قتلِ خطا میں عورت کی نصف دیت کا مسئلہ

محترم مجیب الرحمن شامیؔ ایک معروف اہل قلم ہیں. ذہنی و فکری طور پر اُن کا تعلق ملک کی ایک معروف نیم دینی و نیم سیاسی جماعت سے ہے. کئی جرائد کے مدیر اعلیٰ رہ چکے ہیں. فی الوقت ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ لاہور سے نکال رہے ہیں نیز معاصر عزیز ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’جلسہ عام‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل کالم بھی لکھ رہے ہیں جس میں طنز و مزاح کا عنصر غالب رہتا ہے. اکتوبر کے اواخر میں موصوف نے اسی کالم میں قتل خطا کی صورت میں محترم ڈاکٹر صاحب کی رائے پر (جو سنت سے ماخوذ ہے) اسی انداز سے اختلافی تبصرہ کیا تھا. محترم ڈاکٹر صاحب نے موصوف کو اس کا جواب براہِ راست بھیج دیا تھا. یہ جواب دو پیراگراف حذف کر کے ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع بھی ہو گیا تھا. اب اسے من و عن قارئین ’’میثاق‘‘ کے استفادہ کے لیے شائع کیا جا رہا ہے. حذف شدہ پیراگراف پر بریکٹ لگا دیے گئے ہیں. (ادارہ)

برادرم مجیب الرحمن شامی صاحب‘ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے چند روز قبل بھی میرا ذکر اپنے کالم میں کیا تھا اور آج پھر کرم فرمائی کی ہے. اس ضمن میں جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے ہرگز اعتراض نہیں ہے کہ آپ اسے اپنے ذوقِ طبع کی تسکین کی خاطر یا مروّجہ صحافت کی ضرورت کے طور پر ہدفِ طنز و طعن بنائیں بلکہ اس ضمن میں اگر کوئی زیادتی آپ نے اب تک کی ہے تو مَیں اسے بھی معاف کرتا ہوں اور آئندہ کے لیے بھی پیشگی اجازت دیتا ہوں کہ آپ جیسے چاہیں مشق ستم فرمائیں. لیکن خدارا دین و شریعت کے ایک اہم مسئلے کو اس تمسخر و استہزاء کی لپیٹ میں نہ لیں. اس لیے کہ یہ ؏ ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی‘‘ والا طرز عمل آخرت کے خسران اور عاقبت کی بربادی کا موجب بن سکتا ہے. اللہ مجھے اور آپ کو اس سے بچائے. آمین!

واقعہ یہ ہے کہ میں جس طرح عملی یا انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہوں‘ اسی طرح خدمت دین کے وسیع و عریض میدان میں بھی فروعی مسائل اور فقہی اختلافات کے دائرے میں بالکل دخل نہیں دیتا. اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مَیں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا‘ اور یہ بھی ہے کہ میرے نزدیک فی الوقت ان مسائل میں الجھنا دین کے لیے بجائے مفید ہونے کے اُلٹا مضر ہو سکتا ہے‘ اس لیے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں بحیثیت مجموعی دین پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ ہی مضمحل ہے. لہٰذا اصل ضرورت اس ارادے کی تقویت کی ہے. چنانچہ الحمد للہ کہ میری تمام جدوجہد اسی نکتے پر مرکوز ہے یعنی قرآنِ حکیم کی ان اساسی تعلیمات کی نشر و اشاعت جن سے ایمان و یقین میں اضافہ ہو اور دین کو پہلے خود اپنی زندگیوں‘ پھر اپنے وطن عزیز اور بالآخر پورے کرۂ ارضی پر غالب کرنے کی جدوجہد کا عزم اور ارادہ پیدا ہو. 

چنانچہ دو ڈھائی سال قبل پردے وغیرہ سے متعلق جو ہنگامہ میرے حوالے سے ہوا تھا اُس کا آغاز بھی مَیں نے اپنی کسی سکیم یا منصوبے کے تحت نہیں کیا تھا بلکہ وہ بھی ایک سابق رفیق اور ہمسفر کی ’’کرم فرمائی‘‘ تھی. البتہ جب بحث چل نکلی تو میں نے اپنے فہم کے مطابق دینی موقف کو ڈٹ کر پیش کیا تھا. پھر عورت کی شہادت سے متعلق بحث زور شور سے چلی‘ لیکن میں نے اس میں قطعاً کوئی حصہ نہیں لیا. اسی طرح جب سے قتل خطا میں عورت کی دیت سے متعلق بحث چھڑی ہے‘ میں نے اس میں بھی قطعاً کوئی حصہ نہیں لیا‘ نہ تحریراً نہ تقریراً‘ اس لیے بھی کہ جیسے کہ میں عرض کر چکا ہوں یہ میرا میدان نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ یہ مسئلہ مجھ سے کہیں بڑھ کر اہل تر ہاتھوں میں تھا. چنانچہ جماعت اسلامی کے اہل علم و عقل وضاحت کر چکے تھے اور اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی ہر مکتب فکر کے علماء کرام نے بھی اس کا حق ادا کر دیا تھا. البتہ چونکہ مجھے ہر ہفتے اجتماعِ جمعہ کی صورت میں ایک جلسہ عام میں پیش ہونا پڑتا ہے. لہٰذا جو مسائل فضا میں گردش کر رہے ہوں‘ ان سے بالکل صَرف نظر ممکن نہیں ہوتا. چنانچہ ایک خطاب جمعہ میں مَیں نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا‘ اور میرے ایک بزرگ رفیق نے اس کا کچھ حصہ ٹیپ سے اُتار کر اور آغاز و اختتام کے لیے اِدھر اُدھر چند جملوں کا اضافہ کر کے بغرض اشاعت اخبارات کو ارسال کر دیا. گویا یہ ہے میرے اس موضوع پر ’’بولنے‘‘ یا ’’نہ بولنے‘‘ کا معاملہ!!

اب آئیے اصل مسئلے کی جانب:

اس ضمن میں جہاں تک ’’عقل‘‘ کا تعلق ہے‘ یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جنس گرانما یہ برٹرینڈرسل اور اس کے قبیل کے بے شمار لوگوں کو میرے اور آپ کے 
مقابلے میں بہت زیادہ دی تھی لیکن جس طرح حضور  نے مال و اسباب دنیوی کے بارے میں فرمایا ہے: مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْـھٰی یعنی ’’جو کم ہو لیکن ضرورت پوری کردے وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ تو ہو‘ لیکن غافل کر دے!‘‘ اُسی طرح اُس ٹنوں عقل کے مقابلے میں جو اللہ کو پہچاننے سے قاصر رہ جائے‘ ہماری وہ تولہ یا ماشہ بھر عقل بہتر ہے جو اللہ کو پہچانتی اور مانتی ہے. اقبالؔ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا کہ ؎

برعقل فلک پیما تُرکانہ شبیخوں بہ
یک ذرئہ دردِ دل از علم فلاطوں بہ!!

ثانیاً شریعت کا دارومدار اصلاً ’’عقل‘‘ پر نہیں ’’نقل‘‘ پر ہے اس لیے کہ اس میں حجت اول کی حیثیت حاصل ہے کلام ربانی کو جو اللہ سے بذریعہ جبرئیل ؑ رسول اللہ  کو ’’منتقل‘‘ ہوا. پھر حجت ثانی کی حیثیت حاصل ہے سنت رسولؐ کو جو اولاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے اور بعد ازاں نسلاً بعد نسلٍ امت کے تواتر عمل اور تدوین و اشاعت حدیث رسولؐ کے ذریعے ’’منتقل‘‘ ہوتی آ رہی ہے. لہٰذا اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھنے والی عقل کا اصل کام اس میدان میں یہ ہے کہ احکامِ شریعت کے اسرار و حِکم کو سمجھنے کی کوشش کرے. جہاں وہ سمجھ میں آ جائیں‘ اللہ کا شکر ادا کرے اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے‘ وہاں بھی 
’’سمعنا و اطعنا‘‘ کا طرزِ عمل اختیار کرے. اس کے برعکس اگر ’’عقل‘‘ شریعت پر ’’حاکم‘‘ بننے کی کوشش کرے گی تو سخت ٹھوکر کھائے گی اور اوندھے منہ گر کر رہے گی. اس قسم کے عقلیت پرست یا عقل گزیدہ لوگوں کی ہمارے یہاں متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں. چنانچہ ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ’’اجتہاد‘‘ کا کوئی راستہ قرآن سے بھی بالا بالا اپنانا چاہتے ہیں. جس زمانے میں عورت کی شہادت کے مسئلے پر زور شور سے بحث ہو رہی تھی ایک انگریزی اخبار میں کسی مراسلہ نگار کا مراسلہ شائع ہوا تھا کہ ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ قرآن واقعتا عورت کو مرد کے مقابلے میں ثانوی درجہ دیتا ہے‘ لہٰذا ہمیں اجتہاد کے لیے ایسے اصول تلاش کرنے ہوں گے جو قرآن سے بھی بالاتر ہوں. پھر ایسے لوگ تو کثیر تعداد میں موجود ہیں جو سنت رسولؐ کو دائمی حجت نہیں مانتے بلکہ اس سے بے نیاز اور آزاد ہو کر براہِ راست قرآن سے استنباط کرنا چاہتے ہیں. ایسے لوگوں کی عقلی جولانیوں کی ظاہر ہے کوئی حد نہیں ہے بلکہ ’’بے حیاباش ہرچہ خواہی کن‘‘ کے مصداق اُنہیں کلی اختیار حاصل ہے جو چاہے کہہ دیں. تماشا یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں جو اُس شخصیت سے نسبت پر فخر کرتے ہیں جس کا قول یہ ہے کہ ؎

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است!!

ثالثاً اہل سنت کے نزدیک سنت رسولؐ کے ساتھ ساتھ اور اس سے بالکل ملحق دو چیزیں اور بھی ہیں: ایک حدیث نبویؐ 
’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ‘‘ کی روسے تعامل صحابہؓ اور دوسرے حدیث نبویؐ ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْن‘ ‘ کے مطابق خلفاءِ راشدین کا طرزِ عمل‘ اور اس کے بعد حجت شرعی کی حیثیت حاصل ہے ’’اجماعِ امت‘‘ کو جسے قرآن مجید نے ’’سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے. اس ضمن میں اجماع سے متعلق فنی بحثوں سے قطع نظر اہل سنت کے نزدیک تو کسی مسئلے میں ائمہ اربعہ کا اجماع و اتفاق بجائے خود دلیل و حجت قطعی کا درجہ رکھتا ہے‘ اس سے بھی آگے بڑھ کر جن مسائل میں اہل سنت کے چاروں مسلکوں کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کی زیدی اور جعفری دونوں فقہیں‘ اور اہل ظاہر کے اہم مسالک بھی متفق ہو جائیں اُن کے شریعت اسلامی کے جزو لاینفک ہونے پر تو کوئی ایسا شخص ہی کلام کر سکتا ہے جس میں دین کے اتباع کا نہیں بلکہ اُس سے بغاوت کا جذبہ کارفرما ہو. اس لیے کہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اُس کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ اور اُن کے نامور تلامذہؒ ‘ امام مالکؒ ‘ امام شافعیؒ ‘ امام احمد بن حنبلؒ اور امام جعفر صادقؒ سب یا تو نصوص دینی کا صحیح علم نہیں رکھتے تھے یا پھر دین کے مقاصد و مصالح کے صحیح فہم سے قاصر تھے. اور یہ بات یا کوئی فاتر العقل کہہ سکتا ہے یا دین کا باغی. البتہ اُن حضرات کے مابین کسی مسئلہ میں دو آراء پائی جائیں تو کسی دوسرے کے لیے کچھ کہنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے.

[فقہی معاملات میں عقل و نقل کے عمل دخل کے دائروں کے ضمن میں ایک دلچسپ مکالمہ امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہما کا منقول ہے. ایک ملاقات میں امام جعفر صادقؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے خفگی کے ساتھ فرمایا: ’’ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمارے ناناؐ کی احادیث پر اپنے عقلی قیاس کو مقدم رکھتے ہیں؟‘‘ اس پر امام ابو حنیفہؒ نے ع ’’یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہو گی‘‘ کے انداز میں فرمایا: ’’اگر میں عقل سے فیصلہ کرتا تو وراثت میں بیٹی کو بیٹے سے دوگنا حصہ دلاتا کہ وہ صنف ضعیف ہے اور عورت کے ایام کی نمازوں کی قضا کو واجب قرار دیتا نہ کہ روزے کی قضا کو‘ اس لیے کہ نماز روزہ سے اہم تر ہے.‘‘ ]
قتل خطا کی صورت میں عورت کی دیت کے مرد کے مساوی یا نصف ہونے کے مسئلے میں 
متذکرہ بالا دینی حجتوں کا جائزہ لیا جائے تو جو صورتِ حال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے:

(۱) قرآنِ مجید میں اس مسئلے پر کوئی صراحت تو موجود نہیں‘ لیکن اگر کوئی شخص قرآن کے قانونِ شہادت اور قانونِ وراثت کو اس معاملے میں دلالۃ النص یا اشارۃ النص کے درجے میں پیش کرے تو اس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا قطعی انکار نہیں کیاجا سکتا.

(۲) حدیث نبویؐ کے ضمن میں بھی کوئی درجہ ٔاول کی مستند حدیث تو اس معاملے میں موجود نہیں تاہم ایک حدیث موجود ہے جسے عورت کے دیت کے نصف ہونے کے حامی حضرات نے بار بار پیش فرمایا ہے جسے فریق ثانی ضعیف قرار دے رہا ہے. لیکن اس کے مقابلے میں اُس فریق ثانی کے پاس اپنے موقف کے حق میں کوئی ضعیف تو کیا موضوع حدیث بھی موجود نہیں.

(۳) اِس کے بعد اجماع کو لیجیے. تو یہاں معاملہ حد درجہ فیصلہ کن ہے. حنفی‘ مالکی‘ شافعی‘ حنبلی‘ جعفری‘ الغرض تمام مسلکوں کا متفق علیہ اور مجمع علیہ فیصلہ عورت کی دیت مرد کے مقابلے میں نصف ہونے کے حق میں ہے. صرف ایک دو شاذ آراء برابری کے حق میں ہیں‘ جن کی اُن جملہ مسالک کے اتفاق و اجماع کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں.
اب ذرا عقلی اعتبار سے بھی جائزہ لے لیں.

(۱) خالص عقلی لحاظ سے دیکھا جائے تو قتل خطا کا کوئی تاوان قاتل کے ذمے آنا ہی نہیں چاہیے. اس لیے کہ اس فعل میںاُس کے کسی ارادے کا دخل نہیں ہے. 

(۲) شریعت نے اس کے باوجود قاتل یا اُس کی برادری پر تاوان ڈالا تو اس میں دو حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں: (ا) یہ کہ اس سے دوسروں میں احتیاط کا مادہ پیدا ہو گا. اس کے برعکس اگر قتل خطا میں قاتل یا اُس کی برادری پر کوئی تاوان نہ ہو تو لوگوں میں بے پروائی اور بے احتیاطی پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے. اور (ب) اس سے مقتول یا مقتولہ کے ورثاء کے نقصان کی کسی درجے میں تلافی ہو جائے گی.

اس نقصان کے ضمن میں بھی یہ بات تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ مقتول یا مقتولہ کے ورثاء اور اعزہ و اقارب کو جو ذہنی اور جذباتی صدمہ پہنچتا ہے اُس کی تلافی کی تو کوئی صورت کسی درجے میں بھی ممکن نہیں ہے. زیادہ سے زیادہ کوشش مالی نقصان ہی کی تلافی کی ہو سکتی ہے‘ اور 
اس کے سلسلے میں جب کوئی قانون بنایا جائے گا تو ایک عام اور اوسط درجے کے معاملے کو سامنے رکھ کر بنایا جائے گا نہ کہ شاذ اور استثنائی صورتوں کو سامنے رکھ کر. مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ مقتول کوئی بوڑھا اور مریض انسان ہو جو اپنے ورثاء کے لیے مالی اعتبار سے ’’اثاثہ‘‘ ہونے کے بجائے اُلٹا ایک ’’بوجھ‘‘ ہو‘ اور اس کی موت سے اس کے ورثاء کو نہ صرف یہ کہ کوئی مالی نقصان نہ پہنچے بلکہ خالص مالی اعتبار سے ایک بوجھ سے نجات ملے. اس کے برعکس وہ مثال جو آپ نے دی ہے کہ مقتولہ ایک بیوہ اور بے سہارا عورت ہو جو اپنے یتیم بچوں کی واحد کفیل ہو‘ لیکن ظاہر ہے کہ قانون ہر انفرادی معاملے کے لیے علیحدہ نہیں ہو سکتا بلکہ قانون اوسط پر بنایا جائے گا. 

اب اس عمومی قانون کی روسے اسلام نے خاندان کی کفالت کا بوجھ عورت پر نہیں بلکہ مرد پر ڈالا ہے. یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامی ماں باپ کی وراثت میں بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو نصف حصہ دلاتی ہے. تو یہاں عقل کا فیصلہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ قتل خطا میں بھی عورت کی دیت مرد سے نصف ہو. شرط صرف یہ ہے کہ وہ عقل شریعت کے مقابلے میں بغاوت اور نشوز کے جراثیم سے مأمون و مصئون ہو!! 

رہی آپ کی وہ جذباتی مثال کہ ایک بیوہ ہے جو اپنے یتیم بچوں کی واحد کفیل ہے‘ تو اس پر قیاس کر کے فرمایئے کہ کیا آپ اسی دلیل سے اسلام کے قانونِ وراثت کو بھی بدلوانا چاہیں گے؟ اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کی زندگی ہی میں اُس کی بیٹی بیوہ ہو جائے اور اس کے کئی یتیم بچے بھی ہوں. جبکہ اُس کے بھائی اچھے بھلے برسر روزگار ہوں‘ تو کیا اُس شخص کے انتقال پر قانونِ وراثت برعکس کر دیا جائے گا؟ قانون تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی موم کی ناک نہیں بن سکتا. البتہ عقل بتاتی ہے کہ اس صورتِ حال میں اس بیوہ کی امداد و اعانت کے دوسرے ذرائع اختیار کیے جانے چاہئیں. اولاً والد اپنی زندگی میں اپنی بیوہ بیٹی کو کچھ ہبہ کر سکتا ہے. دوسرے یہ کہ معاشرے میں عام اخلاقی حِس پیدا کی جانی چاہیے. چنانچہ انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کا مادہ افراد میں بھی ہو اور ’’لاکھوں روپے سے قائم ہونے والے اداروں‘‘ میں بھی. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اصلاً ایک اسلامی ریاست میں بے سہاروں کو سہارا دینا حکومت کی ذمہ داری ہے. 

اسی پر ’’عامل خواتین‘‘ کے معاملے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی معاملے میں اضافی تلافی کی واقعی ضرورت ہو تو اس کے لیے مختلف ذرائع اختیار کیے جا سکتے ہیں جیسے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے بھی اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں تجویز کیا ہے کہ ’’بطورِ تعزیر‘‘ 
کچھ اضافی بوجھ اس شخص پر بھی ڈالا جا سکتا ہے جس کی بے احتیاطی سے کسی خاتون کی جان تلف ہوئی ہو. لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلامی قانون ایک حیاتیاتی وحدت ہے اور اس کے مختلف اجزاء کے مابین کامل منطقی ہم آہنگی موجود ہے. وہ جب عام اور نارمل حالات میں کنبے کی معاشی کفالت کا بوجھ عورت پر ڈالتا ہی نہیں بلکہ کلیۃً مرد پر ڈالتا ہے تو اُس سے مطالبہ کرنا کہ وہ قتل خطا میں عورت کی دیت مرد کے مساوی قرار دے‘ خالص غیر منطقی بات ہے. اب اگر کوئی خاتون محض شوقیہ یا اپنے معیارِ زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کی خواہش سے کوئی کام کر رہی ہوں تو یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے. ہاں اگر کسی واقعی ضرورت کا معاملہ ہو تو یہ اُن استثنائی صورتوں میں سے ہو گا جن کے بارے میں اوپر گفتگو ہو چکی ہے.

آخر میں اس قدر اور عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ اگر ہماری خواتین کا ایک محدود طبقہ اُس مغربی تہذیب کی پیروی یا نقالی کرنے پر مُصر ہے جس کی ظاہری چمک دمک کو علامہ اقبال مرحوم نے اپنے انگریزی خطبات میں 
" glittering exterior of the Western Civilization" سے تعبیر کیا ہے. اور جس کی خدمت میں بہترین ’’خراجِ تحسین‘‘ اپنے اس شعر کے ذریعے پیش فرمایا ہے ؎

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!

تو وہ خوشی سے ایسا کریں لیکن براہِ کرم اسلام اور اس کے نظامِ قانون کو اپنے پیچھے گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں ورنہ عاقبت تو تباہ و برباد ہو گی ہی اس دنیا میں بھی اُن کا مقابلہ پاکستان کے اُن عوام سے ہو گا جو خواہ بے عمل ہوں لیکن دین میں تحریف کی کسی کوشش کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں! اور دین کے معاملے میں وہ اعتماد بہرحال علماء کرام ہی پر کرتے ہیں‘ نہ کہ خطیبوں‘ دانشوروں‘ ادیبوں یا پروفیسروں پر. اور اس ضمن میں جملہ فقہی مسالک کے علماء کے اتحادِ رائے میں اُن کے لیے ایک بڑا ’’انتباہ‘‘ مضمر ہے. فقط والسلام
خاکسار اسرار احمد عفی عنہٗ