اس پروگرام کی تیسری شق دعوت رجوع الی القرآن سے متعلق ہے.میں نے اشارہ کیا تھا کہ جب میں نے اس دعوت کا آغاز کیا تھا تو چند اصول پلّے باندھ لیے تھے. کام کے ساتھ ساتھ بفضلہ تعالیٰ ان اصولوں پر وثوق حاصل ہوتا رہا اور اللہ کی توفیق سے چند اور اصول بھی سامنے آتے رہے‘ جن کو میں نے ہمیشہ پیشِ نظررکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے. وہ اہم اصول پیش کیے دیتا ہوں.

دعوت رجوع الی القرآن کا ایک تعلق احکام سے ہے. اس ضمن میں میرا ایک مستقل اور اٹل موقف رہا ہے اور وہ بالکل منطقی ہے کہ اس کا سارا دار و مدار اور تعلق نبی اکرم کے عمل سے ہے. ظاہر بات ہے کہ جو لوگ آنحضور سے جتنے زیادہ قریب تھے ‘ اسی نسبت سے سب سے زیادہ استفادہ انہوں نے کیا. یہ تھے حضرات صحابہ کرامj. نمبر دو پر تابعین ہیں جو صحابہ کرامؓ کے تربیت و صحبت یافتہ تھے اور نمبر تین پر آتے ہیں تبع تابعین. یعنی تابعین سے مستفیض و مستفید ہونے والے اور تربیت پانے والے حضرات رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اسی کی وضاحت ہے جو نبی اکرم کے ایک ارشاد میں ہمیں ان الفاظ میں ملتی ہے : خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ (۱جو جتنا دُور تھا اس کافاصلہ بڑھتا جا رہا ہے‘ جو جتنا قریب ہے وہ اتنا ہی قابل اعتماد ہے. اس نے اگر حضور کو نہیں دیکھا تو حضور کے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب فضائل اصحاب النبی  . وصحیح مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ‘ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم… تربیت یافتہ لوگوں کو دیکھا ہے‘ ان کی صحبت اٹھائی ہے. اگر ان کو نہیں دیکھا تو ان کے تربیت یافتہ لوگوں کو دیکھا ہے‘ان سے فیض اور افادہ حاصل کیا ہے. تو اُمت کا یہ جو تواترِ عمل ہے یہ سنت کو معلوم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے. لہٰذا احکامِ دین کا جہاں تک تعلق ہے‘ اس میں کوئی نئی بات کہنا فتنہ اور فساد کی اصل جڑ ہے.اس میں تو کوشش ہو کہ پیچھے سے پیچھے جائو‘ حتیٰ کہ پہنچ جاؤ محمد رسول اللہ تک: ؎

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی تمام بولہبی ست!

جہاں تک دین پر عمل کا تعلق ہے تو میں عرض کر دوں کہ قرآن حکیم کی وہ آیات ایک پارے کے بقدر بھی نہیں بنیں گی جو عملی طور پر احکام دین سے متعلق ہیں‘ جن سے فقہی مسائل کا استنباط ہوتا ہے. اصل میں عمل کا سارا دار و مدار سنتِ رسولؐ پر ہے. قرآن مجید میں نماز کی کتنی تاکید ہے. اسے ہر وہ شخص جانتا ہے جس کا دین سے ذرا بھی تعلق ہے‘ بلکہ اس بات کو تو وہ بھی جانتے ہیں جن کا دین سے عملی تعلق منقطع ہے. لیکن نماز کی ہیئت اور ترتیب کہاں سے ملے گی؟ اوقات کہاں سے ملیں گے؟ قرآن میں اشارات ہیں‘ لیکن نماز سے متعلق پورا نظام سنتِ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے ملے گا. رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ (۱’ ’نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو‘‘.چنانچہ جہاں تک احکامِ دین اور فقہی مسائل کا‘تعلق ہے وہ سنت میں ملیں گے. سنت ہی احکامِ قرآن کی عملی تفسیر ہے‘ اسی سے استنباط ہوگا‘ استشہاد ہوگا‘ حتیٰ کہ اجتہاد ہوگا. لہٰذا اس معاملہ میں پیچھے سے پیچھے جایئے‘ آگے مت جایئے! احکام کے بارے میں ائمۂ مجتہدین اور محدثین کے دائرے سے باہر قدم نہ نکالیے.

دوسرا یہ اصول میں نے گِرہ میں باندھ رکھا ہے کہ قرآن اور احادیثِ صحیحہ میں جو معجزات‘ خرقِ عادت اور محیر العقول برکات و واقعات مذکور ہیں‘ ان سب پر ہمیں حرف بہ حرف (literally) ایمان لانا ہو گا. اس لیے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور وہ جس ربّ العالمین اور خالقِ کائنات کا انسان سے تعارف کراتا ہے وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ کی شان کا بھی حامل ہے‘ وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ بھی ہے‘ اور صرف وہی اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ اور اَلْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہے. لہٰذا اس معاملہ میں مَیں کسی تأویل کا روادار نہیں. ان کو جوں کا توں قبول کرنا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب الاذان للمسافر… میں ایمان کا لازمی جزو سمجھتا ہوں.

