اقامت ِدین کے دو ناگزیر لوازم

جیسا کہ میں نے عرض کیا‘اقامتِ دین کا کام سب سے کٹھن ہے. اس لیے اس مرحلے پر اب جماعت کی شکل ناگزیر ہے. نظام انفرادی کوششوں سے نہیں بدلا کرتا. آپ غور کیجیے‘ بڑی سامنے کی بات بتا رہا ہوں کہ دنیا میں سینکڑوں نبی (علیہم الصلوٰۃ والسلام) آئے اور نبی کی شخصیت میں تو کسی اعتبار سے کوئی کمی نہیں ہو سکتی. ان کا اللہ پر ایمان‘ ان کا تقویٰ اور اخلاق و کردار‘ ہر پہلو سے کامل ہوتا ہے. لیکن انفرادی حیثیت میں وہ بھی نظام تبدیل نہیں کر سکے‘ اس لیے کہ لوگوں نے ساتھ نہیں دیا. ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو لیجیے جو خلیل اللہ‘ ابوالانبیاء اورامام الناس ہیں ‘ لیکن آپؑ نے کہیں اسلام کا نظام قائم نہیں کیا‘ اس لیے کہ لوگ ساتھ نہیں آئے. عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور ’’کَلِمَۃٌ مِنْہُ‘‘ تھے‘ لیکن وہ بھی نظام قائم نہیں کر سکے. موسیٰ علیہ السلام مصر سے چھ لاکھ کی نفری لے کر نکلے تھے‘ جن میں سے بوڑھے‘ بچے اور عورتیں نکال دیں تو کم از کم پچاس ہزار بلکہ میرے اندازے کے مطابق ایک لاکھ افراد تو جنگ کرنے کے قابل ہوں گے‘ لیکن جب جنگ کا مرحلہ آیا تو پوری قوم نے کورا جواب دے دیا کہ فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (المائدۃ) یعنی ’’جاؤ موسیٰ! تم اور تمہارا ربّ جا کر جنگ کرو‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں‘‘. یہ کٹھن کام ہم سے نہیں ہوتا‘ ہم سے جانیں نہیں دی جاتیں. تو کیا نتیجہ نکلا؟

حضرت موسیٰ ؑ بھی اپنی قوم سے اس درجے بیزار ہوئے کہ بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ یعنی ’’اے پروردگار (میں کیا کروں) مجھے اختیار ہے تو بس اپنی جان کا اور اپنے بھائی (ہارون) کی جان کا (باقی کسی پر میرا زور نہیں چلتا) ‘پس تُو میرے اور ان فاسقوں کے مابین تفریق کر دے (اب میں ان ناہنجاروں کے ساتھ رہنے کو بھی تیار نہیں ہوں). اندازہ لگایئے کہ وہی نبی ؑ جس کے اندر اپنی قوم کی محبت اس درجے میں تھی کہ ایک اسرائیلی کا ایک قِبطی کے ساتھ جھگڑا ہو رہا تھا اور اس نے حضرت موسیٰ ؑ سے فریاد کرتے ہوئے مدد چاہی تو حضرت موسیٰ ؑ نے اس قِبطی کو ایسا مکہ رسید کیا کہ اس کی جان نکال دی‘ لیکن اب اسی قوم سے بیزار ی کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ان سے علیحدگی کی درخواست کر رہے ہیں کہ میں ان بدبختوں کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہوں. اللہ نے فرمایا کہ نہیں‘ رہنا تو ساتھ ہی پڑے گا‘ البتہ ان کو ہم نے یہ سزا دی ہے کہ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اپنی اس بزدلی کی وجہ سے یہ چالیس برس تک ارضِ مقدس سے محروم کر دیے گئے ہیں‘ یہ اسی صحرائے تیہہ میں بھٹکتے پھریں گے. انہی چالیس سالوں کے دوران موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام) دونوں کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی آنکھوں سے اس نظام کو قائم نہیں دیکھ سکے بلکہ اس کی حسرت ہی دل میں لیے ہوئے رخصت ہو گئے.

نظام کب قائم ہوا؟ جب چشم فلک نے 
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح:۲۹کا نقشہ دیکھا‘ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وہ جماعت وجود میں آئی جنہوں نے محمد رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی: 

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْـیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ 

’’ہم نے اللہ کے رسول سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ آپؐ جو حکم دیں گے اسے مانیں گے چاہے مشکل ہو چاہے آسان ہو‘ چاہے اس کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں اور چاہے ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے ہم پر 
دوسروں کو ترجیح دے دی جائے‘ اور جنہیں آپؐ ذمہ دار بنائیں گے ان سے جھگڑیں گے نہیں‘ البتہ جو حق بات ہو گی وہ ہم کہہ کر رہیں گے اور اللہ کے دین کے معاملے میں ہم کسی ملامت گر کی پروا نہیں کریں گے.‘‘

اِس عہد اور قول و قرار میں 
’’مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہ ‘‘  کے ساتھ ’’وَالَّذِینَ مَعَہٗ ‘‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین بندھ گئے تو نظام قائم ہوا. یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ہیں. 

چنانچہ ’’اقامتِ دین‘‘ کی اس جدوجہد کے لیے التزامِ جماعت فرض ہے. اسے اس مثال سے سمجھئے کہ نماز فرض ہے‘ لیکن کیا یہ بغیر وضو ہو جائے گی؟ ہرگز نہیں! چنانچہ نماز کے لیے وضو بھی فرض ہو گیا‘ حالانکہ وضو مقصود نہیں ہے. ایک بڑا پیارا شعر یاد آ رہا ہے‘ مضمون بہت ثقیل ہو گیا ہے لہٰذا تھوڑا سا لطافت کا رنگ بھی آ جائے: ؎

یہ نہ سمجھو کہ یہ نمازی ہیں
میر صاحب وضو کے عادی ہیں

وضو کرتے رہتے ہیں‘ نماز نہیں پڑھتے. لیکن اس کے برعکس نماز پڑھنے کے لیے وضو لازم ہے اور وضو کے لیے پاک پانی لازم ہے. اگر کوشش کے باوجود پاک پانی نہیں ملا تو پھر تیمم اس کا قائم مقام ہو جائے گا‘ لیکن پاک پانی تلاش کرنا فرض ہے. فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر پانی کچھ فاصلے پر بھی ہے تب بھی تم کو تیمم کرنے کا حق نہیں‘ بلکہ جا کر پاک پانی لے کر آئو! اسی طرح اقامتِ دین کے لیے جماعت فرض ہے اور جماعت کے لیے بیعت فرض ہے. ترتیب وہی ہے. پاک پانی کی جگہ بیعت کو‘ وضو کی جگہ جماعت کو‘ اور نماز کی جگہ اقامتِ دین کو رکھئے. جس طرح نماز فرض ہے‘ اس کی ادائیگی کے لیے وضو فرض ہے اور وضو کے لیے پاک پانی فرض ہے اسی طریقے پر اقامتِ دین کی جدوجہد فرض ہے‘ اس کے لیے جماعت لازم ہے اور جماعت کے لیے بیعت لازم ہے. اقامت دین جیسا کٹھن کام ڈھیلی ڈھالی جماعت سے نہیں ہوتا‘ چار آنے کی ممبری والی جماعت سے یہ کام نہیں ہوتا. انقلاب لانے کے لیے بڑی منظم (organized) اور disciplined جماعت درکار ہے. سمع و طاعت (listen and obey) والی جماعت درکار ہے. لیکن اس ضمن میں اِس جماعت اور صحابہ کرامؓ کی جماعت میں یہ فرق ہو گاکہ حضور کی اطاعت مطلق تھی‘ آپؐ جو بھی حکم دیں اس کی اطاعت فرض تھی‘ کیونکہ آپؐ غلط حکم دے ہی نہیں سکتے. آپؐ تو اللہ کے نبی ہیں. آپؐ ‘کی شان میں سورۃ النجم میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: 

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ 

’’اور وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے. یہ تو ایک وحی ہے جو اُن پر نازل کی جاتی ہے.‘‘

البتہ حضور کے بعد جس سے بھی بیعتِ سمع و طاعت ہو گی وہ ’’فی المعروف‘‘ کی شرط کے ساتھ ہو گی. یعنی امیر شریعت کے دائرہ کے اندر اندر کوئی بھی حکم دے سکتا ہے. سرآغاخان کی طرح کی اطاعت نہیں ہے کہ وہ چاہیں تو شراب کو جائز قرار دے دیں اور چونکہ سر آغا خان اجازت دے رہے ہیں‘ اس لیے وہ جائز ہو گئی. نہیں‘ شراب حرام ہے‘ حرام ہی رہے گی. کسی امام کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ شراب کو حلال قرار دے دے‘ کسی پیر کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ کو نماز سے بری قرار دے دے. ایسے ملنگ قسم کے پیر آپ کو اسی شہر لاہور میں مل جائیں گے کہ ان کو نذرانے دے دیا کیجیے‘ باقی کیا ضرورت ہے نماز کی. وہ آپ کو نماز سے فرار کا فتویٰ دے سکتے ہیں. ایسی اطاعت سراسر گمراہی ہے. شریعت کے دائرے کے اندر اطاعت مطلوب ہے. شریعت کے اوامر‘ اوامر رہیں گے اور شریعت کے نواہی‘ نواہی رہیں گے. شریعت نے جس چیز کو حرام اور ممنوع کہا ہے وہ حرام اور ممنوع رہے گی اور جس کو فرض اور واجب کہا ہے وہ فرض اور واجب رہے گی. اس دائرے کے اندر اندر امیر جماعت جو حکم دے گا اس کا ماننا ضروری ہو گا.

مزید برآں تنظیمی معاملات میں مشورہ بھی ضروری ہے‘ بفحوائے 
وَاَمْرُھُمْ شُورٰی بَیْنَھُمْ … لیکن مشورہ کے بعد فیصلہ گنتی سے نہیں ہو گا‘ ؏ ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ والی بات نہیں ہو گی. مشورہ امیر کی ضرورت ہے‘ لہٰذا آپ کا امیر آپ کے مشوروں سے فائدہ اٹھائے گا. اسے کیا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنی ہے جو وہ آپ کا اچھا مشورہ رد کر دے. چنانچہ اپنی امکانی حد تک بہتر سے بہتر رائے تک پہنچنے کے لیے وہ آپ کے مشورے سے استفادہ کرے گا‘ لیکن بہرحال فیصلہ اسی کے اختیار میں ہے. یہ ہے وہ نظمِ جماعت جو اقامتِ دین کے لیے لازم ہے اور لازم ہونے کے درجے میں فرض ہے. چنانچہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرiسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: مَنْ مَاتَ وَلَـیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ یعنی ’’جو مسلمان اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں ہے وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘. آپ حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے. جس طرح آپ کوئی جانور لے کر جاتے ہیں اور اس کی گردن کا پٹہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے بالکل وہی الفاظ محمد رسول اللہ نے بیعت کے لیے استعمال کیے ہیں. 

صوبہ سرحد کے ایک بہت بڑے عالمِ دین مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے. دورانِ گفتگو فرمانے لگے کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے اندر امیر کو شوریٰ کے مشورے کا پابند ہونا چاہیے‘ یعنی شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو ماننا امیر پر لازم ہونا چاہیے. ان کے ساتھ ایک مقامی عالمِ دین بھی تھے. میں نے کہا: جناب ’’امیر‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ فرمایا: حکم دینے والا! میں نے کہا کہ پھر اس لفظ کو چھوڑ دیجیے اور صدر کا لفظ اختیار کیجیے. اس لیے کہ ہمارے ہاں آج کل جو مغربی تصور ہے اس میں تو پریذیڈنٹ ہی ہوتا ہے. پھر میں نے کہا: اچھا یہ فرمایئے کہ آمر کسے کہتے ہیں؟اس پر وہ ٹھٹکے. میں نے کہا: ’’امیر‘‘ کا لفظ ’’آمر‘‘ سے زیادہ گاڑھا ہے یا نہیں؟ آمر تو اسم فاعل ہے اور اسم فاعل عارضی ہوتا ہے جبکہ صفتِ مشبہ فعیل کے وزن پر آتی ہے اور وہ صفت مستقل ہو جاتی ہے. چنانچہ امیر میں تو آمریت بدرجہ اَتم موجود ہونی چاہیے. اس پر موصوف کے ساتھ آنے والے مقامی عالمِ دین کہنے لگے: ’’مولانا! ڈاکٹر صاحب اس موضوع پر خوب تیار ہیں‘ ان کے ساتھ ذرا سنبھل کر بات کیجیے.‘‘ 
تو جان لیجیے کہ ’’امیر‘‘ تو ’’آمر‘‘ سے بھی زیادہ سخت لفظ ہے. چنانچہ معروف کے دائرے کے اندر اندر امیر کا ہر حکم ماننا ہو گا‘ جبکہ نفس اسی کو گوارا نہیں کرتا. وہ کیوں کسی کے سامنے جھکے؟ وہ کسی کی بالادستی کیوں قبول کرے؟ اور جب تک یہ نہیں کریں گے جماعت کیسے بن جائے گی؟ جدوجہد کیسے ہو گی؟ پھر تو وہ حشر ہو گا جو مالاکنڈ میں آپ نے دیکھ لیا‘ حالانکہ وہاں لوگ جانیں دینے کو تیار تھے‘ ان کے خلوص پر آپ شک نہیں کر سکتے‘ لیکن حال یہ ہے کہ صوفی محمد صاحب جو کہ امیر ہیں وہ ہاتھ جوڑتے پھر رہے ہیں کہ نکل آؤ مورچوں سے‘ لیکن لوگ نہیں نکل رہے. اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے تو وہ جماعت مطلوب ہے کہ جسے حرکت کرنے کا حکم دیا جائے تو صورت وہ ہو جو "Charge of the Light Brigade" نامی نظم میں آپ میں سے اکثر نے پڑھی ہو گی. حکم دیا گیا لائٹ بریگیڈ کو کہ "Charge for the guns!" ہر شخص کو معلوم تھا کہ "someone had blundered" بڑا غلط معاملہ ہوا ہے‘ بڑا غلط فیصلہ ہوا ہے. دائیں طرف توپیں ہیں‘ بائیں طرف توپیں ہیں‘ سامنے توپیں ہیں: 

Cannon to right of them
Cannon to left of them
Cannon in front of them
volleyed and thundered


اب اس صورتحال میں حملہ کرنا گویا کہ موت کے منہ میں جانا ہے. لیکن 

Theirs not to make reply
Theirs not to reason why
Theirs but to do and die
Into the valley of death
Rode the six hundred 


فوجی کا کام یہ پوچھنا نہیں ہے کہ آپ نے مجھے یہ حکم کیوں دیا ہے‘ بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ اسے جو حکم دیا گیا ہے اس پر بلاچون و چرا عمل کرے (listen and obey). لہٰذا چھ سو کے چھ سوموت کی وادی میں اتر گئے. یہ فوج کا ڈسپلن ہے. یہی سمع و طاعت ہے جو یہاں مطلوب ہے. چنانچہ قرآن حکیم نے اس لفظ کو کئی بار استعمال کیا ہے. مثلاً ’’فَاسْمَعُوا وَاَطِیعُوا‘‘ اور ’’اِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ اور’’وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘.