’میثاق‘ ستمبر ۱۹۸۴ء میں شائع شدہ تقریر پر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
مخلصانہ تنقیدوں اور خیر خواہانہ مشوروں کے ضمن میں گزارشات

اس سے قبل کہ میں مختلف مکاتیب و جرائد میں ظاہر شدہ آراء سے متعلق اپنی گزارشات کا آغاز کروں‘ ان تمام بزرگوں اور دوستوں کا تہہ دل سے بالکل یکساں طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے خطوط یا مضامین میں تحسین و تائید فرمائی یا تنقید و تبصرہ فرمایا اور مشوروں سے نوازا میں اللہ کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے تا حال کسی بھی تنقید سے قطعاً کوئی ملال نہیں ہوا. میرے سامنے بحمد اللہ نبی اکرم  کا فرمان مبارک 
’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ‘‘ ہر وقت رہتا ہے اور میں خود بھی حتی الامکان اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور دوسروں کی تنقیدوں کو بھی بالکلیہ اسی پر محمول کرتا ہوں. الا یہ کہ کسی کا بغض بالکل عریاں ہو کر سامنے آ جائے اور الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ میری زیر بحث تقریر پر جو تبصرے یا تنقیدیں ہوئی ہیں اُن سے مجموعی طور پر میری اس اُمیدمیں اضافہ ہوا ہے اور میری اس توقع کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ ان شاء اللہ العزیز میں اپنے بزرگوں کے خدشات رفع کرنے میں کامیاب ہو جائو ںگا اور اقامت دین کی جس سعی کا بیڑامیں نے اٹھایا ہے اس میں ان شاء اللہ مجھے علماء حق کی سرپرستی ضرور حاصل ہو گی. اور ان کی دُعائیں یقینا میرے شامل حال ہوں گی . وَمَاذلِکَ عَلَی اللّٰہ بعز یز!! 

’’میثاق‘‘ نومبر ۱۹۸۴ء میں جو خطوط اس سلسلے میں شائع ہوئے ہیں ان میں اوّلین حضرت مولانا ڈاکٹر غلام محمد صاحب ہی کا ہے جو مولانا سید سلیمان ندویؒ کے خلیفہ ٔمجاز ہیں اور جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے. انہوں نے میرے درج ذیل جملوں پر گرفت فرمائی ہے: 
’’میں نے جہاں تک اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کو گہرائی میں جا کر ٹٹولا ہے (یعنی probe کیا ہے) تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ الحمد للہ ثم الحمد للہ مجھ میں انانیت اور عجب نہیں ہے اور میں شعوری طور پر اپنے رب سے پناہ طلب کرتا رہتا ہوں کہ وہ مجھے اس روگ سے محفوظ رکھے (اس لیے کہ) نبی اکرم  کے ارشاد کے مطابق عجب مہلکات میں سب سے زیادہ مہلک اور شدید مرض ہے.‘‘ حضرت ڈاکٹر صاحب کی گرفت سر آنکھوں پر اور ان شاء اللہ اُن کی تلقین سے ضرور فائدہ اٹھاؤں گا. لیکن اس قدر عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ صحابہ کرامؓ سے جہاں وہ الفاظ منقول ہیں جو انہوں نے نقل فرمائے وہاں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ آنحضور  کے اس سوال کے جواب میں ’’کَیْفَ اَصْبَحْتَ ‘‘ ایک صحابیؓ نے عرض کیا : اَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حقَّا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اسی طرح شیخ سعدیؒ کے قطعے میں بھی معاملہ تقابل کا ہے اور الحمد للہ ثم الحمد للہ میرا حال یہی ہے کہ میں فی الجملہ کسی بھی انسان کے مقابلے میں اپنے آپ کو بہتر نہیں پاتا اور اپنے ساتھیوں میں سے بھی ہر ایک کو کسی نہ کسی پہلو سے اپنے سے بہتر محسوس کرتا ہوں. پھر میرے جملوں میں صرف حال کی کیفیت پر اطمینان کا اظہار ہے. اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ! مستقبل کے لیے تو ہر حال میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی حفاظت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے. اور الحمد للہ کہ میں نے بھی اُسی کا سہارا لیا ہے!

آنمخدوم کا یہ جملہ میرے لیے بہت حوصلہ افزائی کا موجب ہوا کہ : 
’’ان شاء اللہ یہ توضیح خدشات‘ اس نوعیت کے شبہات کے ازالہ میں مؤثر ثابت ہو گی.‘‘ اَللّٰھُمَّ آمین!

دوسرا خط حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ کا ہے. جو مدرسہ رحیمیہ بستی شاہ ولی اللہ دہلی‘ میں شیخ الحدیث ہیں. انہوں نے میری تقریر کے مشمولات کی جس طرح کھلے دل کے ساتھ تصویب فرمائی ہے اُس پر تو میں تہہ دل سے اُن کا ممنون ہوں ہی تحریک جماعت اسلامی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کا ذکر انہوں نے جس معتدل اور متوازن انداز میں کیا ہے اُس سے بھی دل نے بہت اثر قبول کیا کہ علماء حق کی شان یہی ہونی چاہیے میرے علم کی حد تک دیوبندی مکتب فکر کے وہ واحد معروف عالم دین ہیں جو مولانا مودودی کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.بہر حال ان کے اشارات میں اقامت دین کی 
داعی جماعت کے لیے مختلف پہلوؤں سے جو رہنمائی مضمر ہے‘ مجھے اُس سے فی الجملہ اتفاق بھی ہے. اور اپنی امکانی حد تک میں اسی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کر رہا ہوں. بایں ہمہ یاد دہانی‘ بھی ان شاء اللہ مزید مفید ثابت ہو گی. 

مولانا سید وصی مظہر ندوی مدظلہ‘ مہتمم جامعہ اسلامیہ وسابق میئر حیدر آباد (سندھ)تنظیم اسلامی کے حلقہ ٔ مستشارین میں بھی شامل ہیں اور انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام سالانہ قرآن کانفرنسوں اور تنظیم اسلامی کی تربیت گاہوں میں حصہ لینے کی خاطر بارہا لاہور تشریف بھی لائے ہیں. میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میری گزارشات کو ’’فکر انگیز‘‘ قرار دیا. بسااوقات ایک لفظ لمبی چوڑی بات سے زیادہ با معنی ہو جاتا ہے. ساتھ ہی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی حدرجم کے بارے میں رائے پر میری ’’گرفت‘‘ کو بھی بالکل’’درست‘‘ قرار دیا. اور اس طرح مولانا موصوف کے موقف سے اعلانِ براء ت کر دیا.

رہا اُن کا یہ فرمانا کہ ’’تاہم ایک یا چند غلطیوں کی وجہ سے کسی شخص کے پورے کارنامے کو مسترد کر دینا وہ انتہا پسندی ہے جس کے باعث ہمارے ہاں تحقیق اور فکر و نظر کی آزادی مفقود ہو کر رہ گئی ہے‘‘. تو گزارش ہے کہ الحمد للہ میں اس سے بری ہوں. میں نے اُن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کم از کم اس مسئلے میں وہ منکرین سنت کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں!‘‘ اور اللہ سے دُعا کی ہے کہ وہ انہیں اس گمراہی سے رجوع کی توفیق عطا فرمائے. میں ہمیشہ اس کا اعتراف کرتا رہا ہوں کہ میں نے اُن کے فکر قرآنی سے بہت استفادہ کیا ہے اور اپنی ایک طویل تحریر میں میں اپنے فہم قرآن کے چار منبعوں کی تفصیل درج کر چکا ہوں جن میں سے ایک فکر فراہی بروایت و وضاحت اصلاحی ہے. ادھر چندسالوں سے میں نے اس کا ذکر جان بوجھ کر ترک کر دیا ہے (جس پر مدیر طلوع اسلام‘ نے بجا طور پر گرفت بھی کی ہے کہ میں مولانا اصلاحی اور ان کے فکر کے ضمن میں اپنی خدمت کا ذکر تو کیا لیکن اُن سے استفادے کا ذکر تک نہیں کیا!) تو اس کا ایک سبب ہے اور وہ یہ کہ ۷۸۷۷ ۱۹ء میں مولانا کا ایک خط بہت بڑی تعداد میں لاہور ہی نہیں پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی تقسیم کیا گیا تھا جس میں مولانا نے میرے بارے میں کچھ اس قسم کے الفاظ تحریر فرمائے تھے کہ ’’یہ شخص میری شاگردی کا ڈھنڈورا پیٹتا پھرتا ہے‘ جبکہ یہ کبھی میرا شاگرد نہیں رہا!‘‘ ورنہ واقعہ یہ 
ہے کہ مولانا کی تفسیر سے میں اب بھی استفادہ کرتا ہوں اور مولانا کی دو کتابیں: ایک ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘ اور دوسری ’’مبادیٔ تدبر قرآن‘‘ تا حال بھی میری محبوب ترین کتابوں میں سے ہیں. البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ بعض اوقات ایک غلطی بھی ؏ ’’یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دُور شد!‘‘ کے مصداق بہت بڑی گمراہی کا دروازہ کھول دیتی ہے. اور قرآن مجید میں تو بعض بظاہر نہایت معمولی سی بے احتیاطیوں (جیسے نبی اکرم  کے سامنے پنی آواز کو بلند کر دینا) پر بھی ’’حبط ِاعمال‘‘ کی وعید سنائی گئی ہے. لہٰذا اگر خدا نخواستہ مولانا نے اپنے اس موقف سے رجوع نہ کیا تو واقعی اندیشہ ہے کہ ان کے شاگرد پنجابی کی ایک کہاوت ’’گورو جنھاں دے ٹپدے‘ چیلے جان شڑھپ‘‘کے کامل مصداق نہ بن جائیں جیسے کہ اُن کا ایک ’نیم شاگرد‘ ’’کڑوا کریلا اور پھر نیم چڑھا!‘‘ کی کامل مثال بن کر سامنے آ بھی چکا ہے.

مولانا سید حامد میاں مدظلہ ‘مہتمم شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور و خلیفہ مجاز حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ بھی نہ صرف یہ کہ تنظیم اسلامی کے حلقہ مستشارین میں شامل ہیں بلکہ میں ذاتی طور پر اُن کا بہت ہی ممنونِ احسان ہوں. ان کے احسانات میں سے ایک یہ ہے کہ جب بھی اُن کی ملاقات کے لیے حاضری ہوئی‘ انہوں نے بڑی محبت و شفقت کے ساتھ و افر وقت مرحمت فرمایا اور دوسرا یہ کہ جب بھی اُن سے ’قرآن کانفرنس‘ یا کسی اور موقع کے لیے کسی مقالے یا تحریر کی درخواست کی‘ انہوں نے ہمیشہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر فرمائش کی تکمیل فرمائی (اُن کا ایک اہم اور نہایت وقیع مقالہ حد رجم کے ضمن میں اوّلین روایات پر مشتمل ان شاء اللہ آئندہ ماہ کے حکمت قرآن میں شائع ہو گا.) پھر اُن کا ایک تیسرا اور بہت بڑا احسان راقم پر یہ ہے کہ تنظیم اسلامی میںشمولیت کے لیے جب راقم نے بیعت جہاد کو اساس بنایا تو اُنہوں نے غلط اطلاع کی بنیاد پر جاری کردہ مخالفانہ بیان سے علی الاعلان رجوع فرمایا اور حقیقت حال کے واضح ہو جانے کے بعد اخباری اعلان کے ذریعے بھی اور نجی خطوط کے ذریعے بھی اُس کی تائید و تصویب فرمائی .

اس موقع پر بھی انہوں نے نہایت مفصل تبصرہ فرما کر جو احسان فرمایا ہے اُس کا میرے اور میرے رفقاء کے دلوں پر بڑا اثر ہوا ہے. واقعہ یہ ہے کہ آنجناب نے حلقہ ٔمستشارین میں شمولیت کا حق ادا فرما دیا ہے. 
اُن کی تحریر کا ایک حصہ تو تائیدی ہے جس پر شکریہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے. خصوصاً اُن کے یہ جملے تو راقم کے لیے بہت ہی موجب اطمینان ہیں کہ:
’’ڈاکٹر صاحب نے بہت عمدہ اور مفصل طرح سمجھا دیا ہے کہ آج کل فتنے کس طرح پیدا ہو رہے ہیں. اُن سے بچنا سب سے زیادہ ضروری ہے‘ کیونکہ ایمان سب سے بڑی دولت ہے اور اس کی حفاظت سب سے بڑا اور اوّلین فرض ہے.‘‘

البتہ نہایت ادب کے ساتھ دو اُمور کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے:
ایک حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری ؒ کے قول کی تاویل کے بارے میں‘ اور دوسرے تقلید‘ یا غیر تقلید یا نیم تقلید کے بارے میں.

فقہ حنفی کے ماننے اور پیروی کرنے والوں کے لیے مختلف فیہ مسائل میں اپنے مسلک کے حق میں دلائل کا جاننا اور اپنے مدارس میں اُن کو شرح وبسط کے ساتھ بیان کرنا یقینا ایک لازمی و لابدی امر ہے. اور کسی کے حاشیہ ٔخیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ یہ کام اصلاً غلط یا فضول ہے‘ اسی طرح حضرت کا شمیریؒ کے شدتِ احساس کو کسی درجے میں اس حقیقت پر محمول کرنا بھی غلطِ محض نہیں ہے کہ واقعتہً نیک و پارسا اور حقیقتاً مخلص و متقی لوگ اپنے بڑے بڑے کاموں کو بھی ہیچ سمجھتے ہیں (جیسے کہ خود آنحضور  سے یہ دعا منقول ہے کہ 
’’رَبِّ اَرِنِیْ فِی عَیْنِی صَغِیْرًا‘‘ )لیکن حضرت کا شمیری کے قول کو بالکلیہ اس تواضع و انکسار پر محمول کرنا درست معلوم نہیں ہوتا. اس ضمن میں اصل کوتاہی بھائی جمیل الرحمن صاحب سے ہوئی ہے کہ انہوں نے مولانا موصوف کے قول کے آخری اور اہم ترین حصے کو نقل نہیں فرمایا جس سے آنجناب کے غم و اندوہ اور تاسف کا اصل سبب معلوم ہوتا ہے. وَھُوَھٰذا! 

’’تو جس چیز کو نہ دُنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں نہ محشر میں‘ اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی ‘اپنی قوت صرف کر دی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی‘ مجمع علیہ اور سبھی کے مابین جو مسائل متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں‘ جن کی دعوت ابنیاء کرام fلے کر آئے تھے‘ جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا اور وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی‘ آج یہ دعوت تو نہیں دی جارہی. یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے واغیار ان کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا وہ پھیل رہے ہیں‘ گمراہی پھیل رہی ہے‘ الحاد آ رہا ہے‘ شرک وبت پرستی چل 
رہی ہے‘ حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے‘ لیکن ہم لگے ہوتے ہیں ان فرعی و فروعی بحثوں میں!

حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ’’یوں غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کردی.‘‘ معلوم ہوا کہ یہاں اصل معاملہ’ تقابل‘ کا ہے کہ کون سے کام اہم تر تھے جن کی جانب ہم اپنی اس مخصوص علمی مصروفیت و مشغولیت کے باعث توجہ نہ کر سکے!اور مقابلہ بھی صحیح اور غلط کا نہیں بلکہ ایک جانب صحیح اور اہم لیکن نسبتاً ثانوی اور دوسری جانب بدرجہا اہم تر اور حد درجہ ضروری اور اوّلین اہمیت کے حامل کاموں کے مابین ہے!

چنانچہ بعینہٖ یہی بات تھی جس کی جانب علماء کرام کی توجہ راقم الحروف نے اپنے اُس جوابی خط کے آخر میں مبذول کرائی تھی جو راقم نے مولانا اللہ بخش ملکانوی کے خطوط اور معاصر ’’الخیر‘‘ ملتان میں شائع شدہ مضمون کے جواب میں لکھا تھا اور جو میثاق کی ستمبر ۸۴ ۱۹ء ہی کی اشاعت میں شامل تھا کہ خدا را! حالات کا کھلی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کیجیے اور صورتِ حال کی نزاکت کا کما حقہ ٗادراک فرمائیے. غور کرنے کی بات ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کے یہ احساسات تو آج سے لگ بھگ نصف صدی قبل کے ہوں گے. اُس کے بعد تو وقت کے دریا میں اور بھی بہت سا پانی گزر چکا ہے اور حالات پہلے سے کہیں بڑھ کردگرگوں ہو گئے ہیں. چنانچہ مغربی تہذیب کا جو سیلاب اس وقت معاشرے میں نہایت تیزی اور تندی سے بڑھ رہا ہے اُس کا تو عشر عشیر بھی اس وقت نہ تھا اور اس کی فحاشیت اور اباحیت پرستی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ یعنی حدیث اور سنت رسولؐ اور اتباع صحابہؓ و سلف صالحین کے خلاف بغاوت یعنی فتنۂ انکار حدیث و سنت جدید تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت میں سرایت کر چکا ہے. ایک جانب الحاد اور مادہ پرستی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی کر چکی ہے تو دوسری جانب بدعات اور خرافات نے باضابطہ فلسفوں اور اداروں کی صورت اختیار کر لی ہے. منکرات وفواحش کے وہ وہ دروازے بلکہ شاہ درے کھل چکے ہیں جن کا اُس وقت کوئی تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا. اس لیے کہ اُس وقت تک سینمایا تھیٹر جانے والے صرف نچلے طبقے کے لوگ یا آوارہ نوجوان ہوتے تھے اور عام گھروں کے اندر صرف گانوں کی آواز بذریعہ ریڈیو پہنچی تھی.

جبکہ آج ٹی وی اور وی سی آرنے ہر گھر کو سینما بنا دیا ہے. ملکی سطح پر ایک جانب داخلی صورت حال دگرگوں ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں نسلی‘ لسانی اور صوبائی عصبیتیں پروان چڑھ رہی ہیں بلکہ بعض علاقوں میں تو نہایت خوفناک صورت اختیار کر چکی ہیں. دوسری جانب گردو پیش کے حالات اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہیں. چنانچہ شمال مغربی سمت سے الحاد و مادّہ پرستی کی بد ترین صورت یعنی کمیونزم جس نے اس صدی کے اوائل میںاس خطے کو ہضم کیا تھا جس میں ایک زمانے میں قال اللّٰہ اور قال الرسولؐ کی صدائیں شاید دنیا بھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند ہوتی تھیں اور اب اُسی صدی کے اواخر میں ہماری آنکھوں کے سامنے پونے دو کروڑ افراد پر مشتمل پوری افغان قوم کو ایک مہیب اژدھے کے مانند آہستہ آہستہ نگل رہا ہے. حتیٰ کہ اب وہ سیلاب وطن عزیزکے عین دروازوں پر دستک دے رہا ہے. ادھر جنوب مشرق میں ہندو امپیریلزم کا عفریت ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ چنگھاڑتا ہوا اُٹھ رہا ہے. ان حالات میں واقعہ یہ ہے کہ اگر حسب سابق یہاں صرف اسلام کا نام سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور ایک حقیقی اور واقعی اسلامی دعوت و تحریک خالصتہً منہاج نبوت پر نہ اٹھی اور اس کے ذریعے مستقبل قریب میں بلکہ آئندہ چند سالوں کے اندر اندر ایک ہمہ گیر اسلامی انقلاب پاکستان میں نہ آیا ااور حقیقی اور واقعی اسلام کی برکات سے عوام الناس کو متمتع ہونے کا موقع نہ ملا تو پاکستان کا نام تو نسیًا منسیاً ہو گا ہی دینی درسگا ہیں اور روحانی خانقاہیں بھی محفوظ نہ رہیں گی. اور معاملہ بالکل وہی ہو گا کہ؏ ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں! ‘‘اعاذ نا اللّٰہ من ذٰلک. 

ان حالات میں ہمیں اپنی ’ترجیحات‘ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے. کاش کہ پاکستان کے تمام علمائے دین بالعموم اور حلقہ ٔدیوبند کے متوسلین بالخصوص اُس درد بھری صدا پر کان دَھر سکیں جو حضرت شاہ صاحب ؒ کے محولہ بالا جملوں سے اُبھر کر سامنے آتی ہے. اور اگر وہ خود اپنے علمی و تدریسی مشاغل سے فرصت نہ پائیں کہ خود دعوت و تنظیم کے کھکھیڑ میں پڑ سکیں یا درسگاہوں اور خانقاہوں کا پاک و صاف ماحول انہیں اجازت نہ دے کہ وہ گندگی اور تعفن بھرے معاشرے کی صفائی کے لیے کمر بستہ ہوں تو کم از کم ان لوگوں کی سر پرستی تو فرمائیں جو اس کام کے لیے کمر ہمت کس لیں اور ان کی کوتاہیوں سے چشم پوشی اور دوسرے اور تیسرے درجے کے اختلافی امور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خود اُن کی اصلاح پر کمر بستہ ہوں.

چنانچہ یہ ہے وہ پس منظر جس میں تقلید‘ یا عدم تقلید‘ یا اس عاجز کی اختیار کردہ اصطلاح ’’نیم تقلید‘‘ کے مسئلے پر غور ہونا چاہیے. اس ضمن میں نہایت تفصیلی گفتگو معاصر الخیر‘ ملتان کے مدیر جناب مولانا محمد ازہر صاحب اور ایک مضمون نگار مولانا عبد القیوم حقانی صاحب نے کی 
ہے. چنانچہ راقم بھی تفصیلی گزارشات ان ہی کی خدمت میں پیش کرے گا.

جہاں تک حضرت مولانا سید حامد میاں مدظلہ کا تعلق ہے اوّلاً تو راقم اُن کا حد درجہ شکرگزار ہے کہ انہوں نے راقم کے نظریۂ نیم تقلید کی بکراہت ہی سہی‘ کسی نہ کسی درجے میں تصویب فرما دی ہے‘ بدیں الفاظ:’’ہاں البتہ اگر کوئی غیر مقلد ہو اور وہ ان ائمہ کو مقتد امان کر بلا خواہش نفس مسئلہ کو راجح سمجھتے ہوئے ایسا کرنے لگے تو شاید اُس کے لیے مطلقاً غیر مقلد بنے رہنے سے بہتر ہوگا. کیونکہ آج کل کے علماء سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرنے سے یہ بہت زیادہ افضل ہے کہ ائمہ کی تحقیق پر چلے. رحمہم اللہ.‘‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کا ہاتھ حالات حاضرہ کی نبض پر ہے اور یہ اس لیے ہے کہ وہ صرف ’عالم دین‘ اور ’شیخ طریقت‘ ہی نہیں ہیں بلکہ ملکی سیاست کے میدان میں بھی فعال و سر گرم ہیں. فقہی مسلک کے معاملے میں مولانا کے مزاج کے اس ’’توسع‘‘ کا ایک اندازہ اُس وقت بھی ہوا تھا‘ جب تنظیم اسلامی میں شمولیت کی ’بیعت جہاد‘ کے ضمن میں اُن سے مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ کے خلف الرشید مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے جو آج کل لندن میں مقیم ہیں وضاحت طلب فرمائی تھی تو مولانا نے اپنے جوابی گرامی نامے میں کچھ اس قسم کے الفاظ سے کہ ’’ہمیں یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جماعت اسلامی میں جو شخص بھی شامل ہوا وہ تقلید کے ضمن میں تو کچھ نہ کچھ ضرور ہی نرم پڑ گیا‘‘ راقم کے معاملے میں ’ نرمی‘ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا.

ثانیاً میں مولانا کو اپنی اور اپنے رفقاء کی جانب سے یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ ہم دین میں اپنے لیے آسانیوں کی تلاش کے قائل نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق کے بھروسے پر فی الجملہ رخصت کی بجائے ’عزیمت‘ کی راہ پرچلنے کا ارادہ رکھتے ہیں. چنانچہ فقہی مسائل میں بھی اگر کوئی’ توسع‘ ہوا تو وہ ان شاء اللہ العزیز ’’ہر مسلک میں سے چن چن کر آسان مسائل لے لینے‘‘ کی بنا پر نہیں ہو گا‘ بلکہ اس معاملے میں حتی الامکان اسی طرزِ عمل کو اختیار کرنے کی کوشش کی جائے گی جسے مولانا نے اپنی تحریر میں دو مقامات پر ’’مستحب‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے!

البتہ موقع کی مناسبت سے ایک بات نہایت ادب کے ساتھ مولانا ممدوح اور ان کی وساطت سے جملہ علمائے دین بالخصوص متوسلین حلقہ ٔدیوبند سے عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ دین کے علم و عمل کے اس عالمگیر زوال‘ اور فتنہ و فساد اور حرص و ہوا کے ہمہ گیر غلبے کے پیش نظر کیا حکمت دعوت و اصلاح اور خود مصلحت دینی اس کی متقاضی نہیں ہے کہ 
رجالِ دین خود کمالِ حزم و اختیار کے ساتھ اُسی طرز عمل پر کار بند رہتے ہوئے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے‘ عوام کے لیے یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْـعُسْرَ کی قرآنی رہنمائی اور یَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوْا کے فرمانِ نبوی ؐ کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کریں اور اس کے لیے ائمہ اربعہ کے دائرے کے اندر اندر زیادہ سے زیادہ توسع پیدا کریں. گزشتہ سال مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے سالانہ محاضرات قرآنی میں حصہ لینے کے لیے بھارت سے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مدظلہ ‘کے رفیق کار اور معتمد خصوصی مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب لاہور تشریف لائے تھے. تو اس موقع پر انہوں نے بھی اس ضرورت کا شدت کے ساتھ اظہار فرمایا تھا. اس لیے کہ وہ بھی بفضلہ تعالیٰ دعوت و اصلاح کے میدان میں بہت سر گرم ہیں اور اس بنا پر انہیں حالات اور ان سے پیدا شدہ’ضروریات‘ کا براہِ راست احساس ہوا ہے. 

یہاں یہ عرض کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ عوام الناس بالخصوص نیم تعلیم یافتہ‘ لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ مولویوں کے پاس اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تو مفصل ’کتاب الحیل‘ موجود ہے ‘لیکن دوسرے کو وہ ہمیشہ سخت سے سخت فتویٰ دیتے ہیں! میری ناچیز رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاثر کو بالکل برعکس کر دیا جائے اور لوگوں میں یہ تاثر عام ہو جائے کہ رجال دین اپنے اوپر تو بہت سختی کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ نرمی اور آسانی پیدا کرتے ہیں. اور اغلباًصوفیائے کرام کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر تھا!کاش کہ جس طرح حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے ’’الحیلۃ الناجزۃ فی الحلیلۃ العاجزۃ‘‘ کی صورت پیدا فرمائی اور اس پر علماء کرام کی جانب سے عمومی تصویب بھی حاصل فرما ئی اس طرح اکابر علماء میں سے کوئی اور باہمت اور مجددانہ مزاج کی حامل شخصیت اس معاملے میں مزید اقدام کے بارے میں غور کر سکے! یہ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک یہ کام ہے صرف علماء کرام اور اُن میں سے بھی علم و فہم ‘تقویٰ و تدین اور زہدوورع کے جملہ اعتبارات سے مسلم مرتبے کی حامل شخصیت کا!

’’میثاق‘‘ نومبر ۱۹۸۴ء میں شائع شدہ باقی چار خطوط میں سے ایک یعنی مولانا حافظ قاری محمد سعید الرحمن علوی (سابق مدیر ہفت روزہ ’خدام الدین‘ لاہور )کے خط میں تو جواب طلب بات کوئی نہیں ہے‘ البتہ کراچی سے اصحابِ ثلاثہ جناب خسروی صاحب ‘ مولانا محمد عبد البر صاحب اور جناب ایس بی علی صاحب کے خطوط میں بعض اُمور وضاحت طلب ہیں جن پر 
ان شاء اللہ آئندہ کسی صحبت میں گفتگو ہو گی. سردست قارئین ’’میثاق‘‘ کی اطلاع کے لیے اتنا عرض ہے کہ اپنے گزشتہ دورۂ کراچی کے موقع پر میں جناب خسروی صاحب کے درِ دولت پر حاضری دے کر بالمشافہ گفتگو کر چکا ہوں. اور الحمد للہ کہ اپنی تحریر میں وہ جس قدر تیکھے نظر آتے ہیں حقیقتاً اُتنے نہیں ہیں! آئندہ سفر کراچی میں ان شاء اللہ مولانا عبد البر صاحب سے بھی ملاقات کا ارادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُمید ِواثق ہے کہ ان سے ملاقات بھی بہت مفید ثابت ہو گی.

لگے ہاتھوں اس کا بھی تذکرہ ہو جائے تو غالباً کوئی حرج نہ ہو گا کہ راقم نے بحمد اللہ اپنے طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق علماء کرام سے ملاقاتوں کے لیے کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر حاضری دینے کا سلسلہ عملاً شروع کر لیا ہے. چنانچہ گزشتہ دورۂ کراچی کے موقع پر ایک نہایت مفصل اور حد درجہ مفید ملاقات حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی مدظلہ‘ سے ہوئی اور راقم ان کا بے حد ممنون ہے کہ انہوں نے بغیر کسی تکلف کے اپنے جملہ شکوک و شبہات پیش فرمائے اور الحمد للہ کہ راقم کی وضاحتوں پر اظہارِ اطمینان فرمایا. اسی طرح اپنے دورۂ سوات ‘دیر اور باجوڑ کے موقع پر راقم لگ بھگ پچاس ساٹھ میل کا اضافی فاصلہ طے کر کے تبرکاً حضرت شیخ الہندؒ کے خادم و رفیق زنداں حضرت مولانا عزیر گل مدظلہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا. اور اُن سے خصوصاً مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور ان کی مجوزہ امامت ِہند کے سلسلے میں مفید گفتگو ہوئی. مزید بر آں میرے حالیہ دورئہ کوئٹہ کے دوران ایک تو وہاں کے رفقاء نے از خود علماء کرام کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا تھا. اس پر مستزاد مولانا منیر الدین مدظلہ‘ صدر مجلس تحفظ ِختم نبوت‘ بلوچستان کے ساتھ خالص تنہائی میں نہایت مفید ملاقاتیں ہوئیں.

ماہنامہ اور ہفت روزہ جرائد میں سے راقم کے علم کی حد تک تا حال دو ہفت روزہ رسالوں یعنی معاصر ’چٹان‘ لاہور اور معاصر ’تنظیم اہلحدیث ‘نے تائیدی و تصویبی شذرات لکھے ہیں جو قارئین کی دلچسپی کے لیے اس اشاعت میں شامل کیے جا رہے ہیں. ان میں سے مولانا عزیز زبیدی مدظلہ کا شذرہ میرے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے‘ اس لیے کہ میری معلومات کے مطابق وہ بھی جماعت اسلامی کے ’سابقین‘ میں سے ہیں. البتہ دو ماہناموں یعنی ’طلوع اسلام‘ لاہور اور ’الخیر ‘ملتان نے تنقیدی مقالات شائع کیے ہیں. 
ان میں سے جہاں تک طلوعِ اسلام کا تعلق ہے اُس کی ایک گرفت یقینا درست ہے‘ جس کا ذکر بھی پہلے ہو چکا ہے اور اُس کے ضمن میں راقم اپنی وضاحت بھی پیش کر چکا ہے‘ باقی ’طلوعِ اسلام‘ کے اور ہمارے مابین نظریاتی اختلاف کی خلیج اتنی وسیع ہے کہ اس ضمن میں کچھ عرض کرنے کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ ضرورت! فقط آیۂ قرآنی لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ0 کا حوالہ کافی ہے. البتہ ’’الخیر‘‘ کی خدمت میں کچھ معروضات پیش کرنی ضروری ہیں.

ان میں اوّلاً تو ایک نیاز مندانہ گلہ مدیر ’الخیر ‘سے ہے کہ ان کے پرچے کے جولائی ۱۹۸۴ء کے شمارے میں ایک تحریر مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی کی شائع ہوئی تھی جس کے جواب کی نقل الخیر کو بھی ارسال کر دی گئی تھی. ہمیں توقع تھی کہ نومبر کے پرچے میں ہمارا وہ جواب ضرور شائع ہو گا لیکن ہمیں مایوسی ہوئی غالباً عام صحافت کے اصولوں میں بھی یہ امر مسلم ہے کہ اپنے جن قارئین کے ذہنوں میں ’الخیر ‘نے اپنے اُس مضمون کے ذریعے کچھ سوالات پیدا کر دیے تھے ان کے جوابات بھی اُن قارئین تک پہنچانا ’الخیر‘کی ذمہ داری ہے. (یا پھر دوسری ممکن صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اپنے قارئین کی فہرست ’الخیر‘ ہمیں فراہم کر دے تاکہ ہم خودان تک اپنا جواب پہنچا دیں!)

ثانیاً ایک ہدیہ ٔتشکر پیش کرنا ہے ’الخیر ‘کے مضمون نگار مولانا عبد القیوم حقانی کی خدمت میں کہ انہوں نے الخیر میں اپنی تیز و تند تنقید چھپوانے کے ساتھ راقم کے نام ایک ذاتی خط لکھنے کی تکلیف بھی گوارا کی جس میں وہ رقم طراز ہیں: 

’’محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب زید مجدکم. سلام مسنون!

اُمید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے. ستمبر کے ماہنامہ میثاق کے شمارے میں آپ کے خطاب سے متعلق دینی اور شرعی نقطئہ نظر سے جو تبصرہ ضروری سمجھا اسے ۸۱۰ صفحات میں ماہنامہ ’الخیر‘ ملتان کے تازہ شمارے میں شائع کرا دیا ہے. انہوں نے آپ کے پاس وہ شمارہ بھیج دیا ہے. کسی ذاتی عناد یا بغض سے قطع نظر‘ خالص احساسِ ذمہ داری اور عند اللہ مسئولیت کے پیش نظر یہ قدم ضروری سمجھا. ورنہ میں اپنے زمانہ شعور سے تا حال آپ کے لٹریچر کو باقاعدگی سے پڑھتا رہا. آپ ہماری معروضات پر ٹھنڈے دل اور گہری سوچ کے ساتھ غور فرمائیں تو مسئلہ واضح ہو جائے گا. باری تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کے راستے پر چلائے. والسلام.‘‘

واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ ویسے تو راقم نے جس وادی میں قدم رکھا ہے اُس کے پیش نظر راقم 
ہر وقت ’’غیروں‘‘ کی جانب سے کسی بھی قسم کے ’’ناوکِ د شنام‘‘ کے ساتھ ساتھ اپنوں کی جانب سے بھی ہر نوع کے ’’طرزِ ملامت‘‘ (۱کے لیے ذہناً اور قلباً تیار رہتا ہے اور اُس کے دل پر اگر کبھی کسی کی جانب سے ملال کا اثر ہوتا بھی ہے تو محض عارضی طور پر تاہم مولانا حقانی کے اس خط نے تو اُس کا بھی کلیتاً سد باب کر دیا‘جس کے لیے میں اُن کا ممنون ہوں!
’الخیر‘ میں شائع شدہ دونوں تحریروں کے مشترک نفس مضمون کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل ایک حسن اتفاق (یا سوءِ اتفاق) کا ذکر قارئین کی دلچسپی کا موجب ہو گا. وہ یہ کہ ایک روز فجر کی جماعت کے فوراً بعد میرے ایک رفیق کار نے مجھے بیک وقت ’طلوعِ اسلام‘ اور ’الخیر ‘کے شمارے دیے .میں نے جو اُن کے مضامین کو سرسری طور پر دیکھا تو ایک عجیب فوری تضاد 
contrast نظر آیا کہ ’طلوع اسلام‘ کے مدیر کو میری پوری تقریر میں از اوّل تا آخر نری اَسلاف پرستی ہی اَسلاف پرستی نظر آئی اور ’الخیر‘ کے دونوں مضمون نگاروں کو اسلاف سے بغاوت ہی بغاوت نظر آئی. گویا معاملہ وہی ہوا کہ ؎

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا 
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں!

پرچے میں ترتیب کے اعتبار سے تو اگرچہ مدیر ’الخیر‘ مولانا محمد ازہر صاحب کی تحریر پہلے ہے اور مولانا حقانی صاحب کی بعد میں ‘لیکن جیسا کہ خود مولانا محمد ازہر صاحب نے وضاحت فرما دی ہے مولانا حقانی کی تحریر ’الخیر ‘کی اکتوبر کی اشاعت سے بھی قبل ان کے پاس پہنچ گئی تھی مزید بر آں دونوں تحریروں کے بالاستیعاب مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اصل کی حیثیت مولانا حقانی ہی کی تحریر کو حاصل ہے. لہٰذا ہم بھی اصلاً اُسی کے بارے میں عرض کریں گے.

مولانا حقانی کی پوری تحریر کو بار بار پڑھنے کے بعد راقم پوری دیانت کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی اساس چند مغالطوں پر ہے. واضح رہے کہ ان مغالطوں کی 
(۱) فیض کا شعر ہے ؎

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام 
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت!

(پ .ن) عجب اتفاق ہے کہ جس وقت راقم نے فیض کا یہ شعر اس مقام پر درج کیا اگلے روز کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ عین اُسی وقت اُس کا جسد ِخاکی لحد میں اُتارا جا رہا تھا. 
وجہ راقم کے نزدیک مولانا حقانی کا ’قصورِ فہم‘ ہر گز نہیں ہے بلکہ کچھ خود راقم کی اپنی کج مج بیانی اور کچھ اس تقریر کے مرتب کی تقصیر ہے (جس کی ایک مثال کا ذکر اوپر بھی ہو چکا ہے‘ یعنی یہ کہ مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کے قول کا اہم ترین حصہ نقل ہونے سے رہ گیا.) ان دو کے علاوہ ایک سبب اور بھی ہے جس کا ذکر بعد میں آ جائے گا. بنابریں راقم کسی لفظی نزاع میں الجھنے یا لفظ بلفظ بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مناسب سمجھتا ہے کہ ان مغالطوں کو دُور کرنے کی کوشش کرے جس سے ان شاء اللہ نہایت آسانی کے ساتھ مسئلہ حل ہو جائے گا. اور اگر اُس کا کوئی حصہ حل طلب باقی رہ گیا تب بھی اُس کے حل کی راہ لازماً آسان ہو جائے گی. اس ضمن میں راقم مولانا حقانی اور مولانا محمد ازہر دونوں حضرات سے بھی درخواست کرتا ہے کہ براہ کرم اس بحث میں نہ الجھئے کہ تمہاری شائع شدہ تقریر کا مطلب تو وہی نکلتا تھا جو ہم نے نکالا تھا. اس لیے بھی کہ میں خود اپنی اور بھائی جمیل الرحمن صاحب کی ’تقصیر ‘تو پہلے ہی تسلیم کر چکا ہوں. اور اس لیے بھی کہ کم ازکم بقید ِحیات لوگوں کے بارے میں تو یہ حق مسلمہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ اپنے قول کی تاویل کا حق انہیں حاصل رہتا ہے! (چنانچہ ’’تاویلُ القولِ بما لا یَرْضٰی بِہ القائل‘‘ کو سب ہی غلط سمجھتے ہیں!) اور آئندہ گفتگو کی اساس کسی شخص کے قول کی اُس تاویل کو بنایا جانا چاہیے جو وہ خود کر دے.

ان مغالطوں میں اوّلین اور اہم ترین یہ ہے کہ میں تمام فقہی مسالک کو ختم کر کے ’’ایک فقہی مسلک پر مجتمع‘‘ کرنے اور ’’مستقبل کی کسی شخصیت کو اجتہادِ مطلق کی دعوت‘‘ کا علمبردار ہوں. لہٰذا میں سب سے پہلے اسی غلط فہمی کو رفع کر دینا چاہتا ہوں‘ اس لیے کہ میرے نزدیک دونوں بزرگوں کی برہمی کا اصل سبب یہی ہے.

