی صحبت بھی کفایت کر سکتی ہے‘اسی طرح ان کے لیے کسی ایک فقہ کی پیروی کرنے میں مطلقاً کوئی حرج نہیں. البتہ ان پر یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ اہل سنت کے تمام مسالک مبنی برکتاب و سنت ہیں‘ تاکہ دوسرے مسلک کے پیروکاروں کے متعلق ان کے دلوں میں غیریت کا احساس بالکل پیدا نہ ہو. 

رہا ان حضرات کا معاملہ جو دین کے خادم ہیں‘ جو میدان میں آ کر دین کی خدمت کر رہے ہیں‘ جن کے سامنے اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور احیائے دین کی منزل ہے‘ انہیں تو یقینا اس تقلیدِ جامد سے نکلنا پڑے گا. ان کو سمجھنا چاہیے کہ جب ہم اہل سنت کے تمام مسالک کو اپنا مشترکہ اثاثہ اور علمی ورثہ سمجھتے ہیں‘ ائمہ اربعہ کو اہل سنت کے امام مانتے ہیںاور امام بخاریؒ کی 
صحیح الجامع کو اصحّ الکُتبِ بعدَ کِتاب اللّٰہتسلیم کرتے ہیں تو کم از کم ان پانچ دائروں کی حد تک تو اپنے قلب و ذہن کو کشادہ اور وسیع کیا جائے.

مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ کی تقریر کے حوالے سے ‘جو ’’وحدتِ اُمت‘‘ کے نام سے مطبوعہ موجود ہے‘ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کے قرآن کی تبلیغ و دعوت کے بارے میں عزائم کا ذکر کیا جا چکا ہے جن کا اظہار حضرت شیخ الہندؒ نے اسارتِ مالٹا سے واپسی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علماء کے ایک اجتماع میں کیا تھا. اسی کتاب میں بیہقی‘ ٔ وقت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ علیہ کا ایک ایسا واقعہ مفتی صاحبؒ نے بیان کیا ہے کہ اسے آبِ زر سے لکھا جائے تو بھی اس کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوتا اور اس کو جس قدر عام کیا جائے اسی قدر اِن شاء اللہ ہمارے یہاں فقہی معاملات میں جو تشتّت و افتراق ہے‘ اس میں بڑی حد تک اعتدال آ سکتاہے. مفتی صاحب راوی ہیں کہ حضرت انور شاہؒ ایک موقع پر بہت مغموم بیٹھے تھے . میں نے پوچھا : حضرت کیسا مزاج ہے؟ کہا: ’’ہاں! ٹھیک ہی ہے‘ میاں‘ مزاج کیا پوچھتے ہو‘ عمر ضائع کر دی‘‘. مفتی صاحبؒ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں‘ دین کی اشاعت میں گزری ہے. 
آپ کے شاگرد علماء ہیں‘ مشاہیر ہیں. اگر آپ کی عمر ضائع ہوئی تو کس کی عمر کام میں لگی؟ فرمایا: ’’میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ عمر ضائع کر دی!‘‘ میں نے عرض کیا : حضرت بات کیا ہے؟ فرمایا: 

’’ہماری عمر کا‘ ہماری تقریروں کا‘ ہماری ساری کد و کاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کر دیں‘ امام ابوحنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں. یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا‘ تقریروں کا اور علمی زندگی کا! اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ ابوحنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں؟ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا‘ وہ تو ہمارے محتاج نہیں.

اور امام شافعیؒ ‘ امام احمد بن حنبل ؒ اور دوسرے مسالک کے فقہاء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں‘ کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو صواب محتمل الخطأ(درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے)ثابت کر دیں اور دوسرے کے مسلک کو خطأ محتمل الصواب (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے ) کہیں‘ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں ان تمام بحثوں‘ تدقیقات اور تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں.‘‘

پھر فرمایا:

’’ارے میاں! اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطا ‘ اجتہادی مسائل صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیں ہو سکتا‘ دنیا میں بھی ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح ‘ یا یہ کہ یہ صحیح ہے‘ لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطا ہو‘ اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو. دنیا میں تو یہ ہے ہی ‘ قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق تھی یا بالسّر حق تھی‘ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہو گا.‘‘
مفتی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ کے مزید الفاظ یہ تھے:

’’اللہ تعالیٰ شافعی ؒ کو رسوا کرے گا نہ ابوحنیفہؒ ‘کو‘ نہ مالکؒ ‘کو اور نہ احمد بن حنبلؒ ‘کو ‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے علم کا انعام دیا ہے‘ جن کے ساتھ اپنی مخلوق کے بہت بڑے حصے کو لگا دیا ہے‘ جنہوں نے نورِ ہدایت چار سو پھیلایا ہے ‘ جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے میں گزریں‘اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا کہ وہاں میدانِ 
حشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے کہ ابوحنیفہؒ نے صحیح کہا تھا یا شافعیؒ نے غلط کہا تھا یا اس کے برعکس‘ یہ نہیں ہوگا.‘‘

