حاجی عبد الواحد ؒ کا انتقال

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ 
حدیث نبویؐ 
’’بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ‘‘ کے مصداق کامل 

یہ دنیا دارفانی ہے اور یہاں جو بھی آیا ہے اُسے جلد یا بدیر یہاں سے جانا بھی ہے‘ فرق صرف پہلے اور بعد اور آگے اور پیچھے کا ہے. چنانچہ زیارتِ قبور کے سلسلے میں ماثورہ الفاظ یہ ہیں: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ! یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَـکُمْ اَنْتُمْ سَلْفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثْرِ‘‘ یعنی ’’اے قبروں والو تم پر سلامتی ہو‘ اللہ ہماری بھی مغفرت فرمائے اور تمہاری بھی‘ تم ہم سے پہلے گزر گئے ہو لیکن ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے آ ہی رہے ہیں!‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ جبکہ یہاں آنے والے‘ سوائے رنگ و شکل کے ظاہری و معمولی فرق کے‘ سب ایک سے ہوتے ہیں ‘جانے والے ایک سے نہیں ہوتے! چنانچہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جاتے ہی ’’نَسْیًا مَنْسیًا‘‘ ہو جاتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے طویل اور تادیر باقی رہنے والی یادیں چھوڑ جاتے ہیں. 

ایسی ہی ایک شخصیت ہفتہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۶ء کو دن کے لگ بھگ گیارہ بجے نہایت خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گئی. ہماری مراد حاجی عبد الواحد صاحب سے ہے جو شمسی حساب سے پچاسی برس اور ۲۸ دن اِس دارِ فانی میں گزار کر متذکرہ بالا تاریخ کو راہی ملک بقا ہو گئے: 
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن! اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہٗ وَ اَدْخِلْہٗ فِیْ رَحْمَتِکَ وَ حَاسِبْہُ ِسَابًا یَّسِیْراً ‘آمین یا ربّ العَالمین. 

حاجی صاحب چونکہ گزشتہ بیس برس سے بھی زائد عرصہ سے علیل تھے اور ان کی پبلک لائف اب سے تقریباً ربع صدی قبل ختم ہو چکی تھی‘ لہٰذا پاکستان کی نئی نسل تو اِن سے واقف ہی نہیں ہے. تاہم چونکہ ۷۱-۱۹۷۰ء سے ۸۱-۱۹۸۰ء تک اُن کا راقم الحروف کے ساتھ بڑا گہرا ربط رہا. لہٰذا ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے سینئر لوگ اُن سے خوب واقف ہیں‘ البتہ گزشتہ پانچ سال سے چونکہ وہ 
بالکل صاحب فراش ہو چکے تھے‘ لہٰذا تنظیم کے بھی اکثر نئے رفقا کو اُن سے واقفیت نہیں ہے.

راقم الحروف کو ان کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی تو اس موقع پر جو چند جملے اُس نے کہے‘ اُن میں یہ بھی تھا کہ ’’انسان کا باطن تو اللہ ہی کے حوالے ہے‘ جہاں تک ’’ظاہر‘‘ کا تعلق ہے کم از کم مَیں نے اپنی زندگی میں حاجی صاحب جیسا ’’پابند شریعت‘‘ انسان کوئی اور نہیں دیکھا‘‘. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ مکمل ’’شرعی پردہ‘‘ بھی راقم نے زندگی میں پہلی بار حاجی صاحب مرحوم کے یہاں دیکھا! اور وعدہ کی پابندی بھی جتنی راقم نے اُن میں دیکھی اور کہیں نہیں دیکھی. 

حاجی صاحب کی زندگی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اِس صدی کی کوئی قابل ذکر دینی و مذہبی تحریک ایسی نہیں ہے جس میں حاجی صاحب نے حصہ نہ لیا ہو. اگرچہ اکثر و بیشتر تحریکوں اور جماعتوں کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ یا وہ حاجی صاحب کی صاف گوئی کو برداشت نہ کر سکیں یا حاجی صاحب کی سیماب وش طبیعت اُن سے تادیر مطمئن نہ رہ سکی اور ع ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے!‘‘ اور ع ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!‘‘ کے مصداق خود انہوں نے نئی منزلوں کی جانب رُخ کر لیا. 

حاجی صاحب کے مختصر سوانح حیات حسب ذیل ہیں: (واضح رہے کہ یہ جملہ واقعات ویسے تو خود مَیں نے بھی حاجی صاحب سے سنے ہیں لیکن تاریخوں اور سنوں کے لیے مَیں نے اُن کے صاحبزادے حافظ قاسم رضوان کو تکلیف دی تھی. چنانچہ ان کی ذمہ داری اُن ہی پر ہے)

٭ ولادت: ۱۴؍ دسمبر ۱۹۰۰ء بمقام اجنالہ (ضلع امرتسر)

٭۱۹۱۷ء: گورنمنٹ ہائی سکول کوئٹہ سے (جہاں اُن کے والد مولوی محمد حسن صاحب ہیڈ ماسٹر تھے) میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے. جہاں قریب ہی حضرت شیخ الہندؒکے شاگرد خواجہ عبد الحئی فاروقی ؒ درسِ قرآن دیا کرتے تھے‘ یہیں سے دین کی آگ دل میں بھڑکی. 

٭۲۱-۱۹۲۰ء: اسلامیہ کالج لاہور کو چھوڑ کر ’’جامعہ ملّیہ‘‘ علی گڑھ میں جا داخلہ لیا جس کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہندؒ نے رکھا تھا. اسی دوران میں تحریک ہجرت سے متاثر ہو کر ہجرت کے ارادے سے راولپنڈی پہنچ گئے لیکن ساتھیوں کے بروقت نہ پہنچ سکنے کے باعث آگے نہ جا سکے‘ واپس علی گڑھ پہنچے ہی تھے کہ والد صاحب کے انتقال کی اطلاع آ گئی‘ لہٰذا تعلیم درمیان 
میں چھوڑ کر کوئٹہ واپس آئے اور گورنمنٹ ہائی سکول ہی میں ملازمت اختیار کر لی. 

٭۱۹۳۰ء: پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ بی اے پاس کیا. انگریزی میں یونیورسٹی میں اول آئے اور گولڈ میڈل حاصل کیا.

٭۳۲-۱۹۳۱ء: ملازمت سے رخصت حاصل کر کے‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو کر انگریزی میں ایم اے کیا.

٭ ۳۴-۱۹۳۳ء: مزید رخصت حاصل کر کے دار العلوم ندوۃ العلماء میں مقیم رہے. وہاں سید ابو الحسن علی ندوی مدظلہٗ سے عربی کی تحصیل کی. مولانا علی میاں حاجی صاحب سے انگریزی پڑھتے رہے. اُسی زمانہ میں مولانا محمد منظور نعمانی صاحب سے بھی تعلق قائم ہوا جو تازیست قائم رہا. 

٭ ۱۹۳۵ء: حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت سلوک! (حاجی صاحب کو حضرت لاہوریؒ سے خلافت بھی حاصل تھی). 

٭ ۱۹۳۶ء: پہلا حج بیت اللہ اور اس کے دوران مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم سے تعارف اور مراسم!

٭ ۱۹۳۸ء: مولانا لاہوریؒ کی خدمت میں دورۂ تفسیر کی تکمیل. 

٭ ۴۱-۱۹۴۰ء: حضرت لاہوریؒ کے ارشاد پر خانقاہ رائے پور میں شاہ عبد القادرؒ کی خدمت میں حاضری اور استفادہ‘ اسی دوران میں حضرت مولانا محمد الیاسؒ سے تعارف ہوا اور اِن کے پاس بھی طویل قیام رہا. اس کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ کافی طویل سفر کیے اور تمام اکابر سے رابطہ رہا.

٭ ۱۹۴۲ء: اپنی بقیہ زندگی کو دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی نیت سے ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی.

٭ ۴۳-۱۹۴۲ء: جماعت اسلامی کے مرکز واقع دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے پاس قیام‘ لیکن جلد ہی بد دل ہو کر مولانا محمد منظور نعمانی کے ساتھ ہی کنارہ کشی!

٭ ۴۷-۱۹۴۳ء: اپنے آبائی قصبہ اجنالہ ہی میں قیام اور درسِ قرآن کی تحریک کا آغاز. ابتدا میں حوصلہ افزائی‘ بعد میں مقامی علماء کی شدید مخالفت! 
٭ ۱۹۴۷ء: کے اوائل ہی میں لاہور منتقل ہو گئے اور بعض دوسرے دینی بھائیوں کے ساتھ مل کر گڑھی شاہو میں ہندوئوں سے کچھ جائیداد خرید کی!

٭ ۱۹۴۸ء: حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ کی خدمت میں چھ ماہ مسلسل قیام اور سلوک کی تکمیل!

٭ ۵۲-۱۹۵۱ء: تبلیغی جماعت کے ساتھ دوسرا حج. ایک سال ارضِ مقدس ہی میں قیام. اس دوران میںمولانا سعید احمد خاں اور مولانا عبید اللہ بلیاوی سے خصوصی تعلقات و روابط!
٭ ۵۳-۱۹۵۲ء: ایک مثالی اسلامی بستی کے قیام کے لیے
 انجمن رضوان کے نام سے ایک کوآپریٹو سوسائٹی کا قیام. اور اس کے لیے دیوانہ وار کام!

٭ ۱۹۵۵ء: ادارہ اصلاح و تبلیغ (آسٹریلیا بلڈنگ‘ میکلوڈ روڈ‘ لاہور) کے زیر اہتمام قرآن مجید کی ایک آسان اور عام فہم تفسیر بعنوان ’’درسِ قرآن‘‘ لکھنے کے لیے علماء کا ایک بورڈ قائم ہوا. جس کے حاجی صاحب بھی رکن بنائے گئے. اور تفسیر کے کام کے اختتام تک بورڈ کے رکن رہے!

٭ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء کا زمانہ حاجی صاحب کی زندگی میں بہت سی ناکامیوں اور مایوسیوں کا دَور تھا. اس عرصہ کے دوران ایک طرف تبلیغی جماعت کے بعض اہم اور ذمہ دار حضرات سے شدید اختلاف کی بنا پر حاجی صاحب کا رابطہ اُس ’’حلقے‘‘ سے بالکل ٹوٹ گیا. دوسری طرف انجمن رضوان‘ جسے حاجی صاحب نے اپنے خونِ جگر سے پروان چڑھایا تھا‘ اور جس کے صدر اور مؤسس سب کچھ حاجی صاحب تھے‘ اُس سے اُنہیں اِس طرح نکال باہر کیا گیا جیسے دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے. ان دو شدید ترین صدموں کے باعث حاجی صاحب کی صحت ایک دم جواب دے گئی. 

٭ راقم الحروف سے حاجی صاحب کا ربط ۱۹۷۱ء میں قائم ہوا. راقم کے چند دروس و خطابات ہی سے انہیں راقم سے بہت اُنس ہو گیا. اور ایک طویل عرصے تک حاجی صاحب اپنی علالت اور ضعیفی کے باوصف لاہور میںمیری ہر تقریر اور درس میں شرکت فرماتے رہے.

٭ ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی تأسیس کا مرحلہ آیا تو میرے اِس خیال کی حاجی صاحب نے اپنے تلخ تجربے کی بنا پر شدت کے ساتھ تائید کی کہ اِس کا ڈھانچہ مروّجہ جمہوری روایات کے مطابق نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ اِس میں صدر مؤسس کی تا حیات صدارت بھی طے ہونی چاہیے. اور اس پورے عرصے کے دوران اُسے مجلس منتظمہ میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہونا 
ہونا چاہیے. اِس ضمن میں انہوں نے میرے منع کرنے کے باوجود مولانا امین احسن اصلاحی اور شیخ سلطان احمد صاحب سے بھی گفتگو کی‘ اگرچہ اُن حضرات نے اُن کی بات پر توجہ نہ فرمائی. 

٭ ۷۴-۱۹۷۳ء کے دوران کسی موقع پر حاجی صاحب نے زبردستی راقم کا ہاتھ کھینچ کر اپنے آپ کو راقم کے ساتھ ’’بیعت جہاد‘‘ کے رشتے میں منسلک کر لیا. اس وقت تک خود راقم نے اِس کے بارے میں سوچا تک نہ تھا(اگرچہ اصولی طور پر راقم کا یہ ذہن ۱۹۵۸ء میں بن چکا تھا کہ ’’اقامت دین‘‘ کے لیے قائم ہونے والی جماعت کی اساس ’’بیعت جہاد‘‘ ہی پر ہونی چاہیے).

٭ ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی قائم ہوئی تو حاجی صاحب اُس کے تأسیسی ارکان میں شامل ہو گئے.

٭ ۱۹۷۶ء میں حاجی صاحب نے علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود راقم اور تنظیم اسلامی لاہور کے دیگر ساٹھ ستر رفقاء کی معیت میں کوئٹہ کا سفر کیا. اور قرآنی تربیت گاہ میں شرکت فرمائی. 

٭ ۱۹۸۰ء تک راقم اور تنظیم اسلامی کے ساتھ حاجی صاحب کا تعلق نہایت پُرجوش اور فعال طرز کا رہا. چنانچہ اسی دوران میں حاجی صاحب نے راقم کو اپنی جائیداد میں سے دو کنال کے رقبے پر مشتمل ایک کوٹھی ہبہ کی جس کے ایک چوتھائی کے بارے میں اُن کے اور تبلیغی جماعت کے ایک معروف بزرگ حاجی عبد الحمید صاحب کے مابین تنازعہ بھی چل رہا تھا (جو تاحال جاری ہے) الحمد للہ اُسی کوٹھی کے تین چوتھائی پر وہ عمارت تعمیر ہو رہی ہے جس میں تنظیم اسلامی کا مرکزی دفتر منتقل ہو رہا ہے. 

۱۹۸۰ء کے بعد سے حاجی صاحب تقریباً صاحب فراش ہو گئے اور کہیں آنا جانا بالکل موقوف ہو گیا. اور اس عرصے کے دوران‘ اُن کے مزاج میں کچھ تلخی اور چڑچڑا پن بھی پیدا ہو گیا تھا. چنانچہ ان ہی آیام میں ایک مرتبہ جب مولانا علی میاں مدظلہٗ کا لاہور آنا ہوا اور وہ حاجی صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تو حاجی صاحب اُن سے بھی نہایت تلخی کے ساتھ پیش آئے! اگرچہ مولانا نے اس کا قطعاً برا نہ منایا‘ اور راقم کی اُن سے جب بھی ملاقات ہوئی مولانا نے حاجی صاحب کی صحت و عافیت کے بارے میں ضرور دریافت فرمایا‘ اور سلام کہلوایا! چنانچہ مَیں نے بھی مولانا کو حاجی صاحب کے انتقال کی اطلاع بذریعہ تار دی اور ان کا بھی دعائے مغفرت اور تعزیت کا پیغام بذریعہ تار ہی ملا! اِدھر میری مصروفیات بھی ایک دم بہت بڑھ گئیں اور حاجی صاحب کی خدمت میں حاضری کے مواقع کم ہو گئے‘ چنانچہ ع ’’عشق است و ہزار 
بد گمانی!‘‘ کے مصداق حاجی صاحب کو راقم سے بھی کچھ گلے شکوے پیدا ہوئے‘ لیکن یہ ان کی شرافت اور مروّت تھی کہ انہوں نے انہیں اپنے تک ہی رکھا اور کبھی کسی کے سامنے زبان نہ کھولی!

٭ ان کی نقاہت کے بارے میں تو راقم کو علم تھا کہ تدریجاً بڑھ رہی ہے لیکن انتقال سے قبل کوئی ایسی خاص علالت ہوئی ہی نہیں جسے ’’مرضِ وفات‘‘ کا نام دیا جا سکے‘ لہٰذا ان کے انتقال کی اطلاع بالکل اچانک ملی. صبح تک کوئی آثار موت کے نہ تھے‘ چنانچہ ان کے داماد برادرم محمد حنیف ورک جو اُن کے ساتھ ہی رہتے ہیں‘ معمول کے مطابق ڈیوٹی پر کالج گئے ہوئے تھے اور صاحبزادے حافظ قاسم رضوان بھی اتفاقاً ہی گھر پر تھے. بڑے صاحبزادے محمد حسن بھی اپنے کاروبار پر باہر تھے کہ اچانک ۱۱؍ جنوری ۱۹۸۶ء کو ۱۱بجے دن کے لگ بھگ حاجی صاحب انتہائی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے! گویا اُن کی بے چین روح کو جگرؔ کے اِس مصرعے کے مطابق ع ’’عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا‘‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سکون حاصل ہو گیا. ع ’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!‘‘ 

٭راقم جب اُسی روز بعد نماز مغرب ان کی نماز جنازہ ادا کر رہا تھا تو دل میں عجیب سی حسرت کا احساس پیدا ہوا کہ کاش گزشتہ چند دنوں کے دوران حاجی صاحب سے ایک ملاقات ہو جاتی تو راقم اپنے ایک اقدام کی وضاحت کر سکتا جس سے انہیں شکایت پیدا ہوئی تھی. اس لیے کہ گزشتہ پندرہ سال کے دوران راقم کو متعدد بار تجربہ ہو چکا تھا کہ حاجی صاحب کو کوئی شکایت پیدا ہوئی اور جیسے ہی مَیں حاضر ہوا ساری شکایت کافور ہو گئی.

بلکہ بعض اوقات تو محسوس ہوا کہ حاجی صاحب خفگی کا اظہار کرتے ہی اس لیے ہیں کہ مَیں اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اُن کی خدمت میں حاضری دے سکوں. وہ ہر اعتبار سے میرے ’’بزرگ‘‘ تھے (عمر میں تو میرے والد صاحب مرحوم سے بھی چار سال بڑے تھے) لیکن وہ جس ادب و احترام ہی نہیں ’’تعظیم‘‘ کے ساتھ مجھ سے پیش آتے تھے اُس سے بہت شرمندگی ہوتی تھی اور بعض اوقات اسی کا احساس ان کی خدمت میں حاضری سے مانع ہوجاتا تھا. بہرحال ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف ہم سب کو لوٹ جانا ہے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت اور فضل و کرم کے سائے میں جگہ دے اور 
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّـتَقٰبِلِیْنَ4 کے مصداق بنا دے. اَللّٰھُمَّ آمِیْن!!