خطاب مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری مدظلہٗ

۱۵ ؍ ستمبر ۱۹۸۵ء کو بعد نماز عشاء امیر محترم کو عالی مسجد نواں کوٹ ملتان روڈ لاہور پر تنظیم اہل سنت و الجماعت کے چالیسویں اجلاس میں تقریر کرنا تھی‘ جہاں حضرت مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری مدظلہٗ العالی بھی مدعو تھے. جو دعوتِ توحید اور مشرکانہ و مبتدعانہ اوہام و افعال کی تردید کے ضمن میں پاکستان گیر شہرت کے حامل ہیں. شاہ صاحب محترم نے اپنی زندگی اسی کام کے لیے وقف کر رکھی ہے. خطاب سے قبل محفل طعام میں جس کا اہتمام عبد الرشید رحمانی نے کیا تھا‘ شاہ صاحب قبلہ کی امیر محترم سے ملاقات ہوئی. شاہ صاحب نے میثاق میں شائع ہونے والے ’’الھدٰی‘‘ کے سلسلے اور اگست و ستمبر میں شائع ہونے والے امیر محترم کے خطابات پر موصوف کی تحسین بھی فرمائی اور اُن کے حق میں دعا بھی کی. بعد نماز عشاء عالی مسجد میں محترم شاہ صاحب مدظلہٗ اور دیگر علماء کی موجودگی میں امیر محترم نے ’’توحید عملی کا اقامت دین سے ربط و تعلق‘‘ کے موضوع پر قریباً پونے دو گھنٹے مفصل و جامع خطاب کیا. چنانچہ اس تقریر سے متاثر ہو کر شاہ صاحب مدظلہٗ نے جن تاثرات و مشاہدات کا اظہار فرمایا انہیں ٹیپ سے منتقل کر کے پیش کیا جا رہا ہے. (ج. ر) 

ارشاداتِ شاہ صاحب!

حضرت شاہ صاحب مدظلہٗ نے خطبۂ مسنونہ کے بعد سورۃ الرعد کی حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّط وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْئٍ اِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآئِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖط وَمَا دُعَآئُ الْکٰفِرِیْنَ اِلاَّ فِیْ ضَلٰلٍN 
اس کے بعد حضرت شاہ صاحب قبلہ نے اپنے موضوع ’’توحید فی الحقیقت کیا ہے؟‘‘ پر گفتگو سے قبل بطور تمہید فرمایا:

بزرگو! بھائیو! عزیزو! ہمارے محترم و مکرم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ماشاء اللہ و لا حول و لا قوۃ الاّ باللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس خوبی‘ اخلاص اور سوز اور دردِ دل سے توحید فی العمل یا توحید فی الطلب کو مفصل اور پورے اجزاء کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور پھر الحمد للہ کتاب و سنت کے پورے حوالے سے اور صحیح تشریح سے آپ حضرات تک فصل الخطاب کے ساتھ پیغام حق پہنچایا ہے‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے. میرا یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے جناب محترم کی تقریر سنی ہے. اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے. اللہ تعالیٰ دین حق پر‘ دین قیم پر‘ دین خالص پر جناب مکرم کو استقامت اور اخلاص کی نعمت نصیب فرمائے اور جس ولولے‘ جس جذبے‘ جس محنت کے ساتھ یہ رضائے الٰہی کو مقصود بنائے ہوئے دعوتِ حق کا کام کر رہے ہیں‘ تبلیغ کا حق ادا کر رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے اپنوں کی بھی باتیں سن رہے ہیں‘ غیروں کے طعن و تشنیع بھی برداشت کر رہے ہیں. اس کام میں وقتاً فوقتاً جو تکالیف اٹھاتے اور جھیلتے ہیں وہ ان کے لیے توشۂ آخرت بنائے اور اللہ تعالیٰ اس دعوت کو کامیاب فرمائے اور ہم سب مسلمانوں کو توفیق دے اور اپنے فضل و رحمت سے ہماری قسمت میں یہ سعادت عطا فرمائے کہ اللہ اللہ جس طرح ڈاکٹر صاحب دل و جان سے کوشش کر رہے ہیں کہ دین توحید اجتماعی رنگ میں غالب اور نافذ ہو جائے. دین پورا کا پور ا قائم ہو. اس طرح ہم بھی اس کام میں لگ جائیں.

ان کی تو کوشش ہے‘ محنت ہے. ان کے ساتھیوں کی محنت ہے اور کوشش ہے. اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب فرمائے یہ اس کے ہاتھ میں ہے. البتہ ہمیں وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو ہم سے بن سکے. اس کے مصداق تو ہم بنیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کامیابی عطا فرما دے. اس کے ہاتھ میں ہے کہ : کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ4 صبر و استقامت اسی طرح جاری رہا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کامیابی عطا فرما دے. ورنہ ایک مسلمان کہلانے والے کا جو فریضہ ہے اس کے لیے تو ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب نے تن من کی بازی لگائی ہوئی ہے. یہ محض رسمی الفاظ نہیں بلکہ میرا حقیقی تاثر ہے کہ مجھے ان کی تقریر سن کر الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ سب سے بڑی خوشی‘ سب سے بڑی راحت اور سب سے بڑا اطمینان دل کو ہوا کہ یا اللہ اس دَور میں تو نے اپنے فضل و کرم سے کسی کو تو یہ توفیق بخش دی ہے کہ وہ تیرے دین خالص کے لیے‘ دین حق کے لیے اجتماعی طور پر اسے کامیاب بنانے کے لیے کوشش کر رہا ہے. اے اللہ! تو اس کو بارآور فرما مایوسی کے حالات تو ہوں گے لیکن وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّالُّوْنَ4 اللہ کی رحمت سے مایوسی گمراہی اور کفر ہے: وَلَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِط اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ4 اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں. باقی کچھ لوگ بعض اوقات کہہ دیتے ہیں کہ موجودہ معاشرے میں اس کام کی کامیابی مشکوک ہے. یہ خیال ہی سرے سے غلط ہے. 

دنیا میں کامیابی ہو یا نہ ہو لیکن اللہ کے نزدیک کرنے کا کام یہی ہے. میں کون اور ڈاکٹر صاحب کون! نبی اکرم  نے فرمایا کہ قیامت کے دن انبیاء میں سے بعض نبی جن کی صداقت پر‘ جن کی دیانت پر‘ جن کی امانت پر‘ جن کی محنت پر‘ جن کی دعوت پر‘ جن کے اخلاص پر‘ جن کی استقامت پر‘ جن کی قربانیوں اور ایثار پر کسی کو اعتراض کا موقع نہیں مل سکا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک نبی پاکؐ نے فرمایا کہ ان میں سے کسی کے ساتھ دو اور کسی کے ساتھ ایک امتی ہو گا جنہوں نے دعوت کو پوری طرح قبول کیا ہو گا اور کسی کے ساتھ ایک بھی نہیں‘‘ . یہ تو حدیث ہے اور صحیح ہے. اللہ اللہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا شکوہ نقل فرمایا ہے: رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَھَارًا4 اے میرے مالک‘ اے میرے آقا اور مختار میں نے خالص توحید اور صرف تیری عبادت کی دعوت دی اور اس کام کے لیے میں نے نہ رات چھوڑی نہ دن چھوڑا. لیکن نتیجہ: فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَآئِ یْٓ اِلَّا فِرَارًا4 . یہ میری دعوت سن راتوں کو بھی بھاگ کھڑے ہوتے اور دن کو بھی. آگے آیا کہ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَھُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَھُمْ اِسْرَارًا4 میں نے مجلسوں میں اعلانیہ بھی دعوت دی. جیسے ڈاکٹر صاحب نے آپ حضرات کے سامنے دعوت پیش کی.

اور میں نے پوشیدہ ایک ایک کے پاس جا کر بھی دعوت دی تاکہ مجلس میں بات سمجھ میں نہ آئی ہو‘ تو اس طرح آ جائے. الغرض دعوت پہنچانے میں مَیں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ نہ رات چھوڑی ‘نہ دن چھوڑا‘ نہ اعلان چھوڑا‘ نہ اسرار چھوڑا‘ اپنا تمام آرام تج دیا ڈاکٹر صاحب محترم کا نام بھی آ گیا. لیکن ان کی ساڑھے نو سو سال کی دعوت پر کتنے لوگ ایمان لائے! کتنے لوگوں نے اسے قبول کیا. اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے کہ نوح علیہ السلام کے اخلاص میں‘ ان کی استقامت میں‘ ان کے ایثار میں‘ ان کی صداقت میں‘ ان کی شجاعت میں نہ کمی تھی نہ کسی کو شک تھا. لیکن اللہ کی شہادت سن لو کہ اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗ اِلَّا قَلِیْلٌ ’’بہت ہی تھوڑے آدمی ان پر ایمان لائے‘‘ انہوں نے اللہ کے حکم سے جو کشتی بنائی وہ کتنی بڑی ہو گی! آپ خود تصور کر لیں. بعض روایات میں آتا ہے کہ کل اَسی (۸۰) افراد تھے. ذرا سوچو کہ ساڑھے نو سو برس کی دعوت کا نتیجہ یہ تھا. اگر فی برس ایک آدمی بھی دعوت قبول کرتا تو ساڑھے نو سو تو آتے. چلو دس برس میں ایک آدمی آتا تو بھی پچانوے تو ہوتے. لیکن بعض روایات میں اَسی (۸۰) سے بھی کم تعداد آئی ہے. کلہم چالیس (۴۰) افراد. ایک اور روایت بھی ہے جس میں نو افراد کی تعداد بیان ہوئی ہے. اللہ اللہ ! کام کرنے والا یہ نہ سوچے کہ میرے ساتھ لوگ آتے ہیں یا نہیں آتے. دیکھنے والے بھی یہ نہ سوچیں کہ اس کے ساتھ فلاں بزرگ ملے یا نہیں ملے. یہ دیکھو کہ کام صحیح ہے. کتاب و سنت کے مطابق ہے.

اللہ تعالیٰ کے قرآن کے مطابق ہے. نبی اکرم  کے ارشاداتِ گرامی کے مطابق ہے تو چشم ماروشن دل ماشاد. پھر قبول کرنا چاہیے. زیادہ لوگ ہوں یا نہ ہوں اس میں اعلیٰ قسم کے لوگ ہوں یا نہ ہوں. وہ معاملہ نہ ہو جو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آنجناب کے ساتھ کیا تھا. وَمَا نَرٰٹکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِج . اے نوح ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے سردار لوگ‘ بڑے بڑے ذہین لوگ‘ بڑے بڑے باوجاہت لوگ وہ تو تیرے ساتھ آئے نہیں. ہماری قوم کے کچھ ادنیٰ لوگ کم عقل اور بے وقوف لوگ ہیں جو تیرے پیچھے لگ گئے ہیں. اللہ اللہ! میں آپ لوگوں کو مخلصانہ مشورہ دوں گا کہ ڈاکٹر صاحب کی دعوت کا ساتھ دیں. اس میں ہماری دنیا اور عاقبت کی بھلائی ہے.