آگے بڑھنے سے قبل اب تک کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتا ہوں. اس کوچہ میں پہلا قدم ہی سوچ سمجھ کر رکھنے کی ضرورت ہے. پہلا فرض: ہمہ وقت‘ ہمہ تن اللہ کی بندگی. دوسرا فرض: اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے اپنے تن من دھن کا بیشتر اور بہتر لگا دینا اور اپنے لیے‘ اپنی معاش کے لیے‘ اپنے گھروالوں کے لیے کمتر اور کہتر رکھنا. اللہ کے دین اور اپنی ذات کے مابین نسبت و تناسب کا معاملہ یہی ہونا چاہیے. اگر آپ نے بہتر اپنے لیے رکھا اور کہتر دین کے لیے رکھا تو ناکام ہو گئے. اس ضمن میں ایک بڑا پیارا اور سبق آموز واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی مرشد کے پاس کوئی صاحب بہت عرصہ زیرتربیت رہے. اپنا سلوک مکمل کر کے جب رخصت ہونے لگے تو کہا: حضرت کوئی آخری نصیحت فرمائیں. انہوں نے کہا: بھئی میں نے تمہیں بہت کچھ بتایا ہے‘ جاؤ اس پر عمل کرو. لیکن وہ صاحب کہنے لگے: نہیں جی! کوئی آخری نصیحت فرما دیجیے. ان کے اصرار پر مرشد نے کہا: دیکھنا اللہ کو اپنے سے کہیں کم تر نہ سمجھنا. کہنے لگے: جی بالکل نہیں‘ اللہ کو کیسے کم تر سمجھوں گا. انہوں نے راستے کے لیے دو روٹیاں ساتھ دے دیں‘ جن میں ایک پراٹھا تھا اور ایک سوکھی روٹی. راستے میں بھوک لگی‘ کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو کوئی سائل آ گیا کہ اللہ کے نام پر مجھے بھی کچھ دے دیں‘ تو حاتم طائی کی قبر پر لات ماری اور پوری سوکھی روٹی اسے دے دی اور پراٹھا اپنے لیے رکھ لیا. کچھ عرصہ کے بعد جب واپس پہنچے تو مرشد صاحب بات نہیں کر رہے‘ سلام کا جواب نہیں دے رہے. عرض کیا: حضرت کیا ہوا؟ فرمایا کہ اتنا اصرار کر کے تم نے مجھ سے آخری نصیحت لی تھی اور گھر پہنچنے تک بھی اس پر عمل نہ کر سکے. اللہ کے نام پر دی تو سوکھی روٹی. کیا اللہ کو کم تر جانا یا بہتر جانا؟ اور اپنے لیے جو پر اٹھا رکھا تو کیا اپنے آپ کو کم تر سمجھایا بہتر؟ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ شکوہ کرے گا اپنے بندے سے کہ اے بندے‘ میں بیمار تھا‘ تو نے میری عیادت نہیں کی! اے بندے‘ میں بھوکا تھا‘ میں نے تجھ سے کھانے کے لیے مانگا‘ تو نے مجھے کھانے کو نہیں دیا! اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ جس نے تجھ سے کھانے کے لیے مانگا وہ میرا بندہ تھا‘ میرے نام پر مانگ رہا تھا. الخَلقُ عَیالُ اللّٰہ. تو اگر آپ دین کے لیے کمتر اور کہتر لگائیں گے تو آپ فیل ہو گئے. اور اگر اپنی زندگی کی ناگزیر ضروریات کے لیے قدرِ قلیل حصہ رکھ کر انسان اپنے مال اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا بیشتر اور بہترین حصہ دین کے لیے لگا دے تو تب اسے کامیابی کی امید رکھنی چاہیے.

فرائض دینی کی عمارت کی تیسری منزل ہے اقامتِ دین کی جدوجہد. یعنی دین کو غالب کرنے کی کشمکش. اور اس کے لیے لازم ہے ’’جماعت‘‘. اور جماعت بھی آرمی ڈسپلن والی‘ 
اِسْمَعُوا وَاَطِیْعُوا(listen and obey) والی جس کے لیے مسنون‘ ماثور اور منصوص اساس بیعت کی ہے. قرآن میں ذکر ہے تو بیعت کا ہے‘ حدیث میں ذکر ہے تو بیعت کا ہے‘ سیرت میں مختلف مراحل پر بیعت ہے. پھر اگر خلافت راشدہ قائم ہوئی تو بیعت کی بنیاد پر. ہمارے ہاں لوگوں کی اصلاح نفس کا سلسلہ قائم ہے تو وہ بھی بیعت پر ہے. حضرت حسین رضی اللہ عنہ حکومت کی اصلاح کے لیے میدان میں آئے تو بیعت کی بنیاد پر. یہ اور بات ہے کہ بیعت کرنے والے اپنی بیعت سے پھر گئے. اس کا وبال ان پر ہو گا‘ جیسا کہ سورۃ الفتح میں فرمایا گیا: فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ (آیت ۱۰یعنی ’’جو بیعت توڑتا ہے وہ اپنے اوپر اس کا وبال لیتا ہے‘‘. بیعت کی خلاف ورزی کرنے والا اس کا وبال اپنے اوپر لیتا ہے. حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کیا بگڑا؟ آپؓ نے تو شہادت کا جام نوش کر لیا. اصل میں بگڑا تو ان کوفیوں کا جنہوں نے حضرت حسینؓ کے ہاتھ پر ہزاروں کی تعداد میں بیعت کی تھی اور اس کے بعد جب ابن زیاد کا ڈنڈا چلا تو سب کے سب بیعت توڑ کر پیچھے ہٹ گئے. پھر آپ کو معلوم ہے کہ پچھلی صدی میں اس برعظیم پاک و ہند میں تحریک شہیدینؒ اٹھی تو وہ بھی بیعت کی بنیاد پر تھی. یہ بیعتِ جہاد تھی. چنانچہ ہمارے ہاں تو ایک ہی درست طریقہ ہے. باقی سارے طریقے مغرب سے درآمد شدہ ہیں‘ جنہیں میں حرام نہیں کہہ رہا‘ لیکن بہرحال یہ منصوص‘ ماثور اور مسنون نہیں ہیں. اُمتِ مسلمہ کی پوری تاریخ میں ایک ہی طریقۂ تنظیم ثابت ہے اور وہ بیعت کانظام ہے.

آپ غور کیجیے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں دو ہی حالتیں ممکن ہیں :یا تو اسلامی حکومت یعنی نظام خلافت ہے یا نہیں ہے. اگر اوّل الذکر صورت ہے تو امیر المومنین کے ہاتھ پر بیعت ہو گی جیسے کہ حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی اور حسن (j ) کے ہاتھ پر ہوئی اور اگر نظام خلافت قائم نہیں ہے تو اسے قائم کرنے کے لیے جماعت درکار ہو گی اور اس جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. تیسری کوئی حالت ممکن ہی نہیں ہے. میں حدیث بیان کر چکا ہوں کہ ’’جو شخص اس حال میں مراکہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں ہے 
’’فَقَدْ مَاتَ مِیتَۃَ الجَاھِلِیَّۃ‘‘ وہ شخص جاہلیت کی موت مرا‘‘ اور آپ کو معلوم ہے کہ جاہلیت کسے کہتے ہیں. اسلام سے قبل کا زمانہ دورِ جاہلیت کہلاتا تھا.