تنظیم اسلامی کے بارہویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا ہے کہ مجھے جماعت اسلامی کی دعوت اور تحریک سے کوئی اختلاف نہیں‘ البتہ میں جماعت کی انتخابی سیاست کے طریق کار سے اتفاق نہیں رکھتا. انہوں نے کہا کہ اس صدی میں حکومت الٰہیہ کا تصور سب سے پہلے مولانا ابو الکلام آزاد نے پیش کیا تھا لیکن بعد ازاں وہ تحریک آزادی کی طرف متوجہ ہو گئے. ڈاکٹر اسرار احمد نے انتخابی سیاست سے اپنی بیزاری کا اظہار پہلی مرتبہ نہیں کیا وہ اکثر و بیشتر انتخابات سے اپنی الرجی کا اظہار کرتے رہتے ہیں‘ حالانکہ ملکی دستور کے تحت پاکستان میں تبدیلی کا صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ انتخابات کا راستہ ہے. اس کے علاوہ کسی انقلابی طریقے سے تبدیلی لانے کا پروگرام آئین کی خلاف ورزی ہے. ہم یہ نہیں کہتے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب جماعت سازی نہ کریں یا سیاست میں حصہ نہ لیں لیکن انہیں خود اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی کریں آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کریں. جب آئین انتخابی سیاست کو تبدیلی کا واحد راستہ قرار دیتا ہے تو ڈاکٹر صاحب کو انتخابی سیاست کے خلاف بیان بازی کرنے سے احتراز کرنا چاہیے. اور محض اتنی سی بات پر انتخابی سیاست کو ردّ نہیں کر دینا چاہیے کہ یہ جماعت اسلامی کی بھی پالیسی ہے.
جہاں تک مولانا ابو الکلام آزاد سے اظہارِ محبت کا تعلق ہے ڈاکٹر صاحب اپنی تقریر و تحریر میں اکثر اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ وہ مولانا آزاد کے بہت بڑے مداح ہیں اور اب صرف اتنی سی کسر باقی ہے کہ کسی روز ڈاکٹر صاحب مولانا آزاد کے روحانی اور سیاسی جانشین ہونے کا دعویٰ کر دیں. لیکن انہیں حقائق سے چشم پوشی کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے. انہیں یہ بات کبھی نہ بھولنی چاہیے کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے آزاد اسلامی مملکت کے قیام کی سرتوڑ مخالفت کی تھی. ڈاکٹر اسرار احمد کے بقول مولانا آزاد اگرچہ اس صدی میں حکومت الٰہیہ کے نقیب تھے لیکن بعد میں اسلام کے مستقبل سے مایوس ہو کر وہ متحدہ قومیت کے فلسفے کے پرچارک بن گئے اور اسلام کے نام پر کسی علیحدہ مملکت کے قیام کے حامی نہ رہے. ہندو کانگرس نے اسلامی مملکت کے قیام کی مخالفت میں ان کی خدمات سے خوب فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کا ایک محدود طبقہ مولانا آزاد سے عقیدت مندی کی بنا پر تحریک پاکستان کا آخر دم تک مخالف رہا. ان تلخ حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے مولانا آزاد سے ڈاکٹر صاحب کا اظہارِ عقیدت بہت سی غلط فہمیوں کا دروازہ کھولنے کا موجب بن سکتا ہے. ڈاکٹر صاحب اگر سیاست کا شوق رکھتے ہیں تو پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے حوالے سے یہ شوق پورا کریں اور ملک کی نظریاتی حدود و قیود کو اسی طرح قبول کریں جس طرح ملک کے باقی سیاست دان‘ صحافی‘ دانشور اور ادیب کرتے ہیں.
(۲)
مکتوب گرامی ڈاکٹر شیر بہادر خان پنّی (پشاور)
محترمی زاد عنایتہ السلام علیکم
ماہ جولائی کا ’’میثاق‘‘ ملا جس کے مطالعہ سے دل بے حد خوشنود ہوا. کتاب ’’جماعت شیخ الہند سے تنظیم اسلامی تک‘‘ کا مقدمہ پڑھا جو آپ کی تحریرات کا شاہکار ہے اور حرم کی خوشبو سے معطر. آپ نے میرے محبوب‘ عبقری صفات کی عظمت کی تصدیق فرما دی. وہ حقیقتاً برصغیر پاک و ہند میں بیسویں صدی کے داعی ٔاول قرآن و جہاد تھے. ان کے اس مقام کو آپ نے مان کر‘ حق بہ حق دار رسید کا کام سر انجام دے دیا. جزاک اللہ.
۱۹۲۱ء سے بعد ان کی آزادی وطن کی تحریک میں شمولیت‘ پس پائی یا بد دلی کا نتیجہ نہ تھی‘ بلکہ ان کی مؤمنانہ فراست کی وجہ سے محاذ جنگ کی تبدیلی کے مترادف تھی اور عین جنگ میں بھی محاذ کی تبدیلی کی اجازت تو قرآن نے بھی دی. اور اس تبدیلی کے لیے انہوں نے معاصر علماء سے گفتگو بھی کی‘لیکن کسی نے ان کی بات پر کان نہ دھرا سوائے حضرت شیخ الہندؒ کے. اس کا ذکر مولانا نے ترجمان القرآن جلد دوم ‘صفحہ ۹۵ کے حاشیہ میں ان الفاظ میں کیا:
’’…۱۹۱۴ء کی بات ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ ہندوستان کے علماء و مشائخ کو عزائم و مقاصد پر توجہ دلاؤں. ممکن ہے چند اصحابِ رشد و عمل نکل آئیں. چنانچہ میں نے اس کی کوشش کی. لیکن ایک تنہا شخصیت کو مستثنیٰ کر دینے کے بعد‘ سب کا متفقہ جواب تھا کہ یہ دعوت ایک فتنہ ہے. ’’اِئذَنْ لِیْ َو لَا تَفْتِنِّی‘‘ یہ مستثنیٰ شخصیت مولانا محمود حسنؒ دیوبندی کی تھی‘ جو اب رحمت الٰہی کے جوار میں پہنچ چکی ہے. ‘‘
گو وہ تحریک آزادی وطن کی جماعت … کانگرس … میں شامل ہو گئے. لیکن اپنے عزم و بنیادی مقصد ’’دعوتِ قرآن و جہاد‘‘ سے غافل نہیں ہوئے. اور یہ بھی یاد رہے کہ ان کا مطمح نظر محض آزادی ٔہندوستان ہی نہ تھا‘ بلکہ ان کے پیش نظر اسلامی ممالک کی آزادی تھی. اور یہ معلوم رہے کہ ہندوستان کی آزادی کے فوراً بعد سب اسلامی ممالک آزاد ہو گئے.
بات ہو رہی تھی ان کی دعوتِ قرآن کی. وہ کانگرس کی سیاسی تحریک کی گہما گہمی میں رہے مگر بنیادی مقصد سے ذرہ بھر بھی غافل نہیں رہے. جیل کے اندر یا باہر‘ ترجمہ و تفسیر قرآن میں مشغول رہے. حالانکہ سیاسی شورشوں میں علمی کام کرنے کے لیے مناسب جمعیت خاطر میسر نہیں آ سکتی. لیکن وہ اس کام میں برابر (۱۹۲۰ء کے بعد وہ مرحوم نہیں ہوئے) لگے رہے. جب انہوں نے ترجمان القرآن کی دوسری جلد ختم کر لی تو اسی وقت کانگرس کا اجلاس ہو رہا تھا. اس گہما گہمی میں انہوں نے اس جلد کی تقدیم لکھی‘ جو ان الفاظ پر ختم ہوئی:
ابو الکلام
’’موتی نگر. کانگرس کیمپ‘‘
لکھنؤ ۱۴؍ اپریل ۱۹۳۶ء اور یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے اس کے بعد ترجمان القرآن جلد سوم اور تفسیر ’’البیان‘‘ اور مقدمہ تفسیر لکھا‘ جس پر ان کی زندگی کا اختتام ہوا. گویا انجامِ زندگی تک وہ اپنے مقصد زندگی … دعوتِ قرآن و جہاد میں لگے رہے.
آپ نے تحریر فرمایا کہ آپ کو دعوتِ قرآن کے لیے لاہور کی فضا مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے دو شاگردوں مولانا عبد الحئی فاروقی اور مولانا احمد علی لاہوری مرحوم کی تیار کردہ ملی. واقعی یہ دونوں اصحاب اس سلسلے میں عزت و احترام کے مستحق ہیں. لیکن اس ضمن میں مولانا آزادؒ کے دو عزیز شاگردوں‘ پسرانِ مولانا عبد القادر قصوری ؒ کا ذکر آپ نہیں کر سکے. مولانا عبد القادر قصوریؒ کی علمی وجاہت اور سیاسی مرتبت تاریخ کے صفحات پر منضبط ہے اور جو تعلق مولانا آزاد کو اس خاندان سے تھا‘ اس کا ذکر انہوں نے اپنی مشہور تصنیف ’’تذکرہ‘‘ میں بھی کیا ہے.
وہ لکھتے ہیں: ’’ڈاک ملی اور اخبارات سے معلوم ہوا کہ عزیزی مولوی محی الدین احمد‘ بی.اے. کو قصور میں تلاشی کے بعد گرفتار کیا گیا. شاید نظر بندی کا معاملہ پیش آئے. ان تمام ایام جلا وطنی میں (رانچی ۱۹۱۶ء) یہ پہلا دن ہے کہ اس واقعہ کے سننے سے دل کو مضطر اور دماغ کو پراگندہ پاتا ہوں. عزیزی موصوف بلکہ ان کا پورا خاندان اپنے خصائص ایمانی و جوش اسلامی و ایثار للہ و فی اللہ کے اعتبار سے عہد سلف کے واقعات کو زندہ کرنے والا ہے اور علی الخصوص اس عزیز کے طلب صادق اور استعداد کامل سے تو اپنی چند در چند امیدیں وابستہ تھیں. افسوس فتنہ حوادث نے اس کو بھی نہ چھوڑا. مجھے اس سے کب انکار تھا کہ میرے پاؤں میں ایک کے بدلے دس زنجیریں ڈال دی جائیں‘ لیکن دوسروں کو اس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے. بظاہر عزیز موصوف کا اس کے سوا کوئی جرم نہیں کہ مجھ خانماں خراب سے رسم و راہ رکھتے ہیں. سبحان اللہ! اپنی آشناپروری اور دوست نوازی بھی قابل تماشا ہے. جب تک کوئی اپنا دشمن نہ بن جائے ہمارا دوست ہی نہیں ہو سکتا.‘‘
اسی خاندان (مولانا عبد القادر قصوریؒ کے دو فرزندان) کے دو افراد‘ مولوی محمد علی مرحوم (ایم. اے کنٹب) اور مولوی محی الدین احمد (بی. اے) نے فضائے لاہور کو درسِ قرآن کی آواز سے معمور رکھا.
مولوی محمد علی نے ۱۹۵۰ء میں باغ جناح میں ہر اتوار بعد نماز عصر درس قرآن شروع کیا. ان دنوں حسین و جمیل مسجد (مسجد دار السلام) کی جگہ ایک چھوٹا سا چبوترہ تھا. نیچے فرش نہ اوپر سایہ. نہ سردی‘ گرمی‘ دھوپ و بارش میں سر چھپانے کی کوئی جگہ تھی. لیکن مولوی محمد علی صاحب کے عالمانہ انداز کی کشش تھی کہ شہر کے ہر کونے سے فہمیدہ و سنجیدہ اصحاب‘ درس میں کھچے چلے آتے. جنوری۱۹۵۸ء میں مولانا قصوری اللہ کو پیارے ہو گئے. آپ کے بعد آپ کے برادر اکبر مولوی محی الدین احمدقصوری نے درس کی خدمات اپنے ذمے لے لیں اور چھوٹے بھائی کی طرح پوری پابندی اور باقاعدگی سے اس خدمت کو پورا کیا. لیکن صحت کی خرابی پھر اختلاج قلب کی شدید تکلیف نے کام معطل کر دیا. آپ کی وفات آخر ۱۹۷۰ء میں ہوئی (ماخوذ از سیارہ ڈائجسٹ قرآن نمبر). لہٰذا لاہور کی فضا میں ان دو بھائیوں کے انفاس درس قرآنی بھی شامل ہیں جہاں سے اب آپ خطباتِ جمعہ دے رہے ہیں.
آپ نے اس ضمن میں مولانا آزادؒ کی ایک تحریر کا ادھورا سا حوالہ دیا‘ جس سے قارئین پورا لطف نہیں اُٹھا سکتے. چونکہ یہ گفتارِ محبوب ہے اس کی بلاغت و معنویت کے اظہار کے لیے اسے مکمل تحریر کیے دیتا ہوں. بحوالہ موج کوثر ’’ہر شخص کی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں. اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دسرے سے کسی قدر متضاد اور مختلف ہوں. خود میں گلیم زہد اور قبائے رندی کو ایک ہی وقت اوڑھنے‘ پہننے کا مجرم ہوں. پس اس سے بڑھ کر اور کیا حماقت ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے ایک دوست سے جو سلوک مے خانہ کی چھت پر کریں‘ اس کا مستحق اسے سجادہ و خانقاہ پر بھی سمجھیں.‘‘
اس دراز سخنی کی معافی چاہتا ہوں. ؏ ’’لذید بود حکایت‘ دراز تر گفتم‘‘.
میری دعا ہے کہ خدا آپ کو اس مشن (جو میرے محبوب کا مشن تھا) دعوتِ قرآن اور تحریک جہاد میں کامیاب کرے. آمین!
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہِ ربّ العالمین
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہو گا … دعا کا طالب
والسلام
شیر بہادر خاں پنی