اللہ کے پیغام کو عام کرنے کا اصل ذریعہ قرآن حکیم ہے. آج کی نشست میں وقت محدود ہونے کے باعث میں اختصار سے کام لے رہا ہوں. قرآن حکیم میں بیسیوں مقامات پر خود قرآن کو دعوت‘تبلیغ‘تذکیر‘تبشیراور اِنذار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے. سورۂ قٓ کی آخری آیت میں فرمایا گیا: 

فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ 

’’(اے نبیؐ ) اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو نصیحت کیجیے جو میری تنبیہہ سے ڈرتا ہو.‘‘

سورۃ الانعام میں ارشاد ہوا: 

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ 
(آیت ۱۹
’’(آپؐ ‘کہہ دیجیے) اور یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے‘سب کو متنبہ کردوں.‘‘

یعنی جس تک یہ قرآن پہنچ جائے گا گویا کہ رسالتِ محمدیؐ کا پیغام اس تک پہنچ گیا. لیکن اب ہم اسے پہنچائیں گے تبھی تو پہنچے گا! سورۂ مریم کی آخری سے پہلی آیت میں الفاظ وارد ہوئے: 

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ 
’’پس اے نبیؐ !اس کلام کو ہم نے آپؐ ‘ کی زبان پر آسان کر دیا ہے تاکہ آپؐ اس کے ذریعے پرہیز گاروں کو خوش خبری دے دیں اور ہٹ دھرم لوگوں کو متنبہ کریں.‘‘

سورۃ المائدۃ میں رسول اللہ سے فرمایا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ 
(آیت ۶۷
’’اے پیغمبرؐ !جو کچھ آپ ؐ ‘ کی طرف آپؐ کے ربّ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو. اگر آپؐ نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا.‘‘

گویا دعوت و تبلیغ کا پورا مرکز و محور قرآن ہے‘جو آپ کا دوسرا فرض ہے. اور یہ دوسرا فرض آپ کیسے ادا کریں گے اگر آپ خود قرآن سے واقف نہیں ہیں. اس سنجیدہ گفتگو میں لطیفوں کی گنجائش تو نہیں‘لیکن ایک مناسب حال لطیفہ پیش کر رہا ہوں کہ کوئی خان صاحب کسی بنیے کی گردن پر سوار ہو گئے کہ پڑھو کلمہ ورنہ ابھی گردن اڑاتا ہوں. بنیے نے کہا: اچھا خان صاحب پڑھاؤ کلمہ. اس پر خان صاحب کہنے لگے: ’’خوچہ کلمہ تو ہمیں بھی نہیں آتا.‘‘ تو آپ قرآن کیا پہنچائیں گے اگر آپ قرآن جانتے ہی نہیں. اس لیے محمد عربی  نے فرمایا: 

خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَہٗ 
(روالبخاری عن عثمان ؓ بن عفان) 
’’تم میں بہترین وہ ہے جس نے خود قرآن کو سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا.‘‘

چنانچہ قرآن سیکھو اور سکھائو‘اسے پڑھو اور پڑھاؤ. یہ ضروری نہیں کہ فارغ التحصیل ہونے تک انتظار کرو بلکہ اگر تم نے ایک آیت بھی سمجھ لی ہے تو اس کو پھیلانا شروع کر دو. حدیثِ نبویؐ ہے: 
بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوْاٰیَۃً یعنی ’’ پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت.‘‘ لیکن جو بات میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ کام فرضِ عین ہے. اگر اس میں کوتاہی کریں گے تو فرض کی عدم ادائیگی کے مجرم ہوں گے.