’مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگذشت اور اب میرا موقف

مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ مدیر الفرقان‘ لکھنؤ‘ کی تالیف ’’مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگذشت اور اب میرا موقف‘‘ کا پہلا باب

تحریک خلافت اور اس کے اثرات

مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ کی یہ تحریر راقم الحروف کی نگاہ سے اس وقت بھی گزری تھی جب یہ اوّلاً (لگ بھگ پانچ سال قبل) ’’الفرقان‘‘ میں شائع ہوئی. بعد ازاں جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوئی تب بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا. اس ماہ جب راقم اپنی تحریر ’’حضرت شیخ الہند کی جماعت‘‘ کا مسودہ کاتب صاحب کے حوالے کر کے کراچی گیا تو وہاں اتفاقاً پھر مولانا کی تالیف دیکھنے میں آئی اور محسوس ہوا کہ اس کا پہلا باب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ کے اُسی دَور کے سیاسی و معاشرتی اور دینی و مذہبی پس منظر کو نکھار کر سامنے لاتا ہے جس کے بعض اعاظم رجال کا میری تحریر میں ذکر آیا ہے. چنانچہ اس کی اشاعت ان شاء اللہ قارئین ’’میثاق‘‘ کی دلچسپی کا موجب بھی ہو گی‘ اور خود میری تحریر میں اپنی کج مج بیانی کے باعث جو ابہام یا خلا رہ گیا ہے اسے بھی پُر کر دے گی. اسرار احمد 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 

یورپ کی پہلی جنگ عظیم جو ۱۹۱۴ء سے شروع ہو کر ۱۹۱۸ء پر ختم ہوئی تھی‘ یاد ہے کہ اس کے خاتمہ تک ملک کی فضا ایسی تھی کہ عام آدمی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی دن ایسا بھی آئے گا کہ یہاں انگریزوں کی حکومت نہیں رہے گی‘ یا اس کے خلاف کوئی تحریک ہی اُٹھ سکے گی. پھر اس جنگ ہی کے نتیجہ میں وہ حالات پیدا ہوئے جو ہندوستان میں ’’تحریک خلافت‘‘ برپا ہونے کا سبب بنے‘ جس نے چند ہی مہینوں میں ہندوستان میں اور خاص کر ہندوستانی مسلمانوں میں وہ انقلاب برپا کر دیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا. خلافت کی تحریک اور آزادی ٔہند کی تحریک دونوں ساتھ چل رہی تھیں‘ قیادت بھی دونوں کی مشترک تھی‘ مولانا محمد علی ‘ شوکت علی 
جس طرح تحریک خلافت کے قائد و علمبردار تھے اسی طرح تحریک آزادی کے بھی‘ اور گاندھی جی جس طرح تحریک آزادیٔ ہند کے لیڈر تھے اسی طرح تحریک خلافت کے بھی. پروگرام بھی دونوں تحریکوں کا ایک ہی تھا‘ جس کا اہم نکتہ تھا: انگریزی سرکار اور اس سے تعلق رکھنے والے اداروں سے عدم تعاون اور تا امکان انگریزی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ. ہندو اور مسلمان دونوں پورے اشتراک بلکہ اتحاد کے ساتھ تحریک چلا رہے تھے‘ لیکن مسلمانوں کے جذباتی مزاج بے پناہ جوش و خروش اور مسئلہ خلافت کی خاص مذہبی نوعیت نے تحریک پر اسلامی رنگ غالب کر دیا تھا. ’’اللہ اکبر‘‘ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترک نعرہ تھا.

حد یہ تھی کہ بہت سے ہندو لیڈر جس طرح آزادی ٔہند کے موضوع پر تقریر کرتے تھے اسی طرح خلافت کے مسئلہ پر بھی (جو مسلمانوں کا خالص مذہبی مسئلہ تھا) بالکل مسلمانوں کے انداز میں (بلکہ ایک حد تک مولویانہ انداز میں) تقریریں کرتے تھے. ہمارے ضلع مراد آباد میں میرے وطن سنبھل سے بالکل قریب ایک چھوٹا سا قصبہ سرسیؔ ہے وہاں کے ماسٹر چندو لال (جنہوں نے تحریک ہی کی وجہ سے اسکول کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا) بڑے اچھے مقرر تھے‘ ان کی تقریروں میں رسول اللہ  کا ارشاد: اَخْرِجُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ (۱بالکل صحیح الفاظ میں اور صحیح اعراب کے ساتھ ان کی زبان سے بار بار سننا اچھی طرح یاد ہے. الغرض اس وقت ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف جو تحریک مشترکہ طور پر چل رہی تھی‘ اس پر اسلامی رنگ ایسا غالب تھا جس کا وہ لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے جنہوں نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا.

جو دو ‘تین سال ’’تحریک خلافت‘‘ کے خاص عروج و شباب کے تھے‘ قریباً (۲۳-۲۲-۱۹۲۱ء) اُس زمانہ میں میرا قیام ایک طالب علم کی حیثیت سے ضلع اعظم گڑھ کے مشہور قصبہ مئو میں تھا . میرے خاص استاذ و مربی حضرت مولانا کریم بخش سنبھلیؒ (جن سے کچھ قرابت کا بھی تعلق تھا‘ مئو کی مشہور دینی درس گاہ ’’دارالعلوم‘‘ میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث (۱) یہ رسول اللہ  کی ایک وصیت کے الفاظ ہیں‘ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرۃ العرب سے باہر کر دیا جائے‘ اس کے حدود میں ان کو رہنے بسنے کی اجازت نہ دی جائے. خلافت کی تحریک جن بنیادوں پر برپا ہوئی تھی ان میں سے ایک رسول اللہ  کی یہ وصیت بھی تھی. تحریک خلافت کے سلسلہ کی تقریروں میں یہ حدیث اس کثرت سے دہرائی جاتی تھی کہ عوام بلکہ بہت سے ہندو بھائیوں کی زبان پر بھی چڑھ گئی تھی. تھے) مجھے تعلیم و تربیت کے لیے ان کے سپرد کر دیا گیا تھا‘ اس وجہ سے اس زمانہ میں میرا قیام مئو میںتھا. یوں تو ملک کے سب ہی حصوں میں تحریک خلافت کا زور شور تھا لیکن مئو کا جو حال تھا وہ شاید ہی ہندوستان کے کسی دوسرے بڑے یا چھوٹے شہر کا رہا ہو. معلوم ہوتا تھا کہ یہاں اسلامی حکومت قائم ہو گئی ہے. چونکہ تحریک کے پروگرام میں سرکاری عدالتوں کا بائیکاٹ بھی شامل تھا‘ اس لیے خلافت کمیٹی نے اپنی عدالتیں بھی قائم کی تھیں. یا د آتا ہے کہ مئو کے معمر بزرگ شاہی جامع مسجد کے امام مولانا بشیر اللہ صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا محمد ضمیر صاحب اور مولانا عبد اللہ شائق مرحوم جو ایک بہت تیز اور ذی استعداد اہل حدیث عالم تھے‘ اس عدالت کے قاضی (جج) تھے. ہر قسم کے مقدمات اور نزاعات‘ مسلمانوں کے بھی اور غیر مسلموں کے بھی اسی عدالت میں آتے تھے اور ان کے فیصلے کیے جاتے تھے اور فریقین بلا چوں و چرا اِن فیصلوں کو مانتے تھے. مسلمانوں میں بعض آوارہ مزاج لوگ تاڑی پیتے تھے (جو ایک طرح کی شراب ہے) خلافت کے رضا کار جو پولیس والی خدمات بھی انجام دیتے تھے‘ ان کو پکڑ لاتے اور عدالت کے حکم سے ان کو کوڑے لگائے جاتے اور کوئی سرکشی اور سرتابی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا. مئو میں سرکاری تھانہ اور اس طرح کے دوسرے سرکاری ادارے اور محکمے موجود تھے لیکن اس عرصہ میں ان لوگوں کے لیے گویا کوئی کام نہیں تھا. عوام کے اخلاق و کردار پر بھی غیر معمولی اثر پڑا تھا. جرائم اور لڑائی جھگڑے بڑی حد تک ختم ہو گئے تھے‘ کم از کم مئو کا تو یہی حال تھا کہ وہ حقیقی معنی میں دارالامن بلکہ ایک طرح کا ’’دارالاسلام ‘‘ بن گیا تھا. 

