اسی طرح ایک نظریہ یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کیے چلے جاؤ‘ کیے چلے جاؤ‘ جب اکثریت بدل جائے گی تو نظام بدل جائے گا. نظری طور پر یہ بھی بڑی سیدھی اور منطقی بات نظر آتی ہے اور ہمارے ہاں ایک بڑی عظیم تحریک اس نظریئے کو بنیاد بنا کر چل رہی ہے. اوّل الذکر راستے پر تو خیر بہت سی تحریکیں اور جماعتیں ہیں‘ لیکن اس ثانی الذکر راستے کو تبلیغی جماعت اپنائے ہوئے ہے. اس کے ضمن میں مَیں صرف ایک جملے پر اکتفا کروں گا کہ اگر محض دعوت و تبلیغ‘ تعلیم و تلقین اور فضائل کی ترغیب و تشویق سے دین قائم ہو سکتا تو کیا محمد عربی تلوار ہاتھ میں لیتے؟ کیا آپؐ سے بڑا کوئی مبلغ‘ کوئی مربی‘ کوئی معلم اور کوئی مزکی ممکن ہے؟ اگر آپؐ ‘کو بھی تلوار ہاتھ میں لینی پڑی اور اپنے سینکڑوں صحابہؓ ‘کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو پھر کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ صرف دعوت و تبلیغ سے ہو جائے گا. اس راستے میں محمد عربی نے اپنے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے. آپؐ ‘کا اپنا خون مکی دور میں طائف کی سرزمین پر گرا ہے اور مدنی دور میں دامنِ اُحد میں جذب ہوا ہے. آپؐ ‘کی رخسار کی ہڈی پر جب تلوار کا وار پڑا ہے تو خون کا فوارا چھوٹا ہے اور اتنا خون بہا ہے کہ آپؐ نقاہت کی وجہ سے بیہوش ہو گئے. تو اس کے بغیر یہ کام نہیں ہوتا. اگر صرف دعوت و تبلیغ اور تلقین و تشویق سے یہ کام ہو سکتا تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ رحمۃ للعالمین اپنے کسی جاں نثار صحابیؓ ‘کا خون تو کجا‘ کسی کافر کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے.

دعوت و تبلیغ کی اہمیت اپنی جگہ ہے. دعوت و تبلیغ سے آپ لوگوں کو جمع کیجیے‘ سلیم الفطرت لوگوں کو کھینچئے. انقلاب کے لیے پہلا ہتھیار واقعتا دعوت و تبلیغ ہی ہے. لیکن جو لوگ اس کے ذریعے سے آجائیں انہیں پھر منظم کیجیے. ان دھاگوںکو بٹ کر کوڑا بنایئے اور پھر وہ کوڑا باطل کے سر پر دے ماریئے. بفحوائے قرآنی : 
بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ فَیَدۡمَغُہٗ یہ سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۸ کا ٹکڑا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ہم حق کا کوڑا مارتے ہیں باطل کے اوپر جو اس کا بھیجا نکال دیتا ہے‘‘. چنانچہ پہلے کوڑا بناؤ جیسے محمد عربی نے کوڑا بنایا. جس طرح ایک پرندہ گھونسلا بناتا ہے تو ایک ایک تنکا لے کر آتا ہے اسی طرح حضور نے افراد کو جمع کیا. دس برس میں تو حضور کے پاس بمشکل سو سو اسو آدمی جمع ہوئے تھے. محمد عربی  جیسے داعی و مبلغ اور مربی و مزکی کی دس برس کی محنت کے نتیجے میں سو سو اسو آدمی جمع ہوئے.

اس کے بعد پھر راستے کھلے ہیں. جو آپؐ کے دامن سے وابستہ ہوئے انہیں پھر جوڑا ہے‘ بیعت لی ہے‘ مربوط بنایا ہے‘ منظم کیا ہے‘ ان کی تربیت کی ہے اور مسلح تصادم کے مرحلے سے پہلے انہیں صبر محض کے مرحلے سے گزارا ہے. مکہ میں بارہ برس تک یہی حکم تھا کہ تشدد برداشت کرو. اگر مشرکین تمہیں ماریں تو مار سہو‘ جھیلو‘ لیکن جوابی کارروائی نہ کرو! اگر تمہارے ٹکڑے اڑا دیں تب بھی ہاتھ نہیں اٹھانا‘ تمہیں زندہ جلا دیں تب بھی ہاتھ نہیں اٹھانا. جب تک کہ اس کی اجازت نہ آ جائے اُس وقت تک کوئی بدلہ نہیں‘ کوئیretaliation نہیں‘ حتیٰ کہ اپنے دفاع میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں. اسی کو اقبال نے کہا ہے کہ ؏ ’’بانشہ درویشی درسازو دمادم زن!‘‘دعوت دیئے جاؤ‘ تبلیغ کیے جاؤ‘ اپنی تربیت اور تزکیہ کرتے جاؤ‘ اپنے نظم کی پابندی کے خوگر بنتے چلے جاؤ‘ اپنی قوت بڑھاتے چلے جاؤ‘ لوگوں کی باتیں سنو اور برداشت کرو‘ گالیاں سنو اور دعائیں دو‘ تم پر پتھراؤ ہو تو تم پھول پیش کرو‘ تا آنکہ اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ اب کھلم کھلا اپنے آپ کو مقابلے کے قابل محسوس کرو.؏ ’’چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن!‘‘پھر اپنے آپ کو سلطنتِ جم پر دے مارو. اسلام کا نظام ہمیشہ کے لیے خانقاہی نظام نہیں ہے کہ نسلاً بعد نسلٍ تربیت اور تزکیہ ہی کرتے رہو. جو کام ایک شیخ نے شروع کیا اسی کو ان کے بعد ان کے خلیفہ‘ پھر ان کے خلیفہ اور پھر ان کے خلیفہ کرتے چلے جاتے ہیں. خلیفہ در خلیفہ ایک ہی کام چل رہا ہے. یہ تربیت و تزکیہ آخر کس کام کا؟ اس تربیت و تزکیہ اور تعلیم و تلقین سے مقصود تو یہ ہونا چاہیے کہ طاقت فراہم کر کے پھر باطل سے ٹکرانا ہے ؎

با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن!