محترم ایس ایم جمیل صاحب ریٹائرڈ آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان ‘صدر مؤسس انجمن اشاعت قرآن عظیم پاکستان (کراچی) ۴؍ اپریل کو محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے ملاقات کے لیے اکیڈمی تشریف لائے تھے. موصوف تو دعوتی دورے پر اسلام آباد اور پشاور تشریف لے گئے ہوئے تھے. لہٰذا سید صاحب ازراہِ کرم و تلطف اس عاجز کے کمرے میں قدم رنجہ ہوئے. نصف گھنٹے تک مختلف موضوعات پر موصوف نے راقم کی راہنمائی فرمائی. نیز ایک چہار ورقہ عنایت فرما گئے جس کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ اس شمارے میں جو مضامین شائع ہو رہے ہیں اس کے مضمون کی ان سے بڑی مناسبت ہے‘ لہٰذا قارئین میثاق کی خدمت میں پیش ہے. (جمیل الرحمن)

(۱) حضور  کے ارشاد کے مطابق امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں. دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں. دونوں ارشادات کے بموجب علماء اسلامی معاشرے کے خصوصی رہبر اور سردار ہیں.

(۲) نبی کریم  کی امت کو اللہ تعالیٰ نے ’’خیر امت‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور پوری امت کو خطاب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے امت پر ذمہ داری ڈالی ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی. 

دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے بموجب دعوت الی اللہ اور دیگر ادیان پر اسلام کو برتر ظاہر کرنے کی بھی حضورؐ پر حضورؐ کی امت پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے. اُمت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ علم دین سیکھے اور دین کی حفاظت اور برتری میں اپنی جان اور مال کو وقف کر دے اور اپنے آپ کو اللہ کے ہاتھ پر بکا ہوا سمجھے‘ یہ ذمہ داری امت کے ہر فرد پر ہے. البتہ جو لوگ علم والے ہیں ان پر یہ ذمہ داری بدرجۂ اولیٰ عائد ہوتی ہے اور جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے. 


(۳)

علمائے حق نے ہر پریشان کن اور نازک وقت پر ذاتی آرام و راحت کو چھوڑ کر دین اور معاشرۂ اسلامی کی حفاظت کے لیے سر بکف ہو کر پیش قدمی کی ہے‘ انہوں نے سلطنت مغلیہ کے اضمحلال اور انہدام اور سلطنت برطانیہ کے موقع پر بے یار و مددگار ہوتے ہوئے اور بغیر اسباب ظاہرہ کے اسلام کی مدافعت میں ایسی مضطربانہ اور والہانہ کوششیں کیں کہ برصغیر کے مسلمان‘ عیسائی مشنریوں کے اثر سے محفوظ رہے اور ہزار میں سے ایک مسلمان بھی انگریزوں کے صد سالہ دور حکومت میں عیسائی نہیں ہوا. صرف یہی نہیں بلکہ مکمل شکست و ریخت کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں مسلمانوں میں دین اور اسلامی معاشرے کے سلسلہ میں خود اعتمادی پیدا ہوئی اور پورے برصغیر میں عزم و حوصلہ اور خود اعتمادی کی لہر دوڑ گئی تا آنکہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا. 

افسوس کہ گزشتہ تیس چالیس سالہ دور میں بہت غلطیاں اور لا پرواہیاں ہوئیں اور اسلام کے نام پر بنائے ہوئے اس ملک میں غیر اسلامی خیالات اور رجحانات کے مراکز اور انجمنیں بن گئیں اور اس ملک میں نفاذ اسلام ایک حقیقت کے بجائے چیلنج اور سوال بن گیا. ہر مسلمان اور عام مسلمان سے زیادہ ہر عالم دین پر لازم ہے کہ سب اختلافات و کشاکشوں اور ذاتی مفادات و مصلحتوں کو چھوڑ کر اس بنیادی‘ تباہ کن خطرے کو دور کرنے کی مہم پر آمادہ ہو جائیں.

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا

(۴) اسلام نہایت کم مادی وسائل کے عالم میں ابھرا اور زاہدانہ زندگی‘ تقویٰ‘ جہاد اور بلند اخلاق کی بنیادوں پر بجلی کی طرح پھیلا اور ہر جگہ ایسا محبوب بنا کہ وہاں کے غیر مسلم لوگ مسلمان ہو کر اسلام کے جانباز سپاہی بنے. 

اب ہم کو دوبارہ احکام قرآنیہ اور سنت نبویہ پر کاربند ہوتے ہوئے 
’’حب الدنیا و کراھیۃ الموت‘‘ کی بجائے تقویٰ‘توکل اور تبتّل کی طرف آنا چاہیے اور زاہدانہ جفاکشی اور ذکر کو اپنا شعار بنانا چاہیے.

(۵) آج کل علماء کی توجہات مدرسہ کی حدود میں اور مساجد کے امام بنانے میں صَرف ہو رہی ہیں‘ عوام اور ان کے منتخب خواص سے رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے. 

(۶) اب اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے ایک سنہری موقع دیا ہے کہ عوام بالعموم اور علماء 
بالخصوص اپنی سابقہ غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے بیدار ہو جائیں. استغفار اور ذکر کے ساتھ اپنی اور معاشرے کی اصلاح میں سرگرم عمل ہو جائیں. اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ دین کے لیے کام کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور کامیابی یقینی ہے. 

(۷) اسلام پھیلا ہے اور اسلام محکم ہوا ہے. مسلمانوں کے خصوصاً علماء کے تقویٰ‘ توکل اور مجاہدانہ زندگی سے راتوں کے ذکر اور دعاؤں سے‘ بقولہٖ تعالیٰ: 

اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِI 
(الزمر) 

یہ بات قابل غور ہے کہ ابتدائی طور پر جب مسلمان بالعموم مجاہدانہ زندگی گزارتے تھے‘ علماء اور غیر علماء میں طبقاتی حیثیت سے تفریق نہیں تھی. البتہ بعض لوگ علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ ممتاز ہوا کرتے تھے اور عوام ان کی صحبتوں اور مذاکرات سے مستفید ہوتے تھے. آخرت کی زندگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا جذبہ علماء کی سرکردگی میں عوام‘ خواص‘ علماء اور حکام سب کو حاصل ہو‘ یہی استحکام اور ترقیات کی بنیادیں تھیں. اس زمانہ میں مروجہ مدارس نہ تھے مگر کتاب و سنت کا علم و عمل پہنچانے والے ہر جگہ موجود اور سرگرم عمل تھے. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام پورے معاشرے میں جاری تھا اور اس کا غلغلہ اور مسلمانوں کے بے لاگ انصاف اور حق کے لیے جانبازی کا غلغلہ اطراف عالم پر تھا اور یہ خصوصیات زندگی ہر معرکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے نصرت اور کامیابی لانے والی تھیں. ہر شخص تکمیل احکام اور تقویٰ میں پیش قدمی اور سبقت لے جانے کا خواہاں تھا. بقولہٖ تعالیٰ: 
وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان) 

تقویٰ کی دوڑ اور مسلسل کوشش اسلامی معاشرے کی فضا میں لازم و ملزوم تھی اور تقویٰ کا نصاب قرآن شریف اور احادیث میں واضح طور پر مکرراً اور تاکیداً ارشاد فرما دیا گیا تھا تاکہ اس سے کوئی شخص لا پرواہ نہ رہے اور جاننے والے اور نہ جاننے والوں کا ایسا ارتباط تھا کہ تقویٰ اور اتباعِ سنت نبویؐ کے سلسلہ میں پورے معاشرے میں ہم آہنگی‘ یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی تھی. ضرورت ہے کہ یہ باہمی رابطہ دوبارہ پورے طور پر قائم اور مستحکم ہو اور جاننے والے اور نہ جاننے والوں میں علم و عمل کی پیاس پیدا کریں. جیسا کہ سابقہ ادوار میں ہوتا آیا ہے. 
(۸) آج کل بعض جگہ ذکر آ رہا ہے کہ مدارس دینیہ کے نصاب میں انگریزی زبان‘ جغرافیہ‘ ریاضی اور سائنسی علوم کو شامل کیا جانا ضروری ہے. مناسب طور پر نصاب میں ان چیزوں کا اضافہ کر دینے میں حرج نہیں ہے مگر بنیادی ضرورت اس کی ہے کہ ان مدارس میں کتاب اللہ‘ سنت نبویؐ اور صحابہؓ کی عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا جائے. تقویٰ‘ توکل اور تبتّل اور مسلسل مجاہدانہ زندگی‘ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے کامیابی اور عزت کی بنیادیں ہیں. فلسفہ اور منطق اور انگریزی زبان وغیرہ بالکل بعد کی چیزیں ہیں. اور انگریزی زبان کے ساتھ انگریزی طرز معاشرت اور نظریاتی زندگی کی اہمیت طالب علموں کے ذہنوں میں آ گئی تو یقینی طور پر اسلامی علم و عمل کے لیے سم قاتل ہے.

(۹) سیاسی غلامی سے زیادہ ذہنی اور قلبی غلامی تباہ کن ہے جس میں پاکستانی قوم خصوصاً نوجوان نسل گرفتار ہے اور دن بدن غیروں کی ذہنی غلامی‘ دنیا کی محبت‘ اتباع ھویٰ (خواہشاتِ نفس کی غلامی)‘ آرام و راحت اور عیش پرستی کی جانب نہایت تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہے اور اس دلدل میں دن بدن پہلے سے زیادہ پھنستی چلی جا رہی ہے. مسلمان قوم اور مسلم معاشرے کی اصلاح کی اور اس کا رُخ بدلنے کی ہنگامی کوششوں کی ضرورت ہے اور اس کی زیادہ تر ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے. اس ذمہ داری سے کماحقہ ٔسبکدوشی کے لیے متذکرہ بالا اسلامی بنیادوں کو از سر نو زندہ کرنا پڑے گا ‘ان پر کاربند ہونا پڑے گا. اس کے بغیر اصلاح معاشرہ کا اور مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کا مقصد حاصل کرنا‘ ناممکن ہے. اگر اس وقت اس جانب ہنگامی بنیادوں پر توجہ نہ دی گئی تو اسلامی معاشرے کو کفر اور لادینیت کی دلدل میں دفن ہونے سے بچانے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور پاکستانی قوم اور پاکستانی معاشرہ بھی بہت سے دوسرے اسلامی علاقوں کے معاشروں کی طرح ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا.

ائمہ مساجد کی ذمہ داریاں

(۱) نبی کریم  کی امت کو اللہ تعالیٰ نے ’’خیر اُمت‘‘ کے نام سے یاد فرمایا ہے (آل عمران). دنیا کی بہترین امت اس واسطے کہ کارِ نبوت اس اُمت سے لیا جائے گا.

(۲) اس اُمت کا ہر فرد اس امر پر مامور ہے کہ ’’امر بالمعروف‘‘ ‘ ’’نہی عن المنکر‘‘ اور ’’دعوت الی اللہ‘‘ کا کام کرے اور اس کام کے لیے امکان بھر تیاری کرے اور اپنے آپ کو اللہ کے ہاں بکا ہوا سمجھے. 
(۳) یہ فریضہ خاص طور پر ان افراد پر عائد ہوتا ہے جو علم دین کی دولت سے بہرہ ور ہیں اور اگر مساجد کے امام بھی ہوں تو اس علاقے کے لیے راہ دکھلانے کی ذمہ داری ان پر مزید طور پر آتی ہے.

(۴) اسی نظام کے تحت جب اسلام پھیلا تو ہر جگہ کے لیے امام بھیجے گئے. انہوں نے ہر جگہ اپنی ذمہ داری ایسی ادا کی کہ ہر جگہ دین کے علم و عمل کا نور چمکا. دُور دُور علاقوں میں بھی ہر جگہ مساجد‘ دینی علوم اور تقویٰ کا مرکز بن گئیں اور عوام میں علم و عمل کی تلاش اور پیاس پیدا ہوئی. 

(۵) پاکستان بھی اسلام کے نام پر بنا تھا. مساجد اور علمی کتابیں پہلے سے موجود تھیں اور ان میں حیرت انگیز طور پر سو گنا ترقی ہوئی. مگر مادیت کی طرف توجہات کی وجہ سے مقاصد کی طرف سے لا پرواہیاں برتی گئیں اور معاشرے میں خرابیاں اور دینی نقصانات رونما ہوئے.

(۶) اب وقت آ گیا ہے کہ مساجد کے امام اپنی پوری ذمہ داریاں ادا کریں اور سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کریں‘ ورنہ لا دینیت کی مسلسل لہریں اور بیرونی دشمنانِ دین کی کوششیں تباہی کے خطرات کو دوچند کیے ہوئے ہیں. صرف پوری کوشش سے سابقہ لا پرواہیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے. تمام اختلافات کو مٹا کر والہانہ طور پر قرآن و سنت کی روشنی کو قائم کرنا اوربڑھانا ہے. 

(۷) اللہ تعالیٰ کا مستقل حکم ہے کہ ہر مرد مؤمن اللہ کے ہاتھ جان و مال کے ساتھ بکا ہوا ہے اگر اس کا عملی ثبوت ہم سب نے اور خصوصاً اہل علم نے نہ دیا تو نہایت پریشان کن تباہی کو دُور نہیں سمجھنا چاہیے. پورے ماحول کا تقاضا ہے کہ ہر اہل علم و بصیرت کو اس تعمیری کام میں بلا تاخیر سرگرم عمل ہو جانا چاہیے تاکہ اسلامی معاشرہ بھی بنے اور استحکامِ پاکستان کا مقصد بھی حاصل ہو. 

مولانا محمد زکریا 
سربراہ پاکستان سنی اتحاد