الحمد للّٰہ رب العالمین والصَّلوٰۃ والسَّلام علی سیّدنا محمد وآلہٖ واصحابہٖ اجمعین 

میں نے ماہنامہ میثاق بابت ماہ ذی الحجہ ۱۴۰۴ھ ستمبر ۱۹۸۴ء شمارہ ۹. جلد ۳۳ میں جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مدظلہم کا خطاب جو ’’قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے‘ پڑھا.

جو کچھ انہوں نے علماء حق کے خدشات بیان فرمائے ہیں وہ درست ہیں. جب ڈاکٹر صاحب سمن آباد میں درس دیتے تھے تو میں نے اسی خیال سے ان سے عرض کیا تھا کہ درسِ قرآن پاک کے ساتھ درسِ حدیث بھی ضرور ہونا چاہیے اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہت اعتدال رہتا ہے.

قرآن پاک ذووجوہ ہے. یہی حضرت علی نے حضرت ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا تھا (جب وہ خوارج سے گفتگو کرنے جا رہے تھے) کہ فقط قرآن پاک سے ہی مناظرہ میں استدلال نہ کریں بلکہ حدیث پاک سے بھی دلیل لیں.

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ محاصرہ میں تھے تو انہوں نے ایک باغی سے فرمایا کہ قرآن پڑھ کرسنا. اس نے قتال و جہاد کے مضمون پر مشتمل آیات پڑھنی شروع کیں. آپؓ نے ارشاد فرمایا 
کہ یہ آیتیں تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے حق میں نازل نہیں ہوئیں‘ یہ میرے اور میرے ساتھی صحابہ کے حق میں اتری ہیں اسی پر محمول کی جا سکتی ہیں‘ آج کے تمہارے پیدا کردہ حالات پر نہیں. 

اسی دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے 
اخطاؤا فی التاویل یعنی قرآن پاک کی توجیہہ اور اس سے استدلال میں یہ لوگ غلطی میں مبتلا ہیں. یعنی حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہماکی بات ایک ہی تھی.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما خوارج سے لڑائیوں کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے وہ آیتیں جو کفار کے بارے میں اتری ہیں‘ مسلمانوں پر منطبق کر دیں. اور 
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّلِلّٰہِ میں تو ان کا مغالطہ مشہور ہی ہے.

میں ڈاکٹر صاحب سے عرض کروں گا کہ:

ترجمہ قرآن پاک میں جو امور ملحوظ رکھنے ضروری ہیں ان کی نشاندہی بھی فرماتے رہیں‘ ورنہ ڈپٹی نذیر صاحب اور جناب احمد رضا خاں صاحب کے ترجمے بھی تو موجود ہیں‘ جنہیں پڑھنے والا یہی سمجھے گا کہ یہ قرآن پاک میں آیا ہے‘ قرآن پاک کا ترجمہ یہی ہے. حالانکہ وہ سب سے کمزور قول پسند کر کے ترجمہ کر ڈالتے ہیں. اور اصلاحی صاحب اور ان کے نئے مؤید اور نہ جانے کون کون جو بالکل ہی آزاد ہو کر ترجمے کر رہے ہیں ‘تفسیریں لکھ رہے ہیں تو 
ضَلُّوا وَاَضَلُّوا کے مصداق بن رہے ہیں. اس قسم کے لوگوں کے پرویز کے اور سر سید کے پیشر و معتزلہ ہیں. جنہوں نے دوسری صدی میں یہ اصول ایجاد کیا کہ جو بات عقل میں آئے گی وہ ہی مانی جائے گی. لہٰذا قرآن پاک کی آیات کی وہ توجیہہ کی جائے گی جو عقلاً ان کے نزدیک درست قرار پائے گی اور حدیث وہ مانی جائے گی جسے ان کی سمجھ قبول کرے گی یا اس میں ان کی عقل کے مطابق توجیہہ ممکن ہو گی ورنہ حدیث ہی کا انکار کر دیا جائے گا.
سر سید نے اسی اصول کو اپنایا اور معتزلہ کی دلیلیں استعمال کیں. تفسیر میں بھی اور حدیث میں بھی وہ جید علماء کے شاگرد تھے اور بڑی محنت سے پڑھے ہوئے تھے. انہوں نے بہت وقت لگا کر اور اپنی پوری ذہانت صرف کر کے یہ کام انجام دیا. مقالاتِ سر سید جو سترہ جلدوں میں ہیں‘ اسی قسم کی بحثوں کا ذخیرہ ہیں. چند سال قبل انکارِ مہدی پر ایک محققانہ مقالہ شائع ہوا تھا‘ وہ اسی ذخیرہ سے لیا گیا تھا. بلکہ محقق مضمون نگار نے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا تھا. سر سید اس سے بھی زیادہ لکھ گئے ہیں.

عقل کا استعمال فرض ہے مگر اصول اسلام جاننا اور ان سے نہ ٹکرانا بھی فرض اوّلین ہے. 
اس سے غفلت تباہی ہے. ؏ 
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے!

اگرچہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی عقل کو اگر احکامِ اسلامی کے مدلّل کرنے کی طرف لگایا جائے تو یہ نظر آئے گا کہ احکامِ اسلامی ہی عقلاً درست ہیں. یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس گمراہی کی اصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو چھوڑنا ہے. اسی سے شیعہ پیدا ہوئے‘ اسی سے خوارج‘ جہمیہ اور مرجئہ ‘ قدریہ وغیرہ. اور آج تک بھی جو فرقے پیدا ہو رہے ہیں یا بدعات سامنے آ رہی ہے وہ صحابہ کرام کی راہ سے ہٹنے کی وجہ سے ہیں. ارشادِ مبارک 
مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کس قدر معجزانہ ہے. اگر کسی کے دل میں صحابہ کرام ؓ کی عظمت ہو گی تو وہ ان کی پیروی کرے گا اور جو ان کی پیروی کرے گا‘ نجات پا جائے گا.

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ نے جو علماء کو جگہ جگہ عوام میں درسِ قرآن کریم کے اہتمام کی تجویز دی‘ اس پر عمل سے بہت فائدہ ہوا. اب بھی راولپنڈی‘ لاہور‘ رحیم یار خاں اور خانپور وغیرہ میں اس کے اہتمام کا سلسلہ جاری ہے. لیکن ہونا یہ چاہیے کہ جہاں بھی کوئی عالم ہے وہ عوامی درسِ قرآن اور درسِ حدیث دونوں کا اہتمام کرے.

آٹھویں‘ دسویں‘ بارہویں جماعت کے لڑکوں کو اگر ائمہ مساجد روزانہ قرآن پاک کی چند آیات پڑھا دیا کریں تو یہ طبقہ رٹہ لگانے کا ایسا ماہر ہوتا ہے کہ وہ اگلے دن ان کو زبانی سنا دیا کرے گا. یہ میرا تجربہ ہے. اس طرح جو فائدہ ہوتا ہے وہ اندازہ سے باہر ہے. شاید حضرت شیخ الہند ؒ کے ذہن مبارک میں اسی قسم کی کوئی سکیم ہو. اس طرح قرآن پاک کا ترجمہ یاد کر لینے کے بعد جو اس طالب علم کی ایمانی کیفیت ہو گی وہ ضرور انقلابی ہو گی اور مستحکم. 

چشتی صاحب مرحوم کی کتاب کے تذکرہ کے ذیل میں جو کتابوں میں تحریف کا ذکر آ گیا ہے اس کے بارے میں وضاحت فرما دی جائے کہ کتب حدیث وفقہ کی ہمیشہ شروع سے چھان بین ہوتی رہی ہے ‘وہ اس طرح کے تصرف سے منزہ ہیں. محدثین کے اصول بہت سخت اور پختہ ہیں. اسی طرح فقہاء کے بھی. مذہبی امور کے پرکھنے کا سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا بلکہ وہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے بانی ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ گواہ طلب کرتے تھے کہ یہ حدیث جو تم بیان کر رہے ہو کسی اور کو بھی لاؤ جس نے یہ سنی ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے قسم کھلواتے تھے ‘سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ‘ان سے قسم کا مطالبہ نہیں کیا.

حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ کے کلمات سے ایک عام آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ 
انہوں نے واقعی فضول کام میں زندگی گزاری اور ہم قرآن پاک کی خدمت کر رہے ہیں‘ تو ہم ان سے اچھے ہوئے. اس لیے یہ وضاحت فرمانی ضروری ہے کہ انہوں نے جو کیا وہ درست کیا. کیونکہ ایک مسلمان عالم جب کوئی مسلک اختیار کرتا ہے تو اسے قدرتی طور پر دلیل کی طلب ہوتی ہے کہ میں کس دلیل سے اس راہ پر چلوں اور کیوں اس مسئلہ پر عمل کروں تو وہ مطالعہ کرتا ہے. مطالعہ میں دوسرے ائمہ کرام کی دلیلیں بھی سامنے آتی ہیں تو ان میں موازنہ کا مطالعہ کرتا ہے جو کتابوں میں موجود ہوتا ہے. یہ اس کے مطالعہ کی بنیاد ہوتی ہے اور کتابیں اتنی زیادہ اور اتنی بڑی بڑی ہیں کہ ان کا احاطہ کرنے کے لیے انسانی زندگی نا کافی ہے.

