اب میں اپنے اسی پس منظر کے دوسرے پہلو کی طرف آ رہا ہوں کہ یہ کام میں نے کیوں کیا ہے! اس ضمن میں‘جیسا کہ ہمارے دین کا ایک عام اسلوب ہے کہ پہلے نفی اور پھر اثبات (لا الٰـہَ الاّ اللّٰہ)‘میں آپ کے سامنے اس کے منفی اور مثبت دونوں پہلو رکھ رہا ہوں. پہلی بات یہ کہ اس سے میرے پیش نظر کسی درجے میں بھی سیاست کا کھیل ہرگز نہیں ہے. یہاں ’’سیاست‘‘ سے میری مراد مروّجہ اورمعروف معنوں میں سیاست ہے‘یعنی اقتدار کی کشاکش. اس لیے کہ الحمدللہ‘اللہ نے مجھے اتنی سمجھ دی ہے کہ میں یہ جانتا ہوں کہ کم از کم اِس ملک میں کہ جس کا نام پاکستان ہے‘یہ سیاست صرف جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کا مشغلہ ہے یا کسی درجہ میں سرمایہ داروں کا . چنانچہ جو شخص ان دونوں چیزوں سے محروم ہے‘یعنی نہ وہ جاگیردار اور لینڈلارڈ ہے ‘نہ اس کے پاس بہت بڑا سرمایہ ہے ‘اُس کا اِس میدانِ سیاست میں آنا حماقت ہے‘ سوائے اس کے کہ وہ کسی کا آلۂ کار بن جائے‘کسی بڑے لیڈر کا کارکن بن جائے اور اس کے حوالے سے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مفادات حاصل کر لے.

باقی ہمارے ملک کی سیاست میں اگر کسی درجے میں آگے بڑھنے کا امکان ہے تو صرف ان دوطبقات کے لیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے. یعنی یا تو جاگیردار ہو جسے بغیر محنت کے وافر مقدار میں دولت مل رہی ہو‘لوگ کاشت کر رہے ہوں اور وہ کھا رہا ہو. یا پھر سرمایہ دار ہو‘ جیسے ہمارے نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے قرضے لیے ہیں ‘ ان پر سود دیا ہے اور یہ ملز بنائی ہیں. ظاہر ہے کہ میں اس اِعتبار سے چونکہ بالکل بری ہوں لہٰذا اس کا کوئی امکان نہیں کہ سیاست کے میدان میں قدم رکھوں. میں صرف اَمر واقعہ کے بیان پر اکتفا نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس کی دلیل بھی دے رہا ہوں. امر واقعہ بھی سامنے ہے کہ اب میری زندگی آخری سرحدوں کو چھو رہی ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اب میں زندگی کی نسبت موت سے زیادہ قریب ہوں. سیاست کے کوچے میں اگر میرا گزر کبھی رہا ہے تو وہ بھی صرف دو ماہ اور وہ بھی اس بناء پر کہ مرحوم صدر ضیاء الحق صاحب کے بارے میں مجھے یہ گمان ہو گیا تھا کہ یہ نیک نیت ہیں اور اسلام کے متعلق کچھ کام کرنا چاہتے ہیں تو ان کی دعوت پر میں نے ان کی مجلس شوریٰ میں شمولیت اختیار کر لی تھی. انہوں نے تو مرکزی وزارت کی پیش کش کی تھی جس سے میں نے معذرت کر لی تھی‘لیکن شوریٰ کی دعوت میں نے قبول کر لی تھی. تاہم صرف دو مہینوں ہی میں مَیں نے محسوس کر لیا کہ ان کا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں ہے لہٰذا ’’قَالُـوْا سَلَامًا‘‘ کے مصداق میں نے انہیں سلام کیا اور وہاں سے رخصت ہو گیا. اس کے سوا میری پوری زندگی اِس وقت تک اس معروف سیاست سے خالی ہے. تو ظاہر ہے کہ میرا یہ کام سیاست کا کھیل نہیں ہے.

دوسری بات یہ کہ اس طرح کے معاملات کو ہمارے یہاں ایک مذہبی پیشہ کی حیثیت بھی حاصل ہے. لیکن میرے بارے میں آپ حضرات کے علم میں ہے کہ یہ میرا پیشہ نہیں تھا. جہاں تک پیشے کا تعلق ہے مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک بہتر پیشہ عطا کر دیا تھا‘جسے کہا جاتا ہے کہ بڑا نوبل پروفیشن ہے. چاہے انسان اپنے ذاتی کردار کی وجہ سے اسے بھی ذلیل کر کے رکھ دے اور اسے محض کمائی کا دھندا بنا لے‘لیکن واقعتا اگر کسی پیشے کو 
نوبل پروفیشن کہا جا سکتا ہے تو وہ میڈیکل پروفیشن ہے اور انسان چاہے تو اس کو نوبل بنا کر رکھ سکتا ہے. لیکن میں نے تو اس کو بھی تج دیا… تو میرا یہ دینی کام کسی بھی درجہ میں میرے لیے پیشے کے ضمن میں نہیں ہے. چنانچہ میں سیاست کی طرح اس کی بھی نفی کرتا ہوں.