یہ فضا جیسا کہ عرض کیا گیا تقریباً دو‘ تین سال قائم رہی. اس کے بعد جب ۱۹۲۳ء میں مصطفی کمال پاشا نے الغاءِ خلافت کا فیصلہ کر دیا تو تحریک کی بنیاد ہی ختم ہو گئی. اسی زمانے میں ملک میں بھی کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے جن کے نتیجہ میں اس فضا کا خاتمہ ہو گیا‘ لیکن اس ’’تحریک خلافت‘‘ نے بعض بہت غیر معمولی اثرات چھوڑے‘ ان میں سے ایک یہ کہ عوام تک کے قلوب میں انگریزی حکومت کی مخالفت بلکہ دشمنی رچ بس گئی اور اس کا خوف دلوں سے بالکل نکل گیا. اور ہم جیسے لوگ بھی ’’اپنی حکومت‘‘ اور کم از کم اس فضا کا خواب دیکھنے لگے جو تحریک خلافت میں قائم ہو گئی تھی اور راقم سطور نے مئو میں دیکھی تھی.

دارالعلوم دیوبند کی طالب علمی اور اس کے بعد جمعیت العلماء سے وابستگی

جیسا کہ اوپر عرض کیا‘ یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا اس کے بعد تعلیم کے آخری دَور میں دو سال میرا قیام دارالعلوم دیوبند رہا (واضح رہے کہ یہ اب سے قریباً ۶۰ سال پہلے کا ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ تھا‘ جب کہ حضرت شیخ الہند کی وفات پر ۳؍ ۴ سال ہی گزرے تھے.) تحریک خلافت نے جو جذبات پیدا کیے تھے‘ یہاں کی فضا نے ان کی آبیاری کی‘ اور ان کو اور مشتعل اور مستحکم کیا. ’’خلافت تحریک‘‘ ختم ہو چکی تھی‘ ان جذبات کو کسی درجہ میں غذا دینے والی مسلمانوں کی جماعت ’’جمعیت العلماء ہند‘‘ ہی میدان میں رہ گئی تھی اور ’’دارالعلوم‘‘ میں تعلیم پائے ہوئے ہم جیسے لوگ اپنے اکابر کے تعلق سے اس کو اپنی جماعت سمجھتے اور اس سے اپنا رشتہ جوڑتے تھے. راقم سطور کی بھی اسی سے وابستگی رہی.

اُس وقت کی جمعیت العلماء

اس وقت وہ حقیقی معنی میں جمعیت العلماء تھی‘ یعنی صرف علماء ہی اس کے ارکان اور عہدہ دار ہو سکتے تھے‘ سیاسی پارٹیوں کی طرح کی عام ممبرسازی اور الیکشن کا طریقہ اس وقت تک نہیں اپنایا گیا تھا. 

اگرچہ ہماری جماعت دیوبند کے علاوہ دوسرے طبقوں اور حلقوں کے علماء کرام‘ مثلاً مولانا ابو الکلام آزاد‘ حضرات علماء اہلحدیث‘ علماء فرنگی محل‘ علماء بدایوں مولانا آزاد سبحانی‘ مولانا نثار احمد کان پوری‘ مولانا فاخر الٰہ آبادی (مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی 
(۱کے خلفاء میں سے) مولانا مختار احمد میرٹھی. ان کے بھائی مولانا نذیر احمد خجندی‘ مولانا عبد العلیم میرٹھی (پاکستان کے مولانا نورانی میاں کے والد ماجد مرحوم) وغیرہ بھی اس وقت اچھی خاصی تعداد میں ’’جمعیت‘‘ میں شامل تھے اور وہ حضرات جمعیت کے ذمہ دارانہ عہدوں پر تھے لیکن ارکان اور کارکنوں میں غالب اکثریت جماعت دیوبند ہی کے علماء کی تھی. اسی دَور کا یہ لطیفہ مشہور ہے کہ کسی موقع پر مولانا عبد الماجد بدایونی مرحوم نے (جو مسلکاً بدایونی حنفی تھے) مولانا ابو الکلام آزاد سے (جو سلفی المسلک تھے) بطور شکایت کے کہا کہ ہماری ’جمعیت‘‘ کا نام تو ’’جمعیت العلماء ہند‘‘ ہے لیکن واقعہ میں یہ جمعیت العلمائے دیوبند بنتی جا رہی ہے‘ تو مولانا آزاد نے اپنے خاص انداز میں فرمایا کہ میرے بھائی! ہندوستان میں جب بھی جمعیت العلماء بنے گی تو (۱) مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی‘ تحریک خلافت کے سخت مخالف تھے انہوں نے اس سلسلہ میں حسب عادت متعدد رسالے بھی لکھے تھے لیکن مولانا مختار احمد میرٹھی وغیرہ ان کے بعض خلفاء نے اس مسئلہ میں ان سے گویا بغاوت کر دی تھی. نعمانیؔ اس کی ہیئت ترکیبی یہی ہو گی‘ کیونکہ علماء تیار کرنے کا کام یہاں دیوبند ہی نے کیا ہے تو جب علماء کو جمع کیا جائے گا تو انہیں کی تعداد زیادہ ہو گی. اگر ہم نے آپ نے یہ کام کیا ہوتا تو ہماری تعداد زیادہ ہوتی.