اور ایسا آدمی جو حدیث پڑھاتا ہو حدیث کے میدان میں داخل ہو جاتا ہے. اور اس میں سے کبھی اُسے نکلنا نہیں ہوتا. اسماء الرجال‘ حالاتِ صحابہ‘ تاریخ صحابہ‘ سیرت‘ جغرافیہ اور بہت سے علوم میں اسے گہرا مطالعہ کرنا اور یاد رکھنا پڑتا ہے ‘وہ بھی اصول کے تحت بے اصول نہیں‘ تب جا کر انور شاہ بنتا ہے. ان کا یہ فرمانا کہ ’’کس چیز میں عمر برباد کی‘‘ محض تواضعاً ہے‘ ورنہ جس مسلک پر کوئی عالم با عمل و متقی زندگی گزار رہا ہے اس کی دلیل اور اسے ترجیح دینا خود عین دین ہے اور فرض منصبی. اور یہ کہ ’’صواب محتمل الخطا ہے یا خطا محتمل الصواب ہے‘‘. ایک ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے مگر عالم سبق پڑھاتے وقت یہ کہہ کر جان چھڑا لے اور دلائل پر روشنی نہ ڈال سکے‘ یہ ممکن نہیں اور اگر ان کے فرمان کا مطلب وہی ہوتا ہے جو بظاہر ان کے الفاظ سے سمجھ میں آ رہا ہے تو مولانا محمد یوسف صاحب بنوریؒ شرح ترمذی نہ لکھتے نہ حدیث وغیرہ پڑھاتے وہ ان کے شاگرد تھے. اور حضرت شاہ صاحب کے داماد حضرت مولانا سید احمد رضا صاحب مدظلہم شرح بخاری نہ لکھتے. بس سب ایک ہی رخ اختیار کرتے.

بات یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کو پسند ہوتا ہے اس کا آخری دنوں میں یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا عمر ضائع کر دی. حضرت اقدس مولانا مدنی ؒ ‘ مولانا انور شاہ کشمیریؒ ‘ حضرت مولانا محمود حسنؒ اور ان کا کیا ذکر ‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک یہی فرماتے تھے کہ ہم نے جو نیکیاں جناب رسول اللہ  کے ساتھ کی تھیں وہ قائم رہ جائیں 
بَرَدَ لَنَا اور جو کچھ آپؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کیا ہے وان کل عمل عملناہ بعدہ نجونا منہ کفافًا رَاسًا براس. بخاری ص ۵۵۷ ‘وہ برابر سرابر ہو کر نجات ہو جائے (تو میں اسے غنیمت سمجھوں گا).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جب وقت وفات آیا تو حضرت ابن عباسؓ سے تعریفی کلمات سن کر 
فرمانے لگیں وددتُ انی کنتُ نَسیًا مَنسیًا (ان سے تعریفی باتیں سن کر) میرا جی چاہا کہ میں ایسی ہوتی کہ بھلا بھی دی گئی ہوتی.

بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اس کا بندہ اپنے اعمال کی قیمت خود نہ ڈالے. اس لیے آخر میں اللہ کے محبوب بندوں کی سچ مچ یہی حالت ہو جاتی ہے کہ وہ یہ بالیقین کہتے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا. حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ زخمی حالت میں ہیں. آخری وقت قریب آتا جا رہا ہے. اس وقت ایک شخص نے تسلی کے لیے تعریفی کلمات کہے تو اس کے ہر ہر جملہ کا جواب عنایت فرمایا کہ یہ جو تم نے کہا ہے کہ میں رسول اللہ  کے ساتھ رہا اور آپؐ دنیا سے جب رخصت ہوئے تو مجھ سے راضی تھے تو یہ اللہ کا احسان ہے‘ جو اس نے مجھ پر فرمایا اور اسی طرح 
’’ما ذکرتَ من صحبۃ ابی بکرؓ ‘‘ جو تم نے ابوبکرؓ کے ساتھ رہنے کے بارے میں ذکر کیا کہ وہ مجھ سے خوش رہے اور جب انہوں نے وفات پائی تو وہ مجھ سے راضی تھے‘ یہ بھی ’’منٌّ مَنّ اللّٰہ بِہٖ عَلَیَّ‘‘ اللہ کا احسان ہے جو اس نے مجھ پر فرمایا ‘یعنی جو اچھائیاں تھیں وہ محض احسانِ الٰہی تھا وہ میری قابلیت نہیں تھی. 
بس جس پاکیزہ بندہ کی یہ حالت وفات کے وقت ہو جائے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ اللہ کا بہت ہی محبوب ہے. اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کی نیکیاں بالکل سلامت رہیں تو مولانا انور شاہ صاحبؒ کو ان کے استاذ محترم حضرت شیخ الہندؒ کی طرح ڈبل اجر ملے گا. ان شاء اللہ ایک اس کام کا جو انہوں نے زندگی بھر کیا دوسرے ان کی اگلی نیت کا .ہر گز کوئی کم عقلی کر کے اس خیال میں مبتلا نہ ہو کہ انہوں نے واقعی کچھ نہیں کیا تھا. اگر واقعی کچھ نہیں کیا تھا تو ڈاکٹر صاحب حضرت شیخ الہند ؒ کو اس صدی کا مجدد اور مولانا انور شاہ صاحب کو قدماء کی نظیر کیسے فرماتے. 

