نوٹ کیجیے کہ یہ سب سے کٹھن اور مشکل کام ہے. جب تک یہ نہیں ہوتا ‘ہم دنیا میں کہیں بھی پوری نوعِ انسانی کو کوئی نمونہ نہیں دکھا سکتے کہ یہ ہے اسلام. اُس وقت تک پوری امتِ مسلمہ کتمانِ حق کی مجرم ہے‘اس نے حق کو چھپایا ہوا ہے‘بلکہ اپنے وجود اور اپنے طرز عمل سے دوسروں کو حق سے روکنے کا سبب بنی ہوئی ہے. آپ دنیا کو پورے روئے ارضی پر ایک ملک تو ایسا دکھا سکیں کہ ’’آئو بھائی جسے اسلام دیکھنا ہو وہ یہاں آ کر دیکھ لے. یہ صرف نظریاتی باتیں نہیں ہیں‘صرف لفاظی نہیں ہے‘صرف وہم اور خیالات نہیں ہیں‘بلکہ ہم اسلام کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں . آؤ دیکھو‘یہ ہمارا ملک ہے جہاں اسلام کا نظام قائم ہے.اس کی سیاست اور معیشت کو دیکھو‘یہاں کی اخوت کا نقشہ دیکھو‘ہمارا کفالت ِعامہ کا نظام ملاحظہ کرو کہ نہ صرف ایک ایک آدمی بلکہ حیوانات تک کی کفالت کا انتظام ہے. حضرت عمرؓ نے اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے فرمایا تھا کہ دجلہ و فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے دن عمرؓ اس کا ذمہ دار ہو گا. تو آئو دیکھو‘یہ ہے کفالتِ عامہ کا نظام. ہمارے ہاں کوئی اونچ نیچ نہیں ہے‘سب برابر ہیں.پیدائشی طور پر کوئی ادنیٰ نہیں‘کوئی اعلیٰ نہیں ہے. یہ صرف کہنے کی باتیں نہیں ہیں‘کوئی لفاظی نہیں ہے‘بلکہ آؤ اور ہمارا معاشرہ دیکھو‘‘. اگر پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا ہو تو پوری امتِ مسلمہ کی طرف سے شہادت علی الناس کا فرضِ کفایہ ادا ہو جائے گا. اور اگر ایک بھی نہیں ہے تو پوری امت مجرم ہے اور اس جرم کی پاداش میں عذاب کے کوڑے پڑتے رہیں گے اور ہر آنے والا کوڑا پہلے سے سخت تر ہو گا.