بیسویں صدی عیسوی کے آغاز اور چودھویں صدی ہجری کے ربع اوّل کے اختتام کے لگ بھگ جو عظیم شخصیت بیک وقت برعظیم پاک و ہند کے سیاسی و قومی افق پر بھی ضو فشاں تھی، اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے دینی و روحانی افق پر بھی خورشیدِ جہانتاب کے مانند چمک رہی تھی، وہ اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالی کی تھی، جنہیں ملت کے با شعور طبقات نے بجا طور پر شیخ الہند کا خطاب دیا... انہوں نے تقریباً نصف صدی تک روایتی تدریس و تعلیم اور تصنیف و تالیف میں مشغول، اور جہادِ حریت و استخلاصِ وطن میں سرگرم رہنے کے بعد، اپنی حیاتِ دنیوی کے آخری ایام میں جبکہ ان کی عمر ستر سال سے متجاوز ہوچکی تھی، اور بقول مولانا ابو الکلام آزاد "ان کا قد بھی ان کے دل کی مانند اللہ کے آگے جھک چکا تھا" دار العلوم دیوبند میں منعقدہ ایک اہم اجتماع میں حلقۂ دیوبند کے جملہ اکابر علماء کی موجودگی میں اپنی پونے چار سالہ اسیری کے دوران کے غور و خوض کا حاصل، اور تامل و تفکر کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا:
"میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معنا عام کیا جائے. بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں. بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے"
یہ روایت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی کی ہے جو اس اجلاس میں بنفسِ نفیس موجود تھے. اور انہوں نے اپنی تالیف ’’وحدتِ امت‘‘ میں نہ صرف یہ کہ شیخ الہند کے ان فرمودات کو نقل فرما کر امت پر ایک احسانِ عظیم کیا، بلکہ ان پر یہ حکیمانہ اضافہ بھی فرمایا کہ:
’’قرآن کو چھوڑنا، اور آپس میں لڑنا، غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے. قرآن پر کسی درجہ میں بھی عمل ہوتا تو خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی‘‘.
(وحدتِ امت، صفحات ۳۹، ۴۰)
عام محاورے کے مطابق تو اسے ’حسن اتفاق‘ ہی سے تعبیر کیا جائے گا لیکن حقیقتِ نفس الامری کے اعتبار سے یہ برّعظیم کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل و کرم کا مظہر ہے کہ عین اس وقت (۱۹۲۰ء مطابق ۱۳۴۰ھ) جب مذکورہ بالا آفتاب ہدایت غروب ہورہا تھا، وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَا ۪ۙ﴿۱﴾وَ الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا ۪ۙ﴿۲﴾ کے مصداق اور حضرت شیخ الہند کی اس گواہی کے عین مطابق کہ:
’’میرے اس درد کے غم خوار، جس میں میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں‘‘. (خطبۂ علی گڑھ)
جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے حلقے سے علامہ اقبال ایسے مفکر اسلام اور داعئ قرآن کی شخصیت ماہتاب عالمتاب کے مانند نمودار ہوچکی تھی... اور الحمد للہ کہ اس نابغۂ ملت کی تشخیص و تجویز بھی بالکل یہی تھی کہ ؎
خوار از مہجورئ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتندہ أُ
در بغل داری کتاب زندہ أ ُ
اور ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
فاش گویم آنچہ در دلِ مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
زندہ و پائندہ و گویا ست اُو
مثلِ حق پنہاں و ہم پیداست اُو
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود
اور ؎
برخور از قرآں اگر خواہی ثبات
در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات
مزید برآں، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کے فرمودات پر جو حکیمانہ اضافہ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی نے کیا تھا، اس حکیم الامت نے اس کی توثیق بھی نہایت آب و تاب اور غایت جلال و جمال کے ساتھ کردی. یعنی ؎
از یک آئینہ مسلماں زندہ است
پیکرِ ملت ز قرآن زندہ است
ماہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کن‘ کہ "حبل اللہ" اوست
چوں گہر درد رشتۂ او سفتہ شو
ورنہ مانندِ غبار آشفتہ شو!
گویا امت مسلمہ کے موجودہ زوال و اضمحلال اور ذلت و نکبت کے سبب کی تشخیص، اور اس کے اصل علاج کی نشاندہی کے ضمن میں چودہویں صدی ہجری کے ان دونوں اعاظمِ رجال کی آراء ؏ ، "متفق گردید رائے بو علی بارائے من" کے مصداق متحد اور متفق ہوگئیں، اور ایسا ہونا بالکل فطری تھا، چونکہ کلامِ الٰہی اور حدیث رسول کو دونوں کے غور و فکر کے اصل مبنیٰ و مدار اور منبع و سرچشمہ ہونے کی حیثیت حاصل تھی، اور آنحضور ﷺ کا یہ واضح ارشاد صحیح مسلم رحمہ اللہ تعالی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے کہ ان اللہ یرفع بھذا الکتب اقواما و یضع بہ اخرین یعنی اللہ تعالیٰ اسی کتاب (قرآن حکیم) کی بدولت بہت سی قوموں کو بامِ عروج پر پہنچائے گا، اور اسی (کو ترک کرنے) کے باعث دوسروں کو رسوا کردے گا". جو درحقیقت توضیح اور ترجمانی ہے ان آیاتِ قرآنیہ کی کہ:
وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ (۲)
اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾ (۳)
یعنی قرآن حکیم کسی شاعر کی لایعنی اور لاحاصل سخن سازی نہیں ہے بلکہ قوموں اور امتوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کا مظہر بن کر نازل ہوا ہے اور اب اسی کی میزانِ عدل میں قوموں کی (۱) آیۂ قرانی وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا . آل عمران: ۱۰۳
(۲) سورہ بنی اسرائیل. آیت ۱۰۵
(۳) سورۃ الطارق. آیات : ۱۳.۱۴ قیمتیں تولی جائیں گی اور امتوں کی تقدیروں کے فیصلے ہوں گے.
ان سطور کا عاجز و ناچیز راقم اس عالم آب و گل میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کی وفات کے بارہ سال بعد اور علامہ اقبال کی وفات سے چھ سال قبل (۱۹۳۲ء میں) وارد ہوا. اور جب اُس نے شعور کی آنکھ کھولی تو یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی کو تو ان کے اپنے حلقے کے لوگوں نے بھی فراموش کردیا تھا (۱) البتہ علامہ اقبال کا طوطی بول رہا تھا اور ان کی کم از کم اردو شاعری کا ڈنکا برّ عظیم کے طول و عرض میں بج رہا تھا. اور اس سے پیدا شدہ جذبۂ ملی تحریکِ پاکستان کی روحِ رواں بنا ہوا تھا. ان حالات میں جب ۱۹۴۲ء میں راقم نے پانچویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے "بانگِ درا" کی مشہور نظم "جوابِ شکوہ" پڑھی تو اس کا یہ شعر اس کے شعور میں پیوست ہوکر رہ گیا ؎ (۱) میرے نزدیک اس کا سبب ؏ . "اے روشنئ طبع تو برمن بلا شدی" کے مصداق حضرت شیخ الہند کی وہ وسعتِ نظر، وسعتِ ظرف، اور وسعتِ قلب تھی جس کے تحت انہوں نے ایک جانب تو وہ بات فرما دی جس کا حوالہ اوپر آچکا ہے. یعنی "میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں کے باسیوں کو یہ بات کسی طرح بھی اچھی نہیں لگ سکتی تھی. .... اور دوسری جانب اپنے تلامذہ، متوسلین اور مسترشدین کے حلقے سے باہر کے ایک ستائیس سالہ نوجوان کے بارے میں نہ صرف یہ کہ یہ فرما دیا کہ" اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا ہے" بلکہ اپنے قلبی احساسات کی ترجمانی اس شعر کے ذریعے بھی کردی کہ ؎ " کامل اس طبقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی. کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے" ... پھر ستم بالائے ستم یہ کہ ۱۹۲۰ء میں اپنے انتقال سے کچھ ہی دن پہلے یہ تجویز باصرار پیش فرمائی کہ جملہ علماء کرام اسی نوجوان (مولانا ابو الکلام آزاد کی عمر اس وقت کل بتیس برس تھی) کو امام الہند مان کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں... گویا حضرت شیخ الہند اور ان کے تلامذہ و متوسلین کا معاملہ اس شعر کا مصداقِ کامل ہے کہ ؎
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں ....... اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کردیا!
یہی وجہ ہے کہ جب راقم نے پہلی بار مولانا سید حامد میاں مہتمم جامعہ مدنیہ لاہور اور خلیفۂ مجاز سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالی کے سامنے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ چودہویں صدی ہجری کے اصل مجدد حضرت شیخ الہند تھے تو وہ ایک دم چونک سے گئے. اور انہوں نے میری رائے کی تصویب فرماتے ہوئے اعتراف کیا کہ حلقۂ دیوبند میں کسی کا ذہن ادھر نہیں گیا. اور نگاہیں یا مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی کی طرف اٹھتی رہیں یا مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی کی جانب!
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
لہذا راقم نے اپنی نوجوانی میں اگرچہ عملاً تو اولاً مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذریعے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا، اور بعد ازاں اسلامی جمعیتِ طلبہ کے ذریعے تحریکِ اقامتِ دین سے وابستگی اختیار کی... لیکن اس عرصہ کے دوران، بحمداللہ، قرآن حکیم کے ساتھ اس کے ذہن و قلب کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا... اور اس "سیر الی القرآن" کے ضمن میں راقم جہاں مولانا ابو الاعلی مودودی اور ان کی تفہیم القرآن، اور مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کے ترجمان القرآن سے متعارف ہوا، اور اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے استاذ اور امام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ تعالی کے طریق ’تدبر قرآن‘ سے روشناس ہوا، وہاں الحمد للہ کہ ۱۹۵۲ء کے لگ بھگ اس کا ذہنی و قلبی رشتہ حضرت شیخ الہند کے ترجمۂ قرآن اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کے حواشی کے ذریعے سلفِ صالحین اور راسخون فی العلم کے "عروہ وثقیٰ" سے بھی قائم ہوگیا... اور اس کے بعد تین چار سال کے اندر اندر ہی راقم کے فہرم و فکرِ قرآن کے ان ’ابعادِ ثلاثہ‘ پر ایک ’بعدِ رابع‘(FOURTH DIMENSION) کا اضافہ علامہ اقبال کے فلسفیانہ ، اور صحیح تر الفاظ میں متکلمانہ اور متصوفانہ افکار کا ہوگیا (جن کے ضمن میں راقم ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا مرہونِ منت ہے).
راقم کے درس قرآن کا چرچا زمانۂ تعلیم ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دوران ہوگیا تھا. ۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد راقم منٹگمری (حال ساہیوال) منتقل ہوا تو اگرچہ اس کے بعد سے ۱۹۶۵ تک کے گیارہ سالوں کے دوران حالات کے کئی اتار چڑھاؤ آئے اور وصل و فصل کی متعدد داستانیں رقم ہوئیں، چنانچہ جماعتِ اسلامی سے وابستگی بھی ہوئی اور پھر سوا دو سال کے بعد علیحدگی بھی. مزید بر آں دو مرتبہ کراچی نقل مکانی ہوئی، ایک بار ۱۹۵۸ء میں اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے نئی رفاقت کی تلاش میں، اور دوسری بار ۱۹۶۲ء میں ایک مشترک خاندانی کاروبار کے سلسلے میں . لیکن الحمدللہ کہ اس پورے عرصے کے دوران ؎
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا!
کے مصداق درس و تدریسِ قرآن اور تعلم و تعلیم قرآن کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا. چنانچہ ساہیوال میں تو نہ صرف یہ کہ مقامی طور پر میرے درسِ قرآن کا ڈنکا بج گیا تھا بلکہ آس پاس کے شہروں اور قصبوں یعنی اوکاڑہ، پاکپتن، چیچہ وطنی اور عارف والہ میں بھی ماہانہ درسِ قران کا سلسلہ چل نکلا تھا... اسی طرح کراچی میں بھی کبھی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی مرحوم کے زیر اہتمام .... اور کبھی خود اپنے ہی انتظام و انصرام میں درس قرآن کا سلسلہ جاری رہا.... مزید برآں، کراچی کی پہلی نقلِ مکانی کے دوران راقم نے مولانا افتخار احمد بلخی مرحوم سے تفسیر بیضاوی کا ابتدائی حصہ سبقاً سبقاً پڑھا اور دوسری نقلِ مکانی کے دوران ان ہی کے اصرار پر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ۱۹۶۵ء میں ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کرلیا. (جس میں اتفاقاً یونیورسٹی میں اوّل پوزیشن بھی آگئی!)
۱۹۶۵ء ہی کے وسط میں راقم الحروف غلبہ و اقامتِ دین کی جدوجہد کے پختہ ارادے، اور تعلم و تعلیمِ قرآن کی منظم منصوبہ بندی کے عزمِ مصمم کے ساتھ دوبارہ واردِ لاہور ہوا. چنانچہ وہ دن اور آج کا دن یہی دو کام میری زندگی کا مرکز و محور رہے ہیں. اور ان پچیس سالوں کے دوران، الحمد للہ، ثم الحمدللہ، کہ میرے اوقات اور میری صلاحیتوں اور توانائیوں کا اکثر و بیشتر حصہ اصلاً غلبہ و اقامتِ دین کی جدوجہد، اور عملاً تعلم و تعلیمِ قرآن کی مساعی میں صرف ہوا ہے.
اس ربع صدی کے پہلے پانچ سالوں کے دوران تو ؎
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
کیا طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی
کے مصداق میڈیکل پریکٹس کا تسمہ بھی لگا رہا... بعد کے بیس سالوں کے دوران تو ..؏ . "جو لکھا پڑھا تھا نیاز نے اسے صاف دل سے بھلا دیا!" اور. ؏ . "وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا" کے مصداق یہ ’تہمت‘ بھی باقی نہ رہی. اور‘نیتوں کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے‘ کم از کم ظاہری اور خارجی اعتبار سے اس پورے عرصےکے دوران راقم ’ہمہ وقت‘ اور’ہمہ وجوہ‘ ان ہی مقاصدِ عظیمہ کے لیے ’وقف‘ رہا. اور ناگزیر استراحت‘ اور ضروری علائق و حوائجِ دنیوی کے سوا راقم کے وقت کا کوئی لمحہ، اور اس کی صلاحیت اور توانائی کا کوئی شمّہ حصولِ دنیا یا تلاشِ معاش کی مساعی میں صرف نہیں ہوا! فلہ الحمد والمنۃ!!
اور اب جبکہ راقم کی عمر شمسی حساب سے اٹھاون، اور قمری تقویم سے ساٹھ برس ہوا چاہتی ہے، اور راقم کی قلبی کیفیت فی الواقع وہی ہے جو انشاء اللہ خاں انشا کے اس شعر میں بیان ہوئی کہ ؎
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
اور میں واقعۃً اپنے آپ کو الفاظ قرآنی: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۸۵﴾ کے مصداق عالمِ آخرت سے قریب تر اور عالمِ دنیا سے ذہناً اور قلباً بعید اور منقطع محسوس کرتا ہوں. جب کبھی تنہائی میں اپنی گزشتہ زندگی خصوصاً اس کے چالیس سالہ شعور دور پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ... اولاً تو نہ صرف یہ کہ اپنے باطن میں نہایت گہرے سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ ؏ "جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے" بلکہ قلب و روح کی سرزمین پر ایک جانفزا فرحت اور مسرت آمیز انبساط کی تسکین بخش پھوار سی پڑتی محسوس ہوتی ہے کہ ؏ . "شادم از زندگئ خویش کہ کارے کردم" اور اس کے معاً بعد قلب کی گہرائیوں سے شکرِ الہی اور حمدِ خداوندی کا چشمہ ابلنے لگتا ہے کہ یہ سب اس کا فضل و کرم اور اسی کی توفیق و تیسیر ہے، ورنہ من آنم کہ من دانم!! ...بلکہ یہ تو ایک مشہور مقولہ ہے جو غیر ارادی طور پر قلم سے ٹپک پڑا ورنہ واقعہ یہ ہے کہ یہ میرے حقیقی اور واقعی احساس کی تعبیر سے قاصر ہے، اس لیے کہ، بحمد اللہ، میرے سامنے تو ہر آن یہ حقیقت رہتی ہے کہ : ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾
قارئین میرے اس اظہارِ اطمینان و انبساط کو کسی تعلی، یا تکبر، یا اعجابِ نفس پر محمول نہ کریں. اس لیے کہ راقم کے نزدیک اس حقیقت کا شعور و ادراک تو ایمان کا صرف ابتدائی درجہ ہے کہ انسان کا کوئی ارادہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و تیسری کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا. اللہ کے فضل و کرم سے راقم الحروف کو تو اس امر کا بھی حق الیقین حاصل ہے کہ خود انسانی ارادہ بھی سراسر مشیتِ الہی کے تابع ہے اور کسی نیک کام کی توفیق و تیسیر ہی نہیں، اس کے ارادے کی ابتدائی تحریک بھی اس کی جانب سے ہوتی ہے. گویا معاملہ صرف "لاحول ولا قوۃ الا باللہ... اور "لا فاعل فی الحقیقۃ ولا مؤثر الا اللہ" ہی کا نہیں، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ (الدھر: ۳۰) کا ہے!! اور میرے نزدیک ثُمَّ جِئۡتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوۡسٰی ﴿۴۰﴾وَ اصۡطَنَعۡتُکَ لِنَفۡسِیۡ ﴿ۚ۴۱﴾ (طٰہٰ: ۴۰.۴۱) . کی کیفیت صرف حضرت موسی علیہ السلام ہی کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ مبدء فیاض کی جانب سے جس انسان کو بھی کسی خیر کی توفیق ارزانی ہوتی ہے اس کے معاملے میں کسی نہ کسی درجے میں اسی کیفیت کا انعکاس موجود ہوتا ہے!
اور "من آنم کہ من دانم" کے مصداق، ظاہرہے کہ‘ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ میرا رب مجھے کہاں کہاں سے بچا کر لایا ہے، کن کن مراحل پر اس نے میری دستگیری فرمائی ہے، اور کن کن مواقع پر اس نے مجھے گویا دھکیل کر اپنی راہ پر لگایا، اور کسی دوسری جانب متوجہ ہونے سے روکا ہے!
لہذا میرا اظہار مسرت ہرگز کسی جذبۂ تفاخر و مفاخرت کی بنا پر نہیں، بلکہ محض، "تحدیثا للنعمۃ" ہے. اور شکرِ خداوندی اور وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾ (الضحی:۱۱) کی تعمیل کے علاوہ اگر کوئی اور جذبہ اس میں شامل ہے تو وہ بھی فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ (التوبہ: ۱۱۱) اور فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ (یونس:۵۸) کے سوا کچھ نہیں.
تو کیسے ممکن ہے کہ میں اظہار مسرت نہ کروں، بلکہ خوشیاں نہ مناؤں اس پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک عاجز اور ناچیز بندے کو جس نے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم پائی، اور جو کالج کی سطح پر نہ کبھی ادب یا فلسفہ کا طالب علم رہا، نہ عمرانیات یا اسلامیات کا، بلکہ سائنس اور طب کی تحصیل میں مصروف رہا، .. "انا اخلصنہم بخالصۃ" کے مصداق اپنی کتابِ حکیم کے علم و حکمت اور خاص طور پر اس کی دعوت کی نشر و اشاعت کے لیے اس درجہ ’خالص‘ کرلیا کہ اسے ؎
ما ہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیث دوست کہ تکرار می کنیم
کے مصداق تعلیم و تعلم قرآن کے سوا دنیا کی کسی دوسری چیز سے کوئی دلچسپی نہ رہی اور پھر اس کے درس قرآن کو اتنا قبول عام بخشا کہ وہ عوامی درسِ قرآن کے اس خواب کی عملی تعبیر بن گیا جو لگ بھگ نصف صدی قبل چودھویں صدی ہجری کے مجدد اعظم نے دنیا سے رحلت کے قریب دیکھا تھا! ؏ "یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے".
رہا شکرِ خداوندی، تو واقعہ یہ ہے کہ اگر میرے ہر بنِ مو ہی نہیں، جسم کے ہر خلیےکو زبان عطا ہوجائے جو ہر لحظہ اور ہر آن حمد و تسبیح میں مشغول رہے، تب بھی اللہ تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم اور ’فضلِ کبیر‘ (جو یقیناً اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ﴿۸۷﴾ (بنی اسرائیل: ۸۷) ہی کا ایک ادنیٰ عکس ہے) کے شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا جو اس عبدِ ضعیف پر اس صورت میں ہوا کہ اس نے اوّلاً اسے اپنی اس کتابِ عزیز کے علم و فہم اور ہدایت و حکمت کے ساتھ ذہنی اور قلبی مناسبت عطا فرمائی جسے خود اس نے اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ کی رو سے اپنی شانِ رحمانیت کا مظہرِ اعظم قرار دیا ہے، اور پھر اسے اس دور میں کم از اردو سمجھنے والے لوگوں کی حد تک خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ کی عملی تفسیر بنا دیا. اور "بیان القرآن" کے لیے اس کے ذہن اور زبان کی گرہوں کو اس طرح کھول دیا کہ بلا مبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں انسان اس کے درسِ قرآن کو مسلسل دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے تک بالکل ساکن و ساکت اور ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہیں اور ان کی دلچسپی بجائے کم ہونے کے بڑھتی چلی جاتی ہے!
ناواقف حضرات ان الفاظ کو یقیناً مبالغے پر محمول کریں گے، لیکن اس تحریر میں اس حقیقت واقعی کے مفصل شواہد پیش کرنا نا ممکن ہے نہ مطلوب! البتہ وہ ہزاروں اشخاص جنہوں نے کبھی لاہور میں مسجد خضراء یا مسجد شہداء کے اتوار کی صبح کے ہفتہ وار درسِ قرآن کا منظر دیکھا ہے، یا جنہوں نے کراچی کی بے شمار مساجد میں درسِ قرآن کے اجتماعات، اور ان پر مستزاد تاج محل ہوٹل کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں "شام الہدی" کی نشستوں میں سے کسی میں شرکت کی ہے، یا جنہیں ستمبر ۱۹۷۹ء میں ٹورنٹو(کینیڈا) کے چودہ روزہ درسِ قرآن کی کیفیات کے مشاہدے کا موقع ملا ہے، یا جنہوں نے دسمبر ۱۹۸۵ء میں ابو ظبی کے ہفت روزہ مجالسِ درس کے شرکاء کے جوش و خروش اور ہجوم و اژدھام کی جھلک دیکھی ہے.. اور سب سے بڑھ کر جنہوں نے اپریل ۱۹۸۴ء میں مکہ مسجد، حیدر آباد (دکن) کا منظر دیکھا ہے جہاں مسلسل تین دن محتاط ترین اندازے کے مطابق پندرہ ہزار مردوں اور پانچ ہزار خواتین نے ڈھائی ڈھائی گھنٹے کے خطباتِ قرآنی میں انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ شرکت کی تھی، وہ گواہی دیں گے کہ مبالغے کا کیا سوال، مندرجہ بالا الفاظ تو ان مجالس کی واقعی کیفیات کی بدرجۂ ادنیٰ ترجمانی سے بھی یکسر قاصر ہیں!
اسی طرح پاکستان ٹیلیویژن پر لگ بھگ چار سال تک راقم کے ’بیان القرآن‘ کا جو ڈنکہ بجتا رہا اس کی حسین اور خوشگوار یادیں، اس کی بندش پر ساڑھے سات سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود، لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے قلوب و اذہان میں اب تک تازہ ہیں. چنانچہ مسلسل تین سال تک پورے ماہ رمضان مبارک کے دوران افطار سے متصلاً قبل "الکتٰب" اور "الم" کروڑوں بندگانِ خدا کے لیے "نور علی نور" کے مصداق روزہ کی برکات پر مستزاد روح کی بالیدگی کا سامان فراہم کرتے رہے، اسی طرح" حکمت و ہدایت" کے ذریعے ذہن و فکر کو قرآنی غذا ملی، تو "رسول کامل" کے ذریعے قرآنی فلسفۂ رسالت، اور نبی اکرم ﷺ پر نبوت کے اختتام اور رسالت کی تکمیل کے عملی تقاضوں کے شعور کی خوشبو سے پاکستان کی فضائیں معطر ہوئیں، اور سب سے بڑھ کر جب مسلسل پندرہ ماہ تک ہر ہفتے "الھدی" کے ہدایت آفریں اور ایمان پرور نغموں سے پاکستان کا طول و عرض وجد میں آ گیا (اس لیے کہ یہ پروگرام پورے پاکستان میں نیشنل ہک اپ پر پاکستان کے تمام ٹیلیویژن اسٹیشنوں سے بیک وقت ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا) تو ایک جانب اسے جو قبولِ عام حاصل ہوا، اور اس سے جو شہرت راقم کو حاصل ہوئی اس کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ راقم کو اپنے بارے میں فتنہ و استدراج کے اندیشے لاحق ہوگئے. اور دوسری جانب ؎
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں
کے مصداق الحاد اور اباحیت کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا اور مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کے دلدادہ مردوں اور عورتوں کی جانب سے الامان و الحفیظ کا شور اسی طرح بلند ہوا جس طرح کبھی حضرتِ موسی کی للکار سے فرعون اور اس کے حواریوں کے ایوانوں میں وَ یَذۡہَبَا بِطَرِیۡقَتِکُمُ الۡمُثۡلٰی ﴿۶۳﴾ کی دہائی کی صورت میں ہوا تھا. یعنی ’یہ دونوں (موسی اور ہارون " چاہتے ہیں کہ تمہاری مثالی تہذیب کو تباہ اور تمہارے قابلِ فخر تمدن کو ملیا میٹ کردیں، پس اپنی پوری قوت کو مجتمع کرو اور ان کے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہو! گویا بقول اقبال ؏ "نظام کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے"(۱)
تو کیسے ممکن ہے کہ میری روح وجد میں نہ آئے اور میں اپنے باطن میں اس کیفیت کے حامل "رقصِ جاں" کا مشاہدہ نہ کروں جس کا نقشہ عرفی نے اپنے اس شعر میں کھینچا ہے کہ ؎
چہ خوش رقصید عرفی بردرِ کاشانۂ وحدت
برہمن گفت ایں کافر چہ استادانہ می رقصد!
جبکہ میرے علم میں مخبر صادق ﷺ کی دی ہوئی یہ ’خبر‘ بھی ہے کہ:
مَا جْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ یَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَ غَشِیَتْھُمْ الرَّحْمَۃُ وَ حَفَّتْھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ وَ ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ (۲)
بلکہ اس خبر سے بڑھ کر وہ "ضمانت" بھی ہے جو اس طویل حدیث کے آخر میں وارد ہوئی (۱) اس پر بھی اللہ کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے اس آزمائش میں بھی مجھے کامیابی عطا فرمائی اور میں نے ٹی وی سے مستقل انقطاع قبول کرلیا لیکن اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا نہ. کی.
(۲) مسلم عن ابی ہریرہ: جب بھی کبھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اس کی کتاب پڑھتے ہیں اور آپس میں سمجھتے سمجھاتے ہیں تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے، رحمتِ خداوندی ان پر سایہ کرلیتی ہے، فرشتے ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ اپنے (ملائکہ و ارواح) مقربین کے سامنے کرتا ہے" ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کے مطابق آنحضور ﷺ کے یہ ارشاد فرمانے پر کہ اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ (عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہوگا) جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: "ماالمخرج منھا یا رسول اللہ؟" (اے اللہ کے رسول ﷺ اس سے بچ نکلنے کا راستہ کون سا ہوگا؟) تو اس کا کافی و شافی جواب تو آپ ﷺ نے کتاب اللہ کی مدح اور اس کی عظمت کے بیان میں فصاحت و بلاغت کے جو موتی پروئے ان میں خود قرآن کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا کامل عکس موجود ہے. اور جہاں اس ’بیانِ عظمت قرآن‘ کے تین تین حسین جملوں پر مشتمل یہ حصے بھی لائق حفظ ہیں کہ:
فِیہِ نَبَأَ مَا قَبْلَکُمْ وَ خَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَ حُکْمَ مَابَیْنَکُمْ
وَ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ وَ ھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْم
لَاتَنْقَضِی عَجَائِبُہٗ وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاء وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کثْرَۃِ الرَّدِّ
مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ وَ مَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ وَ مَنْ حَکَمَ بِہٖ عَدَلَ
وہاں آخری نویدِ جانفزا تو اس قابل ہے کہ ہر خادمِ قرآن اسے حرزِ جاں بنا لے. یعنی:
وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱) (۱) جامع ترمذی و سنن دارمی:
اس میں تم سے پہلے گزر جانے والوں کی اطلاعات بھی ہیں، اور تمہارے بعد پیش آنے والے حالات کی خبر بھی ہے اور تمہارے مابین ہونے والے جملہ اختلافات اور نزاعات کا حل بھی ہے.
یہی اللہ کی مضبوط رسی ہے، اور یہی حکمت بھرا ذکر ہے، اور یہی صراط مستقیم ہے اس کی رعنائیاں کبھی ختم نہ ہوں گی اور اہل علم اس سے کبھی سیر نہ ہوں گے اور بار بار پڑھنے کے باوجود اس پر باسی پن طاری نہ ہوگا.
جس نے اس کی بنیاد پر کوئی بات کی اس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس کا اجر محفوظ ہے، اور جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا... (اور سب سے بڑھ کر یہ کہ) جس نے اس کی جانب دعوت دی (خواہ کسی اور کو اس سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو) خود اس کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب ہوگئی !!! ان بشارتوں اور ضمانتوں پر بھی اگر کوئی ’داعی الی القرآن‘ فرط مسرت سے جھوم نہ اٹھے تو یا تو اس کا وعظ و درس خالص ریاکاری پر مبنی ہے، اور اس کا ضمیر اسے متنبہ کرتا رہتا ہے کہ تم یہ ساری دوڑ دھوپ خالصۃً لوجہ اللہ نہیں کر رہے، یا اس کی ساری تگ و تاز صرف عقل اور حواس کی وادیوں تک محدود ہے، اور ؏ ، گزر ان کا ہوا کب عالمِ اللہ اکبر میں!. کے مصداق قلب کی اس وادی میں اس نے قدم ہی نہیں رکھا جہاں فطرت سلیمہ کی گہرائیوں سے شکر و حمد کے چشمے ابلتے ہیں. اور انشراح و انبساط کے پھول کھلتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ یَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنۡکِرُوۡنَہَا (النحل: ۸۳) کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں. اعاذنا اللہ من ذلک.
معذرت خواہ ہوں کہ بات ؏ "لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم" کے مطابق طویل ہوگئی، حاصل کلام یہ کہ عمر کے اعتبار سے "شامِ زندگی" کے اس دور میں قدم رکھتے ہوئے جس کے بعد "صبحِ دوام زندگی" ہی کے طلوع کا انتظار ہے، راقم بحمد اللہ اپنے ماضی کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہے کہ ؏ "جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے" اور ؏ "شادم از زندگئ خویش کہ کارے کردم" اور ایک عربی مصرعے "وَاَرْجُوْہُ رَجَاءً لَایَخِیْبٗ" کے مصداق راقم کو امید واثق ہے کہ جس نے توفیق عطا کی، اور تیسیر فرمائی، وہ شرفِ قبول بھی ضرور عطا فرمائے گا.
رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰىہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۹﴾ (۱)
راقم پر اللہ تعالیٰ کا مزید فضل و کرم یہ ہے کہ جس کام میں اس نے اپنی متاعِ زیست صرف النمل: ۱۹. اے میرے رب، مجھے ہمت عطا فرما کہ میں تیرے اس فضل کا شکر ادا کرسکوں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا، اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں وہ کام کروں جو تجھے پسند ہوں، اور اپنی رحمت کے طفیل مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لے! کی اور تحریک تعلیم وتعلم قرآن کے جس پودے کو اس نے اپنے خون اورپسینے سے سینچا اورپروان چڑھایا اس کے مستقبل کے بارے میں وہ بہت پرامید ہے:
راقم کی یہ امید اصلاتوظاہر ہے کہ وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ کے مطابق اللہ ہی کے سہارے قائم ہے ،تاہم اسی کے فضل وکرم سے عالم اسباب میں بھی اس امید کی پیدائش اورافزائش کے دواسباب وجود میں آچکے ہیں:
ایک یہ کہ میرے دروس وخطبات کے سمعی اوربصری کیسٹ پوری دنیا میں بہت بڑی تعداد میں پھیل چکے ہیں .ان کی صحیح تعداد کاعلم توظاہر ہے کہ سوائے اللہ کے اورکسی کونہیں ہوسکتا،س لیے کہاَحۡصٰی کُلَّ شَیۡءٍ عَدَدًا ﴿٪۲۸﴾ (الجن:۲۸) اسی کی شان ہے .کتابوں کامعاملہ مختلف ہے ،ان کے ایڈیشن بھی گنے ہوئے ہوتے ہیں اورہرایڈیشن کی تعداد بھی معلوم ہوتی ہے ،بخلاف کیسٹوں کے ،کہ ان کے تونقل درنقل کاسلسلہ لامتناہی ہوتا ہے جوازخود دراز ہوتاچلاجاتا ہے ،اورکہیں سے کہیں جاپہنچتا ہے...تاہم محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں میرے دروس قرآن اورخطبات قرآنی کے محض سمعی(آڈیو)کیسٹ توپندرہ بیس لاکھ سے ہرگز کم نہ ہوں گے اورسمعی وبصری (ویڈیو)کیسٹوں کی تعداد بھی بیس پچیس ہزار ضرور ہوگی،واللہ اعلم!آڈیو کیسٹوں کااہم ترین سلسلہ تومطالعہ قرآن حکیم کے میرے اپنے مرتب کردہ منتخب نصاب کے دروس کاہے جومیری اس قرآنی تحریک کی جڑ اوراساس ہے .اورچونکہ میں نے اس نصاب کادرس بارہادیا ہے کبھی مختصر اورکبھی نہایت مفصل ومطول لہذا اس کے کئی سیٹ موجود ہیں!.
البتہ اس منتخب نصاب کے دروس کی ایک ریکارڈنگ وہ بھی ہے جو "کیزایڈورٹائزنگ کمپنی کراچی"کے مالک لطف اللہ خان صاحب کے ذوق وشوق اوراصرار واہتمام کے نتیجے میں ان کے ذاتی،ساؤنڈ پروف اسٹوڈیو،میں ٹھیک آدھے آدھے گھنٹے کے ٹکڑوں (CHUNKS) کی صورت میں ہوئی.اورچونکہ میرایہ بیان ایک بندکمرے میں ہواجس میں میرے اورخان صاحب موصوف کے سوا،کوئی ،سامعین موجود نہیں ہوتے تھے ،لہذا ان میں خطابت کاجوش وخروش توبالکل نہیں ہے تاہم ریکارڈنگ بھی صاف ہے اورانداز بیان بھی سادہ اور عام فہم !لہذا ان کی مستقل افادیت کادائرہ وسیع تر بھی ہے اورپائدار بھی ...ایک ایک گھنٹے کے چوالیس کیسٹوں پرمشتمل یہ سیٹ بحمداللہ ہزاروں کی تعداد میں تیارہوا اوراللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں کہاں تک پہنچا !
اسی طرح "حقیقت واقسام شرک"کے موضوع پر میرے خطبات کے کیسٹوں کاایک سیٹ بھی بحمداللہ بہت عام ہوا....اورجہاں بعض چوٹی کے علماء کے بارے میں اطلاع ملی کہ انہوں نے اس کی بہت قدراورتحسین فرمائی،وہاں بعض حضرات ایسے بھی علم میں آئے جنہوں نے ان کیسٹوں کوزیادہ سے زیادہ تعداد میں پھیلانے ہی کوایک مستقل مشن کے طور پراختیار کررکھا ہے .(یہ سیٹ ایک ایک گھنٹے کے چھ کیسٹوں پرمشتمل ہے !).
ستمبر1979ءمیں ٹورنٹو(کینیڈا)کے جس چودہ روزہ درس قرآن کاذکر پہلے ہوچکا ہے اس کے مکمل کیسٹ ایک کرم فرما سمیع اللہ خان صاحب نے نہایت اہتمام اورمحنت ومشقت سے تیار فرمائے جن کی ریکارڈنگ کامعیار نہایت اعلی تھا،یہ سیٹ بھی بحمداللہ مشرق ومغرب میں بہت دور دور تک پہنچا.
اسی طرح فروری 1978ء میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی مختلف بلاکوں کی مساجد میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پرنوتقاریر کاراؤنڈ مکمل کیاگیاتھااس کے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے گیارہ کیسٹوں کاسیٹ بھی بڑی تعداد میں شائع ہوا.
میراابتداء سے پورے قرآن مجید کاسلسلہ وار درس بیس سال میں تکمیل کوپہنچا ہے اس کی پوری ریکارڈنگ توموجود نہیں ہے اس لیے کہ آغاز میں خاص اہتمام بھی نہیں تھا،علاوہ ازیں ابھی کیسٹوں کارواج بھی نہیں ہوا تھابلکہ ریکارڈنگ بھاری بھرکم ریکارڈوں کے ذریعے ٹیپ کی ،چرخیوں (spolls) میں ہوتی تھی،تاہم بحمداللہ بہت سے حصوں کے بالخصوص بائیسویں پارے کے بعد کی اکثروبیشتر سورتوں کے دروس کیسٹوں میں محفوظ ہیں!
اوران سب سے بڑھ کر یہ کہ رمضان المبارک میں نماز تراویح کے ساتھ ،دورہ ترجمہ قرآن ،کاجوسلسلہ پانچ چھ سال سے شروع ہوا ہے اس نے تواللہ کے فضل وکرم سے فی نفسہ اوربجائے خود ایک مکمل تحریک کی صورت اختیار کرلی ہے ،اوراس کے 1985ء کے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹوں کے تریسٹھ، اور ۱۹۸۷ء کے ایک ایک گھنٹے کے تراسی کیسٹوں کے سیٹ سینکڑوں کی تعداد میں تو ہمارے اپنے اہتمام میں تیار ہوکر پھیل چکے ہیں. آگے یہ کہاں کہاں تک پہنچے اس کا حساب صرف اللہ کے پاس ہے.
ان کے علاوہ بے شمار دینی موضوعات پر میری لاتعداد تقاریر آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں میں محفوظ ہیں، اور گاہے گاہے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو راقم سے اپنا ابتدائی تعارف ہی اس حوالے سے کراتے ہیں کہ "میرے پاس آپ کے تین صد، یا چار صد، یا پانچ صد کیسٹ موجود ہیں"
بصری (ویڈیو) کیسٹوں کا سلسلہ دیر میں شروع ہوا تھا... اور میرے علم کی حد تک اس کا پہلی بار خصوصی اہتمام رفقائے ابو ظبی نے دسمبر ۱۹۸۵ء میں کیا تھا. وہاں کے نو روزہ پروگرام کے جو ویڈیو تیار ہوئے ان کا فنی معیار بہت بلند تھا، ... لہذا وہ بھی ٹورنٹو کے آڈیوز کی طرح بہت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچے. چنانچہ ان کے حوالے سے کبھی کوئی خط جنوبی ہند اور سیلون سے آجاتا ہے تو کبھی جنوبی افریقہ سے، اور کبھی آسٹریلیا سے آجاتا ہے تو کبھی یورپ کے کسی ملک سے! وقِس علی ذلک!
اس کے بعد سے ویڈیو ریکارڈنگ کا سلسلہ بھی بڑے پیمانے پر چل نکلا. چنانچہ اس وقت صرف لاہور میں تیار ہونے والے تین تین گھنٹے کے ویڈیو کیسٹوں کے ایک صد چار (104) اساسی نسخے(MASTER COPIES) دفتر انجمن میں موجود ہیں. جن میں اہم ترین سیٹ ۱۹۸۷ء کے مکمل دورۂ ترجمہ قرآن، سورۂ ق سے سورۂ مزمل تک کے مسلسل درس قرآن، اور مارچ ۸۹ء کے محاضراتِ قرآنی کے پرورگرام میں ہونے والے ’اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی‘ کے خطبات پر مشتمل ہیں.
ان پر ایک مستقل قسم (CATEGORY) کا اضافہ کرلیا جائے کہ اندرونِ ملک گزشتہ بیس سالوں کے دوران جن بے شمار شہروں اور قصبوں کے دورے میں نے کیے ان کے دروس اور خطابات اور گزشتہ دس سالوں کے دوران امریکہ، یورپ، بھارت، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے چوبیسویں دورے میں نے کیے اور ان کے دوران سینکڑوں شہروں میں جو درس دیے یا تقاریر کیں ان کے جو آڈیو اور ویڈیو کیسٹ مقامی حضرات نے تیار کیے اور ان کی جو نقول وہاں گردش میں ہیں ان کا حساب بھی صرف عالم الغیب والشہادہ کے علم میں ہے! اقبال کے اس شعر کے مصداق کہ
فارغ تو نہ بیٹھے محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
راقم کو یقین ہے کہ قرآن کی وہ انقلابی دعوت جو ان لاکھوں کیسٹوں کے ذریعے پورے کرۂ ارضی پر گونج رہی ہے . (۱) ہرگز بے نتیجہ اور غیر مؤثر نہیں ہوسکتی، اور جس طرح ایران کے انقلاب کو دنیا نے "کیسٹ ریوولیوشن" قرار دیا تھا اسی طرح، انشاء اللہ العزیز، مستقبل کے اسلامی انقلاب اور اسلام کے عالمی غلبے کے ضمن میں راقم کے دروس و خطباتِ قرآنی کے یہ کیسٹ مؤثر اور فیصلہ کن رول ادا کریں گے.. اور اولاً تو، جیسے کہ میں نے اپنی تالیف استحکامِ پاکستان میں دلائل و شواہد کی بنیاد پر عرض کیا ہے، اس عالمی اسلامی انقلاب کا نقطۂ آغاز سلطنتِ خداداد پاکستان ہی بنے گا. لیکن اگر ہماری شامتِ اعمال سے پاکستان یہ سعادت حاصل نہ کرسکتا تب بھی فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹﴾ (الانعام: ۸۹) کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کیسٹوں کے ذریعے پھیلنے والی دعوتِ قرآنی کو کسی اور زمین میں بار آور فرمائے گا. اس لیے کہ بحمد اللہ یہ وقت کے ذہنی و فکری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے اور قلب و روح کے تغذیہ و تقویت کا بھی پورا سامان رکھتی ہے، (۱) ان کیسٹوں کے پھیلاؤ کی وسعت کا کسی قدر اندازہ دو واقعات سے ہوسکتا ہے جو راقم کے حالیہ دورۂ امریکہ اور سفرِ بھارت کے دوران پیش آئے. (1) سیرا کیوز (امریکہ) میں جماعتِ اسلامی ہند کے قیم جناب محمد افضل کے صاحبزادے ڈاکٹر عمر افضل سے ملاقات ہوئی تو اثنائے گفتگو میں ایک اسلامی تحریک کے سربراہ کا ذکر آگیا. میں نے ایسے ہی کہہ دیا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ میرے کیسٹ بہت سنتے ہیں تو عمر افضل صاحب کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے: "آپ کے کیسٹ کون نہیں سنتا؟ اور کس کے پاس نہیں ہیں؟" (2) حیدر آباد دکن میں اکتوبر ۱۹۸۹ کی پندرہ، سولہ اور سترہ تاریخوں کو گاندھی بھون کے پرکاشم ہال میں جو خطبات راقم نے امت مسلمہ کا ماضی، حال اور مستقبل کے موضوع پردئیے ان کے کیسٹ روز کے روز تیار ہورہے تھے، اور پہلے دن کے کیسٹ اگلے روز بک جاتے تھے. آخری روز معلوم ہوا کہ گزشتہ روز کے خطاب کے سات سو کیسٹ تیار ہوسکے تھے جو سب کے سب بک گئے، اور مانگنے والے ابھی باقی تھے لہذا بہت سے حضرات محروم رہ گئے. فلہ الحمد والمنۃ. اگرچہ سب کچھ ہے محض اس کی دین، اور اس کا کرم ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
تعلم و تعلیمِ قرآن کی جس تحریک میں راقم الحروف نے اپنی حیاتِ مستعار کے پچیس سال بفضلِ ایزدی بالکل اسی کیفیت کے ساتھ لگائے ہیں جسے انگریزی ضرب المثل میں شمع کو دونوں طرف سے جلانے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کے مستقبل کے ضمن میں راقم کی رجائیت، کی دوسری اساس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت و رحمت سے گزشتہ دس سال کی مساعی کے نتیجے میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک جماعت تیار ہوچکی ہے جو بتوفیق و تیسیرِ خداوندی اس شمع کو روشن رکھنے اور اس تحریک کو آگے بڑھانے کی صلاحیت سے قابل اطمینان حد تک بہروہ ور ہوچکے ہیں... لہذا مید واثق ہے کہ ان شاء اللہ العزیز اس شمع کی روشنی کم نہیں ہوگی بلکہ اس کی آب و تاب اور ضیا پاشیوں میں یوماً فیوماً اضافہ ہوتا چلا جائے گا. اور اگرچہ راقم ان سب نوجوانوں کو بیٹوں ہی کی طرح عزیز رکھتا ہے، تاہم "نورٌ علی نورٌ" کے مصداق یہ راقم پر اللہ تعالیٰ کے ’فضل بر فضل‘ کا مظہر ہے کہ ان میں راقم کے اپنے تین صلبی بیٹے بھی بھی شامل ہیں. (۱)
ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۳۸﴾ (یوسف:٣٨) (۱) میرے فرزند اکبر ڈاکٹر عارف رشید سلمہٗ نے تو بحمد اللہ میرے اتباع کا حق ادا کردیا کہ بالکل میرے ہی مانند ایم بی بی ایس پاس کرکے میڈیسن کی لائن تج دی اور ہمہ تن و ہمہ وقت اسی تحریک تعلم و تعلیمِ قرآن سے منسلک ہوگئے، اور اِ س وقت قرآن اکیڈمی کے جملہ انتظامی امور کی نگرانی کے علاوہ ہر ہفتے چار مقامات پر درسِ قران کے علاوہ ایک جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دے رہے ہیں. اور اس طرح گویا "جوابِ شکوہ" کے اس شعر کا مصداق بن گئے ہیں کہ ؎ "باپ کا علم نہ بیٹے کو اگراز بر ہو، پھر پسر لائقِ میراث پدر کیونکر ہو"
دوسرے بیٹے حافظ عاکف سعید سلمہٗ نے بھی ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد اسی تحریک سے ہمہ تن و ہمہ وقت وابستگی اختیار کرلی. چنانچہ بحمد اللہ درس بھی دے رہے ہیں، اور میثاق، اور ’حکمتِ قرآن‘ کی ادارت کے علاوہ طباعت و اشاعت کے جملہ کاموں کی نگرانی بھی ان کے فرائض میں شامل ہے. مزید بر آں ’قرآن کالج‘ میں فلسفہ کی تدریس بھی کر رہے ہیں. تیسرے بیٹے حافظ عاطف وحید اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی اکنامکس امتیازی حیثیت میں پاس کرکے قرآن کالج میں بحیثیت لکچرر کام کر رہے ہیں چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے عزیزم آصف حمید ابھی ایف ایس سی میں زیر تعلیم ہیں اور اگرچہ فی الحال کھیل کود کی جانب زیادہ رجحان رکھتے ہیں تاہم اللہ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ وہ مجھے ان کے بارے میں بھی محروم نہیں رکھے گا! (ویسے یہ عجیب اتفاق ہے کہ عزیزم آصف کی ولادت میری عین چالیسویں سالگرہ کے دن ہوئی. یعنی ۲۶ اپریل ۷۲ء کو، اور ان کی مزید ’خوش نصیبی‘ کی علامت یہ ہے کہ اس روز ماہ ربیع الاول کی پاکستان کے حساب سے گیارہ اور عالم عرب کے حساب سے بارہ تاریخ تھی)
اپنی اولاد نرینہ کے بارے میں ایک اور راز کی بات بھی عرض کر ہی دوں. راقم کو اللہ نے جب بھی حرم کی حاضری کا موقع عنایت فرمایا، طواف کی مستقل دعاؤں میں یہ دعا ہمیشہ شامل رہی کہ : اے رب، تیرے علم میں مجھے جو بھی نسبت (خواہ ہزار میں ایک، خواہ لاکھ میں ایک) حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی سے ہے، وہی نسبت میرے بیٹوں کو حضرت مجدد رحمہ اللہ تعالی کے عالی قدر صاحبزادوں اور شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کے جلیل القدر فرزندوں کے ساتھ عطا فرما دے. ولا تجعلنی بدعائک رب شقیا اور مجھے اپنے رب کی بے پایاں رحمت سے امید واثق ہے کہ وہ مجھے مایوس و محروم نہیں کرے گا. واضح رہے کہ یوں تو گزشتہ ربع صدی کے دوران جن لوگوں نے راقم کے دروس کے ذریعے اس کے فکرِ قرآنی کو کماحقہٗ اخذ کیا، اور بالخصوص مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے ذریعے دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ ساتھ فرائض دینی کے جامع تصور کو بھی علی وجہ البصیرت قبول کیا ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ... اور اِن میں ایک خاصی قابل لحاظ تعداد ایسے حضرات کی بھی ہے جو بوجوہ راقم کے ساتھ کسی تنظیمی سلسلے میں منسلک نہیں ہوئے لیکن اپنے طور پر قرآن حکیم کے اس انقلابی فکر کو عام کر رہے ہیں. چنانچہ گاہے گاہے ایسے حضرات سے ملاقات ہوتی ہے تو ایک قلبی مسرت اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے. (۱) اسی طرح ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی کم از کم پچاس کی تعداد میں ہیں جنہوں نے قرآن اکیڈمی کی دو سالہ تدریسی سکیم سے منسلک ہوکر عربی گرامر اور ترجمۂ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآن کے اس انقلابی فکر کی باضابطہ تحصیل کی ہے. تاہم ابھی ایسے نوجوان جنہوں نے اس تعلم و تعلیمِ قرآن ہی کو ایک مشن کی حیثیت سے اختیار کرلیا ہو بیس سے زیادہ نہیں ہے. اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید قوی ہے کہ اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور اس طرح اس خواب کی عملی تعبیر بھی سامنے آجائے گی جو مولانا ابو الکلام آزاد نے۱۹۱۵ء میں دیکھا تھا. یعنی:
"اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علتِ حقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت اصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جا سکتا ہے کہ علماء حق و مرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء و مفسدین دجالین کی کثرت. رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا ﴿۶۷﴾
اورپھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے؟ تو اس کو امام مالک کے الفاظ (۱) اس کی ایک دلچسپ مثال قارئین کے لیے مفید ہوگی. ایک روز میں اسلام آباد ائیر پورٹ کے لاؤنج میں پرواز کی روانگی کے انتظار میں تھا کہ ایک عمدہ لباس میں ملبوس صاحب آ کر میری برابر والی نشست پر بیٹھ گئے، اور مجھ سے سوال کیا: "آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟" میں نے عرض کیا کہ صورت تو کچھ شناسا سی معلوم ہوتی ہے. اس پر انہوں نے تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سرکاری محکمے میں بہت اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور بہت عرصہ قبل میرے مسجد خضراء سمن آباد کے درس میں شرکت فرمایا کرتے تھے. پھر انہوں نے اپنا بریف کیس کھول کر مجھے منتخب نصاب کے ایک درس کے عربی متن کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں دکھائیں اور بتایا کہ "میرا معمول ہے کہ جب بھی کہیں سرکاری دورے پر جاتا ہوں اپنےفرائض منصبی کی ادائیگی کے بعد لوگوں کو جمع کرکے آپ کے مرتب کردہ نصاب کے اسباق کا درس دیتا ہوں. اور یہ سلسلہ میں نے کئی سال سے شروع کر رکھا ہے!" اب ظاہر ہے کہ یہ تو .؏ . "سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں!" کے مصداق صرف ایک مثال ہے. میں جواب ملنا چاہیے کہ "لَایَصْلَحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا" یعنی امتِ مرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی، تا وقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں"
(ماخوذ از، البلاغ، جلد اول، شمارہ اول مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۱۵)
مولانا آزاد مرحوم نے اسی مقصد کے لیے ۱۹۱۵ء میں کلکتہ میں ’دار الارشاد‘ قائم کیا تھا. لیکن افسوس کہ ان کی دوسری سیاسی و ملی سرگرمیوں نے انہیں اس کی جانب توجہ کرنے کی فرصت نہ دی اور ’دار الارشاد‘ جلد ہی .؏ . "آں قدح بشکست و آں ساقی نماند!" کی تصویر بن گیا. یادش بخیر، لگ بھگ بیس بائیس برس بعد ’قرآن اکیڈمی‘ کے دو سالہ تدریسی کورس سے ملتے جلتے پروگرام کے تحت علامہ اقبال کی تجویز کے مطابق ان کے ایک معتقد اور دین و ملت کے درد مند شخص چوہدری نیاز علی خاں نے پٹھانکوٹ کے قریب سرنا ریلوے سٹیشن سے متصل ’دار الاسلام‘ قائم کیا تھا، لیکن مشیتِ الہی سے علامہ اقبال اس ادارے کے قیام کے فوراً بعد انتقال فرما گئے اور تعمیر شدہ عمارات اگرچہ بعض دوسرے مفید مقاصد میں استعمال ہوئیں لیکن علامہ مرحوم کے اصل تصور کے مطابق کام کا آغاز بھی نہ ہوسکا.
راقم کن الفاظ میں اللہ کا شکر ادا کرے کہ ا س نے ۱۹۶۷ء میں، قرآن اکیڈمی، کا جو خواب دیکھا تھا، اس کے لیے ۱۹۷۲ء میں ایک باضابطہ انجمن قائم ہوگئی، ۱۹۷۶ء میں اس کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، ۱۹۸۲ء میں قرآن اکیڈمی فیلوشپ اسکیم، کا آغاز ہوا، ۱۹۸۴ء میں دو سالہ تدریسی اسکیم شروع ہوئی، اور ۱۹۸۷ء میں قرآن اکیڈمی کی کوکھ سے ’قرآن کالج‘ بر آمد ہوگیا.
راقم کو تو اس میں بھی جھلک نظر آتی ہے اس تمثیل قرآنی کی کہ:
کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ (الفتح: ۲۹)
ویسے راقم کے نزدیک یہ اصلاً علامہ اقبال اور مولانا آزاد ہی کے خوابوں کی تعبیر ہے جو اللہ نے اپنے اس بندۂ ناچیز کے ذریعے ظاہر فرمائی: لہذا "الفضل للمتقدم" کے مطابق اجر و ثواب میں بڑا حصہ انہیں کا ہے.
