عالم اسلام پر مغرب کی سیاسی و فکری یورش

فطرت کی ان نو تسخیر شدہ قوتوں سے مسلح ہوکر مغرب جب مشرق پر حملہ آور ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک سیلاب کے مانند پورے کرۂ ارضی پر چھا گیا اور مشرقی اقوام اور ان کی عظیم حکومتیں اور سلطنتیں اس سیلاب میں ریت کے کچے گھروندوں کی طرح بہتی چلی گئیں. اس سیلاب کا اولین شکار چونکہ مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ تھے جہاں مسلمان آباد تھے، لہذا اس کی سخت ترین یورش اسلام اور اہل اسلام پر ہوئی اور چند ہی سالوں کے اندر اندر پورا عالمِ اسلام یورپ کے زیر نگیں ہوگیا. 

عالم اسلام پر مغرب کا یہ استیلا دو گونہ تھا. یعنی عسکری و سیاسی بھی اور ذہنی و فکری بھی لیکن یورپ کی اولین اور نمایاں ترین یورش چونکہ سیاسی تھی لہذا عالمِ اسلام میں جو ردّ عمل اس کے خلاف
پیدا ہوا اس میں بھی اوّلاً اسی کا احساس غالب نظر آتا ہے. ملت اسلامی کے اس تلخ احساس نے کہ یورپ نے کہیں براہ راست تسلط اور قبضے اور کہیں انتداب و تحفظ و حمایت کے پردے میں اسے اپنا محکوم بنا لیا ہے اور اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کی وحدتِ ملی کو پارہ پارہ کردیا ہے، بارہا درد انگیز نالوں کی صورت اختیار کی اور اپنے شاندار ماضی کی حسرت بھری یاد اپنی ’عمرِ رفتہ‘ اور عظمت و سطوتِ گزشتہ کے بازیافت کی شدید تمنّا اور "گردشِ ایام" کو پیچھے کی طرف لوٹانے کی بے پناہ خواہش نے کبھی سید جمال الدین افغانی کی سیماب وش شخصیت کا روپ دھارا اور کبھی تحریک خلافت کی صورت اختیار کی لیکن حقائقِ نے ہر بار جذبات و خواہشات کا منہ چڑایا. اور مغرب کی سیاسی بالا دستی رفتہ رفتہ ایک تسلیم شدہ واقعہ کی صورت اختیار کرتی چلی گئی. 

اپنے سیاسی تسلط کو مستحکم کرتے ہی یورپ نے دنیائے اسلام میں اپنے افکار و نظریات کا پرچار اور اپنے نقطۂ نظر اور طرزِ فکر کی تبلیغ.. یعنی ذہنی و فکری تسخیر کا سلسلہ بھی شروع کردیا. نگاہیں مغرب کی مادی ترقی سے پہلے ہی خیرہ ہوچکی تھیں. پھر زندہ قوموں میں ہمیشہ کچھ بنیادی انسانی اوصاف لازماً موجود ہوتے ہی ہیں. کچھ ان کی بنا پر مرعوبیت میں اضافہ ہوا. نتیجۃً ایک مرعوب اور شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ مسلمانانِ عالم کے سوادِ اعظم نے مغربی افکار و نظریات کو جوں کا توں قبول کرنا اور حرزِ جاں بنانا شروع کردیا... خالص فلسفہ وعمرانیات کے میدان میں تو چونکہ خود مغرب میں بے شمار مکاتب فکر موجود تھے لہذا ان کے بارے میں تو پھر بھی کسی قدر قیل و قال اور ردوقدح یا کم از کم ترجیح و انتخاب کا معاملہ کیا گیا. لیکن سائنس چونکہ بالکل ’حتمی‘ اور ’قطعی‘ تھی اور اس کے نتائج بالکل محسوس و مشہود تھے اور اس میدان میں چون و چرا کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی لہذا اس کا استقبال بالکل وحی آسمانی کی طرح ہوا اور اس کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر ملحدانہ نقطۂ نظر اور مادہ پرستانہ طرزِ فکر رفتہ رفتہ عالمِ اسلام کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کرتا چلا گیا. اور خدا کے بجائے کائنات، روح کے بجائے مادے اور حیاتِ اخروی کے بجائے حیاتِ دنیوی کی اہمیت پوری امت مسلمہ، حتی کہ اس کے خاصے دیندار اور مذہبی مزاج کے لوگوں کے 
نزدیک بھی مسلم ہوتی چلی گئی.