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سب کی نفی ہے تو پھر یہ کس لیے ہے؟ آپ یقین کیجیے کہ اولاً تو یہ صرف دینی فرض کا احساس ہے جس کے تحت میں یہ کام کر رہا ہوں. اسی احساس کے تحت میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں اور اسی کے تحت میرے ساتھی آپ کو دعوت دے کر یہاں لائے ہیں تاکہ آپ میں بھی وہ شعور پیدا ہو جائے اور آپ بھی آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت اپنے ان فرائض کی بجاآوری کے لیے کمرکس لیں. 

ثانوی درجے میں میرا یہ یقین ہے کہ اسی دینی فرض کی ادائیگی پر اُمت ِمسلمہ کی فوزو فلاح کا دارومدار ہے. اگر امت یہ کام نہیں کرے گی تو بدترین عذاب کے کوڑے اس کی کمر پر برستے رہیں گے‘ جیسے کہ برس رہے ہیں. چنانچہ خواہ بوسنیا ہو‘چیچنیا ہو‘کشمیرہو‘ افغانستان ہو یا عالمِ عرب ہو جس پر عذابِ الٰہی کا کوڑا اب برسنے ہی والا ہے (عالمِ عرب کے بارے میں محمد رسول اللہ نے وہ خبریں دی ہیں کہ جو ان سے واقف ہیں ان پر لرزہ طاری ہوتا ہے). یہ ساری سزائیں اسی لیے ہیں کہ امت نے اپنا فرض ادا نہیں کیا. اللہ تعالیٰ کو کافروں سے محبت نہیں اور اہل ایمان سے دشمنی نہیں‘ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ؎

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

یہ اصل میں سزا ہے. حال ہی میں میری جو کتاب شائع ہوئی ہے ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی‘حال اور مستقبل‘‘ ذرا کبھی اس کا مطالعہ کیجیے. آج حقیقت میں یہود کی بجائے اُمت ِمحمد ’’مَغضوب عَلیھم‘‘ کے مقام پر کھڑی ہے. آج کوڑے ہم پر برس رہے ہیں‘عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہم ہیں. آج ہم پر وہ تینوں قسم کے عذاب مسلط ہیں جن کا ذکر سورۃ الانعام میں آیا ہے: …عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ (آیت ۶۵). چنانچہ اوپر سے عذاب آئے تو بھی‘پاؤں کے نیچے سے آئے تو بھی‘اور آپس میں قومیتوں اور گروہوں میں تقسیم کر کے ٹکرا دینے والا عذاب ہو تو وہ بھی سب سے بڑھ کر اِس وقت مسلمانوں میں ہے. لہٰذا اُمت ِمسلمہ کی فلاح بھی اسی سے وابستہ ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کا احساس کرے.

اور تیسرے درجے میں مجھے یہ یقین حاصل ہے اور اس کو میں نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک جس کو ہم ’’مملکتِ خداداد پاکستان‘‘ کہتے ہیں اس کی بقا اور استحکام کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم ان دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے کمر کس لیں اور یہاں اللہ کے دین کوقائم کریں جس کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا. 

گویا میرے نزدیک اصل میں ایک تیر سے تین شکار پیش نظر ہیں. لیکن میرے لیے اوّلیت اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کو حاصل ہے‘اس لیے کہ اُمت مسلمہ کی فلاح ہو یا پاکستان کی بقا اور اس کا استحکام ہو‘ان کا تعلق اِس دنیا سے ہے جبکہ میرے نزدیک اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے. بفحوائے : 
وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت) اور اس کی فلاح و کامیابی اور نجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ اپنے فرائض دینی کو اپنی امکانی حد تک ادا کر رہے ہوں. اگر یہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضری ہو گی تو آپ وہاں پر کم از کم قابلِ عفو تو ہوں گے اور مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ کے مصداق یہ عذر تو پیش کر سکیں گے کہ پروردگار میں مقدور بھر ان فرائض کی ادائیگی میں لگا رہا. لہٰذا اصل بنیادی محرک وہی ہے یعنی اپنے فرائض دینی کو ادا کرنا. البتہ ثانوی درجے میں اس کا محرک اُمت ِمسلمہ کی فوز و فلاح ہے. اُمت ِمسلمہ بڑی وسیع و عریض اُمت ہے. ایک ارب سے زیادہ تعداد پر مشتمل اس اُمت کی دُنیوی فلاح بھی اسی پر منحصرہے. اور ثالثاً اس ملک خداداد پاکستان کا استحکام ہی نہیں بقا بھی اس پر منحصر ہے کہ ہم یہاں پر اس راستے کو اختیار کریں اور دین کو قائم کریں.