آخر میں چند معروضات پیش خدمت ہیں. مرکزی انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام پہلی قرآن کانفرنس ۱۹۷۳ء میں منعقد ہوئی تھی. اُس وقت میں نے کہا تھا کہ ہمارے یہاں ’’قران السعدین‘‘ اُس ساعت اور گھڑی کو کہاجاتا ہے جب دوسعید چیزیں جمع ہو جائیں‘ لیکن یہاں تو بفضلہ ’’قران السعداء‘‘ ہو گیا ہے ‘ اس اعتبار سے کہ اس پہلی کانفرنس میں عظیم شخصیتوں کے جانشین موجود تھے. وہاں ایک طرف مولانا عبدالرحمن اشرفی صاحب تشریف فرما تھے جو مفتی محمد حسن رحمہ اللہ علیہ بانی جامعہ اشرفیہ کے صاحبزادے ہیں. دوسری طرف ہمارے سٹیج پر مولاناعبیداللہ انور صاحب تشریف فرما تھے جو مولانا احمد علی رحمہ اللہ علیہ کے صاحبزادے اور جانشین ہیں. پھر اس میں مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ علیہ تشریف لائے تھے جو علمائے دارالعلوم دیوبند کی جانشینی کا اعزاز اور شرف رکھتے تھے. میری تو ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ جملہ مکاتب فکر کے علماء کو ایک سٹیج پر قرآن کا پیغام خلقِ خدا تک پہنچانے کے لیے جمع کیا جائے. چنانچہ ہماری قرآن کانفرنسوں میں جو اہم دینی و علمی شخصیتیں شریک ہوتی رہی ہیں ان میں سے چند نام پیش کرتا ہوں. مولانا شمس الحق افغانی‘ نامور عالم و محدث حضرت مولانا محمد گوندلوی‘ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی ‘ مولانا مفتی تقی عثمانی (جسٹس شریعت کورٹ)‘ مولانا ابوبکر غزنوی‘ مولانا داؤد غزنوی‘ پروفیسریوسف سلیم چشتی‘ مولانا محمد طاسین ‘ ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمن (چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) اپنے ملک کے علماء کرام ودانشوروں کے علاوہ بھارت کے کئی نامور علمائے کرام اور اہل دانش و بینش حضرات قرآن کانفرنسوں میں شرکت کر کے اپنے بیش بہا خیالات سے حاضرین کو مستفیض فرما چکے ہیں.مولانا حامد میاں مدظلہ خلیفۂ مجاز حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہاگرچہ خود تشریف نہیں لا سکے لیکن ہر کانفرنس کے لیے انہوں نے باہتمام اپنا وقیع مقالہ ارسال فرمایا.

اس وقت جلدی میں جو نام نوکِ زبان پر آئے ان کو بیان کر دیا گیا ہے‘ ورنہ الحمد للہ ہر کانفرنس اس لحاظ سے بے مثال تھی کہ قرآن مجید کے پیغام کے لیے ہر مسلک کے علماء نے تعاون فرمایا. میرے ساتھی جانتے ہیں کہ رجم کے سلسلہ میں جن بزرگ کا ذکر ہوا ہے ‘ اُس وقت میرا ان سے بڑے قرب کا معاملہ رہا تھا. تو اُس وقت انہوں نے میرے اس طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ان مولویوں کو سر پر بٹھا کر کیا لینا ہے؟ ان مولویوں کی تو ہمیں تردید کرنی ہے‘‘. لیکن اللہ کا فضل یہ ہے کہ میرا مزاج یہ نہیں ہے. میں علماء کرام کی خدمت میں مؤدبانہ حاضر ہوا کرتا ہوں اور میں تو یہ سمجھا کرتاہوں کہ میرے لیے تحفظ کی ایک چیز یہ ہے کہ میں عالمِ دین نہیں ہوں‘ محض قرآن مجید کا ایک طالب علم اور ادنیٰ خادم ہوں. ورنہ اگرکہیں مجھے بھی کوئی غرۂ علمی ہو گیا ہوتا‘ میں بھی کسی زعم میں مبتلا ہو گیا ہوتا تو اس عُجب کی وجہ سے میرے دماغ میں بھی خنّاس پیدا ہو گیا ہوتا جو میرے لیے آخرت میں ہلاکت کا سبب بن جاتا.میں صمیم قلب سے اللہ تعالیٰ سے کسی عُجب میں مبتلا ہونے سے پناہ کا طالب رہتا ہوں.

’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ نامی کتابچہ میں نے ۱۹۶۶ء میں لکھا تھا. اس کا ایک نسخہ میں نے ۱۹۷۰ء میں مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی خدمت میں پیش کیا تھا جبکہ وہ مسجد نبویؐ میں معتکف تھے. میں نے ان سے عرض کیا کہ اس کو بنظر غائر ملاحظہ فرما لیجیے‘ کیونکہ میں اسے بڑے پیمانے پر پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہوں. مجھے آپ کی رہنمائی درکار ہے‘ اگر کوئی غلطی ہو تو نشان دہی فرما دیں‘ میں اس کو درست کر لوں گا. مولانا نے ازراہِ شفقت اور ازراہِ تعاون علی البر میری درخواست قبول فرما لی‘ اعتکاف کی حالت میں مسجد نبویؐ میں اسے پڑھا اور صرف ایک جملہ میں ترمیم فرما دی. میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس ترمیم سے وہ جملہ مزید نکھر آیا‘ میرا جو مفہوم تھا 
وہ اس ترمیم سے مزید واضح ہو گیا اور میرے جملے سے جس مغالطے کے پیدا ہونے کا امکان تھا بحمداللہ مولانا نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ کی ترمیم سے اس کا احتمال ختم ہو گیا. تو اللہ کے فضل وکرم سے میرا مزاج تو یہ ہے‘ اور آج سے نہیں ابتدا سے ہے.الحمد للہ میں عُجب اور تکبر سے بچنے کی شعوری طور پر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتا رہتا ہوں. نبی اکرم نے تین مہلکات میں سے اس عُجب کو شدید ترین باعثِ ہلاکت قرار دیا ہے. آپ سے بھی درخواست ہے کہ میرے حق میں دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے مجھے بچائے رکھے.

کل رمضان المبارک کی ۲۹ ویں شب کو جامع القرآن‘ قرآن اکیڈمی میں ہمارا دورۂ ترجمۂ قرآن ختم ہوا ہے. یہ کام اللہ تعالیٰ کی توفیق و نصرت ہی سے تکمیل کو پہنچا ہے. اس سے مجھے ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ کام اِن شاء اللہ العزیز مقبول ہو گا اور دوسرے لوگ بھی اس کا اہتمام کریں گے. جیسے ہم نے ’’قرآن کانفرنس‘‘ کے سلسلہ کا آغاز کیا تو وہ اتنا عام ہو گیا کہ مختلف دینی حلقوں کی طرف سے قرآن کانفرنسوںکا سلسلہ شروع ہوگیا جو مسلسل جار ی ہے. ہمیں اس پر خوشی ہے. ہم نے کچھ اور نئے کام شروع کیے تو اس نہج پر بھی کام شروع ہو گیا. اللہ سب کو توفیق دے اور سب کے کاموں میں برکت دے‘ ان کو دین کے لیے سازگار بنائے‘ ایک کام کے لیے بیسیوں ادارے ہوں‘ سینکڑوں اشخاص ہوں‘ لیکن آپس میں ٹکراؤ اور تصادم نہ ہو تو یہ بڑی نیک فال ہے. میری معلومات کی حد تک رمضان المبارک میں تراویح .کے ساتھ دورۂ ترجمۂ قرآن پہلی مرتبہ پایۂ تکمیل تک پہنچا ہے . ہمارے یہاں تراویح تو ہر مسجد میں ہوتی ہے اور جن لوگوں کو توفیق ملتی ہے اور جن میں ذوق و شوق ہے وہ تراویح پڑھتے ہیں. اگر ہر چار رکعات تراویح سے قبل ان میں پڑھے جانے والے قرآن مجید کا حاضرین کو صرف ترجمہ سنا دیا جائے تو میرا اندازہ ہے کہ شرکاء چاہے عربی سے بالکل ہی ناواقف ہوں پڑھے جانے والے قرآن مجید کے کم از کم پچیس فیصد حصے کے مفہوم کو سمجھتے چلے جائیں گے. اس لیے کہ ترجمہ کے ذریعے قرآنی الفاظ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے اور یہ ذہنی رابطہ معنی اور مفہوم کوسمجھنے میں ممدہوتا ہے. اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے اور بڑی بڑی مساجد میں بڑے پیمانے پر ہمارے علماء کرام اس کام کی طرف توجہ دیں تو میرے نزدیک یہ بہت بڑا 
break through ہو جائے گا. 

ہمارے بعض احباب نے کل ختم قرآن کے موقع پر اپنے تأثرات کا اظہار فرمایا کہ یہ کام جتنا کٹھن نظر آ رہا تھا‘ اتنا کٹھن ثابت نہیں ہوا. سینکڑوں کی تعداد میں جن لوگوں نے شرکت 
کی ہے‘ ان میں اکثر وہ حضرات بھی تھے جو رات دو بجے تک اس پروگرام میں شریک رہے اور دن کو انہوں نے اپنے معمولات کے مطابق کام بھی پورے کیے. اور الحمد للہ یہ نہیں ہوا کہ شروع شروع میں لوگ آگئے ہوں‘ پھر جوش ٹھنڈا پڑ گیاہو‘ بلکہ مسلسل حاضری بڑھتی چلی گئی.اللہ کرے ہمار ے واجب الاحترام رجالِ دین کی توجہ اس طرف مبذول ہو جائے اور وہ اس کام کو شروع فرما دیں تو میرے نزدیک یہ بہت مفید کام ہو گا‘ خاص طور پر جاہلیت قدیمہ کے تمام مشرکانہ اوہام کی جڑیں کاٹ دے گا‘ شفاعتِ باطلہ کے جو عقائد ذہنوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا‘ اوہام کا طومار اِن شاء اللہ تراویح کے ساتھ لفظی ترجمہ کے ذریعہ چھٹتا چلا جائے گا اور توحید خالص نکھر کر اذہان میں جاگزیں ہوتی جائے گی. 

میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں‘ آپ بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو بھیاب تک خیر کی توفیق بخشی ہے وہ اسے شرفِ قبولیت بھی عطا فرمائے اور دوسرے لوگوں کو بھی ہمت دے کہ وہ میرے ساتھ جڑ کر اور میرے دست و بازو بن کر یہ کام کریں اوراس کے لیے ان کے دلوں کو انشراح عطا فرمائے. یہ نہیں تو ان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ صحیح نہج پر دین کاکام کریں. یہ صرف میرا کام نہیں ہے‘ یہ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی اور سرفرازی کے لیے اپنا تن ‘ من‘ دھن لگائے. اللہ تعالیٰ ایسے تمام لوگوں کی مساعی کو مشکور فرمائے. اگر ہمارے دلوں میں خلوص ہوا تو آج نہیں تو کل ہم جمع ہو جائیں گے. ہو سکتا ہے کہ مجھے کسی کے بارے میں اس وقت کوئی اندیشہ ہو‘ کسی کو میرے بارے میں خدشات ہوں‘ تو اپنی اپنی جگہ خلوص و اخلاص اور خشیت ِالٰہی کے ساتھ کام کریں گے تو ہم یہاں جمع نہ بھی ہو سکے تو دین کی جو بھی صحیح خدمت ہو گی اس کے اثرات اِن شاء اللہ مستقبل میں ایک جگہ جمع ہو جائیں گے اور آخرت میں تو ہم سب کو بالآخر جمع ہونا ہی ہے: 
اَللّٰہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَاج وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُO (الشوریٰ) 
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتoo