موجودہ حالات میں اسلامی انقلاب کے لیے اقدام کی صورت

فرض کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا ہے اور ہم اپنی جگہ اللہ کی بندگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر دعوت و تنظیم اور تربیت وغیرہ جیسے مراحل بھی اس حد تک طے ہو جاتے ہیں کہ دو لاکھ تربیت یافتہ افراد تیار ہو جاتے ہیں تو پاکستان جیسے ملک میں اقدام کی کیا شکل ہوگی؟ میرے نزدیک بارہ کروڑ کی آبادی کے اِس ملک کا نظام بدلنے کے لیے یہ کم سے کم تعداد ہے کہ دو لاکھ افراد ہی ان مراحل سے گزر چکے ہوں.وہ صرف نام کے نہیں بلکہ فی الواقع اللہ کے بندے ہوں‘اپنی ذات پر اور اپنے گھر میں اللہ کے دین کو اور اس کی شریعت کو نافذ کر چکے ہوں.پھر وہ تربیت یافتہ ہوں‘مضبوط ہوں‘منظم ہوں.ایک امیر کا حکم مان کر سربکف ہو کر میدان میں آنے کو تیار ہوں.ان کے لیے شہادت کی موت اس زندگی سے کہیں زیادہ پسندیدہ ہو تو نظامِ باطل پر آخری حملہ کس طور سے ہو گا؟

سیرت النبی میں تو ہمیں یہ آخری اقدام قتال کی شکل میں ملتا ہے کہ میدانِ جنگ میں آؤ‘باطل کو للکارو‘تلواریں تلواروں سے ٹکرائیں اور سرتن سے جدا ہوں‘ جس طرح غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں ہوا. بدر میں اگر ستر کافر مارے گئے تو تیرہ صحابہؓ ‘بھی موقع پر شہید ہوئے‘جبکہ میدان جنگ میں زخمی ہونے والے ایک صحابیؓ ‘کا واپس مدینہ جاتے ہوئے انتقال ہوگیا. اس طرح چودہ صحابہؓ ‘ شہید ہوئے. اور اُحد میں صحابہؓ ‘کی ایک غلطی سے معاملہ برعکس ہو گیا اور ستر صحابہؓ ‘شہید ہو گئے‘جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی. بہرحال وہاں جو آخری معاملہ تھا وہ قتال اور جنگ کا تھا… لیکن یہاں اقدام کی صورت کیا ہو؟ اس کے لیے یہاں اجتہاد کی ضرورت ہے اور دنیا میں اجتہاد صرف وہاں کیا جا سکتا ہے جہاں نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہو. اگر تو حالات وہی ہوں جو حضور کے زمانے میں تھے تو پھر اجتہاد کی کیا ضروت ہے؟ 
اجتہاد کر کے خواہ مخواہ کا خطرہ (risk) کیوں مول لیا جائے؟ اجتہاد میں خطا بھی ہو سکتی ہے. کوئی بڑے سے بڑا مجتہد اس بات کا دعویدار نہیں ہے کہ ہم سے خطا نہیں ہوسکتی‘نہ امام ابو حنیفہ ‘ نہ امام مالک‘نہ امام شافعی ‘نہ امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ. ہمارے ہاں اصول یہ ہے کہ ’’قَولُ اصحابِنا صواب محتمل الخطأ وقول غیرنا خطأ محتمل الصواب‘‘ یعنی ’’ہمارا موقف درست ہے لیکن اس میں خطا کا امکان ہے اور دوسروں کا موقف غلط ہے لیکن امکان ہے کہ وہی صحیح ہو‘‘. تو اجتہاد میں بہرحال خطا کا امکان موجود ہے. اس سلسلے میں یہ بھی اصول ہے کہ مجتہد سے اگر خطا ہو گئی ہو تب بھی اسے اکہراثواب ملے گا اور اگر وہ صحیح رائے تک پہنچ گیا تو اسے دہرا ثواب ملے گا. لیکن ظاہر بات ہے کہ خطا کا ’’رِسک‘‘ وہیں لیا جائے گا جہاں صورتحال نئی ہے. تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعتا ہمارے ہاں صورتحال نئی ہے؟ اور اگر ہے تو کس کس اعتبار سے؟

