امیر تنظیم کا ذہنی و فکری پس منظر

تنظیم اسلامی اس اعتبار سے ایک بالکل منفرد قسم کی تنظیم ہے کہ اس میں شمولیت کا ذریعہ ایک شخص (امیر تنظیم) سے بیعت ہے اور اس بنیاد پر غالباًکوئی دوسری جماعت یا تنظیم اِس وقت کم از کم پاکستان میں موجود نہیں. اس حوالے سے چونکہ اس تنظیم میں شمولیت کا راستہ ذاتی طور پر امیر تنظیم سے بیعتِ سمع و طاعت فی المعروف میں منسلک ہونے کا راستہ ہے‘لہٰذا مجھے اپنی گفتگو میں یہ ترتیب قائم کرنی پڑی ہے کہ پہلے میں آپ حضرات کو یہ بتلاؤں کہ ذاتی طور پر میرا وہ کیا ذہنی و فکری پس منظر ہے اور ذاتی طور پر میرے لیے وہ کیا محرکات تھے جن کے تحت میں نے یہ تنظیم قائم کی. پہلی بات کے ضمن میں صرف دو باتیں کفایت کریں گی. اگرچہ انسانی زندگی ایک بڑا طویل عمل ہے‘بقول علامہ اقبالؔ : ؎

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘پیہم دواں‘ہر دم جواں ہے زندگی!

تاہم عام طور پر جسے ہم ’’زندگی‘‘ کہتے ہیں‘یعنی دنیوی زندگی‘اس کا تریسٹھواں برس بھی اب قریب الاختتام ہے. اس طویل عرصے کے دوران میں نے بہت کچھ پڑھا بھی ہے‘سنا بھی ہے اور غور و فکر بھی کیا ہے. نیز مختلف اَطراف و جوانب سے ذہن و فکر اور شعور پر اثرات بھی وارد ہوئے ہیں. اس کی تفصیل تو ظاہر ہے اِس وقت بیان نہیں کی جا سکتی‘ لیکن مختصراً میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری فکر‘میری سوچ اور میرے نقطۂ نظر کے متعین ہونے میں دو اہم ترین عوامل تھے. بالکل اوائل عمر یعنی بچپن ہی میں مَیں جس چیز سے سب سے 
زیادہ متأثر ہوا تھا وہ علامہ اقبال کی مِلّی شاعری تھی. یوں سمجھئے کہ یہ چالیس کی دہائی کے ابتدائی سال تھے‘جبکہ میری پیدائش ۱۹۳۲ء کی ہے. میں اپنی پانچویں جماعت ہی کے زمانے سے ’’بانگِ درا‘‘ پڑھتا رہا ہوں اور اس میں جو ایک ملی جذبہ ہے‘ اس نے میرے قلب و ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں. یہ وہ وقت تھا جب امّتِ مسلمہ اپنے زوال کی انتہا کو پہنچ چکی تھی‘اُس وقت پوری دنیا میں تمام مسلمان ممالک غلام بنائے جا چکے تھے‘عظیم سلطنتِ عثمانیہ کو ختم ہوئے ربع صدی کے قریب بیت چکی تھی‘خلافت کا خاتمہ ہوئے سترہ اٹھارہ برس بیت چکے تھے اور اِس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کے ملی اتحاد کا جو ایک نشان یا علامت تھی وہ بھی ختم ہو چکی تھی. اسی نقشہ کے پس منظر میں مولانا حالیؔ نے یہ اشعار کہے تھے : ؎

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

اس مایوسی کی فضا میں علامہ اقبال نے ملتِ اسلامیہ کو ایک امید افزا پیغام دیا : ؎

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ ؑکے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا!
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

اور ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا‘عدالت کا‘شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا!

میں صرف مثال کے طور پر یہ چند اشعار آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. یہ وہ کیفیات اور اثرات تھے جن میں میرا ہائی سکول کا ابتدائی زمانہ گزرا. یہی وجہ ہے کہ میں تحریک پاکستان‘جو اُس وقت اپنے شباب اور عروج پر تھی‘اس کے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں شامل ہو کر کام کرتا رہا. ۱۹۴۷ء میں مَیں نے میٹرک کا امتحان پاس کیااور اس کے فوراً بعد‘محض استعارے کے طور پر نہیں بلکہ واقعتا‘ آگ اور خون کے دریا عبور کر کے پاکستان حاضری ہوئی. ہم نے ۱۷۰ میل کافاصلہ پیدل قافلہ کے ساتھ بیس دن میں طے کیا جن میں ہم ہر لحظہ زندگی کی نسبت موت سے زیادہ قریب تھے. بہرحال اللہ نے ہمیں ہمارے خوابوں کی سرزمین پاکستان میں پہنچا دیا.

جس نعرہ کے تحت یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس کے لیے یہاں پر ایک عملی جدوجہد کے لیے جماعت اسلامی سامنے آئی. مولانا مودودی اسلامی دستور کا مطالبہ لے کر سامنے آئے تو فطری طور پر اس کی طرف توجہ ہوئی. پھر اس کے بعد طالب علمی کا بقیہ سارا زمانہ‘یعنی ایف ایس سی کے دوسال جو کہ گورنمنٹ کالج میں بسر ہوئے اور ایم بی بی ایس کے پانچ سال جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں بیتے‘اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ایک فعال انداز میں گزرا. اس کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی. چنانچہ میرے ذہن و فکر اور میری سوچ پر دوسری بڑی چھاپ مولانا مودودی کی ہے‘جن کے فکر کے دو پہلو میرے سامنے بہت واضح ہو کر آئے. ان میں سے ایک بات اگرچہ علامہ اقبال کے کلام سے بھی واضح ہو چکی تھی لیکن علامہ اقبال سے جو خاکہ بنا تھا اس میں تفصیل کا رنگ مولانا مودودی کی کتابوں نے بھرا. اور وہ یہ کہ اسلام ایک مذہب نہیں ‘دین ہے.یہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے‘یہ اپنا غلبہ چاہتا ہے‘یہ مغلوب ہونے کے لیے نہیں آیا‘ 
الحَقُّ یَعْلُو وَلا یُعلٰی عَلیہ. حق کا تو یہ حق ہے کہ وہ غالب ہو‘سربلند ہو‘نہ یہ کہ وہ مغلوب اور پامال ہو. اس کے علاوہ دوسرا پہلو فرائضِ دینی کے حوالے سے سامنے آیا‘یعنی فرائض دینی صرف نماز‘روزہ‘حج اور زکوٰۃ ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر آگے بھی ہیں. چنانچہ خود دین کا ایک ہمہ گیر تصور اور پھر فرائض دینی کا ایک جامع تصور‘یہ دو چیزیں ہیں جو مولانا مودودی کی تصانیف سے میرے سامنے آئیں اور جس کا بحمد اللہ آج بھی اقرار کر رہا ہوں. بعد میں مولانا ابوالکلام آزاد اور بہت سے دیگر حضرات کی تحریریں بھی پڑھیں. پھر خود جس قدر قرآن حکیم کا مطالعہ کیا اس سے اس فکر میں مزید پختگی پیدا ہوئی‘گہرائی و گیرائی میں اضافہ ہوا اور اس پر اعتماد و وثوق بڑھتا چلا گیا. لہٰذا میں نے جو کچھ بھی کام شروع کیے وہ درحقیقت اسی ذہنی و فکری پس منظر کے زیر اثر کیے.

میرے اس ذہنی و فکری پس منظر کے اہم لینڈ مارکس بھی نوٹ کر لیجیے. ۱۹۴۷ء میں پاکستان آنا ہوا تھا.۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد میں منٹگمری (ساہیوال) چلا گیا تھا‘ جہاں والدین مقیم تھے. ۱۹۶۵ء میں مَیں پھر اس عزم کے ساتھ واپس لاہور آیا کہ اب اپنے آپ کو اسی جدوجہد کے لیے ہمہ تن لگا دوں گا. ۱۹۶۵ء سے لے کر ۱۹۷۲ء تک سات سال میں نے تن تنہا کام کیا ہے . اس عرصے کے پہلے پانچ سال تو کچھ جزوی اعتبار سے پریکٹس بھی کرتا رہا لیکن فروری ۱۹۷۱ء میں حج کے موقع پر میں نے پریکٹس کو بالکل تج دیا اور اپنے آپ کو ہمہ وقت وہمہ تن اپنے اس مشن کے لیے فارغ کر لیا. چنانچہ فروری ۱۹۷۱ء کے بعد سے آج تک میں نے اپنی کسی توانائی اور وقت کا کوئی حصہ دنیوی معاش کے لیے صَرف نہیں کیا‘بلکہ میرے وقت کا ایک ایک لمحہ اور میری قوت و صلاحیت کا ایک ایک شمہ اسی مشن کے لیے صَرف ہوا ہے. چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے‘جس کا یہ قاعدہ اور قانون ہے کہ محنت کی جائے تو اس کے نتائج نکلتے ہیں‘۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آیا. اس کے تحت پہلے قرآن اکیڈمی قائم ہوئی‘پھر یہ قرآن کالج بنا جس کے سر پر یہ قرآن آڈیٹوریم کا تاج رکھا ہوا ہے جس میں ہم اِس وقت بیٹھے ہوئے ہیں. ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی قائم ہوئی. اس سے قبل اگست ۱۹۷۴ء میں میں نے ایک تقریر کی تھی جس میں تنظیم کے قیام کے فیصلے کا اعلان کیا تھا. یہ تقریر اب ’’عزمِ تنظیم‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی موجود ہے‘جو حضرات بھی تنظیم کے قیام کا پس منظر‘جو میں نے ابھی مختصراً بیان کیا ہے‘اس کو ذرا تفصیل میں جاننا چاہتے ہوں وہ میرے اس کتابچے کا مطالعہ کر سکتے ہیں. بہرحال میں آپ کو بتا دینا چاہتا 
ہوں کہ ۱۹۷۱ء سے لے کر اب تک بحمداللہ میرے وقت اور میری صلاحیت کا کوئی حصہ دنیا کمانے یا دنیا بنانے میں صرف نہیں ہوا. چنانچہ میں نے حال ہی میں اس ضمن میں ایک تحریر ’’حسابِ کم و بیش‘‘ کے نام سے کتابچے کی شکل میں لکھی ہے. اپنے اس مشن کے آغاز اور تنظیم اسلامی کے قیام سے قبل میرے پاس اِس پوری دنیا میں واحد جائیداد کرشن‘نگر میں ایک مکان تھا. اسی کو بیچ کر میں نے ماڈل ٹائون میں ایک مکان بنایا ہے. اس کے علاوہ اس پوری دنیا میں نہ میری کوئی جائیداد ہے نہ کوئی بینک بیلنس ہے. ایک کرنٹ اکائونٹ ضرور ہے جس میں شاید چار پانچ ہزار روپے پڑے ہوں. نہ میرے پاس کوئی بانڈز ہیں‘نہ میرا کسی فرم میں کوئی حصہ ہے‘نہ میرے پاس کوئی شیئرز ہیں. میری کُل کائنات اِس زمیں پر اس آسمان کے نیچے‘جسے دنیوی اعتبار سے جائیداد کہا جا سکتا ہے یہی ایک مکان ہے اور وہ بھی میںاپنے بچوں کو دے چکا ہوں.