اقامت ِدین کی جدوجہد کا طریق کار

اب میں آپ کے سامنے یہ بات رکھ رہا ہوں کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کا طریق کار کیا ہے! یہ کام ہو گا کیسے؟ یہاں بھی وہی اسلوب اختیار کروں گا یعنی پہلے نفی اور پھر اثبات. پہلے میں دو باتوں کی نفی کر رہا ہوں… محض خواہش سے یہ کام نہیں ہو سکتا اور محض دعاؤں سے بھی یہ کام نہیں ہو سکتا. میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام محض خواہش سے ہو گا نہ محض دعاؤں سے‘ بلکہ محنت اور مشقت سے ہو گا‘ ایثار اور قربانی سے ہو گا‘ جانفشانی اور سرفروشی سے ہو گا. لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ محنت و مشقت کس اسلوب پر ہو؟