’گفتنی گفتنی‘‘ کا ایک اقتباس

معاصر ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور میں شائع شدہ ’’گفتنی گفتنی‘‘ کا ایک اقتباس

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ہمارے ملک کی معروف شخصیت ہیں. اس کے ساتھ ہی کہنا چاہیے کہ وہ متنازعہ شخصیت بھی ہیں اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ‘زندہ اور متحرک دنیا میں ایسا ہونا لازمی امر ہے. ڈاکٹر صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے سٹیج سے اُبھر کر جماعت اسلامی میں آئے اور نہایت چھوٹی عمر میں جماعت میں اہم مقام حاصل کیا. حتیٰ کہ ایک سٹیج پر اجلاس ماچھی گوٹھ میں ایک بڑے قافلہ کے ساتھ جماعت سے الگ ہوئے. بلکہ کہنا چاہیے کہ اس اجلاس میں سب سے مؤثر مقالہ ڈاکٹر صاحب نے پڑھا جس میں مرکزی قیادت سے اپنے اختلاف کا ذکر کیا.

جماعت سے علیحدگی کے بعد وہ ایک عرصہ تو اس کوشش میں رہے کہ جماعت سے الگ ہونے والے اکابرو اصاغر کو ساتھ لے کر ایک نئی تنظیم کھڑی کریں (۱لیکن جب اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے مرکزی انجمن خدام القرآن کی بنیاد ڈالی جس نے کہنا چاہیے کہ رجوع اِلی القرآن کی خاصی تحریک پیدا کی اور کوئی ہزار اختلاف کرے‘ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ درسِ قرآن وغیرہ کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب نے خاصی تعداہ میں لوگوں کو متاثر کیا اور ملک کے مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بڑے اشتیاق سے ان کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں. ڈاکٹر صاحب نے گزشتہ رمضان کے دو جمعوں میں مسجد دارالسلام باغِ جناح (لارنس گارڈن) میں جو خطبے ارشاد فرمائے انہیں کیسٹ سے منتقل کرکے ان کے ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کی اشاعت ستمبر ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئے ہیں‘ ان خطبات کا عنوان ہے ’’قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکات اور ان کے بارے میں علماء کرام کے خدشات‘‘ یہ طویل خطاب ڈاکٹر صاحب کے معرکۃ الآراء خطابات میں سے ایک ہے. ڈاکٹر صاحب نے (۱) معاصر محترم کو مغالطہ ہوا ہے. ڈاکٹر صاحب اس امر کے خواہشمند بھی تھے اور کوشاں بھی کہ جماعت اسلامی کے طریق کار اور پالیسی سے اختلاف کے باعث علیحدہ ہونے والے اکابر صحیح خطوط پر کوئی جماعت قائم کریں تاکہ موصوف اس میں بحیثیت ایک کارکن اپنے دینی فرائض بجا لائیں. جب قریباً پندرہ سولہ سال تک اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو پھر ڈاکٹر صاحب نے ازخود تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا. 

(مرتب) برعظیم ہند و پاکستان کے حوالہ سے قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکات‘ اس عنوان سے کام کرنے والی شخصیات ‘ان کے متعلق علماء کرام کا ردّ عمل اور پھر ان تحریکات و شخصیات کے انجام پر بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے .

اس ضمن میں سب سے پہلے سر سید احمد کا ذکر ہے‘جنہوں نے قرآن عزیز کے ایک حصہ کی تفسیر لکھ کر بعض مسلمہ حقیقتوں کا انکار کیا تھا. علماء کرام کے ان سے اختلافات انہی وجوہ کی بنا پر تھے جنہیں یار لوگوں نے کئی رنگ دیے اور علماء کے ذمہ یہ بات لگائی کہ وہ جدید تعلیم کے خلاف ہیں. یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بعض حضرات کی سر سید احمد خان سے خط و کتابت چھپ گئی اور کچھ گرد و غبار چھٹ گیا‘ پھر یہ بھی خوبی کی بات ہے کہ سرسید احمد خان نے اس عنوان سے کوئی جماعت یا تحریک نہ اٹھائی ‘بلکہ کالج و یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی میں لگے رہے اور بالآخر اس کے ایک کونہ میں ابدی نیند سو گئے. چند افراد کا ان کے افکار سے متاثر ہونا ایک الگ مسئلہ ہے ان کے بعد اہل قرآن کا عنوان قائم کر کے کئی ایک لوگ اٹھے. انہوں نے با قاعدہ تحریکیں کھڑی کیں ‘جن میں سے بھونڈی اور مکروہ شکل ہمارے دور کے پرویز صاحب کی ہے جو سول سروس کی ملازمت کرتے کرتے مفسر قرآن بن گئے اور ایک مستقل فرقہ کی بنیاد ڈالی. اب وہ نبی کریم  کو رسول تو مانتے ہیں مطاع نہیں مانتے اور آپؐ کے ارشادات کو عجمی سازش سے تعبیر کرتے ہیں.

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس خطاب میں ایسی متفرق شخصیات اور ان کی تحریکوں کا ذکر کرکے علمائے حق کے خدشات کو کسی درجہ میں صحیح قرار دیا ہے اور اپنے بارے میں واضح کیا ہے کہ وہ قرآن کے خادم ہیں ‘انہیں علم و فضل کا کوئی دعویٰ نہیں اور یہ کہ وہ علمائے کرام سے کسب و استفادہ اور تعلق اپنے لیے ضروری جانتے ہیں. جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ’’قرآن مجید کے مسلمانوں پر حقوق‘‘ نامی اپنے رسالہ کا ایک نسخہ مدینہ منورہ میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی خدمت میں اس نقطہ نظر سے پیش کیا کہ حضرت مولانا اسے ملاحظہ فرما کر اگر کوئی چیز قابل اصلاح ہے تو اس کی اصلاح کر دیں. مولانا نے مسجد نبویؐ میں بحالت اعتکاف اسے پڑھا اور صرف ایک جملہ کی ترمیم فرمائی. ڈاکٹر صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا کی اس ترمیم سے وہ جملہ مزید نکھر گیا اور میرا جو مفہوم تھا وہ اور واضح ہو گیا.

ویسے انجمن خدام القرآن کے محاضرات میں سال بہ سال ہندوستان اور پاکستان کے جید علماء کرام کو بلانا بھی ان کی عادت ہے اور اپنے دعوتی افکار میں مختلف شہروں کے اہل علم کے 
پاس وقت نکال کر جانا بھی ہمیں معلوم ہوا ہے. 

یہ روایات بہر حال اچھی ہیں اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اس طرح ان کا ایک گونہ تعلق علماء حق سے رہے گا اور علماء کرام سے بھی درخواست ہے کہ وہ کوئی نقص یا کمی محسوس فرمائیں تو صاحب واقعہ سے رابطہ کر کے بات صاف کرنے کی کوشش کریں کہ اصل دین یہی ہے‘ محض سنی سنائی باتوں پر بد گمانی صحیح نہیں. اللہ تعالیٰ ’خدام القرآن‘ وہ جہاں بھی ہوں‘ انہیں اپنی تائید و نصرت سے نوازے!