اصل میں یہی وہ غلط فہمی ہے جس کے بارے میں میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ اس کا ایک خاص سبب ہے‘ وہ یہ کہ لاہور میں میری تقریریں ’مسلسل ‘ہوتی ہیں اور بعض مسائل جن پر سابق تقریر میں مفصل بحث ہو چکی ہوتی ہے اگلی تقریر میں اُس کا صرف ایک سر سری سا ذکر ہوتا ہے اور میں یہ فرض کر لیتا ہوں کہ اس کے ضمن میں میرا پورا موقف سامعین کے علم میں موجود ہے. اب ظاہر ہے کہ جس کے سامنے میری وہی تقریر ہو گی اُس کا اس اجمال کے باعث ’مغالطے‘ میں مبتلا ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے.

یہ بات تو میری اس تقریر سے بھی سب پر واضح ہو گئی ہو گی کہ اس کے پس منظر میں مولانا 
امین احسن اصلاحی صاحب کی وہ رائے ہے جو انہوں نے اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ کی جلد چہارم میں حدرجم کے بارے میں ظاہر فرمائی ہے اور جو راقم کے اُن سے آخری اور قطعی ’انقطاع‘ تعلق کا سبب بنی. چونکہ راقم کا ایک نہایت طویل مدت تک (لگ بھگ ثلث صدی) مولانا موصوف کے ساتھ نہایت قریبی اور گہرا تعلق رہا ہے اور ان کے اور راقم کے بہت سے احباب اور محبین و متعلقین مشترک ہیں. پھر یہ کہ ہم دونوں ایک ہی شہر میں مقیم ہیں اور ہمارے مابین ’’مکانی‘‘ فصل و بعد بھی زیادہ نہیں ہے‘ لہٰذا ہمارے بعض مستقل سامعین بھی مشترک ہیں. یہ وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں اس مسئلے پر بہت سے لوگوں سے بہت گرما گرم گفتگوؤں کا سلسلہ چلا. جس میں اُن کے حامیوں کی جانب سے بار بار ایک دلیل نما سوال یہ کیا گیا کہ ’’کیا تمہارے خیال میں اب کسی نئے مجتہد کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے؟‘‘ اصل میں اِس سوال کے جواب میں میں عرض کرتا رہا کہ ’’اس کے امکان کو میں قطعاً توردّ نہیں کرتا‘ لیکن ایسی کسی شخصیت کے لیے لازم ہو گا کہ نہ صرف علم و فضل بلکہ تقویٰ و تدین اور خلوص وللہیت میں بھی اپنے دور کے عوام و خواص دونوں سے اپنا لوہا منوا لے.‘‘(۱

یہی بات میری ایک تقریر میں (جو ایک مقامی ہوٹل میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی) اس طور سے آگئی کہ ’’میں اس امکان کو خارج ازبحث تو قرار نہیں دیتا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ مستقبل میں کسی ایسی شخصیت کو اُٹھا دے جو فقہی اختلافات کو بالکل ختم کر کے اُمت کو کسی ایک ہی مسلک پر جمع کر دے‘لیکن بحالاتِ موجودہ یہ ایک اَن ہونی سی بات ہے اور فی الوقت ہمیں یہی چاہیے کہ سلف صالحین کی پیروی کرتے ہوئے صرف اس قدر کریں کہ جملہ فقہی مسالک کے لیے اپنے سینوں اور دلوں میں وسعت پیدا کر لیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم محض فقہی مسلک کے اختلاف کی بنا پر من دیگرم تو دیگری کا سا انداز اختیار کر لیں اور دین کے احیاء و اقامت کی جدوجہد میں شانہ بشانہ شریک نہ ہو سکیں!‘‘

پھر یہی بات مسجد دارالسلام والی تقریر میں مختصراً اُس طرح آگئی جیسے ’میثاق‘ میں چھپی 
(۱) حسن اتفاق سے اس ’امکان‘ کی تصویب مولانا عبد الحئی لکھنویؒ کے اس قول سے بھی ہو گئی جو ’الخیر‘ کے صفحہ ۴۲ پر درج ہے. یعنی ’’جو یہ دعویٰ کرے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہد نہیں ہو سکتا تو یہ غلط ہے. البتہ اگر یہ کہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی ایسا مجتہد نہیں ہوا جس کے دعوائے اجتہاد کو جمہورنے مانا ہو تو یہ مسلمہ ہے. ‘‘(بحوالہ : شریعت و طریقت) ہے. بہرحال میں واضح الفاظ میں صراحت کرتا ہوں کہ میرے اس قول سے مراد صرف اس درجے میں امکان کو تسلیم کرنا ہے جس درجے میں ہم عموماً بفرضِ محال کسی بات کا ذکر کرتے ہیں. میں اس سے قطعی اعلانِ براء ت کرتا ہوں کہ میں اس کا داعی یا مبلغ یا کسی درجے میں بھی مجوز و محرک ہوں! اللہ کا شکر ہے کہ دونوں بزرگوں میں سے کسی نے مجھ پر خود اس کے ’مدعی‘ ہونے کا الزام عائد نہیں کیا. تاہم میں واضح کیے دتیا ہوں کہ اپنے بارے میں کسی ایسے گمان سے پہلے میں اسے پسند کروں گا کہ زندہ آگ میں جلا دیا جاؤں ‘ واللّٰہ علٰی ما اقول وکیل! 

میری زیر بحث تقریر کا بھی اصل رُخ تقلید کی جانب ہے. اور میرے کم از کم لاہور کے جملہ ’سامعین‘ تو اس سے بخوبی آگاہ ہیں کہ گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے میں نے سب سے زیادہ زور ان ہی نکات پر دیا ہے جو ’الخیر‘ کے صفحہ ۳۹۴۰ پر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی تحریر سے نقل ہوئے ہیں. اور جو نہایت خوبصورت الفاظ میں علامہ اقبال مرحوم نے بھی اپنی مشہور مثنوی ’’اسرار و رموز‘‘ میں ’’رموز خودی‘‘کے ذیل میں ’’در معنی ایں کہ در زمانہ ٔانحطاط‘ تقلید از اجتہاداولیٰ تراست! ‘‘کے عنوان سے نظم کیے ہیں:

راہِ آبا رو کہ ایں جمعیت است معنی تقلید ضبط ملت است 
اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قو م را برہم ہمی پیچید بساط
ز ا جتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
عقل آبایت ہوس فرسودہ نیست کارِ پاکاں از غرض آلودہ نیست
فکر شاں ریسد ہمے باریک تر و رعِ شاں بامصطفیؐ نزدیک تر
(۱

اجتہاد کے ضمن میں بھی الحمد للہ میرا ذہن بالکل صاف ہے اور مجھے اپنے موقف اور ان بزرگوں کی تصریحات کے مابین کوئی تباین‘ تو کیا بعد بھی نظر نہیں آیا جن کے حوالے ’الخیر‘ کے زیر نظر شمارے میں درج کیے گئے ہیں. تاہم میں مختصراً اپنا موقف اپنے ہی الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:

اُن تمام مسائل کے ضمن میں جو ائمہ مجتہدین (اعنی ائمہ اربعہ) کے زمانے میں پیدا ہو چکے تھے اور اُن پر انہوں نے پوری طرح غور و فکر کر کے اپنے فیصلے ثبت فرما دیے ہیں‘ اُن 
(۱) عجب حسن اتفاق ہے کہ آج ۲۲ نومبر۱۹۸۴ء کی صبح یہ تحریر سپرد قلم کر رہا ہوں. اور گزشتہ شب یعنی ۲۱ نومبر کی رات کو میں نے جناح ہال لاہور میں ایک اجتماع عام میں یہ اشعار بھی پڑھ کر سنائے‘ اور اجتہاد کے بارے میں بھی وہ رائے ظاہر کی جو آگے آ رہی ہے. میں سے (ا) جن مسائل میں ائمہ اربعہ کا اتفاق ہو اُن کے ضمن میں تو میں اجتہاد مطلق‘ توکجا مجرد جنس اجتہاد کے باقی رہنے کا بھی قائل نہیں.البتہ (ب) جن میں اُن کے مابین اختلاف رائے ہو اُن کے ضمن میں ’اجتہاد‘ کو اس میں دائر سمجھتا ہوں کہ اُن میں سے کسی کے موقف کو ترجیح دیتے ہوئے اختیار کر لیا جائے‘ لیکن اُن کے دائرے سے باہر نکلنے کو کسی طرح صحیح نہیں سمجھتا. 

