مکتوب جناب مولانا اخلاق حسین صاحب قاسمی مدظلہ ‘ادارہ رحیمیہ ‘دہلی
محترم جناب ڈاکٹر صاحب! سلام مسنون

تنظیم اسلامی کے دونوں پرچے برابر پہنچ رہے ہیں‘ شکریہ .تنظیم کا سارا لٹریچر خاکسار کے مطالعے میں رہتا ہے اور جامعہ رحیمیہ کے اساتذہ بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں.
درس تفسیر کے طلبہ کو بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اسے بغور مطالعہ میں رکھیں. بڑا استفادہ ہوتا ہے. تازہ میثاق میں علماء اور دینی مدارس سے یہ ایپل کی گئی ہے کہ وہ دعوتِ قرآنی کے نظام پر اپنی رائے دیں.

آپ نے قرآن کریم کی بنیادی دعوت کو جس ترتیب اور تنظیم کے ساتھ پیش کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت ہے. 

جن حضرات نے دعوتِ قرآنی کے ساتھ عقائد ‘کلام اور فقہ کے جزوی مسائل میں اپنا دامن الجھایا وہ اس دعوت کا حق ادا کرنے میں کماحقہ‘ کامیاب نہیں ہو سکے.

دعوتِ قرآنی اور اجتہادی مسائل میں الجھنا دونوں چیزیں الگ الگ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کچھ اللہ کے بندے اپنی جدوجہد کو اسلام کی بنیادی دعوت تک محدود رکھیں اور اس اُمت کو خیر امت بنانے کے لیے ان کے فکر و عمل میں اسے بٹھائیں‘ جمائیں اور اس کے عملی تقاضوں کے لیے سر گرم عمل کریں.

حضرت امام ولی اللہؒ نے دعوتِ قرآنی سے اپنی اصلاحی اور تجدیدی سرگرمیوں کا آغاز کیا. اسی لیے شاہ صاحب کے ہاں اجتہادی مسائل کا درجہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور فقہی مسائل میں شاہ صاحب کے ہاں توسع ملتا ہے.

آپ نے شاہ صاحب کے طریق فکر کو اپنا کر صحیح راہ اختیار کی ہے. مخالفین نے شاہ صاحب کی راہ میں بھی اڑچنیں پیدا کیں اور انہیں اس راہ سے ہٹانے کے لیے سازشیں پھیلائیں ‘مگر شاہ صاحب اور ان کے جانشین اس راہ پر قائم رہے.

شاہ صاحب کا اصلاحی جہاد جب قلمی جہاد سے جہاد بالسیف کی منزل میں داخل ہوا تو تحریک جہاد میں شاہ صاحب کی حکمت عملی قائم نہ رہی اور نتیجہ میں تحریک جہاد درمیان میں ٹھنڈی پڑ گئی.

آپ نے قرآنی دعوت کو مرحلہ وار جس سائنٹفک طریقہ سے واضح کیا‘ وہ قابلِ تعریف ہے. اللہ کرے کہ آپ اس دائرے سے باہر نہ ہوں‘ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ علیہ اپنی انتہا پسندانہ تنقیدوں میں نیک نیت تھے مگر مرحوم کے قلمی جہاد کا وہ حصہ لوگوں کے لیے تشویش کا سبب بن گیا اور ماضی کے حالات کے پیش نظر علماء حق کو بھی خوف زدہ کر دیا. اس سے مودودی صاحب کی جدوجہد کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا.

تنقید اسی حد تک ٹھیک ہے جس حد تک قرآن حکیم کی دعوت کو فائدہ پہنچے ‘محض علم و تحقیق کا مظاہرہ دعوتِ حق کی راہ میں مشکلات پیدا کرتا ہے.

دعوتِ حق کی سیدھی ٹکر اس نام نہاد مسلم طبقہ سے ہے جو اسلامی احکام کے اجراء کو اپنی تعیش پسندی کے لیے موت کا پیغام سمجھتا ہے.

اسی طبقہ کی وسیع سازشوں اور فریب کاریوں سے پیچھا چھڑانا دعوتِ حق کے خدام کے لیے مشکل کام ہے پھر ہر طرف تیر چلانے اور سب کو للکارنے سے کیا فائدہ؟ آپ نے سلف صالحین اور معاصر علماء کے ساتھ احترام اور ادب کا اُسوہ اختیار کر کے اس نکتہ کو سمجھا ہے.
اب ضرورت اس کی ہے کہ دعوتِ قرآنی کے خدوخال واضح کرنے اور اس کی بنیاد پر ایک تنظیم کی تشکیل کرنے کے ساتھ ہی اصلاحِ معاشرہ کا عملی پروگرام وضع کیا جائے. اور اصلاحِ معاشرہ کی جدوجہد مثبت طریقوں پر جاری کی جائے. منفی طریقوں سے امکان بھر بچنے کی کوشش کی جائے. انقلابِ قیادت جیسے نعروں کا پاکستان میں جو حشر ہوا وہ سبق آموز ہے.

مولانا مودودیؒ ہر قدم پر یہ فرماتے رہے کہ دعوتِ حق کا کام کرنے والے حسب استطاعت مکلف ہیں‘ مگر مرحوم نے مسلم معاشرہ کی صحیح کمزوریوں کا صحیح جائزہ لیے بغیر استطاعت اور ماحول کے تقاضوں سے بے نیاز ہو کر بڑی لڑائی چھیڑدی. مرحوم اپنی تاریخ ضرور بنا گئے مگر وہ دعوتِ حق کی تحریک کا کام کرنے والوں کے لیے مایوسیاں چھوڑ گئے.

اب اقامت دین کی تحریک کی نا کامی اور وہ بھی ایک مسلم اسٹیٹ میں مخالفین کے لیے مثال بن گئی ہے.

خمینی صاحب کی طرح یہ احمقانہ نعرہ کون لگائے کہ مسلمان کی منزل شہادت ہے‘ گردن کٹانا ہے‘ خون بہانا ہے اور بہشت میں گھر بنانا ہے. دعوت حق کو اس خون بہانے سے کچھ ملے یا نہ ملے‘ بس خون بہا دو. 

اسلام میں پہلی منزل وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ َ کی ہے اس کے بعد وَ قَاتَلُوْا وَ قُتِلُوْا کی ہے. 
جماعت کے تمام رفقاء کی خدمت میں سلام مسنون .کراچی کے دونوں واحدوں کو سلام پہنچا دیں .صاجنراد گان گرامی کی خدمت میں بھی اور بھائی جمیل الرحمن صاحب کی خدمت میں بھی.

نومبر کے شروع میں لاہور آنے اور آپ کی ملاقات کا شرف حاصل کرنے کا ارادہ ہے. اور تعالیٰ خیر و عافیت رکھے‘ والسلام.