رحمھم اللّٰہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً واَلْحَقَنَا بھم 

ڈاکٹر صاحب نے بہت عمدہ اور مفصل طرح سمجھا دیا ہے کہ آج کل فتنے کس طرح پیدا ہورہے ان سے بچنا سب سے زیادہ ضروری ہے ‘کیونکہ ایمان سب سے بڑی دولت ہے اور اس کی حفاظت سب سے بڑا اور اوّلین فرض ہے. 

آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چاروں ائمہ اور امام بخاری رحمہم اللہ کی تقلید کا اگر کوئی سننے والا یہ مطلب لے کہ جس مسلک میں جو آسان چیز نظر آئے وہ اختیار کرے تو اسے تو ائمہ اربعہ کے علماء نے بالاتفاق نا جائز فرمایا ہے. ہاں اس کے برعکس عمل کرنا مستحب 
ہے. معمولی سی مثال یہ ہے کہ شافعی مسلک یہ ہے کہ اگر کسی مرد کا ہاتھ ہتھیلی کی طرف سے بغیر کپڑا حائل ہوئے کسی عورت کے لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا.مثلاً اگر کوئی اپنی ماں کے پاؤں دبا رہا تھا اور دستانہ پہنے ہوئے نہ تھا یا والدہ کے پاؤں پر چادرنہ تھی‘ بلا حائل پاؤں چھو رہا تھا تو وہ جب نماز پڑھنے لگے تو وضو کرے ‘کیونکہ اس کا وضو ٹوٹ گیا. حنفی حضرات کہتے ہیں کہ ایک حنفی شخص کے لیے بھی مستحب ہے کہ وہ دوبارہ وضو کر لے.

اسی طرح اگر کسی شافعی شخص کے خون نکل آیا تو شافعی مسلک میں خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا‘ لیکن حنفی مسلک یہ ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے. ایسی صورت میں شافعی حضرات فرماتے ہیں کہ اس شافعی شخص کو دوبارہ وضو کر لینا چاہیے‘ یہ ان کے نزدیک مستحب ہے. کیونکہ احتیاط پر عمل ہو رہا ہے .اور دوسری صورت کہ ہر مسلک سے چن چن کر آسان مسائل لے لینا یہ اتباعِ ہوا ء قرار دیا گیا ہے ‘اس کا نام تلفیق ہے اور یہ حرام ہے.
ہاں البتہ اگر کوئی غیر مقلد ہو اور وہ ان ائمہ کو مقتد امان کر بلا خواہش نفس مسئلہ کو راجح سمجھتے ہوئے ایسا کرنے لگے تو شاید اس کے لیے مطلقًا غیر مقلد بنے رہنے سے بہتر ہو گا. کیونکہ آج کل کے علماء سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرنے سے یہ بہت زیادہ افضل ہے کہ ائمہ کی تحقیق پر چلے. رحمہم اللہ.

ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ مثلاً مسلک حنفی کا کوئی مسئلہ متقی علماء کی نظر میں قابل عمل نہیں رہا. اس دور میں اس پر عمل کرنے سے اور خرابیاں لازم آئیں گی تو ایسی صورت میں کسی بھی دوسرے امام کا مسلک لیا جا سکتا ہے‘ مگر وہ ادھورا نہیں لیا جائے گامکمل لیا جائے گا. اور وہ تمام شرائط ملحوظ رکھی جائیں گی جو اس امام کے مسلک میں ہیں اور اس پر علماء کو جمع کر کے طے کرکے اعلان کر دیا جائے گا. جیسے حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے 
’’ الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاحزۃ‘‘ مرتب فرمائی ہے. 

میرے ذہن میں آج کل کے دور میں سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات کا روزانہ صبح کو پڑھتے رہنے کا مشورہ آتا ہے‘ تاکہ یہ پڑھنے والا غلط راستے پر لگنے سے اور دجالوں کے شر سے محفوظ رہے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے. آمین!