اگر اللہ تعالیٰ یہ جدوجہد کرنے کے لیے آپ کا دل کھول دے‘آپ کو انشراحِ صدر ہو جائے اور اگر فرض کیجیے اس جدوجہد میں معتدبہ تعداد میں لوگ شامل ہو جائیں تو جاننا چاہیے کہ کن نتائج کی توقع ہے. 

(۱) فلاحِ آخرت

اس کا پہلا نتیجہ‘جو کہ اصل نتیجہ ہے‘یہ نکلے گا کہ چاہے دنیا میں کامیابی حاصل ہو یا نہ ہو‘جو شخص بھی اس جدوجہد میں اپنی زندگی بِتا دے گا اس کی آخرت کی کامیابی یقینی ہے. اور اگر اصل زندگی آخرت کی ہے‘اور یقینا ہے‘تو اصل کامیابی بھی وہی ہے. قرآن مجید میں یوم محشر کو ’’یومُ التغابن‘‘ بھی کہا گیا ہے‘یعنی ’’ہار اور جیت کا دن‘‘. جو اُس دن ناکام ہوا وہی اصل میں ناکام و نامراد ہے اور جو اس دن کامیاب ہوا وہی درحقیقت کامیاب ہے. چنانچہ انقلاب آئے نہ آئے‘نظام بدلے نہ بدلے‘اگر یہی جدوجہد کرتے ہوئے‘ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اللہ کے حضور حاضری ہو گئی تو چاہے شہادت کی موت نصیب ہو چاہے ویسے طبعی موت آئے‘آخرت میں یقینا نجات مل جائے گی.

حضرت یاسر اور حضرت سمیہ ( رضی اللہ عنہما) دونوں مکہ ہی میں شہید کر دیے گئے تھے‘اور انہوں نے فتح مکہ اور غلبۂ اسلام کا منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا‘تو کیا وہ‘معاذ اللہ‘ناکام شمار ہوں گے؟ اس سے آگے بڑھئے‘کیا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس دنیا سے‘معاذ اللہ‘ناکام گئے؟ انہوں نے اسی جدوجہد میں اپنی جان دے دی‘جامِ شہادت نوش کر لیا‘اور کامیاب ہو گئے‘حالانکہ انہوں نے بھی وہ رُوح پرور منظر نہیں دیکھا جب دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں محمدٌ رسول اللہ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو ئے. لیکن اس منظر کو پیدا کرنے کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ہڈیوں کا چورا اس کی بنیاد میں پڑا ہے. وہ گار ا اُحد کے شہداء کے خون اور ہڈیوں سے گوندھا گیا تھا جس سے وہ عمارت تعمیر ہوئی. لہٰذا پہلی بات جو یقینی (guaranteed) ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں خواہ کامیابی ہو یا نہ ہو‘آخرت کی کامیابی یقینی ہے. 

(۲) غلبۂ اسلام کا امکان

اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ کے مصداق دنیا میں بھی اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کر دے. سورۃ الاعراف میں بڑا پیارا مضمون وارد ہوا ہے کہ جب یہود کے ایک قبیلہ نے احکامِ سبت کی خلاف ورزی کی تو اُس وقت قوم تین حصوں میں تقسیم ہو گئی. ایک تو وہ تھے جو اللہ کا قانون توڑ رہے تھے. دوسرے وہ تھے جو اسے توڑ نہیں رہے تھے لیکن توڑنے والوں کو روک بھی نہیں رہے تھے. اور تیسرے وہ تھے جو از خود بھی بچے ہوئے تھے اور دوسروں کو بھی اپنی آخری حد تک روک رہے تھے. درمیانی قسم کے لوگوں نے‘جو سبت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو روک نہیں رہے تھے لیکن خود بھی اس گناہ میں ملوث نہیں تھے‘ان لوگوں سے کہا جونہی عن المنکر کرنے والے تھے: لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ یعنی ’’تم ایسی قوم کو کس لیے نصیحت کر رہے ہو جن کو اب اللہ ہلاک کر کے چھوڑے گا یا ان کو شدید عذاب دے گا‘‘. یہ ماننے والے تو ہیں نہیں‘تم اپنے آپ کو ہلکان نہ کرو‘اپنا وقت ضائع نہ کرو. اس پر ان کا جواب تھا:مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ ہم تمہارے رب کے سامنے عذر تو پیش کر سکیں گے نا کہ اے اللہ ہم تو اپنے آخری وقت تک ان کو اس بدی سے روکتے رہے. اور دوسری بات یہ کہ : وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ اور کیا پتا ان کے اندر تقویٰ پیدا ہو ہی جائے. ہم مستقبل کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں‘ہم نے کسی کے دل کے اندر اتر کر تو دیکھا نہیں ہے‘کیا پتہ اللہ ان کے دلوں کو بدل دے اور ان کے لیے ہدایت کے راستے کھل جائیں.

چنانچہ اگر یہ زندگی اِس جدوجہد میں کھپ گئی ہے‘اگر میں نے اپنی بہتر اور بیشتر توانائیاں اور صلاحیتیں اس کام میں لگا دی ہیں تو 
مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ کا تقاضا تو پورا ہو گیا اور مجھے اُمید واثق ہے کہ میں اللہ کے یہاں سرخرو اور کامیاب ہوں گا. اور سب سے بڑی اور اصل کامیابی یہی ہے ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۳۰﴾ (الجاثیۃ) . لیکن دوسرے درجے میں کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿﴾ والی صورت بھی پیدا فرما دے‘کیا عجب کہ دنیا میں بھی کامیابی ہو جائے. اس حوالہ سے تصویر کا دوسرا رخ بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں گا.

احادیثِ مبارکہ میں حضور کی واضح پیشین گوئیاں ہیں کہ قیامت سے قبل اس پورے کرۂ ارض پر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا. میں نے بار ہا کہا ہے کہ میں یہ کبھی نہ مانتا کہ ایسا ہو سکتا ہے اگر حضور نے نہ فرمایا ہوتا. جب حضور سے پہلے کسی نبی ؑ کے ہاتھوں میں ایسا نہیں ہوا تو اب جبکہ ختم نبوت و تکمیل رسالت کے تقاضے کے طور پر کوئی نبی آئے گا نہ کوئی رسول‘تو یہ کام مجھ جیسے ناقص و ناکارہ قسم کے قائدین کے ذریعے کیسے ہو جائے گا؟ لیکن ماننا پڑتا ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا‘کیونکہ اس کی خبر دی ہے الصادق وَالمصدوق محمدٌ رسول اللہ نے. حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

لَا یَبقیٰ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ اِلّا اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَذُلِّ ذَلِیْلٍ‘ اِمّا یُعَزِّھُمُ اللّٰہُ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا وَاِمَّا یُذِلُّـھُمْ فَـیَدِیْنُوْنَ لَـھَا 
(رواہ احمد) ’’روئے ارضی پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی بچے گا اور نہ کوئی اونٹ کے بالوں سے بنا ہوا خیمہ مگر اللہ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کرے گا‘خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں. یعنی یا لوگ اسلام قبول کر کے خود ہی عزت کے مستحق بن جائیں گے یا اسلام کی بالادستی تسلیم کر کے اس کی تابعداری قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے!‘‘
جو خود ایمان لے آئے گا اس کے گھر میں اسلام داخل ہو گا تو اسے بھی اعزاز نصیب ہو گا کیونکہ 
وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (المنٰفقون:۸’’عزت تو اللہ کے لیے‘اس کے رسول کے لیے اور اہلِ ایمان کے لیے ہے‘‘. اور جو ایمان نہیں لائے گا اسے بھی اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہو گا اور وہ خود چھوٹا ہو کر رہے گا اور جزیہ ادا کرے گا. تو گویا اس کے گھر میں بھی اسلام آ گیا‘وہ بدبخت خود محروم رہ گیا.

صحیح مسلم میں حضرت ثوبانh سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھا مَا زُوِیَ لِی مِنْھَا 

’’اللہ نے مجھے پوری زمین کو لپیٹ کر (یا سکیڑ کر) دکھادیا. چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی. اور یقین رکھو کہ میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہوگی جو مجھے لپیٹ کر (یاسکیڑ کر) دکھائے گئے.‘‘

یہ دو احادیث اور اس مضمون کی دیگر احادیث کے بعد مجھے قطعاً کوئی شک نہیں ہے کہ دینِ اسلام کا غلبہ اس کرۂ ارضی پر ہو کر رہنا ہے. مزید برآں قرآن حکیم میں منطق کے اس قضیے کے صغریٰ اور کبریٰ دونوں بہ تکرار و اعادہ وارد ہوئے ہیں جس کا لازمی نتیجہ دینِ حق کا عالمی غلبہ ہے. چنانچہ قرآن مجید میں تین بار (التوبہ: ۳۳‘الفتح: ۲۸ اور الصف: ۹) یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ 

’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق (اسلام) دے کر تاکہ غالب کر دے اسے کُل کے کُل دین (نظامِ زندگی ) پر!‘‘ 
یہ گویا اس قضیے کا صغریٰ ہے‘اور کبریٰ یہ ہے کہ آنحضور کی بعثت پوری نوعِ انسانی اور کُل عالمِ انسانیت کی جانب ہے.ازروئے الفاظ قرآنی: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸یعنی ’’ہم نے نہیں بھیجا ہے (اے نبی )آپؐ ‘ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘ … اب صغریٰ اور کبریٰ کو جمع کر لیجیے تو یہ لازمی اور منطقی نتیجہ برآمد ہو جاتا ہے کہ حضور کا مقصدِ بعثت بہ تمام و کمال اسی وقت مکمل ہو گا جب تمام عالمِ انسانی یعنی کُل روئے ارضی پر اللہ کا دین غالب ہو جائے گا اور کیسے ممکن ہے کہ حضور کا مقصدِ بعثت پایۂ تکمیل کو نہ پہنچے اور یہ دنیا ختم ہو جائے‘جبکہ دینِ محمد کا پورے عالمِ انسانیت پر غلبہ ابھی باقی ہے. گویا بقول اقبال : ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

چنانچہ قرآن و حدیث کی راہنمائی میں پورے وثوق اور صد فی صد یقین سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ قیامت سے قبل دینِ اسلام کا عالمی غلبہ ہو کررہے گا. 

(۳)پاکستان کی بقا و سا لمیت

اس حقیقت کا دوسرا پہلو بھی بہت اہم ہے. اگرچہ اس ضمن میں مجھے اس درجے وثوق تو حاصل نہیں ہے لیکن ظنِ غالب کے درجے میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ خطہ جس میں میں اور آپ آباد ہیں‘یہ خطہ اللہ کی مشیت میں اس کام کے لیے منتخب ہو چکا ہے. بعض ٹھوس شواہد کی بنیاد پر میرا گمانِ غالب ہے کہ دینِ حق کے لیے عالمی غلبے کا نقطۂ آغاز ہمارا یہی خطہ بنے گا جیسے رسول اللہ کے زمانے میں اِس کام کا آغاز سرزمینِ عرب سے ہوا تھا اور پھر یہ خلافتِ راشدہ کے دوران شمال میں کوہ قاف تک‘مشرق میں دریائے جیحوں تک اور مغرب میں بحراوقیانوس کے ساحل تک پہنچ گیا. اسی طرح قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ اب نظام خلافت کے احیاء کے کام کا آغاز ان شاء اللہ العزیز افغانستان اور پاکستان پر مشتمل اس خطۂ ارضی سے ہوگا. اس لیے کہ چار سو برس سے سارے مجددینِ امت اسی خطے میں پیدا ہوئے ہیں. امت کی تاریخ میں پہلے ایک ہزار برس تک سارے کے سارے مجددین عالمِ عرب میں پیدا ہوئے. عمر بن عبدالعزیز‘امام ابوحنیفہ ‘امام احمد بن حنبل ‘شیخ عبدالقادر جیلانی‘امام ابن تیمیہ اور امام غزالی رحمہم اللہ وغیرہم سب کے سب وہیں پیدا ہوئے. لیکن جیسے ہی پہلے ہزار برس ختم ہوئے اور گیارہویں صدی شروع ہوئی تو حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ ہندوستان میں پیدا ہوئے. اس کے بعد بارہویں صدی کے مجدد شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور تیرھویں صدی کے مجدد سید احمد بریلویؒ بھی اسی سرزمین ہند میں پیدا ہوئے‘جو بالاکوٹ میں شہید ہوئے. اس ہندوستان کی سرزمین پر پہلا خالص اسلامی جہاد تو وہ تھا کہ جو محمد بن قاسمؒ اور ان کے ساتھیوں نے کیا تھا. اس کے بعد جسے خالص اسلامی جہاد کہا جا سکتا ہے اور جو صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہوا ہے‘وہ سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ ‘ کا جہاد ہے اور ان کے خون کی امین یہ سرزمین پاکستان ہے. پھر چودھویں صدی میں علامہ اقبال جیسا مفکر‘مولانا مودودی جیسا مصنف ‘مولانا الیاس جیسا مبلغ اور شیخ الہند مولانا محمود حسن جیسا مجاہدِ حریت (رحمۃ اللہ علیہم)… یہ سب کے سب یہیں پیدا ہوئے. ان کے ہم پلہ کوئی شخصیت آپ پورے عالم اسلام میں نہیں دکھا سکتے.

یہ تو ماضی کے آثار ہیں اور اس کے بعد پاکستان کا قیام اس سلسلے کی بہت اہم کڑی ہے. دنیا میں یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا. پھر اس کا قیام بجائے خود ایک معجزہ ہے. قیام سے چند مہینے پہلے تک کوئی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ پاکستان بن جائے گا. گاندھی جیسا لیڈر کہہ رہا تھا کہ پاکستان میری لاش پر بنے گا. پھر خود نہرو اور پٹیل لارڈمائونٹ بیٹن کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ ہم باپوجی سے ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں کر سکے‘آپ کسی طرح جا کر گاندھی جی کو اس پر آمادہ کیجیے‘آپ ان کے چیلے ہیں. چنانچہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے جا کر گاندھی سے منوایا ہے ورنہ وہ ماننے پر تیار نہیں تھے. خود قائداعظم چند مہینے پہلے کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کر چکے تھے کہ مرکزی حکومت ایک ہو گی اور ملک کے تین زون ہوں گے لیکن اللہ نے کہا نہیں‘یہ آزاد ملک لو! علامہ اقبال نے تو ایک خطے کا خواب دیکھا تھا‘لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو خطوں پر مشتمل ملک دے دیا. 
۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے صرف ’’مغربی پاکستان‘‘ کا تصور پیش کیا تھا‘یعنی ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام. انہوں نے کہا تھا کہ میرے نزدیک یہ تقدیر مبرم (destiny) ہے‘میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ہو کر رہے گا.

قیام پاکستان کے معجزے کے بعد پھر قرار دادِ مقاصد کا پاس ہونا بھی ایک معجزہ ہے. بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں دس کروڑ افراد کی قوم کی نمائندہ دستور ساز اسمبلی حاکمیت سے اپنی دستبرداری اور اللہ کی حاکمیت کا اعلان کر رہی تھی ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اِک وہی باقی بتانِ آزری! 

دستور ساز اسمبلی کی سطح پر یہ کلمۂ طیبہ کے پہلے جزو ’’لاالہٰ الا اللہ‘‘ کا اظہار و اعلان تھا. یہ سارے شواہد ہیں میرے اس گمان کے کہ یہ خطہ اسلام کے عالمی غلبے کا نقطۂ آغاز بنے گا. اب ضرورت ہے کمرِ ہمت کسنے کی اور اس مقصد کی طرف رجوع کرنے کی جس کی خاطر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا. میں نے اپنی کتاب ’’استحکامِ پاکستان‘‘ میں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اس ملک کی بقا اور سا لمیت کا انحصار بھی اسلام پر ہے. گویا اسلام اس ملک کا صرف مقصدِ وجود ہی نہیں اس کی واحد وجہِ جواز بھی ہے. اور اگر آپ نے اس منزل کی طرف رجوع نہ کیا تو یہ ملک باقی نہ رہے گا. میرے نزدیک اس ملک میں قیام اسلام کی بھرپور جدوجہد سے جہاں ہم پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ وہ فرض ادا ہو گا جو اللہ کی رضا اور ہماری آخرت کی نجات کا باعث بنے گا وہاں ہم دنیا کے سامنے اسلام کے نظامِ عدل و قسط کا کوئی نمونہ بھی پیش کر سکیں گے اور اس طرح اس اُمت کے اوپر جو عذاب کے سائے منڈلا رہے ہیں وہ دور ہو جائیں گے. ہم دنیا کے سامنے پاکستان کی صورت میں اسلام کی تصویر اور اسلام کا نقشہ پیش کر سکیں گے‘اور یہی وہ شے ہے جو امت پر سے بحیثیت مجموعی عذاب خداوندی کو ٹالنے والی ہے. اگر یہ نہیں ہوگا تو عذاب شدید سے شدید تر ہو گا. مزید برآں یہ ملک اپنے مقصدِ وجود کو پا لے گا تو مستحکم اور طاقتور ہو گا‘اور اس کے نتیجے میں اس قوم کے اندر وہ جذبہ ابھر آئے گا کہ کوئی امریکہ کیا امریکہ کا باپ بھی مقابلے پر سامنے نہیں آ سکے گا. لیکن اگر یہاں وہ جذبہ نہیں ابھرتا تو پھر جان لیجیے کہ اس ملک کے حصے بخرے ہوا چاہتے ہیں. ؎

الٰہی خیر میرے آشیاں کی
زمیں پر ہیں نگاہیں آسماں کی

پہلے تو یہ ۱۹۷۱ء میں دو لخت ہوا تھا. اب نہ معلوم کتنے مزید ٹکڑے ہوں. اب کیا پتہ کہ آپ کا آزاد کشمیر چھین کر اسے خود مختار کشمیر میں شامل کر دیا جائے. دوسرے یہ کہ شمالی علاقوں میں کوئی اسماعیلی ریاست قائم ہو جائے. تیسرے کہ کراچی کو کاٹ کر سنگاپور یا ہانگ کانگ کی طرح کا علیحدہ خطہ بنا دیا جائے. آخر کوئی وجہ تو ہے کہ بے نظیر شدت کے ساتھ اس کی تردید میں بیانات دے رہی ہیں کہ ہم نہیں بننے دیں گے. ہمارے سیاست دان ’’نہیں بننے دیں گے‘‘ کے الفاظ اسی وقت کہتے ہیں جب انہیں کوئی شے بنتی نظر آرہی ہو. ایک وقت میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے. اُس وقت یہ اُس دور کے بڑے بڑے سیاست دانوں نے کہا تھا. لیکن کیا نتیجہ نکلا؟ جب ہم نے بحیثیت قوم اپنی روش تبدیل نہیں کی اور اللہ کے ساتھ بدعہدی جاری رکھی تو اللہ کی طرف سے وہ سزا ملی کہ ہمارے ترانوے ہزار افراد‘جن میں سے تینتالیس ہزار فوجی اور باقی سویلین تھے‘اس ہندو کے قیدی بنے جس پر ہم نے کہیں آٹھ سوبرس‘کہیں چھ سوبرس اور کہیں ہزار برس تک حکومت کی تھی. تو یہ سزا دوبارہ اس سے بڑی شکل میں بھی آ سکتی ہے. چوتھے یہ کہ امریکہ بہادر بلوچستان کے ساحل پر نگاہ جما کر بیٹھاہوا ہے‘کیونکہ اسے ایک طرف ایران سے اور دوسری طرف چین سے نمٹنا ہے ‘اور یہ بات طے ہے کہ ہر ایک سے نمٹنے کے لیے قربانی کا بکرا بہرحال پاکستان ہے‘اس لیے کہ آپ کرائے کے فوجی ہیں.

آپ کو اس نے پہلے روس کے خلاف استعمال کیا‘اب چین کے خلاف استعمال کرے گا اور آپ نے استعمال ہونے کاہی فیصلہ کر رکھا ہے. آپ ابھی تک اپنے پائوں پر کھڑے ہی نہیں ہو سکے اور حال یہ ہے کہ جس منزل کی طرف چلے تھے اس منزل کی طرف پشت کر لی ہے. لہٰذا اب آپ کا حشر یہ ہو رہا ہے کہ آپ کے فوجی صومالیہ میں امریکہ کے مقاصد پورے کرتے ہوئے جانیں دے رہے ہیں. یہ وہاں جتنے بھی مر جائیں امریکہ کی بلا سے‘لیکن امریکی ایک بھی مر جائے تو قیامت آ جائے گی. جو خود مرنے کو تیار نہیں ان کے مقاصد پورے کرنے کے لیے جانیں آپ کی جائیں گی. امریکہ نے سوویت یونین کے ٹکڑے کروا دیئے اور دس لاکھ افغان مروا دیے. اب تک تو اس کا حاصل یہی ہے کہ سارا فائدہ امریکہ کو پہنچا ہے. لیکن بہرحال وہاں خلوص و اخلاص کے ساتھ بہت سے لوگوں نے جانیں دی ہیں جس کے‘ ان شاء اللہ‘ اچھے نتائج نکلیں گے. لیکن اچھے نتائج کے لیے اس راستے پر عمل پیرا ہونا ہو گا جو میں نے آپ کے سامنے قرآن و سنت کی روشنی میں رکھا ہے.