وقت کی اہم اور شدید ترین ضرورت ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ ‘کا قول اور حضرت مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کے ان اقوال کو کم از کم دیوبندی اور تھانوی حلقوں میں جس قدر ممکن ہو پہنچایا جائے ‘تاکہ جو اِن حلقوں کے متوسلین اور عقیدت مند ہیں ان کی تو آنکھیں کھلیں کہ ہمارے یہ دو نہایت ہی قابلِ اعتماد متقی اور متدیّن اکابر اپنی عمر کے آخری دَور میں پہنچ کر اپنے تجربات کی روشنی میں کن نتائج تک پہنچے تھے! علمی اعتبار سے اور جہادِ حریت کے حوالے سے جہاں شیخ الہندؒ کابلند ترین مقام سمجھا جاتا ہے وہاں حضرت انور شاہ صاحبؒ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ محدث اور فقیہہ ہونے کے اعتبار سے وہ چودہویں صدی کی شخصیت نہیںہیں بلکہ وہ تو پرانے دَور کی علمی شخصیتوں کے ہم پلہ شخصیت ہیں. انہیں بیہقی ٔ وقت کہا جاتا ہے.ان بزرگوں نے اپنی عمر کے آخری دور میں جو باتیں کہی ہیں‘ کاش ان کے متوسلین تو کم از کم ان پر غور کریں‘ سوچیں اور اپنے طرزِ عمل میں ان اکابر کی باتوں کے پیشِ نظر خوشگوار اور صحت مند تبدیلی لانے کی فکر کریں! ان اقوال کی شہادت دینے والے بزرگ مفتی ٔ اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ ہیں ‘جن کے ثقہ راوی ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا.

مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کے خیالات کے پیش نظر تقلید جامد اور اجتہادِ مطلق کے مابین ایک معتدل راستہ نکالنا ہو گا‘ خاص طو رپر اُن حضرات کو جو علمی میدان میں خدمتِ دین اور خدمتِ قرآن میں لگے ہوئے ہیں. میں اپنے بارے میں کہتا ہوں کہ میں نیم مقلد ہوں. یعنی میں مقلد ہوں پانچ کا‘ صرف ایک کا نہیں. چار تو اہل سنت کے متفق علیہ ائمہؒ ہیں‘ اور پانچویں امام بخاریؒ ‘ جن کی کتاب کے متعلق سب مانتے ہیں کہ 
’’اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ‘‘ . میں ان پانچ کے دائرے کے اندر اندر رہنے میں اپنے لیے عافیت سمجھتا ہوں. اللہ کرے کہ مستقبل میں اللہ تعالیٰ کسی ایسی عظیم شخصیت کو کھڑا کر دے جس کے تقویٰ‘ تدین‘ فہم دین‘ اصابت رائے اور خلوص و اخلاص پر اُمت کے بڑے حصے بالخصوص علمائے حق کی اکثریت کا اجماع ہو جائے تو وہ تمام فقہی مسالک میں عمیق غور و فکر کے بعد پوری للّٰہیت اور خدا ترسی کے ساتھ اُمت کو ایک فقہی مسلک پر مجتمع کر دے. ایسی شخصیت کا یہ مقام ہو گا کہ وہ کسی مسئلہ کے متعلق دین کے دائرے کے اندر اجتہادِ مطلق کر سکے. اس دَور میں ہم جیسے کم علم اس طرح کی حرکت کریں گے تو دین کے خلاف بغاوت اور ایک بہت بڑے فتنے کاآغاز کرنے کا باعث بنیں گے. چنانچہ عافیت اسی میں ہے کہ رہیں اس دائرے کے اندر‘ لیکن یہ نہیں کہ بس ایک ہی فقہ کادائرہ ہو. عوام کا معاملہ اور ہے‘ وہ اپنے اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں اور روز مرّہ کے مسائل میں اپنے مسلک کے معتمد علماء کی طرف رجوع کریں. جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہی ہدایت میں نے تنظیم اسلامی کے رفقاء کو دی ہے. فقہی مسائل کے بارے میں مَیں اپنی رائے کے اظہار سے بھی حتی الامکان گریز کرتا ہوں. البتہ میرا ایک مزاج ہے اور میں اسے چھپانا نہیں چاہتا کہ میں مقلد محض نہیں ہوں‘ میں نیم مقلد ہوں. میں ان پانچوں ائمہ کا مقلد ہوں اور ان پانچوں کے دائروں سے باہر جانے کو میں غلط سمجھتا ہوں. یہ ہماری مشترک متاع ہے. ان دائروں کے اندر اندر جس کی رائے کو بھی اقرب الی السنۃ اور اقرب الی الصواب سمجھتا ہوں‘ اسے ترجیح دیتا ہوں.