آیۂ اظہارِ دین کے ضمن میں امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی تصریحات

(ماخوذ از ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفائ‘‘) 
ترجمہ : مولانا محمد عبد الشکور لکھنویؒ 

لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ 

چونکہ دین حق کا غلبہ تمام دینوں پر آنحضرت  کے زمانہ میں حاصل نہیں ہوا‘ کیونکہ نصاریٰ و مجوس اس وقت تک اپنے طمطراق پر قائم تھے. لہٰذا اکثر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں عاجز ہو گئے ہیں. ضحاک رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ہو گی. حسن بن فضل رحمہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ غلبہ سے مراد حجت و برہان کا غلبہ ہے. امام شافعی رحمہ اللہ علیہ نے ان سب سے زیادہ مضبوط بات بیان کی ہے. انہوں نے کہا ہے کہ اپنے رسول ( ) کو تمام دینوں پر غالب کر دیا (اس طرح) کہ جن لوگوں نے آپؐ کا کلام سنا ان پر واضح کر دیا کہ یہی حق ہے اور جس قدر دین اس کے خلاف ہیں باطل ہیں اور نیز آپؐ کو اس طرح غالب کر دیا کہ گروہ اہل شرک میں دو دین تھے. ایک دین اہل کتاب کا دوسرا دین اُمیوں 
(۱کا‘ تو اُمیوں کو تو رسولِ خدا نے مغلوب کر لیا‘ یہاں تک کہ وہ لوگ اسلام میں داخل ہو گئے اور اہل کتاب (کی یہ حالت ہوئی کہ ان) میں سے بعض نے ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کیا اور آپؐ کا حکم ان پر جاری ہو گیا. یہی مطلب آپؐ کے دین کا تمام دینوں پر غالب آ جانے کا ہے.

یہ فقیر کہتا ہے کہ جب کسی آیت کے معنی میں کچھ مشکل پیش آ جائے تووہاں دو باتوں کی ضرورت ہے اوّل یہ کہ ہم الفاظِ قرآنی کو لوگوں کے بیان کیے ہوئے معنے کے ساتھ عقل خالص کی ترازو میں (جو اوہام کی آفت سے محفوظ ہو) تولیں اگر دونوں میں موافقت ظاہر ہو تو فبہا ورنہ (۱) عرب کے لوگ زمانہ آنحضرت  میں تین مذہب رکھتے تھے. بعض مشرک تھے‘ بعض نصرانی‘ بعض یہودی. نصرانی اور یہودی اہل کتاب کہے جاتے ہیں اور مشرکین اُمی‘ بوجہ اس کے کہ ان میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا. اس معنے کو ہم چھوڑ دیں. دوسری بات یہ ہے کہ آنحضرت  کی حدیث کو ہم اپنا پیشوا بنا لیں‘ کیونکہ آپؐ قرآن کے (حقیقی اور اصلی) مفسر ہیں. (اس قاعدہ کے موافق) جب ہم (لوگوں کے بیان کیے ہوئے معنے یعنی) آنحضرت  کے غلبہ کو جو (مقامِ) نجران کے نصرانیوں اور ہجرؔ کے مجوسیوں اور خیبر کے یہودیوں پر آپؐ کو حاصل ہوا اور آپؐ نے ان سے جزیہ اور خراج لیا (عقل خالص کی ترازو کے) ایک پلّہ میں رکھتے ہیں اور (الفاظِ قرآنی یعنی ) لیظھرہ علی الدّین کلّہ ٖ کو دوسرے پلہ میں رکھتے ہیں تو دونوں میں باہم کچھ مناسبت نہیں پاتے‘ ایک تھوڑے سے ٹکڑے پر غالب آ جانا تمام دینوں پر غلبہ نہیں ہو سکتا. تمام دینوں پر غلبہ کے معنی تو یہ ہیں کہ تمام دینوں کی جڑ کھد جائے اور ان کے حمایتی درہم برہم ہو جائیں اور کوئی شخص ان دینوں کی طرف بلانے والا نہ رہے اور ان دینوں کی عزت و بزرگی بالکل زائل ہو جائے (لہٰذا ہم نے ان تمام معانی کو چھوڑ دیا) باقی رہی حدیث نبی  کی (تو وہ حسب ذیل ہے) (۱
’’مسلم نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: اللہ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کی مشرق و مغرب سب دیکھ لیں اور بیشک میری امت کی سلطنت اس حصہ ٔزمین تک پہنچے گی جو میرے لیے لپیٹا گیا‘ اور (فرمایا کہ) مجھے سرخ و سفید 
(۲دونوں قسم کے خزانے دیے گئے.‘‘

امام احمد رحمہ اللہ علیہ نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  سے سنا کہ آپؐ فرماتے تھے: روئے زمین پر کوئی گھر اور کوئی خیمہ باقی نہ رہے گا جس میں اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کرے‘ کسی سعادت مند کو عزت دے کر یا کسی بد نصیب کو ذلت دے کر. عزت دینے کی صورت یہ ہے کہ اللہ ان کو اہل اسلام میں سے کر دے اور ذلت دینے کی صورت یہ ہے کہ وہ اسلام کے محکوم بن جائیں. حضرت مقدادؓ کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ اس وقت ہر جگہ دین اللہ کا ہو گا. ان احادیث صحیحہ کا مقتضا یہ ہے کہ پورا غلبہ دین کا آنحضرت  کے بعد ہو گا‘ لہٰذا انہی احادیث کو ہم نے پیشوا بنایا اور آیت کریمہ کو آپ کے زمانہ ٔحیات سے متعلق نہ رکھا. الفاظِ قرآنی بھی اس کو نہیں چاہتے کہ حضرت  کی حیات ہی میں دین حق کو غلبہ ٔکامل ہو جائے‘ چنانچہ اگر 
یظھرہ کی ضمیر (منصوب متصل) ھدی اور دین (۱) حضرت مصنف رحمہ اللہ علیہ نے اس مقام پر چھ احادیث نبویہؐ درج فرمائی ہیں ‘لیکن طوالت کے خوف سے ہم یہاں ان میں سے صرف دو احادیث نقل کر رہے ہیں. (ادارہ)

(۲) دونوں قسم سے مراد زرد و سفید یعنی سونا اور چاندی. 
حق کی طرف پھیریں تو مطلب یہ ہو گا کہ رسول کا ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجنا سبب ہو جائے گا اس ہدایت اور دین حق کے تمام دینوں پر غالب ہونے کا. اس صورت میں کچھ ضروری نہیں کہ وہ غلبہ آنحضرت  کے سامنے ہو جائے آپؐ کا مبعوث ہو جانا غلبہ کا سبب ہو گیا‘ گو تتمہ اس غلبہ کا آنجناب  کے نائبوں کے ہاتھ پر ہوا اور اگر یہ ضمیر رسول کی طرف پھیری جائے تب بھی کچھ بعید نہیں ہے ‘کیونکہ دین حق کا غلبہ جو آنحضرت  کے نائبوں کے ہاتھ سے ہوا‘ بلا شبہ وہ آنحضرت  ہی کا غالب ہونا ہے. 

اگر تم سن سکتے ہو تو ایک باریک نکتہ سنو!

خدا تعالیٰ جب کسی پیغمبر کو اصلاحِ عالم کے لیے اور بنی آدم کو نیکیوں سے نزدیک کرنے اور بدیوں سے دور کرنے کے لیے مبعوث فرماتا ہے اور غیب الغیب میں کوئی خاص صورت اس اصلاح کی مقرر کر دیتا ہے تاکہ وہ اصلاح اسی صورت میں ظاہر ہو تو لا محالہ وہ صورت خاص اس پیغمبر کی بعثت میں پوشیدہ ہوتی ہے. پھر جب حکمت الٰہی اس پیغمبر کو عالم ادنیٰ سے رفیق اعلیٰ کی طرف قبل اس صورت کی تکمیل کے لے جانا چاہتی ہے تو لا محالہ وہ پیغمبر ان مقاصد کے پورا کرنے کے لیے جو اس کی بعثت میں مندرج ہیں‘ اپنی امت میں سے کسی شخص کو اپنا آلہ بناتا ہے اور اس کی تربیت کرتا ہے تاکہ اس کا دل الہامِ خداوندی کے نزول کے قابل ہو جائے اور پھر اس شخص کو ان مقاصد کی وصیت کر دیتا ہے اور ان کی ترغیب دیتا ہے اور ان مقاصد کے پورے ہونے کی دعا مانگتا ہے. یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص بدنی قوت نہ رکھتا ہو کہ حج کا ارادہ کر سکے مگر مالی طاقت رکھتا ہو تو اس پر ضروری ہے کہ فریضہ ٔحج کے پورا کرنے کے لیے دوسرے سے حج کرائے اور اس کے نامۂ اعمال میں دوسرے کا حج لکھا جائے اور یہ شخص بوجہ سبب ہونے کے حکم الٰہی کا مطیع ہو اور ثوابِ حج کا پورا حصہ حاصل کرے. اس قسم کا خلیفہ بنانا ہر دین میں ہوا ہے. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت یوشع علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کو اپنا خلیفہ بنایا تھا (حضرت عیسی علیہ السلام کے خلیفہ بنانے کا ایک عجیب طریقہ تھا). انجیل میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک روٹی اپنے ہاتھ میں لی اور فرمایا کہ یہ عیسیٰ کا گوشت پوست ہے پھر وہ روٹی آپ نے حواریوں میں تقسیم کر دی. جب انہوںنے اس روٹی کو کھا لیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام مناجات کرنے لگے اور فرمایا کہ (یا اللہ) جس طرح انہوں نے یہ روٹی کھا لی اور وہ ان کے بدن میں حلول کر گئی اسی طرح عیسیٰ ان کے بدن میں حلول کر جائے.

اے خداوند! جو نظر رحمت تو میری طرف رکھتا ہے وہی ان پر مبذول فرما تاکہ یہ لوگ تیرے بندوں کو تیری طرف بلائیں. اسی قاعدہ کے موافق جب عالم میں آنجناب کی الوہیت کے متعلق برے اعتقاد پھیل گئے اور عقیدۂ ارجا کا رواج ہو گیا‘ یعنی اعمال کو ساقط از درجۂ اعتبار (۱سمجھنا اور (برے) کاموں کے (بد) انجام سے خوف نہ کرنا جو تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کے خلاف ہے‘ تو غضب الٰہی جوش میں آیا. اور ارادئہ انتقام (عالم) ملکوت میں پیدا ہوا. پھر ان لوگوں کے ہلاک و برباد کرنے کا ایک وقت مقرر ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (ترجمہ) (۲ہر گروہ کے لیے ایک وقت ہے جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک ساعت کے لیے بھی وہ گروہ نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے نہ آگے! چنانچہ وہ وقت آ گیا تو حق تعالیٰ نے افضل افرادِ بشر یعنی ذاتِ مقدس ختم الرسل  کو مبعوث فرمایا اور اپنی وحی آپؐ پر نازل فرمائی اور آنجنابؐ نے اپنی انتہائی کوشش کے ساتھ اس ہدایت اور دین حق کی طرف لوگوں کو بلایا. قابلیت رکھنے والے سعادت اندوز ہوئے اور بدبخت لوگ ملعون ابدی بن گئے. اسی بعثت کے ضمن میں وہ ارادۂ انتقام ان لوگوں سے جو آنجناب کی اُلوہیت کے متعلق برے اعتقادات رکھتے تھے‘ قائم کیا گیا اور آنحضرت  اور آپؐ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین (باوجود سراپا رحمت ہونے کے) اس انتقام میں بمنزلہ جارحہ (الٰہی) کے ہو گئے جس طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام (باوجود سراپا رحمت ہونے کے) صیحۂ (۳ثمود کے وقت (جارحہ الٰہی بنے تھے) اسی وجہ سے جو لڑائیاں آنحضرت  کے حکم سے واقع ہوئیں وہ ان لڑائیوں میں شریک ہونے والوں کے لیے موجب نزولِ برکاتِ عظیمہ بنے اور ان لڑائیوں میں ایک ساعت کی شرکت صد سالہ عبادت کے برابر تہذیب باطن میں کارگر ہوئی‘ اسی وجہ سے ہماری شریعت میں جہاد کا ثواب تمام عبادات کے ثواب سے بالاتر ہے اور اہل بدر و اہل اُحد و اہل حدیبیہ کی فضیلت مانی گئی ہے. 

خلاصہ یہ کہ (اس آخری زمانہ میں) اصلاحِ عالم کی اور دشمنانِ خدا سے انتقام لینے

(۱) مشرکین کا حال تو ظاہر ہے کہ وہ جزا و سزا ہی کے قائل نہ تھے‘ اعمال کا کیا اعتبار کرتے. رہ گئے یہود و نصاریٰ ‘ ان کا یہ خیال تھا کہ ہم برے اعمال کریں گے تب بھی جنت ہماری ہے‘ کیونکہ ہم خدا کے دوست ہیں. 

(۲) سورۃ الاعراف ‘آیت ۳۴.

(۳) صیحہ ‘ بلند آواز کو کہتے ہیں. قوم ثمود اسی آواز سے ہلاک کی گئی تھی. ثمود وہی قوم ہے جس کی طرف حضرت صالح علیہ السلام پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے .جب قوم نے اونٹنی کے پیر کاٹے جو معجزہ سے پیدا ہوئی تھی تو یہ عذاب نازل ہوا. 
کی ایک خاص صورت مقرر ہو گئی تھی اور وہ صورت یہ نہ تھی کہ وہ (مثل قومِ قارون کے) زمین میں دھنسا دیے جائیں یا (مثل قوم ہود وغیرہ کے) ان پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں یا (مثل قومِ ثمود کے) صیحہ سے ہلاک کیے جائیں . اس خاص صورت کی تعیین کسی ایسی حکمت کے سبب سے ہوئی جس کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور وہ خاص صورت یہ تھی کہ ادیانِ (باطلہ) کے حامیوں اور دعوت دینے والوں کو بذریعہ قتل و گرفتاری و تاراج و بندش و خراج و جزیہ سرنگوں کر کے اور ان کی دولت و شوکت کو پائمال اور بے حقیقت کر کے آنحضرت  اور آپ کے اصحاب علیہم الرضوان کے دین کو غلبہ دیا جائے اور یہ صورت خاص آنحضرت کی بعثت کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی اور آنجنابؐ کی بعثت اس خاص صورت پر متضمن تھی. یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے.

اور چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت  کے لیے ان روحانی نعمتوں کو جو بغیر رفیق اعلیٰ سے ملے ہوئے حاصل نہیں ہو سکتیں ‘پسند فرمایا اس لیے ضروری ہوا کہ دین حق کے غلبہ کو کامل کرنے اور دشمنانِ خدا کی سرنگوئی کو پورا کرنے کے واسطے آپؐ کسی کو خلیفہ بنائیں تاکہ یہ سب باتیں آپؐ کے صحیفہ ٔاعمال میں درج ہو جائیں اور وہ ارادۂ انتقام جو آنحضرت  کی بعثت کے ضمن میں لپٹا ہوا تھا اپنا کام پورا کرے. اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی خاص اور مقرب ملازم کسی بادشاہ کا (ترقی پا کر) محبت کی مجالس اور مقدس محافل میں بادشاہ کا ہم نشین ہو جائے اور بعض قلعوں کا فتح کرنا جن کے لیے بادشاہ نے بہت کچھ تاکید کی ہے‘ اپنے کسی اچھے کارگزار کے متعلق کر دے اور جب وہ قلعے (اس کارگزار کے ہاتھ پر) فتح ہو جائیں تو اس ملازم کی عزت بڑھ جائے اور خلعتیں اور بخششیں اس کو ملیں. جب یہ سب باتیں بیان ہو چکیں تو اب سمجھ لینا چاہیے کہ صحیح مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جس قدر غلبہ دین حق کو حاصل ہوا وہ سب لیظہرہ میں داخل ہے اور اس غلبہ کی تمام اقسام میں اعلیٰ درجہ کی قسم یعنی دولت کسریٰ و قیصر کا درہم و برہم کرنا بدرجہ ٔاولیٰ داخل ہو گا. اور اس قسم اعلیٰ کے حاصل کرنے والے خلفاء رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے. انہی بزرگواروں کی کوششیں آنحضرت کے بھیجنے سے (حق تعالیٰ کو) مقصود تھیں‘ اور ان کی کوششیں آپؐ کی بعثت کے ساتھ لپٹی ہوئی تھیں اور یہ بزرگوار تدبیر غیبی کے لیے اس کے ظہور کے آلات تھے . خلافت خاصہ کے یہی معنی ہیں !! 
(۱(۱) ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفائ‘‘ تالیف فخر الہند حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ مع ترجمہ کشف الغطاء عن السنۃ البیضاء از حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد عبد الشکور لکھنوی فاروقی مجددی قدس سرہٗ ‘مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی از صفحہ ۱۶۴ تا ۱۷۵(تلخیص)