مکتوب جناب ڈاکٹر غلام محمد صاحب مدظلہ‘ کراچی

محترم المقام مولانا ڈاکٹر صاحب! زاد فضلہم‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘

میثاق بابت ذی الحجہ ۱۴۰۴ھ میں ’’قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریک‘‘ والی آپ کی قلمبند تقریر سے استفادہ کا موقع ملا‘ ان شاء اللہ یہ ’’توضیح خدشات‘‘ اس نوعیت کے شبہات کے ازالہ میں مؤثر ثابت ہو گی. اس شمارے کے اداریہ میں اس خطاب پر تبصرے کی اپیل پڑھ کر خیال آیا کہ بربنائے تعلق خاطر جو باتیں قابل عرض محسوس ہوئیں گوش گزار کر دوں. اس سلسلہ میں میری صرف دو معروضات ہیں: 

ایک تو یہ کہ اس قسم کے اہم اور نازک موضوعات اگر خود آنجناب کے قلم سے تحریر ہو جایا کریں تو لفظی احتیاط اور پیرایۂ اظہار کی خوبی اور افزوں ہو سکے گی.

دوسرے یہ کہ ’’انانیت اور عجب ‘‘سے اپنی ذات کی برا ء ت کا اظہار محل نظر ہے. عبدیت کی شان تو یہی ہے کہ 
’’وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ‘‘ کا اعتراف رہے. نجومِ ہدایت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات میں یہی وصف عیاں ہے. ’’نافق حنظلۃ‘‘ والا حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا اضطراب ہو یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے بارے میں یہ اظہار کہ ’’ لیتنی لم اکن شیئًا‘ لیتنی کنتُ نسیًا منسیًا‘‘ وغیرہ سب یہی درس فراہم کرتا ہے. صوفیاء کرام نے اس حقیقت کو سمجھا. اسی لیے ان سے جب پوچھا گیا کہ اخلاص کی شناخت کیا ہے تو فرمایا کہ ’’عدم رؤیۃ الاخلاص فی الاخلاص‘‘ . حضرت شیخ سعدی نے اپنے شیخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کی وصیت بھی اسی مفہوم کے ایک قطعہ میں منظوم کی ہے کہ ؎

مرا پیر دانائے روشن شہابؔ دو اندر ز فرمود بر روئے آب!
یکے آں کہ بر خویش خوش بیں مباش دگر آنکہ بر غیر بد بیں مباش!

اس سے زیادہ عرض غیر ضروری ہے. اور یہ جسارت بھی آں مخدوم کے ایماء اور فراخدلانہ تبصرہ طلبی کی بنا پر ہوئی. اللہ تعالیٰ ہم سب کی لاج دونوں جہاں میں رکھے اور اپنی رضا مندی کے کاموں پر استقامت کاملہ عطا فرمائے.

عرض جسارت پر معافی اور امید ِعفو کے ساتھ دعا کا ملتجی ہوں. والسلام مع الاکرام