آزادی کی جدوجہد میں کانگرس کے ساتھ اشتراکِ عمل

ملک کی آزادی کی جدوجہد میں ’’انڈین نیشنل کانگرس‘‘ کے ساتھ اشتراک عمل کا جو اصول تحریک خلافت کے دور میں اپنایا گیا تھا ’’جمعیت العلماء‘‘ بعد میں بھی اس پر برابر قائم رہی اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اس نے اس کو ضروری اور ناگزیر سمجھا. لیکن

آزادی کے بارے میں جمعیت کا خاص تصور

یہاں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ ملک کی آزادی کے بارے میں ’’جمعیت العلماء‘‘ کا ایک خاص تصور تھا جو اس دَور کے ’’جمعیت‘‘ کے اجلاسوں کے خطباتِ صدارت کے اوراق میں محفوظ ہے اور آج بھی دیکھا جا سکتا ہے (خاص کر حضرت مولانا محمد سجاد نائب امیر شریعت بہار کے اجلاس مراد آباد کے خطبہ ٔصدارت میں اور حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے اجلاس کلکتہ کے خطبہ ٔصدارت‘ اور حضرت مولانا محمد انور شاہؒ کے اجلاس پشاور کے خطبہ صدارت میں) اور جمعیت کے اجلاسوں کی تجاویز میں. مجھے یاد ہے کہ اُس زمانے کے جمعیت العلماء کے دستور میں مقصد و نصب العین کے تحت غالباً پہلی ہی دفعہ کے الفاظ یہ تھے ’’شرعی نصب العین کے مطابق ہندوستان کی مکمل آزادی‘‘. 

بہرحال ملک کی آزادی کے بارے میں جمعیت العلماء کا ایک خاص تصور تھا‘ اور اسی تصور کی بنا پر اس کے اکابر و رہنما آزادی کی جدوجہد کو اپنے لیے جہاد فی سبیل اللہ سمجھتے تھے اور اسی نیت سے اس کے راستہ میں قربانیاں دیتے تھے.

شدھی سنگٹھن کی تحریک کا دَور

تحریک خلافت کے اضمحلال اور پھر خاتمہ کے بعد کئی برس تک بعض ایسے اسباب کی وجہ سے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں‘ انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کا محاذ ٹھنڈا رہا تھا. اُس زمانہ میں آریہ سماجیوں کی اٹھائی ہوئی شدھی سنگٹھن تحریک کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد بھی درہم برہم ہو گیا اور دین کی فکر رکھنے والے مسلمانوں کو دین کی حفاظت کے لیے اس تحریک کے جوابی اقدامات کی طرف متوجہ ہونا پڑا. اس دَور میں جمعیت العلماء کی بھی مساعی زیادہ تر اسی شعبہ کی طرف مصروف رہیں. اسی زمانہ میں ’’جمعیت العلماء‘‘ نے اپنا اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا. مولانا مودودی اس کے ایڈیٹر تھے اور وہ ان کی نوجوانی کا زمانہ تھا. یہ عاجز سب سے پہلے ’’الجمعیۃ‘‘ ہی کے ذریعہ ان کے نام سے آشنا ہوا. جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ اس زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کا محاذ ٹھنڈا تھا‘ کانگرس کی طرف سے بھی کوئی تحریک جاری نہیں تھی.

۱۹۳۰ ء سے جنگ آزادی کا پھر آغاز

۱۹۳۰ء میں کانگرس نے انگریزی حکومت کے خلاف پھر آزادی کی جنگ شروع کی. جمعیت العلماء نے بھی اپنے امردہہؔ کے اجلاس میں اس جنگ میں کانگرس کے ساتھ اشتراک عمل کا فیصلہ کیا اور وہ پھر کانگرس کے ساتھ جنگ کے میدان میں آ گئی.

اس دَور میں میرا حال اور مشاغل

عرض کیا جا چکا ہے کہ راقم سطور بھی جمعیت العلماء سے وابستہ تھا. میری یہ وابستگی اگرچہ ذہنی اور فکری لحاظ سے بہت عمیق اور راسخ تھی اور میں ملک کی آزادی کے سلسلہ میں اس کی جدوجہد اور قربانیوں کو پورے یقین و اطمینان کے ساتھ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ ہی جانتا اور سمجھتا تھا‘ لیکن یہ واقعہ ہے کہ اس کی اس سیاسی جدوجہد میں میرا عملی حصہ بس برائے نام ہی رہا. اس دَور میں تعلیم و تدریس میرا خاص مشغلہ تھا‘ اس کے علاوہ آریہ سماجیوں کی برپا کی ہوئی ’’شدھی‘‘ کی تحریک نے (جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے) اس زمانہ میں آریہ سماج اور مسلمانوں کے درمیان مناظرہ‘ مباحثہ کا میدان گرم کر دیا تھا. اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میدان میں اسلام کی وکالت و حمایت کی کچھ صلاحیت عطا فرمائی تھی اس لیے میں اس میں بھی حصہ لیتا تھا. قادیانی فتنہ اور قادیانی مبلغین کی سرگرمیاں بھی اس زمانہ میں عروج پر تھیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے اور ان کے فتنہ سے امت کی حفاظت کی خدمت کی توفیق بھی اس عاجز کو عطا فرمائی تھی. 

نیز قریباً اسی زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نجد کی ’’وہابی حکومت‘‘ کے اس وقت کے فرمانروا سلطان عبد العزیز بن سعود نے شریف حسین کو (جس نے جنگ عظیم کے دوران انگریزوں کی مدد سے سلطنت عثمانیہ ترکی اور خلیفۃ المسلمین سے بغاوت کر کے حجاز مقدس پر اپنی حکومت قائم کر لی تھی) حرمین شریفین اور پورے علاقہ حجاز سے بے دخل کر کے وہاں اپنا اقتدار قائم کر لیا اور اپنے مسلک کے مطابق حکومتی طاقت سے وہاں دینی اصلاحات نافذ کیں‘ اس سلسلہ میں انہوں 
نے وہ قبے بھی تڑوا ڈالے جو مکہ مکرمہ کے قبرستان جنّۃ المعلاۃ اور مدینہ منورہ کی جنّۃ البقیع میں (رسول اللہ  کی ہدایت کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے) بعض اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبور پر کسی زمانہ میں بنا لیے گئے تھے. اس واقعہ پر ہندوستان کے مختلف طبقوں کے قبوریین و مبتدعین اور شیعہ حضرات نے متحدہ محاذ بنا کر ’’وہابیوں‘‘ اور ’’وہابیت‘‘ کے خلاف زبان و قلم کی ایک طوفانی جنگ برپا کر دی اور یہاں حملوں کا خاص نشانہ شاہ اسمٰعیل شہید اور ان کی دعوتِ توحید و سنت کی علمبردار جماعت دیوبند کے اکابر کو بنایا گیا اور تکفیر و تفریق اور فساد انگیزی کا وہ فتنہ جو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے برپا کیا تھا اور جو تحریک خلافت میں بالکل دفن ہو گیا تھا پھر زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا اور اس میدان میں بھی یہاں مناظروں‘ مباحثوں کا بازار گرم ہو گیا. راقم سطور نے اللہ کی توفیق سے اس میدان میں بھی مسلک حق و اہل حق کی حمایت و وکالت میں حصہ لیا. الغرض ایک طویل زمانہ تک تعلیم و تدریس کے ساتھ اسلام کی وکالت اور دین حق و اہل حق پر ہونے والے حملوں کی مدافعت بھی اس عاجز کا خاص مشغلہ رہا. اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کو بھی قبول فرمائے اور اس سلسلہ کی تقصیرات معاف فرما دے.

مولانا مودودی کے رسالہ ترجمان القرآن کا آغاز

غالباً ۱۹۳۲ء شروع ہو چکا تھا .حضرت مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی لکھنوی نے ایک ادارہ لکھنؤ میں ’’دار المبلغین‘‘ کے نام سے قائم کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ جیسے بڑے دینی مدارس کے باصلاحیت فارغ التحصیل فضلاء کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی دعوت و تبلیغ اور بیرونی حملوں اور اندرونی فتنوں سے اس کی حفاظت و مدافعت اور اس کے لیے تحریر و تقریر اور مناظرہ مباحثہ کی تربیت دی جائے. مولانا مرحوم نے اس ادارہ کی خدمت کے لیے اس عاجز کو بھی طلب فرمایا اور اسی سلسلہ میں اس دَور میں چند مہینے میرا قیام لکھنؤ میں رہا. اس وقت مولانا کا ماہنامہ ’’النجم لکھنؤ‘‘ جاری تھا‘ اس کے دفتر میں حیدر آباد سے ایک نیا رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ آنا شروع ہوا. جس پر ایڈیٹر کی حیثیت سے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا نام ہوتا تھا. مولانا لکھنوی مرحوم کے صاحبزادے مولوی عبد المومن فاروقی مرحوم نے جو خود نوجوان صاحب قلم تھے‘ اس کا ایک شمارہ دیکھنے کے لیے مجھے دیا‘ میں نے محسوس کیا کہ اس کے ایڈیٹر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو اللہ تعالیٰ نے دینی مسائل و حقائق کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سمجھانے کی غیر معمولی صلاحیت اور قدرت عطا فرمائی ہے اور اسلام کے بارے میں مستشرقین کی کتابوں اور مغربی علوم و افکار کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات جڑ سے اکھاڑ کے دلوں میں اطمینان و یقین پیدا کرنے میں ان کو خاص کمال حاصل ہے. اُس کے بعد سے میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ہر شمارہ کا منتظر رہنے لگا‘ جب وہ آتا تو مولوی عبد المومن مرحوم مجھے پہنچاتے اور میں بڑے شوق اور اہتمام سے اس کا مطالعہ کرتا.

بریلی سے الفرقان کا اجرا

لکھنؤ میں اپنے قیام ہی کے زمانے میں‘ میں نے ’’الفرقان‘‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور محرم ۱۳۵۳ھ (مارچ ۱۹۳۴ء) سے بریلی سے اس کا اجرا ہوا‘ اور اب ’’ترجمان القرآن‘‘ اس کے تبادلہ میں میرے پاس براہ راست آنے لگا. وہ مجھے اتنا عزیز تھا اور میں اس کا ایسا عاشق تھا کہ اس سے پہلے پورے ایک سال کے شمارے جو میں نے لکھنؤ میں دیکھے تھے اور اب میرے پاس نہیں تھے وہ بھی میں نے دفتر ’’ترجمان القرآن‘‘ حیدر آباد سے بقیمت منگوا لیے اور اس کا پورا فائل اپنے پاس رکھنا ضروری سمجھا واقعہ یہ ہے کہ ترجمان القرآن کے مطالعہ سے میرے قلب میں مولانا مودودی کی وقعت اور محبت میں برابر اضافہ ہوتا رہا. میں ان کو اس دَور میں ’’متکلم اسلام‘‘ لکھتا تھا اور نجی طور پر بھی اور ’’الفرقان‘‘ کے ذریعہ بھی ’’ترجمان القرآن‘‘ کے مطالعہ اور خریداری کی لوگوں کو ترغیب و دعوت دیتا تھا.

ترجمان القرآن خالص علمی و دینی رسالہ

اس وقت ’’ترجمان القرآن‘‘ خالص دینی اور علمی رسالہ تھا جس میں ملک کی سیاسی تحریکات اور پولٹیکل معاملات کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا. برطانوی حکومت جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ’’طاغوتی حکومت‘‘ تھی اور ہندوستان پر اور عالم اسلام کے بہت بڑے حصہ پر براہ راست یا بالواسطہ مسلط تھی اس کے خلاف بھی کبھی کچھ نہیں لکھا جاتا تھا. ’’حکومت الٰہیہ‘‘ ‘ ’’اقامت دین‘‘‘ ’’اسلامی نظام‘‘‘ یا ان مقاصد کے لیے کسی جماعت کی تنظیم و تشکیل کا بھی کوئی ذکر اس کے صفحات میں نہیں ہوتا تھا. یہ سب چیزیں اس دَور میں اُس کے دائرہ بحث سے بالکل خارج تھیں.

ترجمان القرآن میں سیاسی مضامین کا آغاز

’’ترجمان القرآن‘‘ کے اجرا کے چوتھے سال ۱۹۳۶ء میں انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کی بنیاد پر ہندوستان میں پہلا جنرل الیکشن ہوا. اُس دَور میں جداگانہ انتخاب کا طریقہ رائج تھا‘ مسلمان نمائندوں کو مسلمان ہی منتخب کرتے تھے اور ہندو نمائندوں کو صرف ہندو. اس الیکشن کے نتیجہ میں ملک کے سات صوبوں میں کانگرس کو قطعی اکثریت حاصل ہو گئی‘ اور ان صوبوں میں بلا شرکت غیرے کانگرسی گورنمنٹیں قائم ہو گئیں. ان سات صوبوں میں غالب مسلم اکثریت کا ایک صوبہ سرحد بھی تھا. دوسرے صوبوں میں بعض دوسری مقامی سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ گورنمنٹیں بن گئیں. یہ صوبائی گورنمنٹیں قانونی حیثیت سے زیر سایہ برطانیہ ہونے کے باوجود بڑی حد تک خود مختار تھیں.

اس مرحلہ پر ہم جیسوں کے لیے دو حقیقتیں کھل کر بالکل سامنے آ گئیں. ایک یہ کہ انگریزی اقتدار سے ملک کے بالکل آزاد ہو جانے کی منزل اب زیادہ دور نہیں ہے. دوسرے یہ کہ انڈین نیشنل کانگرس کی قیادت میں آزادی کی تحریک جس طرح چل رہی ہے‘ اس کے نتیجے میں جو آزادی حاصل ہو گی اور جو جمہوری قومی حکومت قائم ہو گی وہ ہم مسلمانوں کی آرزؤں اور امنگوں کے مطابق نہ ہو گی‘ بلکہ خاص کر اقلیتی صوبوں میں ان کی تہذیب اور ان کے ملّی تشخص کے لیے نئے نئے خطرات پیدا ہو جائیں گے.

۱۹۳۶ ء کے الیکشن کے بعد ملکی سیاست پر مولانا مودودی کے مضامین

مولانا مودودی نے اس وقت ترجمان القرآن میں اس موضوع پر لکھنا شروع کیا‘ یہ واقعہ ہے کہ وہ قلم کے بادشاہ ہیں‘ ان کے یہ مضامین قوت استدلال کے لحاظ سے بہت ہی محکم اور بڑے مؤثر تھے. راقم سطور بھی ان سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا‘ دوسرے بہت سے اخبارات و جرائد نے بھی ان کو اپنے صفحات میں شائع کیا‘ یہاں تک کہ ’’جمعیت العلماء‘‘ کے اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ میں بھی اس کی پہلی دو یا تین قسطیں شائع ہوئیں (حالانکہ ان کی زد اس وقت کے جمعیت کے سیاسی مسلک پر پڑتی تھی) ’’الفرقان‘‘ میں بھی یہ مضامین نقل ہوتے رہے اورراقم الحروف خود بھی ان کی تائید میں برابر لکھتا رہا.

مولانا مودودی سے ذاتی ربط و تعلق

اسی زمانہ میں مولانا مودودی صاحب سے تعلقات بڑھے اور خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا. اسی سلسلہ ٔمضامین میں ایک مرحلہ پر مولانا مودودی نے مسلمانوں کے سامنے احیائِ دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کو اصل نصب العین بنا کر خالص دینی بنیاد پر اس طرح کی ایک جماعت کی تنظیم اور اصلاحی دعوتی کام کی اسکیم پیش کی جس طرح کسی دَور میں مولانا آزاد مرحوم نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے ایک جماعت کی تنظیم شروع کی تھی. مجھے یاد آتا ہے کہ انہوں نے اپنے اس مضمون میں حوالہ کے ساتھ ’’الہلال‘‘ کے اقتباسات بھی نقل کیے تھے. اس عاجز کو ان کی اس مثبت اسکیم سے بھی اس وقت پورا اتفاق تھا. 
پھر ایک مرحلہ آیا جب ہمارے درمیان خط وکتابت سے یہ طے ہوا کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’الفرقان‘‘ کے ذریعہ ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں مسلمانوں سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اور جو دعوت دی جا رہی ہے‘ اس کو ایک تحریک بنا کر آگے بڑھانے کے لیے عملی جدوجہد کا کوئی لائحہ اور منصوبہ بنایا جائے. مولانا مودودی نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ اب میں اس کا عزم کر چکا ہوں اور چونکہ اس کام کے لیے ریاستی علاقہ (حیدر آباد) بالکل مناسب نہیں ہے اس لیے میں پنجاب کے ایک مقام کو اپنی سکونت اور اس کام کے مرکز کے لیے تجویز کر چکا ہوں‘ اور وہاں منتقل ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہوں. پھر ایک وقت انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ میں فلاں تاریخ کو دہلی پہنچ رہا ہوں‘ میرا قیام محلہ چوڑی والان ’’شمسی کاٹج‘‘ میں ہو گا (یہ مولانا کا سسرالی مکان تھا) آپ اس تاریخ پر دہلی آ جائیں تو آئندہ کام کے بارے میں تفصیلی باتیں ہو جائیں گی.

مودودی صاحب سے پہلی ملاقات

ابھی تک سارا تعلق غائبانہ تھا‘ ملاقات کی کبھی نوبت نہیں آئی تھی. میں نے ان سے ملاقات اور مستقبل کے منصوبے اور کام کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے دہلی کا سفر کیا. میں یہ بات سن چکا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کے ایمان افروز مضامین سے ان کے طرز زندگی کے بارے میں جو اندازہ کوئی لگا سکتا ہے ان کی زندگی اس سے بہت مختلف ہے ‘یعنی جس اسلامی زندگی کے وہ پر زور داعی ہیں خود ان کی وہ زندگی نہیں ہے. جن صاحب نے مجھے یہ بات بتلائی تھی وہ مولانا کے ملنے والوں میں سے تھے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ کے مضامین سے متاثر اور ان کے قدردان تھے‘ انہوں نے بتلایا تھا کہ مودودی صاحب ’’محلوق اللحیۃ‘‘ رہتے ہیں. مجھے یاد ہے کہ یہ سن کر مجھے حیرت و استعجاب کے ساتھ بڑا رنج و افسوس اور بڑی مایوسی ہوئی تھی . (۱(۱) جہاں تک مجھے یاد ہے یہ واقعہ۱۹۳۷ء کا ہے جب کہ ترجمان القرآن میں ۴؍ ۵ برس سے مولانا کے وہ ایمان افروز مضامین شائع ہو رہے تھے جنہوں نے ہم جیسوں کو ان کا گرویدہ و عاشق بنا دیا تھا‘ اور میرا تصور ان کے بارے میں وہی تھا جو دین کے کسی داعی کے بارے میں ہونا چاہیے.

لیکن دہلی کی اس ملاقات سے چند ہی روز پہلے حیدر آباد ہی سے ایک بڑے قابل اعتماد ذریعہ سے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اب ان کی زندگی کے طرز میں ہم جیسوں کے لیے خوشگوار تبدیلی شروع ہو گئی ہے (ایک محترم بزرگ نے لکھا تھا کہ اب مودودی صاحب کے چہرہ پر ایمان کی کھیتی اُگنا شروع ہو گئی ہے) مجھے اس اطلاع سے بڑی خوشی ہوئی تھی‘ بہر حال میں مولانا سے ملنے کے لیے دہلی پہنچا. چوڑی والان میں ’’شمسی کاٹج‘‘ پہنچ کر ملاقات کی. واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پہلی دفعہ مولانا کو دیکھ کر طبیعت کو ایک دھچکا سا لگا‘ کیونکہ اب بھی مولانا کی ہیئت اس سے بہت مختلف تھی جو ہونی چاہیے تھی اور جس کی توقع پیدا ہو گئی تھی. وہ اس وقت محلوق اللحیۃ تو نہیںتھے لیکن اس لحاظ سے ان میں بس برائے نام ہی تبدیلی آئی تھی. مگر چونکہ مولانا کے مضامین سے میں بہت متاثر تھا اور ان کے ساتھ ایک خاص قلبی تعلق پیدا ہو گیا تھا اس لیے دل کو سمجھایا کہ عملی زندگی کی اصلاح کا ابھی آغاز ہوا ہے‘ ان شاء اللہ آئندہ یہ حالت نہیں رہے گی اور ان کی زندگی اور تحریر میں جو مطابقت ہونی چاہیے وہ ان شاء اللہ ہو جائے گی. آئندہ کام کے بارے میں اس ملاقات میں کسی قدر تفصیلی گفتگو ہوئی. 

ڈاکٹر اسرار احمد کی تالیف ’تحریک جماعت اسلامی ‘ کے اس تعارفی اشتہار کا عکس جو آج سے بیس سال قبل ماہنامہ ’میثاق‘ میں شائع ہوا تھا. واضح رہے کہ یہ کتاب اولاً ۱۹۶۶ء میں ڈاکٹر صاحب کے ذاتی اشاعتی ادارے ’دارالاشاعت الاسلامیہ‘ کے تحت شائع ہوئی تھی.