اور اب کچھ باتیں پیش نظر تالیف کے مشمولات کے بارے میں!
جیسے کہ ’انتساب‘ سے ظاہر ہے یہ تالیف میں نے اصلاً ان نوجوانوں ہی کے لیے مرتب کی ہے جو حدیثِ نبوی: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہُ کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنا لیں. ان شاء اللہ العزیز ایسے نوجوانوں کو اس کے ذریعے ان موجود الوقت علمی و فکری اور تہذیبی و ثقافتی ظروف و احوال کا فہم و شعور بھی حاصل ہوجائے گا جن میں انہیں ’دعوت الی القرآن‘ کا فریضہ سر انجام دینا ہے، اور ؏"اپنی خودی پہچان" کے مصداق اپنی اس نسبت عالیہ کا ادراک بھی ہوجائے گا جو خدمتِ قرآن کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے ناطے انہیں گزشتہ تین صدیوں کے ان اعاظمِ رجال سے حاصل ہوگئی ہے جنہوں نے ’دعوت رجوع الی القرآن‘ کے شجرۂ طیبہ کی آبیاری کی ہے. مزید بر آں اللہ کے ایک بندۂ حقیر کی سرگزشت کے حوالے سے یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ اگر طلبِ صادق اور عزمِ راسخ ہو تو اللہ تعالی. ؏ . "ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں!" کے مصداق کیسی کیسی عنایتیں فرماتے ہیں اور اپنے اس حتمی وعدے کے مطابق کہ وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ(العنکبوت) . کیسے کیسے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں. اور وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ (الحج: ۴۰) کی کیسی کیسی صورتیں سامنے آتی ہیں!
بنا بریں یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے جن میں متذکرہ بالا معنوی ترتیب کے علاوہ ایک تاریخی ترتیب بھی ہے، یعنی حصہ اوّل میں میری وہ تحریر شامل ہے جو میں نے ۱۹۶۷ء میں سپرد قلم کی تھی، حصّہ دوم میری ان تحریروں پر مشتمل ہے جو ۷۶.۱۹۷۵ء کے دوران مختلف اوقات میں ضبطِ تحریر میں آئیں، (۱) جبکہ حصہ سوم میں وہ تحریر شامل ہے جو اوائل ۱۹۸۹ء میں مرتب ہوئی.
ان میں سے پہلی تحریر یعنی "اسلام کی نشاۃ ثانیہ کرنے کا اصل کام" میری پوری قرآنی تحریک اور جملہ دعوتی و تنظیمی مساعی کے لیے بمنزلۂ اساس ہے. چنانچہ اسی کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور قرآن اکیڈمی کے منشور (MANIFESTO) کی حیثیت حاصل ہے. یہ اب تک ایک (۱) یہ مضامین چونکہ جوں کے توں شائع کیے جا رہے ہیں لہذا ان میں بعض ان اشخاص کا ذکر جواب مرحومین کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں، زندہ شخصیتوں کے انداز میں کیا گیا ہے قارئین اس معاملے کو نوٹ کرلیں تاکہ دورانِ مطالعہ الجھن نہ ہو. کتابچے کی صورت میں اردو میں کم و بیش پچاس ہزار اور انگریزی میں لگ بھگ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے. یہ چونکہ راقم کے قلم کے رواں نہ ہونے کے باعث بہت مختصر بھی ہے اور کسی قدر مغلق بھی، بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ یہ محض ’اشارات‘ پر مشتمل ہے لہذا راقم نے بارہا خود اس کا ’درس‘ متعدد قرآنی تربیت گاہوں اور قرآن اکیڈمی کی مختلف کلاسوں میں دیا ہے. الحمد للہ کہ حال ہی میں اس مختصر تحریر کی توضیح و تفصیل پر مشتمل راقم کے لیکچرز کا ویڈیو بھی تیار ہوگیا ہے جو تین تین گھنٹے کے تین کیسٹوں میں مکمل ہوسکا ہے!
حصّہ اول میں دوسری تحریر پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی ہے، جو موصوف نے میری تحریر کی تحسین، اور تائید و توثیق کے لیے لکھی تھی. جس سے میری تحریر مزید مبرہن بھی ہوجاتی ہے اور اس کے بعض خلا بھی پر ہوجاتے ہیں! بالخصوص یورپ میں الحاد و مادہ پرستی کے فروغ اور فی الجملہ مذہب دشمنی کے اسباب بالکل نکھر کر سامنے آجاتے ہیں!
کتاب کا حصّۂ دوم چار ابواب پر مشتمل ہے:
ان میں سے پہلا باب نہایت مختصر ہے، یعنی کل چھ صفحات پر مشتمل، لیکن یہ میری محبوب ترین تحریروں میں سے ہے. اس لیے کہ راقم کا گمان ہے کہ غالباً آج تک کسی نے اس حقیقت کی جانب توجہ نہیں کی کہ تاریخ اسلام کے قرنِ اوّل ہی میں بعض فطری اور منطقی اسباب کے نتیجے میں توجہات قرآن حکیم کی بجائے بعض دوسری چیزوں کی جانب منعطف ہوگئی تھیں اور یہی عمل ہے جو بعد کے ادوار میں تدریجاً بڑھ کر "مہجورئ قرآن" اور "قرآن کو چھوڑ دینے" کی اس کیفیت پر منتج ہوا جس کی نشاندہی علامہ اقبال اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالی نے کی!... لہٰذا اس کتاب کے ہر قاری سے میری یہ تاکیدی گزارش ہے کہ ان صفحات کو توجہ سے پڑھیں اور ان میں قرآن، ایمان اور جہاد کے مابین جو منطقی ربط بیان ہوا ہے اس پر خصوصی غور کریں.
دوسرا باب بھی غایتِ اختصار کے باوصف ہندوستان میں اسلام کی پوری تاریخ کا اجمالی خاکہ پیش کردیتا ہے جس سے ملتِ اسلامیہ ہندیہ کے بحرِ محیط میں چلنے والی مختلف علمی و فکری اور تہذیبی و ثقافتی رَوؤں کی شناخت بھی ہوجاتی ہے اور ان کے تاریخی پس منظر سے آگاہی بھی جو کسی بھی تجدید سعی و جہد کے لیے شرطِ لازم کی حیثیت رکھتی ہے. مزید بر آں اس میں امت مسلمہ کی تاریخ کے اَلفِ ثانی کی پہلی دو صدیوں کی تجدید مساعی کا مختصر جائزہ بھی آ گیا ہے، اور بحمد اللہ حضرت مجدّد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ تعالی ، شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالی ، اور امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی کے تجدیدی کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی شخصیتوں اور رجحانات کا تقابلی مطالعہ بھی بہت خوبصورتی سے آگیا ہے. ان میں سے چونکہ ’دعوتِ رجوع الی القرآن‘ کا نقطۂ آغاز شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی کی ذاتِ بابرکات ہے لہٰذا ان کی ’قرآنی خدمات‘ کے اجمالی تعارف کے لیے شیخ محمد اکرام صاحب کی’رودِ کوثر‘ سے ایک طویل اقتباس بھی اس باب کی زینت ہے.
تیسرا باب تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری کے دوران ’دعوت رجوع الی القرآن‘ کی پیش قدمی کے جائزے کے علاوہ ہندوستان میں انگریزوں کے ورود کے بعد ملت اسلامی کے لیے جو نئے مذہبی و اعتقادی اور ملی و سیاسی مسائل پیدا ہوئے ان کے مختصر مگر جامع جائزے پر مشتمل ہے. اس ضمن میں جو نہایت قیمتی بلکہ ’نادر‘ معلومات اس باب میں درج ہیں ان کے لیے راقم پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کا مرہونِ منت ہے، چنانچہ راقم خود بھی ان کے لیے دست بدعا ہے اور قارئین سے بھی گزارش ہے کہ ان کے حق میں دعائے خیر کریں.
چوتھا باب خود راقم الحروف کی خوش نصیبیوں، اور محرومیوں، کے تذکرے پر مشتمل ہے. جس میں راقم نے ایک جانب اپنی اس خوش بختی کی تفصیل بیان کردی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے خصوصی فضل و کرم سے ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ اسے علم و فہم قرآنی کے چار چشموں سے سیراب ہونے کا موقع مل گیا. چنانچہ اس کے ضمن میں راقم نے اپنے ’فکر قرآنی‘ کے چار ابعاد(FOUR DIMENSIONS) کی تفصیل بیان کردی ہے. اس لیے کہ راقم کے درسِ قرآن کی مقبولیت کا راز دار در اصل اسی میں مضمر ہے کہ اس میں ابو الکلام آزاد اور ابو الاعلی مودودی کی دعوتِ حرکت و جہاد کی للکار بھی موجود ہے، مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے تدبر و تعمّق کا عنصر بھی شامل ہے، پھر ڈاکتر محمد اقبال اور ڈاکٹر رفیع الدین کے سائنسی اور فلسفیانہ فکر قرآنی کی خوشہ چینی بھی ہے، اور سب سے بڑھ کر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کے تمسک بالاسلاف کا تحفظ اور تصوّفِ قرآنی کی چاشنی بھی موجود ہے، ... (عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ میرے فکری اسلاف میں دو شیخین ہیں، تو دو ہی ’ابوین‘ ہیں، اسی طرح دو ہی ’دکتورین‘ ہیں اور دو ہی وہ ہیں جن کے ناموں کے لاحقے یائے نسبتی کی بنیاد پر مشابہ ہیں)
اس باب کا ایک حصہ بعض تلخ یادوں پر مشتمل ہے . بظاہر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان کو حذف کردینے سے کتاب کی افادیت میں کوئی کمی نہ ہوتی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس انجمن اور اکیڈمی کے تحت تحریک تعلم و تعلیم قرآن کو آگے بڑھانا مقصود ہے، اس کے داعی اور مؤسّس کے بارے میں ممکنہ اشکالات کا حل، اور بعض بزرگوں کے ضمن میں "وصل و فصل" کی داستان کے حقائقِ واقعی کی صراحت و وضاحت خود تحریک کے مصالح کے اعتبار سے ناگزیر ہے! اور بحمد اللہ راقم اس پر مطمئن ہے کہ اس تذکرے میں اس نے ان بزرگوں کے ادب کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے اور کہیں توہین آمیز انداز اختیار نہیں کیا!
کتاب کا حصۂ سوم حفیظؔ کے اس شعر کے مصداق کہ ؎
تکمیل اور تدوینِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں!
گزشتہ ربع صدی کے دوران تحریک تعلم و تعلیمِ قرآن کے ضمن میں جو بھی کچھ راقم الحروف سے بن آیا ہے اس کی روداد پر مشتمل ہے. اس کا اکثر و بیشتر حصہ لگ بھگ ایک سال قبل راقم الحروف نے خود مرتب کیا تھا جو ’حکمت، قرآن‘ کی اشاعت بابت مارچ اپریل ۱۹۸۹ء میں شائع بھی ہوگیا تھا. اس میں راقم نے اپنی جدّوجہد اور مساعی کے ابتدائی مراحل کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے تاکہ خدمتِ قرآن کی اس پاکیزہ وادی کے نوواردوں کے لیے نشاناتِ راہ واضح ہوجائیں. اور ان پر یہ حقیقت کماحقہٗ منکشف ہوجائے کہ ؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے!
اور ؎
طے می شود ایں رہ بدرخشیدنِ برقے
مابے خبراں منتظرِ شمع و چراغیم!
حصۂ سوم کا آخری جزو عزیزم ڈاکٹر عارف رشید سلمہٗ کا مرتّب کردہ ہے جس میں اس تحریک تعلّم و تعلیمِ قرآن کے اہم ترین ادارے یعنی ’مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور‘ کی اٹھارہ سالہ کارکردگی کی ایک جھلک بنیادی طور پر اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی گئی ہے.
آخر میں چند ضمیمے شاملِ کتاب ہیں. جن سے بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران، اللہ کی توفیق و نصرت سے، راقم نے اس دعوتِ قرآنی کے لیے کتنی تندہی اور جانفشانی سے کام کیا ہے اور اس کے لیے کتنی شدید مشقت جھیلی ہے، حالانکہ راقم کی صحت جسمانی کبھی قابل رشک نہیں رہی، ایف ایس سی کی تعلیم کے زمانے تک راقم نے نہ کبھی کسی کھیل میں حصہ لیا تھا نہ کسی تقریری مقابلے یا مباحثے (DEBATE) میں. بلکہ راقم ایک منحنی جسم اور خاموش طبع کا حامل نوجوان تھا. لیکن پھر جیسے ہی دعوتِ اسلامی اور تحریکِ قرآنی کا داعیہ پیدا ہوا حیرت ہوتی ہے کہ قوّتِ کار اور تحمل و برداشت کے کیسے کیسے سوتے اسی منحنی اور کمزور جسم کے اندر سے ابل پڑے.. میڈیکل کالج کے پانچ سالوں کے دوران راقم نے اسلامی جمعیتِ طلبہ میں جس محنت و مشقت کے ساتھ کام کیا اب اگر کبھی اس کی یاد آتی ہے تو خود مجھے حیرت ہوتی ہے. اسی طرح وسط ۱۹۶۵ء میں لاہور منتقل ہونے کے بعد ۱۹۷۶ء میں قیامِ انجمن تک راقم نے وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا ﴿۹۵﴾ کے مصداق خالص ’فرد‘ کی حیثیت سے بالکل یکہ و تنہا جو مشقت جھیلی اس کی مختصر سی روداد راقم نے اپنے بعض ذاتی اور خاندانی کوائف کے ضمن میں سپرد قلم کی تھی، جو تاحال نامکمل ہے، تاہم جتنا حصہ شائع ہوچکا ہے اس سے بھی جو نقشہ سامنے آتا ہے اس پر خود مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ؏ .
’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی ‘‘!
قیامِ انجمن کے بعد سے اب تک کے اٹھارہ سالوں کے دوران راقم کی مصروفیت کا دھندلا سا نقشہ سامنے لانے کے لیے ان ضمیموں میں پانچ پانچ سالوں کے وقفوں سے شائع ہونے والی بعض رپورٹوں کے اقتباس دئیے جا رہے ہیں. واضح رہے کہ ہمارے یہاں رپورٹوں کی تدوین کا کوئی مستقل اور باضابطہ نظام ہی نہیں رہا. کبھی اتفاق ہی سے کوئی روداد مرتّب ہوکر شائع ہوجاتی تھی. ان میں سے بعض جن پر اتفاقاً ہی نظر پڑ گئی ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر ہدیۂ قارئین ہیں:
چنانہ پہلا ضمیمہ جنوری ۷۲ء تا جونء حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن کراچی کی روداد پر مشتمل ہے جو رفیق مکرّم شیخ جمیل الرحمن صاحب نے مرتب کی تھی اور ’میثاق‘ جولائی ۷۲ء میں شائع ہوئی تھی. (واضح رہے کہ کراچی میں کام کا آغاز ۷۱ء ہی میں ہوا تھا)
دوسرا ضمیمہ ’میثاق‘ مارچ ۱۹۷۷ء میں شائع شدہ ’’رفتارِ کار‘‘ پر مشتمل ہے جس میں اواخر دسمبر ۷۶ء یا اوائل فروری ۷۷ء کی کراچی کی روداد برادرم قاضی عبدالقادر صاحب کی مرتب کردہ ہے، اور لاہور، چنیوٹ اور سکھر کی سرگرمیوں کا جائزہ شیخ جمیل الرحمن صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے.
تیسرا ضمیمہ ’میثاق‘ فروری ۱۹۸۲ء کے ’تذکرہ و تبصرہ‘ سے ماخوذ ہے جو خود راقم ہی نے تحریر کیا تھا. یہ ۲۸ دسمبر ۱۹۸۱ء سے ۲۸ جنوری ۱۹۸۲ء تک کے اسفار کی تاریخ وار روداد ہے جس کو اب تو پڑھنے ہی سے سر چکرانے لگتا ہے، اور حیرت ہوتی ہے کہ کبھی میرے شب و روز اس طرح کی ’’گردشِ مدام‘‘ کی صورت اختیار کر گئے تھے!
ان تینوں ضمیموں کی اشاعت سے اصل مقصود تحریک تعلّم و تعلیمِ قرآن سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں کی ہمت افزائی ہے کہ اگر مجھ ایسے کمزور اور مریض انسان کو اللہ اتنی ہمت عطا فرما سکتا ہے تو ان کو کیوں نہ عطا فرمائے گا. اس کی جناب سے تو ہر دم یہ ندا آتی ہے.
یَا بَاغِی الخَیْرِ اَقْبِلْ وَ یَا بَاغِیَ الشَّرِ اَدْبِرْ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہرو منزل ہی نہیں!
آخری ضمیمہ قرآن اکیڈمی کے دو سالہ تدریسی کورس کے پہلے گروپ کے سال اوّل کی روداد پر مشتمل ہے. یہ روداد بھی خود راقم الحروف ہی نے تحریر کی تھی اور مئی ۱۹۸۵ء کے ’حکمت قرآن‘ میں شائع ہوئی تھی، اس کی اشاعت سے مقصد یہ ہے کہ ’’نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے. ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ کے مصداق تصویر کا یہ دوسرا رخ بھی نگاہوں کے سامنے آ جائے کہ اگر کام کرنے کے لیے کمرِ ہمت کس لی جائے تو اسی بگڑے ہوئے معاشرے اور ملحدانہ و مادہ پرستانہ ماحول سے سعید روحیں نکل آتی ہیں. اور نہ مردانِ کار کی کمی رہتی ہے نہ وسائل و ذرائع کی. ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ؏ ’’شرطِ اول قدم ایں است کہ مجنوں باشی‘‘! کے مصداق انسان اللہ کی تائید و نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے دیوانہ وار کام شروع کردے.
آخر میں جوانوں کے حق میں علامہ اقبال کی اس دعا اور تمنا کے ساتھ کہ ؎
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کردے
اور ؎
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر!
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے!
لٹا دے!ٹھکانے لگا دے اسے!!
اور خود اپنے اور ان تمام لوگوں کے حق میں جو اللہ کے دین کی نصرت اور اس کی کتاب عزیز کی خدمت میں مصروف ہوں اس دعا کے ساتھ کتاب ہدیۂ قارئین کرتا ہوں کہ:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب.
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْاٰنِ الْعَظِیْمِ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَ نُوْرًا وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً..
اَللـٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَ عَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہء اٰنَاء اللَّیْلِ وَ اٰنَاءَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