بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نَحمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکرِیْم 

مجھے یہ بات نہایت ہی وثوق اور کلی اعتماد کے ساتھ یاد ہے کہ ۱۹۴۸ء میں جب کہ پاکستان کو قائم ہوئے ایک سال گزر رہا تھا حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ علیہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ضلع سورت (بمبئی) تشریف لائے. میں اس وقت جامعہ اسلامیہ میں مدرس تھا. ایک مجلس میں بعض حضرات نے (اس بنا پر کہ حضرت مدنی ؒ کا تعلق کانگریس سے تھا اور کانگریس کی سیاست پاکستان کی حامی نہ تھی اور تحریک پاکستان کی مخالف تھی) ‘حضرت مدنی ؒ سے پاکستان کے متعلق سوال کیا کہ اب حضرت کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت اقدسؒ نے اس سوال کے جواب میں جو کلمات فرمائے وہ مجھے آج تک یاد ہیں‘ فرمایا: ’’بھائی! یہ ممکن ہے کہ اگر کسی جگہ مسجد کی تعمیر کرنے کی گفتگو ہو تو اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ اس جگہ مسجد تعمیر کی جائے یا نہ کی جائے. لیکن جب مسجد بن گئی تو اب کوئی گنجائش اس اختلاف کی نہیں رہ سکتی کہ اس مسجد کو باقی رکھا جائے یا منہدم کیا جائے‘‘. سبحان اللہ! حضرت کے ان الفاظ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ قیامِ پاکستان سے قبل اگر کسی عالم اور بزرگ کو اختلاف تھا تو وہ ایک نظری اور اجتہادی اختلاف تھا کہ انگریز کی غلامی سے آزادی کس طرح ممکن ہے. لیکن قیام پاکستان کے بعد کسی بھی عالم اور بزرگ نے خواہ اس کا تعلق کانگریس سے تھا ‘کبھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی. اس مجلس میں حضرت مولانا احمد بزرگؒ ‘مولانا مفتی اسماعیلؒ و دیگر اکابر علماء موجود تھے.

محمد مالک کاندھلوی 
شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور