فرض عبادات کا بندگی ٔ رب سے تعلق

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے بندگی ٔ ربّ آپ کا اوّلین فریضہ ہے. نماز‘روزہ‘حج اور زکوٰۃ آپ کو وہ قوت فراہم کرتے ہیں جس سے آپ اس فرض کو ادا کر سکیں. نماز اس لیے دی گئی ہے کہ آپ کو یاد رہے کہ آپ نے اللہ سے عہد ِ بندگی استوار کیا ہے. آپ ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے اس عہد ِبندگی کی تجدید کرتے ہیں. ہر رکعت میں کہتے ہیں: اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ یعنی ’’اے پروردگار! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے‘ اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور چاہیں گے.‘‘ حفیظؔ نے کبھی بڑا پیارا شعر کہاتھا : ؎

سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آؤ سجدے میں گریں لوحِ جبیں تازہ کریں

اس عہد کو تازہ کرنے کے لیے نماز ہے‘مباداتم اسے بھول جاؤ. روزہ اس لیے ہے کہ تمہارے اندر اپنے نفس کے تقاضوں پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے. روزہ کے دوران حلال چیزیں کھانے سے بھی روک دیا جاتا ہے تاکہ گیارہ مہینوں کے لیے یہ طاقت پیدا ہو جائے کہ حرام سے بچ سکو. قران حکیم میں روزے کی غرض و غایت تقویٰ بیان کی گئی ہے: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ (البقرہ) یعنی ’’اے ایمان والو!تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم بچ سکو.‘‘ اسی کی خاطر یہ مشق کرائی جا رہی ہے. عبادات دراصل مشقیں ہیں جو بندے کو اللہ کی عبادت کے لیے تیار رکھتی ہیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے ملٹری کو ہر وقت متحرک رکھا جاتا ہے اور اس کے لیے پریڈ ہوتی رہتی ہے. ساڑھے سینتالیس برسوں میں جو کہ پاکستان کو بنے ہوئے ہو گئے ہیں‘ جنگ تو گنتی کے چند دن ہی ہوئی ہے نا! لیکن ملٹری پر جو مسلسل خرچ ہو رہا ہے‘آپ کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ اس کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے‘اور یہ جو مسلسل movement ہو رہی ہے‘آج یہ رجمنٹ اِدھر سے اُدھر جارہی ہے‘وہ اُدھر سے اِدھر آ رہی ہے‘اب یہ سمر ایکسرسائزز ہیں‘یہ وِنٹر ایکسر سائز زہیں‘یہ سب اسی لیے ہیں تاکہ اچانک اگر کوئی وقت آ جائے تو یہ مقابلہ کر سکیں. اسی طرح یہ عبادات نماز‘روزہ‘حج اور زکوٰۃ ہیں جو بندے کو عبادتِ رب کے لیے مستعد رکھتی ہیں.

’’مطالباتِ دین‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہے‘جو میری تین تقاریر پر مشتمل ہے. ان میں سے پہلی تقریر کا خلاصہ میں نے آپ حضرات کے سامنے رکھ دیا ہے. ’’عبادتِ رب‘‘ ہر مسلمان کا پہلا فرض ہے. جب اس نے کہا کہ ’’رَضِیتُ بِاللّہِ رَبَّا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُولًا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِینًا‘‘ یعنی میں اس پر راضی ہوں‘میں نے تسلیم کر لیا کہ اللہ میرا ربّ ہے‘وہ میرا مالک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘اور میں نے قبول کر لیا اسلام کو کہ وہ میرا دین ہے. یہ تسلیم کرنے کے بعد پھر لازم ہے کہ اللہ کی بندگی کرو‘اس کی اطاعت کرو: 

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ 
(التغابن) 
’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو‘پھر اگر تم روگردانی کرو گے تو ہمارے رسولؐ پر صاف پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں!‘‘