صفحاتِ گزشتہ میں "قرآن اکیڈمی" کا جو خاکہ سامنے آیا وہ راقم کے قلم سے جون 1967ء میں نکلا تھا. بعد میں معلوم ہوا کہ بالکل اسی نظریے اور خیال کے تحت اوّلاً ۱۹۱۴ء میں مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے "دار الارشاد" قائم کیا تھا. اور پھر ۱۹۳۷ء میں علامہ اقبال مرحوم کی تحریک پر "دار الاسلام" کی تاسیس ہوئی تھی. 

"دار الارشاد" کے بارے میں مولانا آزاد نے ۱۲ نومبر۱۹۱۵ء کے البلاغ میں جو شذرہ لکھا تھا اور "دار الاسلام" کے ضمن میں علامہ اقبال نے جو خط شیخ الازہر علامہ مصطفے المراغی کو تحریر کیا تھا. ان کے اقتباسات اس صفحہ کی پشت پر دیکھے جا سکتے ہیں. جن سے اس حیرت انگیز مماثلت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے جو ان تینوں تجویزوں کے مابین پائی جاتی ہے. لیکن افسوس کہ پیش نظر مقاصد کے لیے کوئی عملی پیش قدمی نہ "دار الارشاد" کے ذریعے ہوسکی نہ "دار الاسلام" کے . ان میں سے مقدم الذکر کے بارے میں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کتنے عرصے قائم رہا اور کب ختم ہوا، اور اغلباً اس کے لیے کہیں کوئی اینٹ رکھنے کی نوبت بھی نہیں آئی، البتہ "دار الاسلام" کے نام سے ایک ادارہ باقاعدہ قائم ہوا. اس کے لیے ایک ٹرسٹ وجود میں آیا اور کچھ عمارات بھی ضلع گورداسپور میں پٹھانکوٹ کے قریب سرنا ریلوے سٹیشن سے متصل منصّۂ شہود پر آگئیں. جہاں اگست ۱۹۴۱ء سے اگست ۱۹۴۷ء تک غیر منقسم ہندوستان کی جماعت اسلامی کا مرکزی دفتر قائم رہا اور اس اعتبار سے یقیناً وہ عمارات ایک اعلی مصرف میں آئیں. لیکن ان مقاصد کے لیے براہ راست کوئی پیش قدمی وہاں بھی نہ ہوسکی،جن کے لیے وہ ادارہ اصلاً قائم ہوا تھا.