اس جدوجہد کی ایک امکانی صورت یہ نظر آتی ہے کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے‘ اگر مسلمانوں کی اکثریت ووٹ دے دے تو ہمارے ہاتھ میں اختیار آ جائے گا‘ ہم بیٹھ کر قانون بدل دیں گے. یہ نظریہ اگرچہ بالکل دو اور دوچار کی طرح صحیح دکھائی دے رہا ہے لیکن حقیقت واقعی کے اعتبار سے غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ آپ کے ملک میں ایک جاگیرداری نظام قائم ہے اور اسی فیصد ووٹر جاگیرداروں کے قبضے میں ہیں‘ جہاں وہ دَم نہیں مار سکتے. صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ایک جاگیردار کے بجائے دوسرا جاگیردار آجائے‘ چچا کے بجائے بھتیجا جیت جائے. باقی جاگیرداروں کی مملکت کے اندر کوئی اور جیت جائے ع ایں خیال است و محال است و جنوں! یہی وجہ ہے کہ خواہ کوئی دور ہو‘ آپ کے ہاں اسمبلیوں کے اندر ہمیشہ وہی جاگیردار ہوتے ہیں. ضیاء الحق صاحب کا دور تھا تو وہی ان کی شوریٰ میں بیٹھے ہوئے تھے. ہم جیسے تو ہوں گے کوئی آٹے میں نمک کے برابر. اگر وہ بھٹو کی اسمبلی تھی تووہی جاگیردار وہاں تھے. اب تو بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ چچا بھتیجے کا فرق بھی نہیں کرتے‘ ایک ہی شخص اپنے ماتھے کا لیبل بدلتا رہتا ہے‘ وہی مسلم لیگ میں ہوتا ہے اور وہی پیپلزپارٹی میں. وہی کبھی ری پبلکن پارٹی میں تھا‘ کبھی شوریٰ میں آ گیا اور پھر وہ پیپلز پارٹی میں چلا گیا. لہٰذا انتخابات کے ذریعے سے نظام کو تبدیل کرنا جتنا اچھا اور سہل نظر آتا ہے یہ اسی قدر مشکل ہے. یہ ہونے والی بات ہے ہی نہیں. نظام کبھی الیکشن کے ذریعے نہیں بدلتا. اس میں تو ع ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے‘‘. یہاں تو ’’One man one vote‘‘ کا اصول کار فرما ہے اور جب ووٹروں کی اکثریت جاگیرداروں کے قبضے میں ہے تو ظاہر ہے کہ اختیار انہی کے ہاتھ میں رہے گا. انہی کا یہ میوزیکل چیئرز کا کھیل ہے جسے وہ سیاست کے نام سے کھیل رہے ہیں. یہ زیادہ فساد مچا دیتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے جرنیل آ جاتے ہیں اور جب نظر آتا ہے کہ جرنیلوں سے بھی پبلک اکتا گئی ہے تو انہی جاگیرداروں میں سے کچھ مہرے سامنے لے آئے جاتے ہیں اور فوج پیچھے چلی جاتی ہے. تو یہ ایک سرکل ہے جو تھوڑے تھوڑے عرصے سے ہمارے ہاں چلتا رہتا ہے. چنانچہ الیکشن کے ذریعے سے یہ کام نہیں ہو سکتا. اس ضمن میں ایک اصولی بات سمجھ لیجیے کہ الیکشن تو کسی نظام کو چلانے کے لیے ہوتے ہیں‘ نہ کہ نظام کو بدلنے کے لیے. امریکہ کے انتخابات میں دو پارٹیاں‘ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹس‘ حصہ لیتی ہیں اور ان دونوں کے مابین امریکن نظام کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. وہ ان کے نزدیک متفق علیہ ہے‘ صرف اس نظام کو چلانے کے لیے پالیسیوں میں تھوڑا سا فرق ہو گا. مثلاً ٹیکسیشن کی پالیسی میں کچھ اختلاف ہو گا کہ ہم یہ چھوٹ دے دیں گے یا ہم یہ نرمی کر دیں گے. اسی طریقے سے ہیلتھ پالیسی وغیرہ میں کچھ مراعات کا معاملہ ہو سکتا ہے. اسی طرح برطانیہ میں لیبرپارٹی اور کنزر ویٹوپارٹی میں نظام کی حد تک کوئی اختلاف نہیں ہے. امیگریشن کے بارے میں تھوڑا اختلاف ہو گا کہ ڈھیلا کر دیں گے یا سخت کر دیں گے یا بعض اور جزوی چیزیں ہوں گی. لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک پارٹی کو منتخب کر لیتے ہیں جو نظام چلاتی ہے‘ جبکہ دوسری پارٹی اپوزیشن میں بیٹھتی ہے. اس کے برعکس نظام کو بدلنے کے لیے انقلاب لانا پڑتا ہے. ہمارے ہاں تو بہتر سے بہتر الیکشن ہوئے ہیں لیکن اس کے بدتر سے بد تر نتائج نکلے ہیں‘ صرف دینی اعتبار ہی سے نہیں دنیاوی اعتبار سے بھی. ہمارے ہاں ایک بڑا صاف اور شفاف الیکشن ۱۹۷۰ء میں ہوا تھا‘ لیکن اس کا نتیجہ ۱۹۷۱ء میں یہ نکلا کہ ملک دولخت ہو گیا. پچھلا الیکشن جو ہوا‘ اسے پوری دنیا نے مانا ہے کہ جس حد تک ہمارے معاشرے میں ہو سکتا ہے یہ ایک صاف اور شفاف الیکشن تھا‘ لیکن اس کا حاصل آپ کے سامنے ہے. لہٰذا اس راستے سے اسلام نہیں آئے گا.