میرے نزدیک ہر مسلمان کا پہلا فرض ’’عبادتِ رب‘‘ ہے‘جس کو قرآن مجید نے مقصد تخلیق جِن و اِنس قرار دیا ہے: 

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ 
(الذّٰریٰت) 
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں.‘‘

سورۃ البقرہ (آیت ۲۱) میں ارشاد فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ… 

’’اے لوگو!بندگی اختیار کرو اپنے اُس رَب کی جس نے تم کوپیدا کیا…‘‘ 
اللہ کی اس بندگی کا مطلب ہے ہمہ تن‘ہمہ وقت‘ہمہ وجوہ اللہ کی اطاعت‘اللہ کے احکام کی پابندی‘اللہ کے اوامرو نواہی پر کاربند ہونا. اور یہ جزوی نہیں‘کیونکہ جزوی اطاعت‘ اطاعت نہیں ہے‘وہ تو استہزاء اور تمسخر ہے. آپ نے میرا ایک حکم مانا اور دوسرا حکم پاؤں تلے روند دیا تو کیا یہ اطاعت شمار ہو گی؟ اللہ کی اطاعت وہی ہے جو کہ ہمہ تن اورہمہ وجوہ ہو‘چنانچہ اس کے تمام احکام کی اطاعت مطلوب ہے. اگر آپ نے اللہ کے کچھ حکم مان لیے اور کچھ نہیں مانے تو ذرا اپنے اس طرز عمل کا تجزیہ کیجیے. آپ نے جو حکم مانے وہ اس لیے کہ آپ کے نفس نے ان کو مان لیا‘پسند کر لیا‘گوارا کر لیا اور جو نہیں مانے وہ اس لیے نہیں مانے کہ آپ کے نفس نے ان کو پسند نہیں کیا. دونوں حالتوں میں آپ اپنے نفس کی اطاعت کر رہے ہیں. آپ نے اللہ کا جو حکم مانا ہے وہ اس لیے نہیں مانا کہ وہ اللہ کا حکم ہے‘بلکہ اس لیے مانا کہ آپ کے نفس نے آپ کو اس کی اجازت دی ہے. اگر آپ نے اسے اللہ کے حکم کی حیثیت سے مانا ہوتا تو آپ دوسرا حکم بھی مانتے‘ کیونکہ وہ بھی اللہ ہی کا ہے.

انسان کا یہ طرزِعمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر نا پسندیدہ ہے‘ اس ضمن میں مَیں یہاں صرف ایک آیت پیش کرنے پر اکتفا کروں گا جو کہ لرزا دینے والی ہے. اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام سَرآنکھوں پر رکھے اور کچھ پائوں تلے روند دے تو قرآن مجید کی رُو سے اس کی کیفیت یہ ہے: 

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ 
(البقرۃ:۸۵
’’کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو؟ تو تم میں سے جو کوئی بھی یہ طرزِعمل اختیار کرے گا اس کی کوئی سزا نہیں ہے اس کے سوا کہ دنیا میں ذلیل و رسوا کر دیئے جائیں.‘‘

اب آپ دیکھ لیجیے کہ ہم دنیا میں کیوں ذلیل ہیں: ؎

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی‘ٔ فرشتہ ہماری جناب میں!

قرآن مجید اس سوال کا جواب دے رہا ہے. اِس لیے کہ تم نے اللہ کے دین پر عمل اگر کیا بھی ہے تو جزوی کیا ہے‘نماز روزہ ادا کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ سودی کاروبار بھی کرتے رہے ہو‘حالانکہ اللہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے سود تَرک نہ کرنے پر اعلانِ جنگ ہے. اس طرح تم درحقیقت اس آیت کے مصداق بن گئے ہو اور اس کے نتیجے میں دنیا کی ذلت و رسوائی کے مستحق قرار پائے ہو. آیت کے اگلے ٹکڑے میں اس طرزِ عمل کی اُخروی سزا کا ذکر ہے: 

وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ 

’’اور قیامت کے دن یہ شدید ترین عذاب میں جھونک دیے جائیں گے‘ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کر رہے ہو.‘‘ 

تم اپنی داڑھیوں سے اور اپنی نماز روزے سے کسی اور کو چاہے دھوکہ دے لو‘اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے. 
تو یہ پہلا فرض ہے‘جو بہت کٹھن ہے‘آسان نہیں ہے. اسی لیے تو علامہ اقبال کہتے ہیں ؎

چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را

کہ جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں‘مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دینا تو آسان ہے‘لیکن اس پر پورااُترنا بہت مشکل ہے.