قارئین ’’میثاق‘‘ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ راقم الحروف نے اپنی زندگی کو غلبہ و اقامت دین کی جس جدوجہد کے لیے وقف کیا ہے اس کے ضمن میں اسے علماء کرام کی سرپرستی اور تعاون کی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس ہے. اور اس سلسلے میں یوں تو اگرچہ وہ اہل علم کے تمام سلسلوں اور خانوادوں کے دَر کا سوالی ہے اور سب ہی کی خدمت میں کشکول بدست حاضری اُس کے پروگرام میں شامل ہے‘ تاہم ابتداء ً اُسے سب سے زیادہ توقع علماء کرام کے ان حلقوں سے ہے جن کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق حضرت شیخ الہندؒ سے ہے کہ اُن سے منسلک بزرگ اور معمر علماء اُس کی سرپرستی فرمائیں گے اور غلطیوں پر متنبہ فرمائیں گے اور صحیح باتوں کی تائید و توثیق کریں گے ورنہ کم از کم دعائِ خیر سے ضرور نوازیں گے اور نوجوان علماء اُس کے ساتھ عملی تعاون کے لیے پیش قدمی کریں گے اور اس کے دست و بازو بنیں گے لیکن افسوس کہ گزشتہ سال کے دوران اس ضمن میں جو تحریریں راقم کے قلم سے نکل کر ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوئیں‘ ان کے حوالے سے بعض ضمنی اور فروعی مباحث کا سلسلہ اس قدر طول اختیار کر گیا کہ کم از کم وقتی طور پر اصل مقصد غتربود ہو گیا اور بظاہر احوال صورت یہ بن گئی کہ ؎

خدایا جذبہ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے!

اس ضمن میں اس امر کا فیصلہ تو مستقبل کرے گا کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے میں کس قدر دخل راقم کے قصورِ فہم یا عجز بیان کو حاصل ہے اور کس قدر علماء حق کے بار بار کے تلخ تجربات کی بنا پر ضرورت سے زیادہ حساس بلکہ متوحش ہونے کو اور کس قدر بعض علماء سوء کی ریشہ دوانیوں کو بہرحال راقم اس معاملے میں ہرگز مایوس یا بد دل نہیں ہے اور اگرچہ اُس کے بہت سے رفقاء نے اسے پورے شدو مدکے ساتھ مشورہ دیا ہے کہ اس سعی ٔلا حاصل میں وقت ضائع مت کرو بلکہ بعض اکابر جو خود علماء ہی کے حلقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کی بھی یہ رائے سامنے آئی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو اور علماء سے نہ کوئی معارضہ کرو نہ تعارض یا تعرض. تاہم راقم کا فیصلہ یہی ہے کہ اس سلسلے میں اس کی کوششیں بھرپور طور پر جاری رہیں گی. اور اسے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اپنے خلوص و اخلاص کی بنا پر یقین ہے کہ وہ علمائِ حق کا اعتماد حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا. ان شاء اللہ العزیز!

اس ضمن میں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ اس میں راقم نہ کسی تکلف یا تصنع سے کام لے رہا ہے نہ ہی کوئی وقتی مصلحت اس کی داعی بنی ہے ‘بلکہ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ یہ راقم کے مزاج اور افتاد طبع کا جزو لاینفک ہے. 

راقم نے بارہا ذکر کیا ہے کہ بالکل نو عمری میں جبکہ راقم ابھی ہائی اسکول کا طالب علم تھا اُس کا حال یہ تھا کہ اگرچہ اس کا فکری و جذباتی تانا بانا کل کا کل علامہ اقبال مرحوم کی ملّی شاعری سے بنا تھا اور اسی بنا پر اس کی عملی وابستگی تحریک پاکستان کے ساتھ تھی ‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے نہ صرف یہ کہ مولانا مودودی مرحوم کے بہت سے کتابچے پڑھے تھے اور مسلم لیگ اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے حلقوں میں وہ ان کی جانب سے مدافعت کیا کرتا تھا ‘بلکہ لیگی حلقوں کی اس وقت کی مبغوض ترین شخصیت یعنی مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی بعض کتابیں (جن کے نامغالباً مضامین الہلال اور مقالاتِ ابو الکلام تھے) میں نے ماسٹر غلام محمد بھٹی مرحوم سے لے کر کچھ سمجھ کر اور کچھ بے سمجھے بوجھے پڑھی تھیں.
پھر جماعت اسلامی کی تحریک کے ساتھ دس سالہ شدید فعال وابستگی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے راقم 
’’حُبّک الشیٔ یُعمیکَ وَ یُصِمّ‘‘ کا مصداق نہیں بنا. چنانچہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے ضمن میں راقم کی رائے یہ بنی تھی جس کا اس نے برملا اظہار بھی کیا تھا کہ اس معاملے میں جماعت نے شدید بے اصولے پن کا مظاہرہ کیا ہے‘ پھر جب بعض فقہی مسائل میں مولانا مودودی مرحوم اور مولانا ظفر احمد عثمانی تھانویؒ کے مابین قلمی مناظرہ ہوا تو اُس کے ضمن میں بھی راقم نے برملا کہا کہ مولانا کو کھلی شکست ہوئی ہے. پھر جب مولانا نے حضرت مدنی ؒ کی خود نوشت سوانح حیات (نقش حیات) پر تنقید کی‘ تو راقم نے اصل کتاب جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے حاصل کر کے پڑھی اور جماعت اسلامی کے اجتماعِ ارکان میں برملا کہا کہ اس معاملے میں مولانا سے علمی خیانت کا صدور ہوا ہے! پھر جب راقم کی رائے یہ بنی کہ جماعت اسلامی اپنے اصل انقلابی طریق کار سے منحرف ہو کر غلط رُخ پر چل نکلی ہے تو سب جانتے ہیں کہ راقم نے کس جرأت کے ساتھ اس کا اظہار کیا‘ یہاں تک کہ ماچھی گوٹھ میں خود مولانا مودودی مرحوم کے بالمقابل اپنی رائے کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی. یہ دوسری بات ہے کہ اس وقت اُس کی بات نقارخانے میں طوطی کی صدا بن کر رہ گئی!
اس سلسلہ کا ایک واقعہ یاد آیا. یہ ۵۳۱۹۵۲ء کی بات ہے. راقم میڈیکل کالج کا طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ راقم کے دو کلاس فیلو جن میں سے ایک 
حیدر شاہ صاحب پاکستان کی موجود الوقت معروف اور مقتدر دینی شخصیت پیر کرم شاہ صاحب کے حقیقی برادر خورد تھے اور دوسرے محبوب شاہ صاحب اُن کے چچا زاد بھائی‘ یہ دونوں حضرات جماعت اسلامی کے شدید ترین مخالف تھے بلکہ ’’نقل کفر کفر نبا شد‘‘ کے مصداق نقل کررہا ہوں کہ وہ ’’ایک مودودی‘ سو یہودی‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے. تو میں نے ایک بار اُن سے عرض کیا تھا کہ ’’شاہ صاحب ہم مولانا مودودی کے پیچھے اندھے بہرے ہو کر نہیں چل رہے ہیں بلکہ الحمد للہ کہ کھلی آنکھوں اور بیدار ذہن و قلب کے ساتھ چل رہے ہیں ‘اگر کبھی محسوس ہوا کہ وہ غلط راہ پر چل نکلے ہیں تو ان شاء اللہ اُن سے اختلاف کرنے والا پہلا شخص میں ہوں گا!‘‘ اس کے بعد میں نے بارہا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے کہ اُس (اللہ تعالیٰ) نے میرے اس قول کی لاج رکھی اور مجھے کسی ’’ذہنی غلامی‘‘ میں مبتلا ہونے سے بچا لیا ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ!

جماعت سے علیحدگی کے بعد ایک عرصہ تک جماعت کے سابقین ہی کے ’’صحرائے تیہہ‘‘ میں بھٹکتے رہنے اور بالآخر اُن سے مایوس ہونے کے بعد راقم نے جیسے ہی اپنی ذاتی سوچ اور خود اپنی افتادِ طبع کے مطابق آزادانہ کام کی داغ بیل ڈالی تو اُس کے مزاج کے اُس جزو لازم کا ظہور شروع ہو گیا. اور اگرچہ راقم کے اُس وقت کے ’’سرپرست‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی کو یہ چیز شدید ناگوار تھی تاہم راقم نے علماء کرام سے ربط و ضبط بڑھانا شروع کر دیا. چنانچہ اُس کی قائم کردہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام جو پہلی سالانہ قرآن کانفرنس دسمبر ۱۹۷۳ء میں منعقد ہوئی اُس کی ’’شان‘‘ کا کچھ اندازہ اُس اشتہار سے ہو سکتا ہے جو اس کے لیے اخبارات میں شائع کرایا گیا تھا. جس کا عکس اگلے صفحات میں شائع کیا جا رہا ہے! (راقم ان دنوں اپنے بعض پرانے کاغذات کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک لفافے سے اُس اشتہار کا پوزٹیو برآمد ہو گیا. اصل میں ہم اخبار کے لیے اشتہار کی کتابت خود اپنے اہتمام میں کراتے ہیں اور پھر اُس کے پوزٹیو بنوا کر اخبارات کو دیتے ہیں. غالباً اُس وقت کچھ زائد کاپیاں بن گئی ہوں گی جن میں سے دو میرے کاغذات میں محفوظ رہ گئیں). اس کانفرنس کے پانچ اجلاس ہوئے تھے جن کے جملہ مقررین اور مقالہ نگار حضرات کے نام تو اشتہار میں نہیں آ سکتے تھے. صدر حضرات کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں:

(۱) مولانا عبید اللہ انورؒ (۲) مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ (۲) پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم (۴) علامہ علاؤ الدین صدیقی مرحوم 
(۵) مولانا امین احسن اصلاحی

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ 
(حدیث نبویؐ )
خوار از مہجوری قرآن شدی . شکوہ سنج گردش دوراں شدی ٭اے چوں شبنم برزمیں افتندۂ دربغل داری کتاب زندۂ (اقبال)