تیسری بات یہ کہ قرآن مجید میں جن انبیاء و رُسل علیہم السلام اور جن اقوام و ملل کا ذکر ہے وہ بطور ِتذکیر اور بطورِ عبرت ہے. قرآن تاریخ یا جغرافیہ کی کتاب نہیں ہے کہ جس میں تمام معلومات جمع کر دی گئی ہوں. اس ضمن میں میری رائے ہے کہ تمدن کی ترقی کے ساتھ علم‘ جستجو‘ تحقیق اور معلومات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا آ رہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا. لہٰذا اس معاملے میں اگر ہمارے متقدمین علماء‘ محققین اور مفسرین کی آراء موجودہ تحقیقات و معلومات اور فراہم شدہ 
data سے مطابقت نہ رکھتی ہوں تو یہ بالکل فطری بات ہے‘ اس سے متوحش اور تشویش میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے. اِن شاء اللہ جوں جوں تحقیقات و معلومات کا دائرہ وسیع ہو گا اس کے نتیجہ میں قرآن مجید کی حقانیت مزید مبرہن ہوتی چلی جائے گی‘ قرآن میں جو اشارات ہیں وہ کھلتے چلے جائیں گے اور جو اجمال ہے وہ واضح ہوتا چلا جائے گا.

اسی طرح قرآن حکیم سائنس کی کتاب بھی نہیں ہے. اصلاً یہ کتابِ ہدایت ہے‘ 
ھُدًی لِّلنَّاسِ ہے‘ لیکن یہ خالقِ کائنات کا کلام ہے‘ لہٰذا اس میں سائنسی مظاہر (scientific phenomena) کی طرف جابجا اشارے کیے گئے ہیں. کوئی اشارہ جیالوجی سے متعلق ہے‘ کوئی چیز علم فلکیات کے میدان کی ہے‘ کوئی چیز بیالوجی سے تعلق رکھتی ہے تو کوئی چیز فزیالوجی اور کوئی ایمبریالوجی (جنینیات) کے دائرے کی ہے. آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآنِ مجید میں علم الجنین کا کتنی بار حوالہ آیا ہے اور رحم مادر میں جنین کے مختلف مراحل بیان ہوئے ہیں کہ وہ پہلے نُطفہ ہوتا ہے‘ پھر عَلقہ بنتا ہے ‘ پھر مُضغہ کی صورت اختیار کرتا ہے ‘پھر عِظام (ہڈیوں) کا مرحلہ آتا ہے‘ پھر ان ہڈیوں پر لحم (گوشت) چڑھتا ہے‘ پھر وہ زندہ انسان کی صورت میں رحم مادر سے تولّد ہو جاتا ہے. الغرض جتنے بھی سائنٹیفک پہلو اور گوشے ہیں‘ ان سب کے متعلق قرآن مجید میں اشارات موجود ہیں. ان کے متعلق جدید تحقیقات کی روشنی میں اگر یہ رائے دی جائے کہ ہمارے متقدمین علماء و مفسرین ان امور کو سمجھ نہ پائے تو یہ کوئی اچنبھے اور حیرانی والی بات نہیں. ان کے زمانے میں سائنس کا علم جس سٹیج پر تھا ظاہر بات ہے کہ وہ اسی کے مطابق قرآن مجید کے اشارات کی توجیہہ و تأویل اور تشریح و توضیح کرتے رہے. ان کے دَور تک سائنسی معلومات کا دائرہ بہت محدود تھا. اس سے آگے وہ کیسے جاتے؟ کسی کے لیے بھی اپنے دور کی موجود معلومات کے دائرے سے آگے جانا ممکن نہیں تھا. چنانچہ سات آسمانوں کی انہوں نے جو تعبیر کی‘ برجوں کی انہوں نے جو توجیہہ کی‘ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (الانبیائ) کی جو تعبیر کی یا جو بھی انہوں نے سَخَّرَلَـکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ (الجاثیۃ:۱۳کا مفہوم سمجھا‘ ان سب کو انہوں نے اُس وقت کے فراہم شدہ data کی روشنی میں سمجھا اور بیان کیا.سائنس نے ہمارے دور میں جو ترقی کی ہے اور جدید تحقیقات کے نتیجے میں جو انکشافات کیے ہیں ان کی روشنی میں اب ان آیات کی جو تعبیر اور توجیہہ کی جائے گی ‘ جو مفہوم بیان کیا جائے گا تو یہ بات غلط نہیں ہو گی اور نہ اس سے ہمارے متقدمین کی کوئی توہین یا تنقیص ہو گی. عین ممکن ہے کہ مستقبل میں چند ایسے حقائق سامنے آئیں جو موجودہ تحقیقات سے بھی آگے کے ہوں. اس طرح قرآن کے عجائبات بھی مزید واضح ہوتے رہیں گے.

اسی طرح قرآن حکیم تخلیق کائنات کے جو اَدوار اور تخلیق آدم کے جو مدارج بیان کرتا ہے‘ پھر آفاق و انفس سے توحید باری تعالیٰ کے متعلق جو بدیہی اور فطری استدلال پیش کرتا ہے‘ ان سب کو جدید دور کے مسلّمہ اکتشافات‘ تجربات اور سائنسی حقائق کی روشنی میں موجودہ تعلیم یافتہ طبقے کی تفہیم و تعلیم کے لیے جدید اصطلاحات کے حوالے سے بیان کرنا ہو گا. یہی ابلاغ کا تقاضا ہے‘ لہٰذا اس کو اختیار کرنا ضروری ہے.اسی طرح موجودہ دَور کے تمام مادہ پرستانہ نظریات ‘ملحدانہ افکار اور طاغوتی نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں قرآن کی انقلابی دعوتِ توحید پر ایمان لانے اور پھر اس ایمان و ایقان کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق جو مقتضیات‘ مضمرات‘ مطالبات اور توحید کی جو فروع 
(corollaries) ہیں‘ اس کے جو صریحی و منطقی اور بدیہی نتائج ہیں‘ ان کو موجودہ دَور کی اصطلاحات کے حوالے سے پیش کرنا ضروری ہے. یعنی اوّلاًتمام بنی نوعِ انسان کی اللہ کے بندے اور آدم کی اولاد ہونے کے ناطے کامل مساوات. اللہ کے نزدیک اکرم و اشرف وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو. ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـٹکُمْ (الحجرات:۱۳ثانیاًانسان کی ہر نوع کی حاکمیتِ مطلقہ کی نفی. یعنی اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ کا اثبات اور اس کی توضیح و تشریح اور حاکمیت کی جگہ خلافت کا تصور ثالثاًملکیت مطلقہ کی نفی اور لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ کی تشریح اور ملکیت مطلقہ کی جگہ امانت کا تصور. 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قرآن کی عظمت کے بارے میں جو ایک طویل حدیث آئی ہے اس 
میں وارد جوالفاظ ہیں وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَائُ وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ (۱یعنی ’’علماء کبھی اس کتاب سے سیر نہ ہو سکیں گے‘ نہ کثرت و تکرارِ تلاوت سے اس کے لطف میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات یعنی نئے نئے علوم و معارف کا خزانہ کبھی ختم ہو سکے گا ‘‘تو میرے نزدیک اس کا حقیقی مفہوم یہی ہے کہ دنیا میں قرآن مجید‘فرقان حمید ہی اس ہدایت کی حامل کتاب ہے جو ہر دور کے مشرکانہ‘ خداناآشنا اور ملحدانہ نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں انسان کی رہنمائی اور فلاح کے لیے توحید پر مبنی ‘ ہر نوع کے استحصال‘ تعدّی اور استبداد سے پاک اجتماعی نظامِ عدل و قسط پیش کرتا ہے. اسی نظام کو بالفعل قائم کرنے کی جدوجہد ہی اقامتِ دین کی جدوجہد ہے .اور میری پختہ رائے ہے کہ جب تک موجودہ اصطلاحات کے حوالے سے دین حق کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا نہ دعوت وتبلیغ کا کماحقہ ٗ حق ادا ہو گا‘ نہ ابطالِ باطل ہو گا نہ احقاقِ حق چنانچہ میں اپنی دعوت میں ان تمام امور کو ملحوظ رکھتا ہوں اور اِن شاء اللہ رکھوں گا. میرے نزدیک اسی طرزِ فکر وعمل کا نام ہے حکمت ِدین!

میں نے آج یہ باتیں آپ کے سامنے قدرے تفصیل سے مربوط طریقے سے بیان کی ہیں. تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق کام کر رہا ہوں اور دن رات جس کام اور جس دعوت کی دُھن مجھ پر مسلط ہے وہ بحمداللہ انہی اصولوں کے تحت ہے. اللہ تعالیٰ مجھے اپنے خزانۂ فضل سے مزید توفیق و ہمت دے کہ اُس کی کتابِ عزیز کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکوں اور اس کے علوم و معارف کی توضیح و تشریح کی سعادت پا سکوں اور اسی حال میں آخرت کے لیے رختِ سفر باندھوں.