میرا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے ہاں صورتحال واقعتا کئی اعتبارات سے نئی ہے. ایک تو یہ کہ وہاں معاملہ اس اعتبار سے سیدھا سیدھا تھا کہ ایک طرف اہل ایمان تھے اور ایک طرف کفار. لیکن آج باطل نظام کے پشت پناہ حکمران بھی مسلمان ہیں اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے بھی مسلمان. چنانچہ حسنی مبارک ہوں یا یاسرعرفات‘اور شاہ فہد ہوں یا بے نظیر بھٹو‘سب کلمہ گو مسلمان ہیں. دوسری طرف اسلام کے لیے کام کرنے والے خواہ صوفی محمد ہوں یا کوئی اور ہوں وہ بھی مسلمان ہیں. قانونی اعتبار سے تو یہاں مسلمان مسلمان کے مقابلے میں ہے. دوسرے یہ کہ رسول اللہ کی جدوجہد کے وقت عرب میں ملکی سطح پر کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی. تھوڑی بہت حکومت نام کی شے صرف مکہ میں تھی کہ وہاں ایک ہی قبیلہ آباد تھا جس کی پارلیمنٹ ’’دارالندوہ‘‘ کے نام سے تھی اور کچھ مناصب بھی تھے. باقی پورے عرب میں نہ تو کوئی حکومت تھی‘نہ کوئی نظام تھا‘نہ باقاعدہ فوجیں 
(standing armies) تھیں.والنٹیئرز (رضاکاروں) کا مقابلہ والنٹیئرز سے تھا. مکہ سے چل کر جو ایک ہزار کفار میدان بدر میں آئے تھے وہ بھی رضاکار ہی تھے‘وہ کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی اور ادھر سے جو تین سو تیرہ تھے وہ بھی رضاکار ہی تھے. پھر تین سو تیرہ کے مقابلے میں ایک ہزار کی تعداد گویا تین گنا تھی اور اسلحہ کا جو فرق تھا وہ آپ ایک کے مقابلے میں دس نہیں تو بیس شمار کر لیں‘زیادہ سے زیادہ سو شمار کر لیں‘اس سے زیادہ فرق تو نہیں تھا! لیکن آج کیا ہے؟ آج آپ شاہ فہد کے خلاف ذرا کوئی تحریک چلا کر دیکھئے‘پوری حکومت‘اسلحہ کے انبار رکھنے والی بری افواج اور فضائیہ‘یہ ساری کی ساری آپ کو کچل کر رکھ دیں گی. ہیلی کاپٹر تو یہاں مالاکنڈ میں بھی استعمال ہو گیا تھا. معاملہ ذرا سا طول کھینچ جاتا تو کیا ایئر فورس استعمال نہ ہوتی؟ بلوچستان میں اگرچہ دوسرا جھگڑا تھا ‘ لیکن چونکہ بہرحال اختلاف کا معاملہ تھا‘لہٰذا ایئرفورس استعمال ہوئی تھی. حافظ الاسد نے الاخوان المسلمون کے خلاف ایئرفورس استعمال کی تھی اور پورا شہر تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا. اس اعتبار سے یہ معاملہ قابل عمل نہیں ہے. تو اس کا متبادل کیا ہے؟

موجودہ حالات میں اس ضمن میں اجتہاد کی ایک مثال ایرانیوں نے پیش کر دی ہے اور ہمیں حق بات کو قبول کرنا چاہیے خواہ وہ کہیں سے ملے. حدیث نبویؐ ہے: 
اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ ھُوَاَحَقُّ بِھَا حَیْثُ وَجَدَھَا یعنی ’’حکمت مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے‘پس وہ اسے جہاں بھی پائے اس کا زیادہ حقدار ہے‘‘. چنانچہ حق بات یا دانائی کی بات جہاں سے ملے لے لو.چین سے ملے ‘چین سے لے لو. اس صدی میں گاندھی پہلے نمبر پر ہے جس نے عدم تشدد کی تحریک کے ساتھ اس ملک سے انگریز کی جڑیں ڈھیلی کیں. اگرچہ اس کے اور اسباب بھی تھے‘صرف کانگریس اور مسلم لیگ کی جدوجہد سے یہ ملک آزاد نہیں ہوا‘لیکن بہرحال ایک مثال گاندھی نے پیش کی تھی کہ اس نے اس ملک میں عدم تشدد کے ساتھ ایک عوامی تحریک چلائی‘یہاں تک کہ چورا چوری کا واقعہ پیش آ گیا. یعنی ایک موقع پر ایک جلوس پر پولیس نے زیادتی کی تو جلوس نے مشتعل ہو کر پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے شاید تیس سپاہی مار دیئے تھے. اس پر گاندھی نے اپنی پوری تحریک یہ کہہ کر ختم کر دی تھی کہ اگر تم عدم تشدد پر کاربند نہیں رہ سکتے تو میں تمہاری قیادت نہیں کر سکتا. تو چاہے گاندھی ہو چاہے خمینی ہو‘اگر کوئی بات صحیح ہے تو ہم اس سے لے لیں گے. آخر غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ نے خندق کھودنے کی تجویز کس کی قبول کی تھی؟ وہ تو ایرانیوں کا طریقہ تھا. اس موقع پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا تھا کہ جب ایران میں ایسی صورتحال درپیش ہوتی ہے تو ہم شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودتے ہیں. رسول اللہ نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور خندق کھودلی گئی حالانکہ اُس زمانے میں نہ عرب میں اس کا رواج تھا نہ حضور کے ذہن میں خندق کی تجویز آئی تھی. تو آنحضور کے ارشاد اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ ھُوَاَحَقُّ بِھَا حَیْثُ وَجَدَھَا کے حوالے سے ہمیں حق بات جہاں سے بھی ملے گی اسے قبول کریں گے.

اس حوالے سے اگر منظم اور تربیت یافتہ افراد کی معتدبہ تعداد جمع ہو جائے‘ بالفاظِ‘دیگر مطلوبہ افرادی طاقت فراہم ہو جائے تو اب انقلاب کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ الحمدللہ میں مطمئن ہوں کہ اس کا بھی میں نے الف سے لے کر یاتک پورا نقشہ قرآن اور سنت و سیرتِ نبویؐ سے اخذ کیا ہے‘جو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں. ’’نہی عن المنکر‘‘ یعنی ’’برائی سے روکنا‘‘ قرآن و حدیث کی اصطلاح ہے. حدیث نبویؐ میں اس کے تین درجے بیان ہوئے ہیں: (۱) طاقت سے روکنا‘(۲) زبان سے روکنا‘ (۳)دل سے نفرت کرنا. چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہنے ارشاد فرمایا: 

مَنْ رَئٰ ی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَـیِّرْہُ بِیَدِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکِ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 
(رواہ مسلم) 
’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے اپنے زورِ بازو سے روکے. اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے روکے. اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے (نفرت کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘

جو لوگ اس کام کو اوّل درجے میں کرنے کے لیے آئیں گے‘وہ بھی ظاہر ہے کہ دل میں تو برائی کے خلاف نفرت رکھتے ہوں گے‘تب ہی تو آئیں گے.اپنے دھندے چھوڑیں گے‘اپنی دنیا کو سکیڑیں گے. وہ اسی لیے آئیں گے کہ انہیں بدی سے نفرت ہے 
اور وہ نیکی کا پرچار کرنا چاہتے ہیں‘نیکی کا غلبہ چاہتے ہیں.

دوسرے درجے میں‘جب تک طاقت فراہم نہیں ہوتی‘برائی کے خلاف دل سے نفرت کے ساتھ ساتھ زبان اور قلم سے برائی کے خلاف آواز اٹھایئے. برائی کی نشاندہی کر کے کہیے کہ خدا را یہ کام چھوڑ دو‘باز آ جاؤ.یہ عریانی ترک کر دو‘یہ بے پردگی ختم کرو‘یہ فحاشی چھوڑ دو! اخبار والوں کے سامنے جا کر ہاتھ جوڑیئے‘مظاہرے کیجیے کہ یہ تم جو ہر روز عورتوں کی رنگین تصویریں ہر گھر میں پہنچا رہے ہو‘اس سے تمہیں ملتا کیا ہے؟ اس ذریعے سے تم نے قوم کے اخلاق کا کتنا ستیاناس کیا ہے! آج یہ بدبخت آپ کی اور میری بچیوں کے لیے فلمی اداکاراؤں اور رقاصاؤں کو اسوہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں. ان کے کردار کو جس طریقے سے اچھالا جا رہا ہے اور ان کی تصاویر کی جس طرح نمائش ہو رہی ہے اس سے کیا ہر بچی کے دل میں یہ امنگ پیدا نہیں ہو گی کہ میں بھی ویسی بن جاؤں‘میرا بھی تذکرہ ہو‘میرا بھی چرچا ہو‘اخبارات میں میرا نام بھی آئے؟ عام آدمی کتنے ہوں گے جو اس وبا سے بچ جائیں؟ تو ان سے کہو‘ہاتھ جوڑو‘خوشامد کروکہ باز آ جاؤ‘اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت مت دو! لیکن جب طاقت فراہم ہو جائے گی تو ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے کہ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے‘اب یہ اخبار نہیں چھپے گا! طے کرو کہ یہ چیز نہیں ہو گی تو پھر چھپنے دیں گے.

اسی طرح سود کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے کہ اب یہ سودی کاروبار نہیں ہو گا! بینکوں کا گھیراؤ کریں گے‘پکٹنگ (picketing) کریں گے. اگر گولیاں چلیں گی تو سینے حاضر کر دیں گے. ایران میں بھی لوگوں نے گولیاں کھائی ہیں‘ جانیں دی ہیں‘تب نظام بدلا ہے. اس کے لیے میں نے عرض کیا ہے کہ دو لاکھ منظم افراد سر سے کفن باندھے ہوئے نکلیں کہ خواہ ہم پر گولیاں چلائو‘ہمیں جیلوں کے اندر بھر دو‘ہمیں معذور کر دو‘ہمارے بازو او ہماری ٹانگیں شل کر دو‘لیکن اب ہمارے قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے. یہ ہے ہمارے پیش نظر ’’نھی عن المنکر بِالید‘‘ کے طور پر اقدام کا آخری مرحلہ. لیکن یہ اقدام یکطرفہ ہو گا. انقلابی جماعت کے کارکن خود جانیں دیں گے لیکن ان کے ہاتھوں کسی کی جان کو نقصان نہیں پہنچے گا. ہمارے نزدیک دہشت گردی قطعاً حرام ہے‘چاہے وہ الجزائر میں مسلم فنڈامنٹلسٹ کر رہے ہوں یا مصر میں جماعہ اسلامیہ کر رہی ہو. ویسے ان کا کہنا یہ ہے کہ دہشت گردی وہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ درحقیقت ان پر الزام دھرنے کے لیے حکومت کے ایجنٹ کرتے ہیں. لیکن اگر خدانخواستہ وہ کر رہے ہیں تو حرام کام کر رہے ہیں. جو شخص سیاح کی حیثیت سے آپ کے ملک میں آیا ہوا ہے اس کا کیا گناہ ہے کہ آپ نے بم مار کر اس کی بس اڑا دی؟ اس طرح بے گناہوں کو مار دینا تو کوئی طریقہ نہیں. اصل طریقہ یہ ہے کہ کسی کی جان کو‘کسی کے مال کو کوئی نقصان نہ پہنچاؤ‘ہاں اپنی جانیں دینے کو تیار ہو جاؤ!

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشور کشائی