احیائے اسلام کی شرطِ لازم تجدید ایمان

اسلام کی بنیاد ایمان پر ہے اور احیائے اسلام کا خواب ایمان کی عمومی تجدید کے بغیر کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا! مسلمان ممالک کی سیاسی آزادی و خود اختیاری بھی یقیناً بہت اہم ہے اور اس سے بھی ایک حد تک اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار ہوئی ہے اسی طرح اسلامی نظامِ زندگی کا تصوّر اور اس پر ایک بہتر نظامِ حیات ہونے کے اعتبار سے اعتماد بھی ایک حد تک مفید اور قابلِ قدر ہے اور جن تحریکوں کے ذریعے یہ پیدا ہوا یا ہورہا ہے ان کی سعی و جہد بھی احیائے اسلام ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، لیکن اصل اور اہم تر کام ابھی باقی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگ اس امر کی جانب متوجہ ہوں اور جنہیں اس کی اہمیت کا احساس ہوجائے وہ اپنی تمام تر سعی و جہد کو اس پر مرکوز کردیں کہ امت میں تجدید ایمان کی ایک عظیم تحریک برپا ہو اور ایمان نرے اقرار اور محض قال سے بڑھ کر ’حال‘ کی صورت اختیار کرے ایمان لامحالہ کچھ ماوراء الطبعیاتی حقائق پر یقین کا نام ہے.

اور اس راہ کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان ’ان دیکھی‘ حقیقتوں پر دکھائی دینے والی چیزوں سے زیادہ یقین رکھے اور سَر کے کانوں سے سنی جانے والی باتوں سے کہیں زیادہ اعتماد ان باتوں پر کرے جو صرف دِل کے کانوں سے سنی جا سکتی ہیں. گویا "ایمان بالغیب" اس راہ کی شرطِ اوّلین ہے اور اس کے لیے فکر و نظر کا یہ انقلاب اور نقطہ نظر اور طرز فکر کی یہ تبدیلی لازمی و لابدی ہے کہ کائنات غیر حقیقی اور محض وہمی و خیالی نظر آئے لیکن ذات خداوندی ایک زندۂ جاوید حقیقت معلوم ہو. کائنات کا پورا سلسلہ نہ از خود قائم معلوم ہو نہ کچھ لگے بندھے قوانین کے تابع چلتا نظر آئے بلکہ ہر آن و ہر سمت ارادۂ خداوندی و مشیت ایزدی کی کارفرمائی محسوس و مشہود ہوجائے. مادہ حقیر و بے وقعت نظر آئے لیکن روح ایک حقیقتِ کبریٰ معلوم ہو. انسان کا اطلاق اس کے جسد حیوانی پر نہ ہو بلکہ اس روح ربانی پر کیا جائے جس کی بدولت وہ مسجود ملائکہ ہوا. ... (۱حیات، دنیوی فانی و ناپائیدار ہی نہیں بالکل غیر حقیقی و بے وقعت معلوم ہوا اور حیاتِ اخروی ابدی و سرمدی اور حقیقی و واقعی نظر آنے لگے!! اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے مقابلے میں دنیا و مافیہا کی وقعت حدیثِ نبوی  کے مطابق مچھر کے پر سے زیادہ محسوس نہ ہو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ جب تک امت کے ایک قابل ذکر اور مؤثر حصے میں نقطہ نظر کی یہ تبدیلی واقعۃً پیدا نہ ہوجائے "احیائے اسلام" کی آرزو ہرگز شرمندۂ تکمیل نہ ہوسکے گی.
 
عوام کی کشتِ قلوب میں ایمان کی تخم ریزی اور آبیاری کا مؤثر ترین ذریعہ ایسے اصحاب علم و عمل کی صحبت ہے جن کے قلوب و اذہان معرفت ربانی و نور ایمانی سے منور، سینے کبر، حسد، بغض اور ریا سے پاک اور زندگیاں حرص، طمع، لالچ اور حب دنیا سے خالی نظر آئیں. خلافت علی منہاج النبوۃ کے نظام کے درہم برہم ہوجانے کے بعد ایسے ہی نفوسِ قدسیہ 
(۱) آیہ قرآنی: فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿﴾ ترجمہ: جب میں اسے پوری طرح بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو گرجانا اس کے لیے سجدے میں. کی تبلیغ و تعلیم، تلقین و نصیحت اور تربیت و صحبت کے ذریعے ایمان کی روشنی پھیلتی رہی ہے. اور اگرچہ جب سے مغرب کی الحاد و مادہ پرستی کے زہر سے مسموم ہواؤں کا زور ہوا ایمان و یقین کے یہ بازار بھی بہت حد تک سرد پڑ گئے تاہم ابھی ایسی شخصیتیں بالکل ناپید نہیں ہوئیں جن کے "دل روشن" نور یقین اور "نفس گرم" حرارتِ ایمانی سے معمور ہیں. اور اب ضرورت اس کی ہے کہ ایمان و یقین کی ایک عام رو ایسی چلے کہ قریہ قریہ اور بستی بستی ایسے صاحب عزیمت لوگ موجود ہوں جن کی زندگیوں کا مقصدِ وحید خدا کی رضا جوئی اور اس کی خوشنودی کا حصول ہو اور جو نبی اکرم  کے اس فرمان مبارک کے مطابق کہلَاَنْ یَھْدِیْ بِکَ اللّٰہُ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ (۱خلق کی ہدایت و رہنمائی کو زندگی کا واحد لائحہ عمل قرار دے لیں. اور اس کے سوا ان کی زندگی میں کوئی اور تمنا، آرزو یا حوصلہ و امنگ باقی نہ رہے. 

خوش قسمتی سے برصغیر ہندوپاک میں ایک وسیع پیمانے پر ایسی حرکت پیدا بھی ہوچکی ہے جس کے زیر اثر عوام میں ایمان کی روشنی پھیل رہی ہے اور کائنات سے زیادہ خالقِ کائنات مادے سے زیادہ روح اور حیاتِ دنیوی سے زیادہ حیاتِ اخروی کی اہمیت کا احساس اجاگر ہورہ اہے، ہماری مراد جماعتِ تبلیغی سے ہے جسے بجا طور پر تحریکِ دیوبند کی ایک شاخ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کی تاسیس کچھ ایسے اصحابِ ایمان و یقین کے ہاتھوں ہوئی ہے کہ آج ایک تہائی صدی 
(۲سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود اس کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی، اور اس کے باوجود کہ اس کے طریقِ کار سے ہم کلیۃً اتفاق نہیں کرتے، ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس کے زیرِ اثر لوگوں کے طرزِ فکر اور نقطۂ نظر میں ایک ایسی عمومی تبدیلی واقعۃً پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اصل حیثیتِ کائنات کی نہیں خالقِ کائنات کی ہے اور اصل اہمیت اسباب کی نہیں مسبب الاسباب کی ہے. بھوک غذا سے (۱) حدیث نبوی  . اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے کسی ایک انسان کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے. 

(۲) اب اس تحریک کی عمر بھی نصف صدی سے تجاوز کرچکی ہے. 
نہیں حکمِ خداوندی سے مٹتی ہے اور پیاس پانی سے نہیں اذنِ باری تعالیٰ سے بجھتی ہے! دین کے چھوٹے سے چھوٹے احکام انہیں کسی منطقی استدلال کی بنا پر یا کسی نظامِ زندگی کے اجزا یا اس کو قائم کرنے کے ذرائع کی حیثیت سے نہیں بلکہ فی نفسہٖ خیر نظر آنے لگتے ہیں اور نبی اکرم  کی چھوٹی سے چھوٹی سنتیں بجائے خود نورانی معلوم ہونے لگتی ہیں اور زندگی اور اس کے لوازمات کے باب میں کم از کم پر قناعت کرکے وہ اپنے اوقات کا معتد بہ حصّہ ایک مخصوص طریق پر تبلیغ و اشاعتِ دین کے لیے وقف کردیتے ہیں. 

لیکن چونکہ اس تحریک میں اصل تخاطب عقل سے نہیں جذبات سے ہے اور اس کی اصل اساس علم پر نہیں عمل پر ہے لہذا اس کے اثرات محدود ہیں اور معاشرے کے وہ طبقے جن کے یہاں جذبات پر عقل اور عمل پر علم کو اولیت حاصل ہے اس سے اثر پذیر نہیں ہوتے. ایسے لوگ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر مجبور ہوتے ہیں کہ عقل کی جملہ وادیاں طے کرکے عشق کی وادی میں قدم رکھیں اور خرد کی تمام گتھیاں سلجھانے کے بعد صاحبِ جنون ہوں. پھر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسی قسم کے لوگ ہر دور اور ہر معاشرے کی وہ ذہین اقلیت 
(INTELLECTUAL MINORITY) ہوتے ہیں جو از خود معاشرے کی رہنمائی کے منصب پر فائز اور اجتماعیت کی پوری باگ ڈور پر قابض ہوتے ہیں. لہٰذا ان کے نقطہ نظر اور طرز فکر کی تبدیلی اور ان کے فکر و نظر کے انقلاب کو اوّلین اہمیت حاصل ہے. اور اگر خدانخواستہ ایمان ان لوگوں کے دلوں میں جاگزیں نہ ہوسکا اور انہیں جہالت و جاہلیت کی ظلمتوں سے نکالا نہ جا سکا تو صرف عوام الناس کے قلوب و اذہان کی تبدیلی سے کسی مؤثر اور پائیدار تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی.