سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا؟

شادی بیاہ کے سلسلے کی ایک اصلاحی تحریک اور اس پر مفتی جمیل احمد صاحب کی تنقید کا جائزہ ’’حسّاس‘‘ کے قلم سے بشکریہ ’’حرمت‘‘ اسلام آباد

۱۸۵۷ء کا حادثہ اس قدر سنگین تھا کہ الامان‘ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت بالکلیہ ختم ہو گئی اور وہ غلام بن کر رہ گئے اور ان پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا. 

دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے دوسرے مدارس کا قیام بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت تھی. مدارس عربیہ کی اس تحریک کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی جیسے درویش خدامست تھے جو شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ کے خاندان کے فیض یافتہ اور اس خاندان کے اساتذہ کے علوم و معارف کے وارث تھے. اتفاق یہ ہے کہ جناب سر سید احمد خان اور مولانا نانوتوی دونوں نے ہی مولانا مملوک علی نانوتوی سے کسب فیض کیا‘ لیکن دونوں کی عملی راہیں جدا تھیں. مولانا قاسم نانوتوی اپنے رفقاء سمیت جہاد ۱۸۵۷ء میں باقاعدہ حصہ لے کر حکومت کو بچانے کی فکر کر چکے تھے اور اس میں ناکامی پر انہوں نے ان مدارس کی طرف توجہ دی جن کا مقصد مسلمانوں کی روایات‘ تہذیب و تمدن اور ان کے علوم و فنون کی حفاظت تھی. ساتھ ہی وہ مسلمانوں کو جنگ آزادی کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے ‘جیسا کہ آپ کے سب سے محبوب شاگرد مولانا محمود حسن (شیخ الہندؒ ) کے تاثرات اور ان کی جدوجہد سے ثابت ہے. لیکن سر سید احمد خاں مرحوم بدیسی حکومت سے تعاون کا رویہ اختیار کرنے میں عافیت سمجھتے تھے. گویا دونوں حضرات کے مسلک میں بُعد المشرقین تھا. لیکن اس کے باوجود شخصی احترام تھا. جس کا اندازہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کے خطوط اور سر سید احمد خان کے تعزیتی نوٹ سے ہو سکتا ہے. 
مولانا نانوتوی ‘ان کے احباب یا اخلاف کو کسی بھی دَور میں کالجی تعلیم سے نفرت نہیں رہی‘ نہ انہوں نے اس کے خلاف کبھی محاذ آرائی کی‘ بلکہ مولانا کے ایک قریبی عزیز سب سے پہلے وہاں کے ذمہ دار حضرات کی خواہش پر وہاں دینیات کے مدرس بن کر گئے اور پھر ہمیشہ ہی مختلف دائروں میں تعلقات قائم رہے .مولانا محمود حسن اور صاحبزادہ آفتاب احمد کے دَور میں تعلقات عروج پر تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دھارے آپس میں مل جائیں گے. اگر ایسا ہوجاتا تو ملت کی قسمت بدل جاتی‘ لیکن علی گڑھ کے بعض عزیزوں کے منفی رویہ نے صورتِ حال سنبھلنے نہ دی. اور شاید اسی کاردّ عمل تھا کہ مولانا محمود حسن کی مالٹا کے قید خانہ سے واپسی پر علی گڑھ میں انہی کے ہاتھوں جامعہ ملیّہ کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں بوجوہ دہلی منتقل ہو گیا. اور آج ہندوستان کے باوقار تعلیمی اداروں میں اس کا شمار ہوتا ہے. 
مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلفاء میں سے مولانا خیر محمد جالندھری جنہوں نے جالندھر میں مدرسہ خیر المدارس کی داغ بیل ڈالی‘ کے مزاج میں بھی یہی رنگ غالب تھا. وہ واقعتا ایسے بزرگ تھے جنہوں نے ہمیشہ جوڑنے کی فکر کی‘ حتیٰ کہ اسی فکر میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے.

مرحوم ایوب خان کے بعد جب ملک میں سیاسی جھگڑے بڑے اور جمعیۃ علماء اسلام کے بالمقابل مرکزی جمعیت علماء اسلام کے نام سے ایک نئی جماعت کا اہتمام ہوا تو مولانا مرحوم نے اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی. اور یہی صدمہ انہیں دنیا سے لے جانے کا باعث بنا.

ان کا خلوص‘تدبر اور متوازن انداز فکر ہی تھا جس نے تقسیم ملک کے بعد ملتان میں خیر المدارس کی نشأۃ ثانیہ کا اہتمام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مدرسہ ملک کی مثالی درسگاہ بن گیا. ان کے سانحۂ ارتحال کے بعد ان کے منجھلے صاحبزادے مولانا محمد شریف نے بڑی ہمت و استقامت سے اس درسگاہ کا نظام سنبھالا اور جب وہ مکہ معظمہ کی مقدس وادی میں اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئے تو مدرسہ میں بھونچال آ گیا. بعض حضرات نے مدرسہ میں شب خون مار کر اس پر بیرونی قیادت مسلط کرنے کی کوشش کی اور لاہور سے ایک منتظم کو امپورٹ کرنا چاہا‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا. اور مدرسہ کے بہی خواہوں نے مولانا کے نبیرہ اور مولانا محمد شریف کے صاحبزادے مولانا محمد حنیف کو اس کی صلاحیتوں کی بنا پر ادارہ کا نگران و مہتمم بنا دیا. 
مولانا محمد حنیف کے دَور میں مدرسہ سے ایک ماہنامہ مجلہ کا اہتمام بنام ’’الخیر‘‘ کیا گیا. اس ذمہ دار اور متوازن ادارہ کی نسبت و حوالہ سے اہل ملک نے اس کا خیر مقدم کیا اور توقع رکھی 
کہ یہ مجلہ ملک میں صحت مند صحافت کے فروغ میں موثر کردار ادا کرے گا.

اپنے مخصوص مزاج کے تحت واقعہ یہ ہے کہ رسالہ کی ابتدا خوب تھی‘ لیکن اب چند ماہ سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے خلاف جس انداز سے ایک مہم شروع کی گئی ہے اسے دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے اور رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ شاید یہ سوچا گیا ہو کہ اس طرح رسالہ کی اشاعت خوب ہو گی اور ممکن ہے ایسا ہو بھی جائے‘ لیکن آخر ہم سب نے اپنے کیے دھرے کا حساب بھی تو دینا ہے. اس کا اگر ہم سب کو احساس ہو جائے تو ہم بہت سے منفی کاموں میں اپنی صلاحیتیں کھپانے کے بجائے مثبت کاموں میں لگ جائیں.
مئی ۱۹۸۵ء کا رسالہ ہمارے سامنے ہے اسی حلقہ کی ایک بڑی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مفتی مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی کا ایک مضمون شائع ہوا جس سے از حد کوفت ہوئی اور ہم یہ سطور لکھنے پر مجبور ہوگئے. اس جامعہ کے بانی مولانا مفتی محمد حسن حضرت تھانویؒ کے بڑے خلفاء میں سے ایک تھے . جنہوں نے تقسیم ملک سے قبل امرتسر میں اس مدرسہ کی داغ بیل ڈالی. تقسیم کے بعد نیلا گنبد لاہور کی ایک متروکہ عمارت میں اس کی نشاۃِ ثانیہ ہوئی اور پھر مسلم لیگی حکومت کے تعاون کے سبب فیروز پور روڈ پر لب نہر ایک وسیع قطعہ ٔاراضی پر اس جامعہ کی شاندار عمارت بنی. حضرت مفتی جمیل احمد صاحب یہیں کام کرتے ہیں. حضرت تھانوی سے روحانی ہی نہیں خاندانی نسبت بھی ہے. حضرت مرحوم کی چھوٹی اہلیہ محترمہ آپ کے پاس ہی لاہور میں مقیم ہیں اور انہی کی سرپرستی میں موصوف کے صاحبزادگان نے دینی کتب کی خرید و فروخت کا ایک ادارہ بھی بنا رکھا ہے.

اپنی عمر اور تجربہ کے اعتبار سے حضرت مفتی صاحب پاکستان کے معمر ترین مفتی ہیں. عمر کے تقاضوں کا انسان کے مزاج پر لازمی اثر پڑتا ہے. شدتِ زبان و بیان شاید اسی سبب سے ہیں. ویسے موصوف ایک عرصہ سے فتویٰ پر دستخط نہیں فرماتے. اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کسی فتویٰ پر عدالت میں حاضری دینا پڑی‘ جس کے بعد یہ احتیاط برتی گئی. 
’’الخیر ‘‘ مئی ۱۹۸۵ء میں موصوف کے نام سے ایک مضمون چھپا. عنوان ہے: 

نیا فرقہ‘ نئی تحریک 
ڈاکٹر اسرار کا اصلاح کے نام سے فساد 

ڈاکٹر صاحب نے شادی بیاہ کے سلسلہ میں ایک اصلاحی تحریک شروع کی‘ جس کی 
ابتدا سرگودھا سے ہوئی. آپ کے بھائی کا نکاح تھا. مسجد ہری پورہ پھاٹک میں نکاح ہوا. اس موقعہ پر دوسرے حضرات کے علاوہ معروف عالم دین اور شیخ طریقت مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھوی کے دونوں ہونہار اور صاحب علم و فضل صاحبزادے مفتی احمد سعید اور قاری عبد السمیع موجود تھے. انہوں نے اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کو مبارک باد دی اور فرمایا کہ یہ کام ہمارے کرنے کا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی توفیق آپ کو دی. 

اس اصلاحی تحریک کے خلاف مفتی جمیل احمد صاحب کا مضمون بصورت پمفلٹ چھپا اور تقسیم ہوا. اور اب وہی مضمون غالباً کسی قدر اضافہ کے ساتھ ’’الخیر ‘‘ میں شائع ہوا. 

اس مضمون کو پڑھ کر سخت رنج ہوا. ایک شخص خدمت قرآن میں مشغول ہے. ہر جگہ وہ علماء کے دروازوں پر جاتا ہے‘ ان سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست کرتا ہے‘ فقہی مسائل میں الجھنے سے گریز کرتا ہے‘ کسی قسم کی فرقہ بندی کا دشمن ہے. اس کی حوصلہ افزائی‘رہنمائی اور ہمدردی کے بجائے اس طرح کا منفی رویہ‘طعن و تعریض اور مفروضات کی بنا پر غم و غصہ نہایت درجہ رنج دہ ہے. 

مضمون کی تمہید میں مفتی صاحب قبلہ نے ’’کالجی تعلیم‘‘ کو لتاڑا اور باور کرایا کہ اس ماحول کے لوگ آگے چل کر امت میں فساد کا باعث بنتے ہیں. اس ضمن میں انہوں نے ماضی قریب کی بعض علمی تحریکات اور اداروں کا نہایت درجہ طعن کے انداز میں ذکر کیا جو سنجیدہ اور ثقہ علماء کے شایانِ شان نہیں. اس ضمن میں موصوف نے ندوی اور جامعی تک کو نہ بخشا. حالانکہ ندوہ وہ عظیم الشان علمی تحریک ہے جس کے بانیوں میں وقت کے اکابر علماء و صلحاء شامل تھے. حضرت تھانوی کے خادم اور سیرت النبی کے مصنف سید سلیمان ندوی مرحوم طویل عرصہ اس کے کرتا دھرتا رہے. اسی طرح مولانا حکیم عبد الحی صاحب نزھتہ الخواطر ان کے بڑے فرزند ڈاکٹر سید عبد العلی اور چھوٹے فرزند مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (عالم اسلام کے مشہور سکالر اور داعی اسلام) وقتاً فوقتاً کار مختار رہ چکے ہیں. علی میاں اب بھی اس کے حقیقی نگران اور منتظم ہیں. اسی طرح جامعہ ملیہ کے بانی اصولی طور پر مولانا محمود حسن شیخ الہندؒ ہیں اور ہمیشہ ہی اس ادارہ کو ثقہ قسم کے لوگوں کی سرپرستی حاصل رہی‘ افسوس کہ مفتی صاحب نے کسی چیز کا لحاظ نہ فرمایا. پھر حیرت ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی تنظیم اسلامی کو جماعت اسلامی کا چربہ کیسے قرار دیا. حالانکہ ایک اہم موقعہ پر ڈاکٹر صاحب نے کم عمری کے باوجود جماعت اسلامی کے اندازِ فکر پر شدید علمی تنقید کی اور اس سے علیحدگی اختیار کر لی. 
موصوف نے ڈاکٹر صاحب اور تنظیم کے متعلق فرمایا کہ ’’یہ لوگ ببانگ دُہل چلّا رہے ہیں کہ صرف ہم ہی ہم اسلامی ہیں اور سارے صحیح ادارے اور سارے مسلمان غیر اسلامی ہیں‘‘ انا لِلّٰہ و انا الیہ راجعون. نہ معلوم محترم مفتی صاحب نے کس تحریر یا تقریر سے یہ نتیجہ نکالا‘ اے کاش دوسروں پر اس طرح کے الزام سے متعلق محاسبہ ٔآخرت ہمارے سامنے رہتا. 

آج کل شادیاں جس انداز سے ہوتی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں. ہندوانہ رسومات عام ہیں. نکاح کے دن یا آدھ ایک دن قبل مسجد سے رجسٹرار کو بلایا جاتا ہے. وہ غریب رجسٹر بغل میں دبائے بے کسی کے انداز میں آتا اور فارم پُر کرتا ہے. نکاح کے وقت سے بہت دیر پہلے ہی اسے بلا کر پابند کر لیا جاتا ہے. وہ غریب اس محفل عیش و طرب میں ایک بے کس و فقیر بے نوا کے سے انداز میں گھنٹوں اپنی قسمت کو کوستا رہتا ہے. خطبہ ٔنکاح جس میں صرف ۴‘ ۵ منٹ صَرف ہوتے ہیں اس کے دوران بھی بدتمیزی کے دسیوں اسباب موجود ہوتے ہیں. سگریٹ کا دھواں‘موسیقی کی دُھنیں‘بڑوں کے قہقہے اور بچوں کا ہنگامہ سبھی کچھ ہوتا ہے‘ لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو روکے. ڈوم اور مراثی جو کچھ کرتے ہیں وہ ایک مستقل تکلیف دہ امر ہے‘ مولوی ایسے موقعہ پر غریب کچھ نہیں کر سکتا. اس کے پریشان کن معاشی حالات اسے اجازت ہی نہیں دیتے ورنہ تو سو پچاس روپے فیس نکاح سے بھی محروم ہو جائے.

اس پس منظر میں اگر کوئی شخص ترغیب دے کر اللہ کی مخلوق کو مسجد میں لے آتا ہے اور انہیں سمجھاتا ہے کہ اس موقعہ پر خطبہ میں پڑھی جانے والی آیات خاص اس مقصد کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہیں ان کا مفہوم و مقصد سمجھ لو‘ محض انہیں تبرک کے طور پر نہ دہراؤ تو آپ اس پر پل پڑتے ہیں کہ دیکھا اس نے خطبہ کو ’’جنتر منتر‘‘ کہہ دیا ہے‘ حالانکہ وہ غریب محض اس روش پر تنقید کر رہا ہے اور لوگوں کو معقولیت کا راستہ دکھانے کی فکر میں ہے. وہ لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ نکاح کا معاہدہ عبادت ہے اس کا مفہوم سمجھو اور قباحتوں سے بچو‘ لیکن آپ اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کے پیچھے پڑ جائیں اور اس طرح کہ گویا کسی غیر مسلم نے اسلامی ریاست پر حملہ کر دیا ہے یا کسی نے اسلامی شریعت کی کسی مسلّم حقیقت سے انکار کر دیا ہے.

ڈاکٹر صاحب نے مسجد میں نکاح کو فرض و واجب نہیں کہا. ہاں مسجد کی اہمیت کے پیش نظر اس کی ترغیب ضرور دی کہ مسجد میں نکاح ہو تو نورٌ علی نور ہے. ان کا مقصد یہ ہے کہ شادی ہالوں‘ہوٹلوں وغیرہ میں جو قباحتیں ہیں ان کے بجائے اللہ کے گھر میں اللہ کے بندوں کا اکٹھ اور اجتماع اور اس کا اہتمام نفع کا باعث ہو گا. 
مفتی صاحب موصوف نے جمع و تفریق کا سلسلہ شروع کر کے ثواب و گناہ کے درجات گنوانے شروع کر دیے اس تکلف کی ضرورت نہیں نکاح چھوڑ نماز‘درس و تدریس اور حلقہ ٔذکر کے دوران بھی اگر کوئی مسجد کا ادب ملحوظ نہ رکھے گا تو اس پر بھی گناہ لازم آئے گا‘گناہ تو ہر حال میں گناہ ہے.

اے کاش! کہ حضرت مفتی صاحب مساجد کے معاملے میں بے اعتدالی کے دُور کرنے کی غرض سے کوئی اصلاحی چیز تحریر فرماتے تاکہ اہل ثروت کو معلوم ہو سکتا کہ سود سے لے کر زکوٰۃ تک کا پیسہ مسجد پر لگانا اور اس کی ظاہری خوبصورتی کا تو اہتمام کرنا لیکن نماز کا اہتمام نہ کرنا کتنا برا عمل ہے.

اور سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص نکاح کو اور اس کی مجلس کو قباحتوں سے بچانے کی غرض سے مسجد میں لے آیا ہے وہ مسجد کے آداب کا حاضرین کو کیوں نہ بتاتا ہو گا ‘وہ تو ہر حال میں مسجد کے تقدس کا لحاظ کرتا ہو گا. لیکن افسوس کہ مفروضوں کی بنیاد پر ایک چنگے بھلے عمل خیر کی تائید و تحسین کے بجائے ایسا رویہ اختیار کیا گیا. 

ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا کہ عیسائیوں میں اپنے مذہب کا احترام نہیں اور مذہبی روایات یکسر ختم ہیں اس کے باوجود کلیسا اور پادری کا احترام ہے کہ ایسی تقریبات کلیسا میں ہوتی ہیں‘ اور پادری کا حد درجہ احترام کیا جاتا ہے. اس پر مفتی صاحب نے ’’اندرونی راز‘‘ کی سرخی سجا کر مسجد میں نکاح کو کلیسا سے تشبیہہ دے ڈالی. 
اِنَّا لِلّٰٗہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ . سوال یہ ہے کہ نیکی کا عمل مسجد میں ہو اور مولوی باوقار طریق سے آئے‘ یہ اچھا ہے یا یہ اچھا کہ نکاح ہوٹل میں ہو اور مولوی بے کسی کا تماشہ بنے؟

مفتی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان کنواری بچیوں کو بے حجاب کرنے کی دھن میں کلیسا والی بنانا چاہتے ہیں 
’’فیا حسرتا‘‘ اے کاش مفتی صاحب محسوس فرماتے کہ خواتین کی بے راہ روی اور بے حجابی پر سب سے زیادہ احتجاج ڈاکٹر صاحب نے کیا جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی. اس کے برعکس حضرت مفتی صاحب کا پورا قبیلہ مسلسل آٹھ برس سے موجودہ حکمرانوں کی مدح و توصیف میں مشغول ہے جبکہ اسلامی روایات کا جتنا تمسخر اس دَور میں ہوا‘ کبھی نہیں ہوا. 

افسوس کہ حضرت مفتی صاحب نے مفروضات کی آڑ میں طعن و تشنیع کا باب کھولا. اگر مسجد سے ملحقہ ہال جو مسجد کا حصہ نہیں یا ہو تو اس میں عورتیں شرعی حدود کا لحاظ کر کے جمع ہوں‘ خطبہ نکاح ہو اور وہیں سے بچی کو رخصت کر دیا جائے تو شرعاً اس میں کیا قباحت ہے؟

یہ ارشاد کہ عورتیں مسجد میں باتیں کریں گی‘ چغلی‘غیبت اور تفاخر کریں گی‘ بن سنور کر 
جائیں گی‘ بچوں کو ساتھ لے جائیں گی جبکہ بچوں کو مسجد سے دور رکھنا لازم ہے اور ممکن ہے کہ حیض و نفاس میں مبتلا ہوں‘ فوٹو کا اہتمام ہو کہ کالجی مولوی اسے برا نہیں سمجھتے (اور اہل دین؟) شور و شغب ہو گا. مسجد میں بچوں کے پیشاب کا خطرہ ہے‘ مرد بھی آج کل پیشاب کر کے بغیر طہارت پتلون پہن لیتے ہیں‘ تو بقول مفتی صاحب یہ سب کام مسجد کے احترام کے منافی ہیں. اس میں کسی کافر کو شبہ نہیں‘ لیکن ہم عرض کریں گے کہ مفروضات کے سہارے اچھے کاموں اور اچھی اصلاحی تحریکوں کے متعلق نفرت پیدا کرنا تو اچھا نہیں‘ آپ کیوں نہیں خیال فرماتے کہ شادی بیاہ کو رسومات اور فضولیات سے بچانے کی جدوجہد کرنے والا مسجد کا لحاظ نہیں کرے گا اور ان باتوں سے متعلق عوام کو آگاہ نہیں کرے گا؟ اگر مفروضات کا ہی سہارا لیا جائے تو زندگی کا نظام معطل ہو کر رہ جائے.

آج کل لڑکیوں والے بالخصوص متوسط طبقہ کے لوگ جس قسم کی الجھنوں کا شکار ہیں ان کا اندازہ حضرت مفتی صاحب جیسے اہل ثروت علماء کو نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس طبقہ کو جس کی ترجمانی حضرت مفتی صاحب جیسے حضرات فرما رہے ہیں. غربت کے سبب رشتہ کا معاملہ الجھ کر رہ جاتا ہے. پھر جہیز اور بے ہنگم دعوتوں کا چکر ان غریبوں کا کچومر نکال دیتا ہے. اس پس منظر میں ڈاکٹر صاحب نے لڑکی والوں کے سلسلہ میں جو دعوت کی بات کہی ہے اور کہا کہ یہ لازم و ضروری ہوتا یا مستحب ہی ہوتا تو حدیث میں کہیں اس کا ذکر ہوتا تو اس میں کیا غلط بات کہی؟

یہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر صاحب حدیث نہیںپڑھاتے لیکن آپ نے جو حدیث کے حوالے دیے خود ہی فرمائیں کہ وہ مناسب حال ہیں؟

ارشاد نبویؐ کہ ’’ہدیے دیا کرو اس سے محبت بڑھے گی‘‘ سر آنکھوں پر‘ لیکن غریب لڑکی والوں کی دعوت کا لزوم اس میںکہاں ہے؟ دوسری حدیث کہ ’’جو بغیر عذر دعوت میں شریک نہ ہو گا وہ اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے‘‘ بالکل بجا‘ لیکن لڑکی والوں کو دبوچنے کے لیے اس حدیث کا حوالہ کیوں؟ اس میں ایسی کون سی علامت یا اشارہ ہے؟
رہ گیا سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کا قصہ‘ کہ اس موقعہ پر کھجوروں کا طباق منگوایا گیا اور وہ تقسیم ہوایا لوٹا گیا تو اللہ کے لیے بتائیں کہ مروّجہ دعوت سے اس کا کیا تعلق؟ کھجور یا چھوہارے بالعموم دولہا والوں کی طرف سے ہوتے ہیں. حضور علیہ السلام سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مربی و سرپرست بھی تھے. اور تاریخ خمیس کا جو حوالہ آپ نے دیا اس میں اس کی صراحت نہیں کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ 
لائے یا ان کا اہتمام حضور  نے کیا. آج بھی اگر ۱۰۲۰ روپے کے چھوہاروں کا اہتمام لڑکی والے ہی کر لیں تو اس پر اعتراض نہیں‘ اعتراض اس کمر توڑ دعوت پر ہے جس کا ثبوت آپ کے پاس بھی نہیں. حضرت مفتی صاحب نے بدعت کی بحث کو بلا وجہ الجھایا‘ سب کو معلوم ہے کہ تمدنی ضروریات اور اس نوع کی اشیاء بدعت نہیں. بدعت وہی ہے جو دین میں اضافہ ہو. باقی برات کی لغوی بحث کا اہتمام کر کے یہ فرمانا کہ چونکہ پہلے سواریاں نہ ہوتی تھیں اس لیے جہیز وغیرہ لانے کی غرض سے برات کا اہتمام ہوا کہ ڈاکو لوٹ کر نہ لے جائیں‘ جو اب سواری اور امن کے سبب گھٹ جائے تو حرج نہیں لیکن گواہ تو بقول مفتی صاحب ضروری ہیں‘ تو سوال یہ ہے کہ گواہوں کا انکار کس نے کیا‘ اعتراض ہے تو اس برات کی فوجِ ظفر موج پر‘ جس کا آج کل رواج ہے. کم از کم دو چار بسیں اور ۱۰۲۰ کاریں تو معمولی بات ہے. اے کاش آپ کبھی تنہائی میں غور فرماتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ یہ کس طرح کے بوجھ ہیں اور غریب لڑکی والے کتنے پریشان ہوتے ہیں‘ احساس ہو جائے تو آپ بھی یہی فرمائیں جو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں. اعلان نکاح کا ارشاد تو بہرحال حدیث میں ہے اس میں وسیع پیمانے پر تبلیغ کے نقطہ نظر سے ڈاکٹر صاحب نے اخباری اعلان مناسب سمجھا. لیکن انہیں اس پر اصرار نہیں کہ ہر شخص ایسا ہی کرے. 

مقصد اعلان ہے چاہے اس کی کوئی شکل ہو‘ لیکن اعتراض برائے اعتراض کے طور پر حضرت مفتی صاحب اس کو لے کر بیٹھ گئے کہ پندرہ سو سال میں مسلمانوں نے کون سا اخبار میں اعلان کیا؟ 
فیا للعجب! معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی احساس ہے جو موصوف کو قدم قدم پر اعتراض پر اُبھارتا ہے. اس ضمن میں موصوف کو یہ اعتراض ہے کہ ابھی تو قصد نکاح ہے اسے آپ اعلان نکاح کیوں کہہ رہے ہیں؟ بزرگانہ غضب ہے ہم کیا عرض کریں؟ 

دعوتِ ولیمہ کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے حضور نبی اکرم  کا ارشاد نقل کیا جس کا مفہوم ہے:
’’دعوتِ ولیمہ اس حیثیت سے کہ اس میں اغنیاء اور صاحب حیثیت لوگوں کا خیال ہوتا ہے اور فقراء لوٹا دیے جاتے ہیں‘ بری ہے.‘‘

مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ دعوت بری نہیں اس کا طعام برا ہے‘ چلیں قبلہ ایسے ہی سہی‘ فرمایا کہ جو آپ نے فرمایا اور جو ڈاکٹر صاحب نے کہا انجام کے اعتبار سے اس میںکیا فرق ہے؟ 

آج جو ولیمہ کی دعوتیں ہوتی ہیں ان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کو بلایا جاتا ہے‘ احباب و اعزہ سبھی ہوتے ہیں. اب بالعموم ہوٹلوں وغیرہ میںاہتمام ہونے لگا ہے. لاکھوں کے بل 
اُٹھتے ہیں‘ وقت کی پابندی نام کو نہیں. ۲۳ گھنٹے کی تاخیر معمولی بات ہے. پھر وہاں کوئی محتاج راہ پائے توبہ؟ وہاں تو غریب ڈرائیور تک کا گزر نہیں. وہ بے کسی کی تصویر ہوتا ہے اور صاحب گل چھرے اڑانے میں مصروف! ایسے مواقع پر افراتفری‘ بد نظمی اور کھڑا ہو کر کھانے کے سبب بے پناہ کھانا ضائع ہوتا ہے. پیٹ بھرے لوگ بھوکے گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں. بیرا سٹینڈ تک نہیں پہنچ پاتا کہ یار لوگ پرات الٹ لیتے ہیں. کھانے کی جو درگت بنتی اور بے احتیاطی ہوتی ہے اس پر غضب الٰہی کا ڈر لگتا ہے. لیکن کوئی فقیر و محتاج صدا لگا دے تو سب غیظ و غضب کا شکار ہو کر اسے دھکے دے کر باہر نکالنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں.
حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت میں ایسا نہ تھا ‘وہاں غرباء اور مساکین سے ابتدا ہوتی‘ لیکن ہمارے یہاں جاگیرداری سسٹم نے اخلاق و شرافت کے سانچے توڑ دیے . عام غرباء کیا اعزہ میں سے غرباء کی فکر نہیں ہوتی. مخصوص نوع کے مذہبی اداروں سے متعلق مخصوص حضرات کی البتہ ہر جگہ آئو بھگت ہوتی ہے اور وہ بھی اسی ماحول میں رچ بس کر اسی طرح شریک محفل ہو جاتے ہیں‘ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے حضرات کو اہل ثروت کے اعمال بد کی سرپرستی کرنا پڑتی ہے جس سے مذہبی اقدار کا جنازہ نکل جاتا ہے. 

کتنی صحیح بات فرمائی حضرت مولانا تھانوی نے‘ ایک شخص نے لکھا کہ آپ کہتے ہیں نکاح سنت ہے لیکن جو خوشدامن اور بہو شادی سے قبل ایک دوسرے کے لیے بے پناہ محبت و احترام کا اظہار کرتی ہیں وہ شادی کے ایک ہفتہ بعد آپس میں اس طرح گتھم گتھا ہوتی ہیں کہ خاوند پناہ گیر بن کر رہ جاتا ہے؟ مولانا نے فرمایا :نکاح تو سنت ہے لیکن چند منٹ کے خطبے سے قبل اور بعد جو خرافات اور رسومات ہوتی ہیں اور جن بدعات کا ارتکاب ہوتا ہے وہ اس برکت کو کہاں باقی رہنے دیتی ہیں؟ 

تو آج کل جو معاشرتی جھگڑے اور فسادات ہیں ان کا سبب یہی ہے کہ برائے نام خطبہ ٔنکاح کے سوا باقی کچھ نہیںہوتا اور خوب خوب خرافات‘اسراف و تبذیر اور ایسی باتیں ہوتی ہیں‘ ان کی اصلاح ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے نہ کہ ایسی جدوجہد کرنے والے پر پھبتی کسنا. 

رَبُّ العِزّت ہم سب کو اپنی رحمتوں سے نواز کر اصلاحِ اعمال کی توفیق دے اور ایک دوسرے کے ساتھ دینی معاملات میں جذبۂ تعاون سے نوازے. 

(’’میثاق‘‘ ستمبر ۱۹۸۵ء)