جنس ِاجتہاد یا نفس ِاجتہاد کے بقاو تسلسل کا معاملہ میرے نزدیک اُن مسائل میں ہے جو سائنسی ترقی اور عمرانی ارتقا کے نتیجے میں بالکل نئی صورتِ معاملہ کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں.

دوسرا اہم مغالطہ دونوں حضرات کو یہ ہوا ہے کہ میں’’پانچ کے دائرے میں نیم تقلیدی مسلک کا ایک اور دائرہ ‘‘بنانے کا داعی ہوں. اگر میرے الفاظ سے ایسا متبادر ہوا ہے تو میں اُس سے بھی علی رؤس الاشہاد رجوع کرتا ہوں. اس ضمن میں اصل معاملہ یہ ہے کہ میں صرف ایک بات کا داعی ہوں اور ایک کا مستدعی! 

داعی میں صرف اس بات کا ہوں کہ مختلف فقہی مسالک کے ماننے والے اُن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے سینوں اور دلوں میں ’وسعت‘ پیدا کریں اور ایسا نہ ہو کہ 
’’قولنا صوابٌ لٰـکن محتملُ الخطأ وَ قولُ غَیرِنا خَطَأٌ محتملُ الصوابِ ‘‘ صرف کہنے اور لکھنے میں آئے اور عملی صورت یہ ہو کہ فقہی اختلافات کی بنا پر ہمارے دلوں میں بعد پیدا ہو جائے اور ہم مل جل کر شانہ بشانہ منکرات‘ فواحش کے خلاف جہاد‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی سعی‘ اور غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد میں شریک نہ ہو سکیں. میری تقریر میں سارا زور اصلاً اسی پر ہے‘ اور بادنیٰ غورو تامل یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ اسی وسعت ِقلب‘ فقہی روا داری‘ سے حدیث نبویؐ : اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ (الخیر ‘ص۳۸اور مولانا حقانی کے اپنے الفاظ’’تمام ائمہ کے مسالک بر حق ہیں اور اختلافِ ائمہ رحمت ہے‘‘ (الخیر‘ص۳۹) کی عملی تعبیر سامنے آ سکتی ہے. یہاں طویل اقتباس طوالت کا موجب ہو گا لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میری ان تصریحات کی روشنی میں میری مطبوعہ تقریر کے صفحہ ۴۷ کے وسط سے صفحہ ۵۰ کے وسط تک کے حصہ کو دوبارہ پڑھا جائے اور اس میں مولانا انور شاہ کا شمیریؒ کے اقتباس کا وہ حصہ بھی شامل کر لیں جو زیر نظر تحریر میں پہلے دیا جا چکا ہے تو ان شاء اللہ العزیز یہ مغالطہ رفع ہو جائے گا اور میرا اصل مافی الضمیر واضح ہو جائے گا.

اہل سنت کے متفق علیہ چار فقہی مسالک اور ان کے بانی ائمہ کرام رحمہم اللہ پر‘ میں امام 
بخاریؒ کا اضافہ اصلاً تو اس بنا پر کرتا رہا ہوں کہ میرے نزدیک ’حقیقت ِایمان‘ کے ضمن میں جامع اور صحیح ترین تعبیر امام ابوحنیفہؒ اور امام بخاریؒ دونوںکی تعبیرات کی جمع و تطبیق ہی سے وجود میں آتی ہے. ورنہ میرا ذاتی گمان بھی یہی تھا (اگرچہ اپنی کم علمی کی بنا پر اس پر جازم نہیں تھا) کہ امام بخاریؒ کا کوئی مسئلہ‘ ائمہ اربعہ کے دائرے سے باہر نہیں ہو گا. اور الحمد للہ کہ حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی نے اپنی محولہ بالا ملاقات میں پورے جزم کے ساتھ اور احصاء اور استقصاء کے انداز میں فرمایا کہ واقعتہً ایسا ہی ہے‘ جس سے مزید انشراح ہوا. البتہ چونکہ مسالک اربعہ کے پیرئووں میں سے تو ہمارے یہاں شاید احناف کے سوا شاذ ہی کسی اور مسلک کے لوگ موجود ہوں‘ لیکن اہل سنت کا ایک اور گروہ برصغیر پاک و ہند میں معتدبہ تعداد میں موجود ہے جو غیر مقلد‘ یا اہل حدیث یا سلفی المسلک الغرض مختلف ناموں سے موسوم ہے. اور اس میں ہر گز کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں کے دوران ان حضرات نے مشر کا نہ اوہام‘ ہندوانہ رسومات اور بدعاتِ سیّئہ کے خلاف نہایت مؤثر جہاد کیا ہے اور مؤقر خدمات انجام دی ہیں. (۱اور اگرچہ یہ واقعہ ہے کہ یہ صرف ایک مسلک ہے کوئی معین ’مذہب‘ نہیں (۱) اور یہ بھی ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ تحریک شہیدینؒ کی سرحد میں ظاہری نا کامی کے بعد اُس کے ’’باقیات الصالحات‘‘ کے ذریعے دین حق کی جو خدمت برصغیر پاک و ہند میں سر انجام پائی اُس میں خواہ تعداد کی کثرت اور اثرات کی وسعت کے اعتبار سے ’حنفی المسلک‘ علماء و اکابر کا پلڑا بھاری نظر آئے‘ حقیقت کے اعتبار سے سلفی المسلک‘ اشخاص‘ اداروں اور جماعتوں کا حصہ بھی کسی سے کم نہیں ہے. اور جہادِ حریت و استخلاصِ وطن ہو یا سعی غلبہ و اقامت دین دونوں میدانوں میں ان دو مسلکوں کے پیر و شانہ بشانہ شریک رہے ہیں.

چنانچہ۱۹۲۰ء کے اجلاس جمعیت علماء ہند منعقدہ دہلی میں جہاں دہلی‘ دیوبند‘ اجمیر‘ بدایون اور فرنگی محل کے ’حنفی‘ علماء شریک تھے وہاں اہل حدیث علماء بھی موجود تھے. چنانچہ مولانا محمد داؤد غزنویؒ کی شرکت توتعین کے ساتھ ثابت ہے. اور اس ضمن میں ’آخری بات‘ یہ ہے کہ اس اجلاس میں حضرت شیخ الہندؒ جیسے ’کٹر حنفی‘ کے ایما پر مولانا احمد سعید دہلویؒ اور مفتی کفایت اللہؒ ایسے حنفی علماء و مفتی حضرات نے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم ایسے آزاد شخص کا نام ’بیعت وامامت ِہند‘ کے لیے پیش فرمایا تھا. اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جماعت مجاہدین کے آخری شخص جو چند ہی سال قبل فوت ہوئے یعنی صوفی عبد اللہ صاحب جنہوں نے ماموں کا نجن میں عظیم الشان دینی مدرسہ قائم فرمایا‘ مسلکاًاہل حدیث تھے. ہے اور اصولی طور پر اس میں کسی معین مجتہد کی تقلید خارج از بحث ہے. تاہم اکثر و بیشتر مسائل میں یہ حضرات امام بخاریؒ کے اجتہادات ہی کا اتباع کرتے ہیں(چنانچہ کچھ حضرات انہیں طنزاً ’’مقلدین بخاریؒ ‘‘کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں!) اور جیسا کہ میں نے اپنی زیر بحث تقریر میں عرض کیا تھاکہ امام بخاریؒ وہ شخصیت ہیں جن کے مرتب کردہ مجموعہ ٔاحادیث کو جملہ اہل سنت ’’اَصحُّ الکُتُب بَعْدَ کتاب اللّٰہ‘‘ تسلیم کرتے ہیں. مزید برآں اکابر علماء احناف نے اُن کی فقاہت کو خراج تحسین ادا کیا ہے. (مجھے خود بھی جامعہ مدنیہ لاہور میں ایک تقریب ختم بخاری میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تھی جس میں مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے امام بخاریؒ کی فقاہت کو نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا فرمایا تھا.) لہٰذا میں نے اپنی ذات کی حد تک ’نیم تقلید‘ کا جو دائرہ بنایا ہے اُس میں ائمہ اربعہؒ کے ساتھ ساتھ امام بخاریؒ کو بھی شامل کیا ہے.

اور یہی میری علماء کرام سے وہ استدعا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا تھا ‘یعنی میں اپنی ذات کی حد تک اس اجازت کا طلب گار ہوں کہ اپنی ’تقلید‘ کو ان ’ائمہ خمسہ‘ کے دائرے تک وسعت دے دوں اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کا اصل سبب میری ایک ذاتی مشکل اور الجھن ہے جس کا ہمدردانہ احساس ‘مجھے اندیشہ ہے کہ‘ حضرات علماء نہیں کر سکیں گے. معاملہ یہ ہے کہ میں نے کسی دینی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی ہے‘ اگر ایسا ہوتا تو یقینا جس فقہی مسلک کا وہ مدرسہ ہوتا میرے دل و دماغ بھی اسی پر جازم اور راسخ ہو جاتے اور یہ مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا. میری مشکل یہ ہے کہ میں تو سکولوں اور کالجوں کا پڑھا ہوا ہوں. اس کے باوصف یہ اللہ ہی کا فضل و کرم ہے کہ اُس نے دین کی جانب رغبت عطا فرمائی اور اُس کے لیے تن من دھن حتیٰ کہ اولادو احفاد تک کو ’وقف‘ کرنے کا داعیہ عطا فرما دیا. پھر یہ بھی سر اسر اُسی کا فضل و کرم کہ اُس نے شیعیت اور اس کی جملہ شاخوں یا 
shades کے باطل ہونے اور مسلک اہل سنت و الجماعت کے حق ہونے پر ایسا انشراحِ صدر عطا فرما دیا کہ جس میں شک و شبہ کا کوئی شائبہ تک موجود نہیں. اب جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے‘ جو بات علماء کرام اصولی طور پر تسلیم کرتے ہیں وہ میرا واقعی اور حقیقی حال بن چکا ہے ‘یعنی یہ کہ اس وسیع دائرے میں شامل جملہ ائمہ فقہ اور محدثین کرام کی علمی کاوشوں کو میں اہل سنت کا مشترک علمی اثاثہ اور ورثہ (heritage ) سمجھتا ہوں. اور بعض مسائل میں اللہ گواہ ہے کہ کسی سہولت یا آسانی کی خاطر نہیں بلکہ محض اطمینانِ قلب کے لیے سکہ بند حنفی موقف اور ’’مُفتیٰ بہٖ‘‘ قول کو چھوڑ کرکسی ایسی رائے پر عمل کرنے پر ’مجبور‘ ہو جاتا ہوں جو ہوتی بہر صورت ان پانچ مسلکوں کے دائرے کے اندر اندر ہے.

مثال کے طور پر ’فاتحہ خلف الامام‘ کا مسئلہ ہے. ظاہر ہے کہ اس میں کسی آسانی یا سہولت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. میرا دل کسی طرح نہیں مانتا کہ میں امام کے پیچھے سری رکعتوں میں بھی بالکل خاموش کھڑا رہوں‘ جبکہ ائمہ اربعہ میں سے بھی بعض اور خود امام ابوحنیفہؒ کے اجل تلامذہ میں سے امام محمدؒ کی رائے یہ ہے کہ سری رکعتوں میں مقتدی بھی سورۃ الفاتحہ پڑھ سکتا ہے! اس کے بالکل برعکس معاملہ مزارعت کا ہے کہ اس کے ضمن میں میں اپنے دل اور دماغ کے ہاتھوں بالکل مجبور ہوں کہ صاحبینؒ اور امام بخاریؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی آراء کے مقابلے میں اصلاً امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ اور تبعاً امام شافعیؒ کی آراء کی صحت کا اقرار ہی نہیں اعلان بھی کروں. یہی وجہ ہے کہ میں نے مولانا محمد طاسین مدظلہ کا اس موضوع پر مقالہ پندرہ اقساط میں ماہنامہ حکمت قرآن میں شائع کیا. بہر حال یہ ہے میری وہ مشکل جس کی بنا پر میں علماء کرام سے صرف اپنی ذات کی حد تک اس ’توسع‘ کی اجازت کا طلب گار ہوں. ورنہ اللہ گواہ ہے کہ کسی نئے مسلک کے آغاز یا نئی فقہ کی تدوین کا ارادہ تو کجا کوئی امکان بھی میرے حاشیہ ٔخیال تک میں موجود نہیں. (بلکہ یہ واقعہ عرض کر ہی دوں کہ جب مولانا اصلاحی صاحب کے اُن ’’نیم شاگرد‘‘ جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور ایک دوسرے موقع پر اُن کے بھی ایک ’’نیم شاگرد‘‘ نے میری اس بات کے جواب میں کہ ’’اگرحد ِرجم‘‘ کے بارے میں مولانا اصلاحی کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو معاملہ صرف حد ِرجم ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک پورا نیا ’دین‘ وجود میں لانا ہوگا‘‘ یہ کہا کہ ’’ہاں یہ بالکل صحیح ہے لیکن پورا نیادین نہیں بلکہ نئی فقہ!!‘‘ تو واقعہ یہ ہے کہ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی تھی!) یہاں تک کہ جو لوگ مجھ سے بیعت جہاد کے تعلق میں منسلک ہوتے ہیں ان کے ضمن میں بھی میں نے پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کیا ہوا ہے کہ فقہی مسلک اور تزکیہ و سلوک دونوں کے اعتبار سے وہ بالکل آزاد ہیں‘ جس فقہی مسلک کی چاہیں پیروی کریں اور جس سلسلے میں چاہیں اور جس بزرگ سے چاہیں ’بیعت ارشاد‘ میں منسلک ہو جائیں. میری ’’اطاعت فی المعروف ‘کے پابند وہ صرف دعوت و اقامت دین کی جدوجہد کے ضمن میں ہیں!

الغرض راقم کی دعوت ‘جس کا وہ داعی ہے ‘وہ ہے جو اوپر بیان ہو چکی اور اپنی ذات کی حد تک میری استدعا‘ جس کے لیے میں علماء کرام سے ’مستدعی‘ ہوں یہ ہے جو ابھی بیان ہوئی. 
اس کے سوا اللہ گواہ ہے کہ نہ کوئی دعویٰ ہے نہ اِدّعاء .اور یہ بات میں آج کے دن تک کے لیے تو اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ پورے جزم و انشراح کے ساتھ کہہ سکتا ہوں. آئندہ کے لیے صرف اُسی کی حفاظت وصیانت پر بھروسہ اور تکیہ ہے.

متذکرہ بالا دو غلط فہمیوں کی بنا پر جو صدمہ بجا طور پر ہر دو حضرات کو پہنچا اُس کے زیر اثر جو تلخ باتیں ان حضرات کے قلم سے صادر ہو گئیں‘ اُن پر گفتگو کو میں لا حاصل ہی نہیں مضر سمجھتا ہوں. مجھے یقین ہے کہ اگر یہ دو مغالطے رفع ہو گئے تو ان شاء اللہ ساری برہمی از خود ختم ہو جائے گی.

البتہ ایک بات ایسی ہے کہ جس پر ان شاء اللہ کسی آئندہ صحبت میں تفصیلی گفتگو ہو گی. اور وہ ہے مولانا مودودی مرحوم اور تحریک جماعت اسلامی کے بارے میں میری رائے اور اُن کے ساتھ میرے تعلق کی نوعیت اس پر چونکہ جناب خسروی صاحب اور بعض دوسرے مکتوب نگاروں نے بھی خاصی ’طبع آزمائی‘ فرمائی ہے ‘لہٰذا اس ضمن میں تفصیلی وضاحت میرے ذمہ ہے. 

آخر میں دست بدعا ہوں: 

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ رَبَّنَا وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی وَاَعِذْنَا مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!!